بلوچستان زیرو ہے، برٹش کا انفرا اسٹرکچر چلا گیا، کنگ کا انتظار کریں کوئین چلی گئی۔ سعدیہ بلوچ
ستمبر 21, 2022
بلوچستان زیرو ہے، برٹش کا انفرا اسٹرکچر چلا گیا، کنگ کا انتظار کریں کوئین چلی گئی۔ سعدیہ بلوچ
حجاج بن یوسف ظالم نے لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کو قتل کیا مگر اسکے خلاف مسلح جہاد کاکوئی فتویٰ کسی نے نہ دیا۔ مفتی عبدالرحیم
جو زبان عمران خان، نوازشریف فوج کے خلاف بولتے ہیں وہ ہم نےPTMاور بلوچ بہن بھائیوں کی زبان سے نہیں سنی :اصغر خان اچکزئی
پختونخواہ میں نہتے عوام کی مسلح طالبان آمدکیخلاف احتجاج،خوف وہراس اور نفرت ومایوسی کا اظہار جاری ہے۔ چین امریکہ گریٹ گیم میں پختونوں کی تباہی پر میڈیا خاموش ہے!
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
دور نبوی ۖ میں6قسم کے لوگ :مؤمن، مسلم، کافر ،مکذبین ، منافق اور جن کو پیغام نہ پہنچاتھا۔ وماکنا معذبین حتی نبعث رسولًا ” اور ہم کسی کو عذاب نہیں دیتے جب تک کسی رسول کو مبعوث نہ کردیں” ۔ ویل یوم اذن للمکذّبین ”تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کیلئے”۔یہ انقلاب کے دن کی دھمکی تھی۔ قل عسٰی ان یکون قریبًا ” کہہ دو ہوسکتا ہے کہ قریب ہو”۔ اس سے قیامت مراد نہیں۔ انبیاء کو جھٹلانے پر دنیاوی عذاب تھا۔ شاہ اسماعیل شہید نے لکھا کہ ” رسول اتمام حجت ہے اور امام کا جھٹلانا عذاب کا ذریعہ ”۔ شیعہ عقیدہ ہے کہ امام کی بعثت اللہ کرتاہے مگرامام نبی نہیں ہوتا۔ مرزا غلام ملعون کو قادیانی نبی مانتے ہیں۔ رسول ۖ کی تکذیب پر مشرکین مکہ و یہود مدینہ پر عذاب آیا۔ سپہ سالارحر نے حسین کیلئے وہ قربانی دی جو زین العابدین نہ دے سکے۔ حسین کے بعد سے مہدی غائب تک کسی امام نے قیام کیا اور نہ قیام جائز سمجھا ۔ عظمت اہل بیت کے قائل شیعہ اور صحابہ کی تکفیر والے رافضی ہیں۔پشتون حقوق اور امن مانگتے ہیں اور کچھ بلوچ نے ہتھیاراُٹھائے ہیں ۔بیرسٹراعتزاز احسن نے پارلیمنٹ میں کہاتھاکہ” تھانے میں بدمعاش کو خوب مارا تو اس نے پکارا، اماں اماں۔ ماں نے تھانیدار سے کہا کہ شکریہ کہ میرے بیٹے کو ما ںیاد دلادی۔ عمران خان کا شکریہ کہ نوازشریف کو پارلیمنٹ یاد دلادی”۔ ریاستی مظالم نے سعدیہ بلوچ کوملکہ برطانیہ یاد دلادی۔ پہلے خوارج لڑے تھے ۔ مفتی عبدالرحیم نے کہا: حجاج نے لاکھوں قتل کئے لیکن اسکے خلاف مسلح جہادجائز نہ تھا ۔جب ضرورت میں عضوء کاٹنا ، خنزیر کھانا جائز ہے تو اجتماعی مفاد کیلئے ریاست کچھ بہت کرسکتی ہے، یعنی پٹھان مٹھان بلوچ ملوچ مفادکیلئے قربان کرسکتی ہے۔
