پوسٹ تلاش کریں

تبلیغی جماعت پر سعودی عرب کی طرف سے پابندی اور اس پرتبلیغی جماعت سمیت مختلف لوگوں کا ردِ عمل لیکن اصل بات اور اسکے اصل حقائق!

تبلیغی جماعت پر سعودی عرب کی طرف سے پابندی اور اس پرتبلیغی جماعت سمیت مختلف لوگوں کا ردِ عمل لیکن اصل بات اور اسکے اصل حقائق! اخبار: نوشتہ دیوار

تبلیغی جماعت پر سعودی عرب کی طرف سے پابندی اور اس پرتبلیغی جماعت سمیت مختلف لوگوں کا ردِ عمل لیکن اصل بات اور اسکے اصل حقائق!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
چیف ایڈیٹر: اخبار نوشتہ دیوار کراچی

سعودی عرب نے تبلیغی جماعت اور دوسری تنظیموں پر کھلم کھلا اعلان کرکے نہ صرف پابندی لگائی ہے بلکہ جمعہ کے خطبات میں تبلیغی جماعت پر شدید الزام تراشی بھی کی ہے۔ شرکیہ عقائد کی تشہیر ، قبرپرستی، قرآن وسنت اور علماء حق سے دوری کے علاوہ ضعیف احادیث اور جھوٹے قصے کہانیاں سے عقائد بگاڑنے کا الزام بھی لگایا ہے۔ تبلیغی جماعت کے نصاب میں پہلے فضائل درود شریف شامل تھا جس کا مولانا زکریا نے اپنی ”آپ بیتی” میں لکھا ہے کہ ” رسول اللہ ۖ نے خواب میں فرمایا کہ زکریا اپنے معاصرین میں فضائل درود کی وجہ سے سبقت لے گیا ہے”۔
تبلیغی جماعت نے سب سے پہلے سعودی عرب کے علماء اور حکمرانوں کو خوش کرنے کیلئے اپنے نصاب سے فضائل درود کو نکال دیا اور تبلیغی نصاب کی جگہ اس کا نام بھی ” فضائل اعمال ” رکھ دیا۔ مولانا محمد الیاس بانی تبلیغی جماعت کے ایک بہت اہم ساتھی مولانا احتشام الحسن کاندھلوی نے تبلیغی جماعت میں نہ صرف بہت ساتھ دیا تھا بلکہ ان کی کتاب ” موجودہ پستی کا واحد علاج ” بھی نصاب کا حصہ تھا ۔ جب مولانا الیاس کے انتقال کے بعد آپ کے صاحبزادے مولانا محمد یوسف کاندھلوی کو تبلیغی جماعت کا امیر بنایا گیا تو صاحبزادہ حضرت جی مولانا یوسف نے جماعت میں کوئی وقت نہیں لگایا تھا لیکن اچھے عالم دین تھے اور جب وہ مولانااحمد علی لاہوری کے پاس گئے تو مولانا لاہوری نے ان سے فرمایا تھا کہ ” جس دن اس جماعت نے یہ سمجھنا شروع کیا کہ دین کا بس صرف یہی کام ہے ۔ مدارس، خانقاہوں اور دوسری مذہبی وسیاسی جماعتوں کو اہمیت دینی چھوڑ دی تو اس کا زوال شروع ہوجائے گا”۔
حضرت جی مولانا محمد یوسف کے دور میں تبلیغی جماعت اپنی روح پر کاربند تھی لیکن جب مولانا انعام الحسن کو امیر بنایا گیا تو تبلیغی جماعت نے اپنے اصل کام سے انحراف شروع کردیا۔ مولانا احتشام الحسن کاندھلوی نے سب سے پہلے مخالفت شروع کردی اور یہ لکھ دیا کہ ” پہلے بہت ساری چیزوں کی پابندی کیساتھ جماعت کو اس کام کی شریعت میں اجازت تھی لیکن اب بہت ساری خرابیاں کی وجہ سے تبلیغی جماعت اس بات کی اہل نہیں رہی ہے کہ شریعت میں اس ترتیب کیساتھ اس کو کام کرنے کی اجازت ہو”۔ مولانا احتشام الحسن کاندھلوی مولانا الیاس کے ساتھی اور خلیفہ تھے۔علماء دیوبند کے اکابر حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے مرید وخلفاء تھے اور بریلوی دیوبندی اختلافات میں 7اہم اور بنیادی مسائل پر انہوں نے کتاب بھی لکھی تھی جو دیوبندی وبریلوی دونوں مکتبۂ فکر کیلئے قابل قبول تھی۔ دیوبندی فکر کے لوگ ان سات مسائل کو بدعت اسلئے سمجھتے تھے کہ ” شریعت میں ان کا جواز تھا لیکن بہت سارے لوگوں نے ان کو فرض وسنت کا درجہ دے رکھا تھا”۔ جب تبلیغی جماعت کا بھی وہی حال ہوا تو مولانا احتشام الحسن کاندھلوی نے اس جماعت کے خلاف بھی شریعت کا تقاضہ سمجھ کر آواز اُٹھائی تھی لیکن تبلیغی جماعت نے اس آواز کو دبا دیا۔ اگر دیانتداری سے یہ آواز تبلیغی جماعت کے اکابر اور کارکن حضرتات عوام تک پہنچادیتے تو شاید تبلیغی جماعت بے اعتدالی سے ہٹ کر اعتدال پر آجاتی۔
جب تبلیغی جماعت اپنے ہٹ پر قائم رہی تو شیخ الحدیث مولانا زکریا اور آپ خلفاء نے تبلیغی جماعت کی اصلاح کیلئے کوشش شروع کردی۔ مولانا محمدالیاس کے اس قول کی تشہیر ایک خط کے ذریعے سے شروع کردی کہ ” اس جماعت کے دو پَر ہیں،ایک علم اور دوسرا ذکر۔ اگر جماعت میںعلماء ومشائخ کے کام کی اہمیت نہ رہے تو پھر اس کا مٹانے والے مولانا الیاس کے اصل نمائندے ہوں گے”۔ آج مولانا زکریا کے خلفاء اور مریدوں کی اکثریت تبلیغی جماعت کی سخت خلاف ہے۔
تبلیغی جماعت کے ایک اکابر مولانا جمیل احمد صاحب نے ایک مسجد کے امام کو اس پر بات پر اپنے فون پر بہت ڈانٹا ہے کہ” تمہارا عقیدہ علماء دیوبند کا نہیں ہے اسلئے کہ علماء دیوبند اس بات کے قائل ہیں کہ رسول اللہ ۖ اپنی قبر میں اس دنیاوی حیات کے ساتھ زندہ ہیں اور آپ برزخی حیات کے قائل ہیں اسلئے تمہارا عقیدہ علماء دیوبند کے خلاف ہے اور علماء دیوبند کے لبادے میں چھپ کر تمہیں مسجد کے انتظامیہ کو ہٹادینا چاہیے۔ تمہارے پیچھے ہماری نماز نہیں ہوتی ہے”۔
مولانا منظور مینگل نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ ” حاجی عبدالوہاب کے سامنے ایک تبلیغی عالم نے کہا کہ حاجی عبدالوہاب کی روح عزائیل نے نکال دی توحاجی صاحب سے فرشتوں نے سوال کیا کہ تمہارا رب کون ہے؟، رسول کون ہے؟ اور تمہارا دین کیا ہے؟۔ حاجی عبدالوہاب نے کہا کہ مجھے مولانا الیاس، مولانا یوسف اور مولانا انعام الحسن کے پاس بستی نظام الدین پہنچادو۔ جس پر فرشتے بھی لاجواب ہوگئے اورحاجی صاحب کو انہوں نے دوبارہ زندہ کردیا”۔