جامعة الرشید کے مفتی عبدالرحیم کو اس انداز میں سلیم صافی نے پیش کیا جو دین اور صحافتی تحقیق پر سوالیہ نشان ہے؟۔یہ کس کا جانشین ہے؟۔ مفتی رشیداحمد لدھیانوی بدنامِ زمانہ تھا ۔ مولانا یوسف بنوری سے مفتی محمود تک ، تبلیغی جماعت سے حاجی عثمان اور حکیم اختر تک، مفتی شفیع سے مفتی احمد ممتازاور مولانا مسعود اظہر تک کون شر سے محفوظ رہا؟۔ مفتی عبدالرحیم کے جھوٹ اور کرتوت کے ثبوت ہمارے پاس ہیں۔سودی نظام کو جائز قرار دیا تو مولانا احتشام آسیاآبادی ومفتی احمد ممتاز نے بھی اسلامی بینکاری کی مخالفت کی جو مفتی رشید لدھیانوی کے خلفاء اور مفتی عبدالرحیم کے سینئر تھے۔ یہ شخص مذہب اورریاست کا اثاثہ نہیں بلکہ کلنک کا ٹیکہ ہے۔ جیو نے عمران خان کے بغض میں اسکے مکروہ چہرے سے عوام کو دھوکہ دینا شروع کیا ہے۔ عوام غلط کام کرتی ہے تو وہ بھی غلط ہے اور اگر ریاست غلط کام کرتی ہے تو اس کو جواز نہیں بخشا جاتا بلکہ اس پر ڈبل گرفت ہوتی ہے۔
شیعہ کہتے ہیں کہ علی کی موجودگی میں ابوبکر ، عمر اور عثمان کو اقتدار کا حق نہ تھا۔ اگر علی نے ان تینوں کے مقابلے میں خود کو زیادہ حقدار سمجھاتھا توصحابہ جنگ تک بھی پہنچے ہیں اور سنی ان کی کماحقہ تأویل کرتے ہیں۔ نہج البلاغہ کو مصر کے سنی عالم علامہ عبدہ نے مرتب کیا اور عبارات کی تصحیح وتحقیق کی جس کا شیعہ عالم نے ترجمہ کیا۔ علامہ سید جواد نقوی نے اس پر اچھی گفتگو کی ہے۔ پہلی اور آخری مرتبہ ایک ہی دفعہ علی نے اپنے استحقاق خلافت کیلئے دلائل دینے شروع کئے تو کسی نادان نے غیرمتعلقہ سوال کیا، جس کے بعد علی نے بحث چھوڑ دی۔ ابن عباس نے کہا کہ اپنی بات مکمل کریں لیکن علی نے کہا کہ نہیں۔ بس دل میں جو ابھار آیا تھا ،اب وہ نہیں رہا۔ اس سے پہلے اور اسکے بعد پھر کبھی اس موضوع پر بات نہیں کی تھی۔ شیعوں کی تمنا ہم پوری کردیںگے کیونکہ علی کے بیٹے میں اللہ نے صلاحیت پیدا کی ہے لیکن شیعہ انتشار کو چھوڑ کر اتحاداور وحدت کی طرف اب آجائیں۔
سنی کہتے ہیں کہ ہم سعد بن عبادہ کیلئے اچھا جذبہ رکھتے ہیں جو ابوبکر و عمر کے پیچھے نمازتک نہ پڑھتے تھے ۔جنّات یا نامعلوم خلائی مخلوق نے قتل کیا ؟۔ خلافت راشدہ دور میں ایک جلیل القدر صحابی کو انتشار پھیلانے پر عدالت میں پیشی کے بجائے قتل کیا گیا؟تویہ گناہگار ریاست کرسکتی ہے؟۔ سعد بن عبادہ نے منظم حملے نہیں کئے۔ بلوچ سرماچارفوج کو دشمن کہیں اور حملہ آوروں کی مذمت نہ کریں؟۔ تعلیم یافتہ شاری بلوچ نے چینی خواتین اساتذہ پر خود کش کیا۔ اگرچہ کئی بلوچوں اور شاری بلوچ کی فیملی نے مذمت کی لیکن کئی اس کو اعزاز سمجھتے ہیں۔ ایک طرف مہمان اساتذہ پر خود کش اور دوسری طرف واویلا کہ ریاست بلوچ دشمن ہے تعلیمی اداروں میں پڑھنے نہیں دیتی ؟۔ یہ دوغلاپن غیرتمند بلوچ پر دھبہ ہے۔ انصار عباسی، ہارون الرشید،اوریا مقبول افغانستان کیلئے طالبان کا نظام اور پاکستان کیلئے نسل در نسل انگریز کے غلام جرنیل، انکے بنائے گئے سیاستدان اور خاندانی غلام پیروں اور چوہدریوںکے خانوادوں کے غلامانہ نظام کو بہترین قرار دیں تو جیسا دیس ویسا بھیس اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس میں یہی چل سکتا ہے۔