نبیۖ نے فرمایا کہ ” المر ء مع من احب :آدمی اس کے ساتھ ہوتا ہے جس سے اس کی محبت ہوتی ہے”۔ایک حدیث میں آتا ہے کہ قبر میں نبیۖ کی زیارت کرائی جائے گی اور پوچھا جائے گا کہ وماتقول فی ھٰذا الرجل ” اور اس شخص کے بارے میں آپ کیا کہتے ہو؟”۔ مسلمان اس نبیۖ کو پہچان کر گواہی دے گا کہ خاتم النبین رحمة للعالمینۖ ہیںاور غیرمسلم کہے گا کہ” لاادری : میں نہیں جانتا ہوں” ۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حاجی عبدالوہاب پر ایک کیفیت یہی طاری کردی ہو کہ موت کے بعد رب، نبی اور دین کے بارے میں پوچھا جائے گا تو اس کو بستی نظام الدین بھارت کے اکابر کے علاوہ کچھ بھی سوجھائی نہیں دیتا ہو تاکہ وہ زندگی میں اپنا قبلہ درست کرلے اور تبلیغی جماعت کے اکابر اور اسکے کارکن اس سے عبرت پکڑ لیں۔ جب مولانا منظور مینگل نے بھی تبلیغی جماعت کے اہم ترین اکابر حاجی عبدالوہاب اور انکے اردگرد کے ماحول کے بارے میں یہ نشاندہی کی تھی تو یہ بات یاد رکھنی چاہیے تھی کہ موت کے بعد دنیاوی حیات نہیں برزخی حیات شروع ہوتی ہے۔ اگر دنیاوی حیات ہوتی تو پھر نماز ، وضو، پوٹی پیشاب اور کھانا کھانے کی گنجائش بھی قبر میں چھوڑدی جاتی اور تعففن سے شاید عقیدہ بھی درست ہوجاتا ۔
سعودی عرب کے وہابی علماء کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ رسول اللہ ۖ اپنی قبر میں دنیاوی حیات نہیں بلکہ برزخی حیات کے ساتھ زندہ ہیں تو تبلیغی جماعت اپنا عقیدہ سعودی عرب میں کیوں چھپاتی ہے؟۔ پہلے تبلیغی جماعت نے فضائل درود کی وجہ سے بہت سارے بریلوی مکتبۂ فکر کے لوگوں کو اپنا شکار بنایا لیکن جب سعودیہ سے خوف کھانے کی وجہ سے اپنے نصاب سے ” فضائل درود ” کو نکال دیا تو مسلمانوں کی مشترکہ جماعت کی جگہ اس پر دیوبندی فرقے کا لیبل لگ گیا۔ بریلوی نے پھر اپنی دعوت اسلامی بنائی اور اہلحدیث نے بھی اپنی نئی تبلیغی جماعت بنائی۔
قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا ذکر ہے جس میں اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرنا، ابرص کے مریضوں اور مادر زاد اندھوں کو ٹھیک کرنا بھی شامل تھالیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ قرآن شرک کی تعلیم دیتا ہے اور اگر یہ قرآنی آیات نہ ہوتی تو محمد بن عبدالوہاب کے جاہل پیروکار اس کو بھی شرکیہ اعتقادات سمجھ کر قرآن کے واقعات پر پابندی لگوانے سے دریغ نہ کرتے۔ دیوبند کے اکابرین نے پہلے محمد بن عبدالوہاب کی سخت مخالفت کی تھی لیکن جب سعودیہ کی حکومت قائم ہوگئی تو ان کے علم ، کشف اور شرح صدر کا محور بدل گیا تھا۔ اگر اسلام میں قبر کی مخالفت ہوتی تو نبیۖ اور پہلے دو خلفاء حضرت ابوبکر و حضرت عمر کی قبر کا حضرت عائشہ صدیقہ کے حجرے میں ہونا ہی اسلامی احکام کی بیخ کنی ہوتی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جس طرح انسان کی پیدائش، تخلیق اور اس کیلئے راستہ آسان ہونے کو احسان کے طور پر جتلایا ہے ، اسی طرح فاماتہ و اقبرہ اور اس کو پھر موت دیدی اور قبر دیدی کو بھی احسان کے طور پر شمار کیا ہے۔