سعد بن عبادہ کے قتل کو جواز بخشناغلط ہے۔ بے گناہ صحابی کے قتل کی سزا پوری خلافت کو مل گئی۔انصارمدینہ اقتدار سے باہر تھے توحضرت عثمان چالیس دن محاصرے کے بعد شہید کئے گئے۔ علی نے مدینہ چھوڑ کر کوفہ کو دارالخلافہ بنایا۔ بنو امیہ نے دارالخلافہ شام میںدمشق کو بنایا۔ بنوعباس نے عراق میں بغداد کو دارالخلافہ بنایا۔چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بغداد کو تہس نہس کردیا۔ پھر ترکیوں نے دارالخلافہ استنبول منتقل کیا ۔ حجاج دورمیں ہمت ہوتی تو بنوامیہ کا خاتمہ جائز تھالیکن بعد میں ہمت کی گئی۔اگر حسین کیساتھ لوگ کھڑے ہوجاتے تو یزیدی خاندانی نظام اور عباسی خاندانی نظام مسلمانوں پر مسلط نہ ہوتا۔ آج بھی انکے اثرات سے مسلمان نکل نہ سکے ۔ مولوی لمبی سایڈ کی جیب میں ہدیہ وصول کرکے منبر رسول پر خطبہ دیتا ہے کہ ظالم بادشاہ زمین پر خدا کا سایہ ہے ۔ اگر کافر عادل بادشاہ کو زمین میں خدا کا سایہ کہا جائے تو مسئلہ نہیں۔ حدیث میں مسلم کی قید نہیں۔حبشہ کے بادشاہ نجاشی صحابہ کے سائبان بنے تو سایہ خدا کہنے میں حرج نہ تھا۔ مگر ظالم ، جابر اور بربریت والے حکمران کو اللہ کا سایہ قرار دینا گھٹیا پن ہے۔ اسد طور نے مولانا طارق جمیل پر پروگرام کیا ہے، مفتی عبدالرحیم پر بھی تحقیق کرکے لوگوں کو آگاہ کردے۔ مفتی عبدالرحیم کا تعلق اس مذہبی ٹبر سے ہے جو ہلاکو خان اور چنگیز خان کے مظالم کو بھی ضرور سپورٹ کرتا۔ الطاف حسین نے کہا کہ ” نوازشریف دور میں آئی ایس آئی چیف جنرل ضیاء الدین بٹ کے متعلق ڈان میں کامران خان کی رپورٹ شائع ہوئی کہ اس نے حکیم سعید کو شہید کروایا تھا اور پھر نوازشریف کو پرچی تھمادی تھی کہ ایم کیوایم کارکنوں کا نام لو۔
ظلمت کو ضیائ، صر صر کو صبا ،بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر، دیوار کو در، کرگس کو ہما کیا لکھنا
ایک حشر بپا ہے گھر میں دم گھٹتا ہے گنبد بے در میں
ایک شخص کے ہاتھوں مدت سے رسوا ہے وطن دنیا بھر میں
اے دیدہ ور! اس ذلت کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیائ، صر صر کو صبا ،بندے کو خدا کیا لکھنا
لوگوں پہ ہی ہم نے جاں واری ،کی ہم نے ہی انہی کی غمخواری
ہوتے ہیں تو ہوں یہ ہاتھ قلم شاعر نہ بنیںگے درباری
ابلیس نما انسانوں کی اے دوست ثنا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیائ، صر صر کو صبا ،بندے کو خدا کیا لکھنا
حق بات پہ کوڑے اور زنداں باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں
انساں ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیںخونخوار درندے ہیں رقصاں
اس ظلم وستم کو لطف وکرم ،اس دکھ کو دوا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیائ، صر صر کو صبا ،بندے کو خدا کیا لکھنا
ہر شام یہاں شام ویراں،آسیب زدہ رستے گلیاں
جس شہر کی دھن میں نکلے تھے وہ شہر دل برباد کہاں
صحرا کو چمن بن کو گلشن بادل کوردا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیائ، صر صر کو صبا ،بندے کو خدا کیا لکھنا
اے میرے وطن کے فن کارو! ظلمت پہ نہ اپنا فن وارو
یہ محل سراوں کے باسی قاتل ہیں سبھی اپنے یارو!
ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملا،اس غم کو نیا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیائ، صر صر کو صبا ،بندے کو خدا کیا لکھنا
فتح مکہ سے قبل اور بعد والے صحابہ میں فرق تھا۔ ابوسفیان، امیر معاویہ اور یزید سیدنا بلال کے پیروں کی خاک کو نہیں پہنچتے تھے۔ جبر سے خلافت کو خاندانی لونڈی نہ بناتے تو بلال میں زیادہ قابلیت تھی۔ سعد بن ابی وقاص عشرہ مبشرہ کے ہوتے ہوئے ظالم جابر وں کا اقتدار غلط تھا۔ البتہ حر اور یزید کے بیٹے معاویہ نے جو قربانی دی، مفاد پرست شیعہ انکو نہیں پہنچ سکتا۔ان میں لیلیٰ کیلئے قربانی کا جذبہ رکھنے والے بھی بہت ہیں لیکن جو نمایاں ہیں وہ دودھ پینے والے مجنون ہیں۔
بلال حبشیسیدنا تھے۔ شیدی بلال کی وجہ سے سیدی تھے۔ س کو ش بنادیا۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا کہ ” عرب میں عجم غلام تھے۔ اسلام نے ہم وطن چار خواتین سے شادی کی اجازت دی اورغیر ملکی لونڈیوں سے شادی کی تعداد متعین نہیںکی ”۔ مولانا سندھی سے اتفاق نہیں لیکن مغربی پاکستان نے بنگالیوں کو دل سے قبول نہ کیا۔ گو وزیراعظم محمد علی بوگرہ، حسین شہید سہروردی بنگالی تھے اور صدر سکندرمرزا بھی بنگال کے غدار میر جعفر کے پڑپوتے تھے۔جن گٹرصاف کرنے والے پنجابیوں کو کراچی والے چوہدری کہتے ہیں، عزت کی بنیاد پر نہیں کہتے ہیں۔ اسلام نے سیدنا بلال اور حبشیوںکو واقعی بہت عزت بخشی تھی۔
شیعہ ائمہ اہل بیت اور پشتون قوم پرست باچا خان وصمد خان شہید اچکزئی کے خاندانوں کو امام مانتے ہیں۔ جب یزید کا لشکر حسین کے کٹے سر اور قافلہ اہل بیت کو قید کرکے دمشق شہر لایا تو سپاہی کھانے پینے کی خریداری میں لگ گئے۔ ایک حبشی خاتون فضاء نے یہ منظر دیکھا تو قیدیوں کیلئے کھانے پینے کا سامان اور دوپٹے ، چپل، سامان ضرورت تحفہ میں دئیے۔ مشکل وقت میں خواتین آگے آتی ہیں۔ عثمان کے بدلے کا مطالبہ اماں عائشہ نے کیا۔ یہاں سالارکا کردار زینب نے ادا کیا۔ زینب نے پوچھا : یہ مدد کیوں کی؟۔ پورے راستے میں کسی نے ہمیں نہیں پوچھا ؟۔ فضاء بولی: فاطمہ کی خادمہ تھی، رخصتی لیکر شام آرہی تھی تو نصیحت کی کہ جب قیدیوں کو دیکھو تو خوراک ، پوشاک اور ہرممکن خدمت کرنا۔ مجھے پہلی مرتبہ ان کی نصیحت پر عمل کا موقع ملا ”۔ زینب بولی: بدلہ دینا ممکن نہیں مگر ہم دعا کرسکتے ہیں۔ بتاؤ کیا دعا کریں؟۔ فضاء بولی: فاطمہ کے تین بچے حسن، حسین اور زینب کی زیارت کا بڑاشوق ہے۔ جب دیکھا تھا تو چھوٹے چھوٹے تھے۔ آپ میرے لئے ان کی زیارت کی دعا کرنا۔ زنیب بولی: تمہاری تمنا پوری ہوگئی یہ کٹا ہوا سر حسین کا ہے ، میں زینب ہوں۔ یزید نے دربار میں قافلہ اہل بیت سے بدتمیزی شروع کردی کہ بدر کا بدلہ ہم نے لیا ۔ تو فضاء نے یزید کو سخت جواب دیا کہ ” شرم نہیں آتی کہ اسلام کے نام پر خلیفہ بن بیٹھے ہو، نبیۖ کی اولاد سے یہ کہتے ہو؟۔ یزید نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ گستاخ عورت کو عبرت کا نشان بنادو۔ کچھ سپاہی لپکے تویزیدی لشکر میں حبشی سپاہیوں نے بپھر کر دھمکی دی کہ خبردار ! یہ خاتون ہماری ناموس ہے ۔ اگر تم نے تکلیف پہنچائی تو تمہاراتیاپانچا کریں گے۔ مشتعل حبشیوں کو دیکھ کر یزیدنے پینترا بدلا۔ زینب نے کہا کہ ” کیا رسول ۖ کیلئے کوئی قربانی دینے والا نہیں؟”۔ تنخواہ دار سپاہی قوم پرستی کیلئے سب کچھ کرنا اپنی قومی غیرت سمجھتے تھے لیکن ریاست اور حکومت نے دین کا جذبہ مٹادیا تھا۔
جب طالبان نے ٹانک سے ایک پشتون لیڈی ڈاکٹر کو اغواء کیا اور مظالم کا سلسلہ جاری رکھا تھا اگر فوجی آپریشن سے پہلے محسود قوم غیرت کرتی تو ذلت کے انتہائی دن دیکھنے نہ پڑتے۔ حبشیوں نے عورت پر غیرت کی توسیدی بن گئے۔
پختونوں کے بارے میں ہے کہ رسول اللہ ۖ کے دور میں مکہ کو فتح کیا تھا اور بلوچوں کے بارے میں ہے کہ اسلامی لشکر کا حصہ بعد میں بن گئے لیکن جب امام حسین کی شہادت کا واقعہ پیش آیا تو انہوں نے دوبارہ اپنے وطن مکران کا رخ کیا تھا۔ محمد بن قاسم سے پہلے بلوچ اورکافی سندھی پہلے سے مسلمان تھے۔
راشدمراد کھریاں کھریاں نے جرنیلی نظم پڑھی:اک آمر تخت پر بیٹھا تھا
میرے دریا جب نیلام ہوئے اور بنجر میرے کھیت ہوئے اک آمر تخت پہ بیٹھا تھا
میرے لشکر کو جب مات ہوئی اور دیس میرا تقسیم ہوا، اک آمر تخت پہ بیٹھا تھا
جب مذہب اک ہتھیار بنا اور کلمہ گو ہی قتل ہوئے ۔ایک آمر تخت پہ بیٹھا تھا
سچ بولنے والے لوگوں کو جب کوڑے مارے جاتے تھے،ایک آمر تخت پہ بیٹھا تھا
ایک ظالم لشکر کے ہاتھوں ایک سورج جب مصلوب ہوا،اک آمر تخت پہ بیٹھا تھا
جب ایک بہادر عورت پر اپنوں نے چھپ کر وار کیا،اک آمر تخت پہ بیٹھا تھا
جب گلیوں میں بارود بچھا گھر گھر میں قتل عام ہوا،ایک آمرتخت پہ بیٹھا تھا،پھر بھی سادہ لوگوں کوآمر اچھے لگتے ہیں جھوٹوں سے بڑھ کر یہ جھوٹے اب بھی سچے لگتے ہیں
راشد مراد نے نوازشریف کے ایما پر جنر ل قمر باجوہ کو دبانے کیلئے نظم پڑھی مگر باجوہ کو ایکس ٹینشن کس نے دی ؟۔ کیا سیاسی طرم خانوں کیلئے عوام فوج سے لڑے؟۔اقتدار ہوتو فوج سے محبت اور اقتدار چھن جائے تو خرابیوں کی جڑ ؟۔ آرمی، قومی ، سیاسی و مذہبی قیادت جلد ازجلد مثبت فیصلہ کرنے میں اپنا کردار ادا کرے ورنہTTPاورپشتون ریاست کیلئے وہ مشکل کھڑی کرسکتے ہیں جس کا تصور بھیانک ہے۔افغان اور پاکستانی طالبان ایک ہیں۔ بلوچ، مہاجر ، سندھی اور پنجابی سبھی میں خوبیاں ہیں لیکن بیکار کرداروں نے ان کی شکل مسخ کی ہے۔
اللہ نے فرمایا؛” بیشک جولوگ مسلمان، یہودی ، نصاریٰ اور صائبین ہیں۔ جس نے اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اچھا عمل کیا تو ان کیلئے اجر ہے، ان پر خوف نہیں ہوگا اور نہ وہ غمگین ہونگے”۔ (البقرہ آیت62) اسلام واحد دین اور نظام ہے جو دنیا کو قبول ہے لیکن مذہبی وحکمران طبقے نے مسخ کردیا۔
اعرابیوں سے کہا ” یہ نہ کہو کہ ہم ایمان لائے بلکہ کہو! ہم اسلام لائے اسلئے کہ ابھی ایمان دلوں میں داخل نہیں ہوا”۔یہ مسلمان اور صحابہ سچے مؤمن تھے۔ کچھ منافق اور کافر تھے۔ صرف کچھ جھٹلانیوالے دشمن تھے۔ کافی دنیا تک اسلام نہ پہنچاتھا۔ مقابلہ جھٹلانے والوں سے تھا۔ جھوٹی نبوت کے دعویدارابن صائد اور رئیس المنافقین عبداللہ ابن ابی اور ذوالخویصرہ گستاخ سے بھی جنگ نہیں تھی۔
وزیرستان محسود ایریا میں طالبان کی رٹ ہے۔ ننگے سر کعبہ کا طواف ہوسکتا ہے مگرکوئی وزیرستان میںٹوپی نہیں اتارسکتا ۔دنیا بھر کی طرح امریکیCIAکے بلیک واٹر نے پنجابی لڑکیوں کو شام میں داعش کیلئے بھرتی کیا۔ فوج نےTTP،PTMاور عوام کو ایکدوسرے کے رحم وکرم پر چھوڑ اہے۔ قوم جب تک دین کی درست تشریح کی طرف نہ آئے، مظالم سے بچنے کا راستہ نہیں۔ مرکزمیں شہبازشریف وزرداری اور پنجاب میں عمران خان و پرویزالٰہی کاا قتدار ہے۔ اگر طالبان کو بھارت کی سرحد پر گھر بناکر دیدئیے اور شیڈول فور میں رکھاتو فتنے پر قابو پانا آسان ہوگا۔ پنجاب ، اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کا پختون قوم پر نہ صرف احسان ہوگا بلکہ گزشتہ غلطیوں کا ازالہ بھی ہوگا۔افغانستان اور پاکستان کو فتنے وفساد سے نہیں بچایا تو کشت وخون ہوگا اسلئے کہ طالبان کے ہمدرد بھی اس مرتبہ زبردست طریقے سے بہت بے دردی کیساتھ نشانہ بنائے جاسکتے ہیں۔
موٹے مولوی نے طالبان سے کہا کہ جہاد کی بڑی فضیلت ہے لیکن میری ٹانگیں کام نہیں کررہی ہیں۔ حالانکہ اس کی ڈگی میں طالبان بارود بھر کر خود کش کرواسکتے ہیں۔ جب تک سہولت کاری کے نتائج نہ بھگتنے پڑیں ظالم اورسہولت کار بے گناہوں کو نشانہ بنائیںگے۔ فوج اچھے اور بروں کے علاوہ وفادار آلۂ کار اور اغیار کے آلۂ کارمیں تمیز نہیں کرسکتی اسلئے کچھ لوگ رکھنے پڑتے ہیں۔ جب عوام کی طرف سے فیصلہ ہوگا کہ گندے کرداروں کو ہم نے نہیں چھوڑنا ہے تو ریاست بھی کسی آلۂ کار کو ٹھکانے دینے کی مجبوری سے باز آجائے گی۔ رضیہ محسود صحافی نے سکولوں اور ہسپتالوں کی بحالی کیلئے آواز اٹھائی تو قوم پرست بہت برا مان گئے۔ ان کی تقریر کو بھی نشر نہیں کیا۔ قدرت نیوز مختلف قسم کا موادنشر کرنے میں دیر نہیں لگاتی ہے لیکن خاتون صحافی کی مثبت باتوں کو بھی سنسر کردیا ہے۔
شہبازگل اور علی وزیر کی بات میںفرق تھا۔ منظور پشتین اور علی وزیر کی تقریر میں بھی تضاد ہے۔ تضادات کو دور کئے بغیر دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنانا سب سے آسان کام ہے۔ خطرناک یہ ہے کہ ریاست ظلم کرے اور مفتی جواز فراہم کرے لیکن اسکے خلاف آواز نہ اٹھائی جائے اور اس سے زیادہ خطرناک یہ ہے کہ جب مولوی حضرات ریاست کی سپورٹ کے بغیر اسلام کی غلط تشریح سے معاشرے کے اندر کمزورعورت کو کمزور تر کردیں اور طاقتورمرد کو مزید ناجائز طاقتور بنادیں اور اس پر خاموشی ہو تو کوئی تنظیم اپنے نام ونمود اور اللے تللے کیلئے کام کرے تو کرے لیکن یہ دعویٰ کرنے کا حق نہیں کہ وہ عوام میں شعور اجاگر کرنے کی خدمت کررہی ہے۔ کامیابی کادعویٰ تو دور کی بات، خدشہ یہ ہے کہ آج بلوچ خواتین اور لڑکیاں مسنگ پرسن کیلئے پنجابی اور پختونوں کیساتھ کھڑی ہیں کلPTMکے رہنماؤں کیلئے ان کی خواتین اور لڑکیاں مسنگ پرسن کیلئے کھڑی ہوں گی۔ پشتو فلموں کی فحاشی کے سین پنجاب میں بھی مشہور تھے۔ بلوچ سینما کو بلوچی فلم چلانے پر آگ لگاتے تھے۔ بلوچ قوم پرست وطن کو آزاد نہ کراسکے لیکن لڑکیوں کو دنیا کے سامنے لاکھڑا کیا ۔ بلوچ پہاڑوں میں لڑ یں تولڑکیوں کی مجبوری ہے کہ مسنگ پرسن کیلئے نکلیں ۔ علی وزیر نے صرف ایک بار دھمکی دی کہ میں بندوق اٹھاؤں گا لیکن پھر ا س کے وکیل نے کہا کہ تقریر کا ترجمہ غلط کیا ۔ غلط بیانی سے معافی مانگنا بہتر ہے۔ اسلام کی درست تشریح سے ریاست، مولوی، دہشتگرد،قوم پرست اور سب نمونے اپنی اپنی جگہ پر درست ہوسکتے ہیں۔ عمار علی جان جیسے قابل اور غیرمتعصب لوگ اپنا قبلہ درست کرکے اچھا کردار اداکرسکتے ہیں۔ عمار جان کی یہ بات غلط ہے کہ ”ریاست نے میڈیا پرسنسر شپ لگایا کہ سیلاب کے معاملات کی جگہ جی ٹی روڈ کی سیاست میں عمران خان، شہباز گل ، نوازشریف اور مریم نواز کے گرد خبروں کا فوکس رکھا جائے”۔ عوام سندھ کے سیلاب متأثرین ، پختونوں اور بلوچوں کے دھرنوں سے زیادہ اداکارہ ایان علی کی عدالت میں کیٹ واک کو دیکھنا چاہتی تھی تو ریٹنگ سے میڈیا کو اشتہارات کے ریٹ ملتے ہیں اور دنیا پیٹ اور جنسی خواہش پر جی رہی ہے۔باقی قبروں کی طرح دنیا میں بھی سب کا اپنا اپنا معاملہ ہے۔حقیقی اسلام کیلئے لوگ اپنے مفاد کیلئے اٹھیں گے۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