تبلیغی جماعت کتنی پرامن اور غیر مضر ہے؟ ۔تو اس کا حال تبلیغی جماعت کے اندر ہی سے لیا جائے۔ ہندوستان میں اس کا عالمی مرکزبستی نظام الدین میں ہے۔ پاکستان میں اس کا مرکز رائیونڈ میں ہے۔ افریقہ میں بھی رائیونڈ کی جماعت والے بستی نظام الدین مولانا الیاس کے پڑپوتے مولانا سعد کی جماعت والوں وہاں کام نہیں کرنے دیتے ہیں جہاں ان کا بس چلتا ہے۔ جب یہ ایکدوسرے کے مراکز میں خود ایکدوسرے کو نہیں چھوڑتے ہیں اور جس مسجد میں ان کا غلبہ ہوتا ہے وہاں پر قرآن کا درس بھی نہیں ہونے دیتے ہیں تو دوسروں سے گلہ کرنے کے بجائے پہلے اپنے طرزِ عمل پر بھی غور کریں۔ بستی نظام الدین اور رائیونڈ کے مراکز میں اختلاف کے باوجود جس تبلیغی جماعت کے اکابر اور کارکنوں کی آنکھیں نہیں کھلتی ہیں تو یہ سچ قرآن میں اللہ نے لکھ دیا ہے کہ ” اصل اندھا وہ ہے جو دل کا اندھا ہے”۔
سعودی عرب کے نمک خوار سعودیہ کی حمایت اپنے مفادات کی وجہ سے کرتے ہیں ، اگر دین کی بنیاد پر حمایت ہوتی تو حکومتی سطح پرفحاشی پھیلانے کے اقدامات کی سخت مخالفت کی جاتی ۔ اگر دین کی سمجھ ہوتی تو سعودی عرب میں جس طرح انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے غیرملکی مزدوروں کیساتھ بہت ناروارویہ رکھا جاتا ہے اور پاکستانیوں کیساتھ بہت زیادتیاں ہوتی ہیں تو پاکستان کی دینی جماعتیں اعلان کرتیں کہ مغرب اور مشرق میں سب سے بدتر ین لوگ یہی ہیں جو مسافرمجبور عوام کے حقوق کھانے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں بلکہ قانونی طور پر اجنبی لوگوں کو اپنے انسانی حقوق سے محروم کررکھا ہے اور ان کا پیسہ بھی غلط طور پر کھاتے ہیں۔
جب سعودی عرب اہلحدیث والوں کو پیسہ دیتے تھے اور مساجد ومدارس بھی بناکر دیتے تھے تو بہت سارے حنفی دیوبندی خاص طور پر اور بریلوی عام طور پر اپنے مسلک اور عقیدے کو بدل رہے تھے۔ مولانا انورشاہ کشمیری کے پوتے نے بھی اپنا مسلک تبدیل کرکے اہلحدیث کا مسلک اختیار کرلیا۔ جب ایرانی انقلاب کے بعد شیعہ سنی اختلافات کو ہوا مل گئی تو جمعیت علماء اسلام ف کے نائب صوبائی امیر مولانا حق نواز جھنگوی نے انجمن سپاہ صحابہ کے نام سے ایک نئی جماعت بناڈالی۔ سعودیہ نے ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش کے علماء سے شیعہ کے کافر ہونے کا فتویٰ بھی لگوادیا اور پھر جب سپاہ صحابہ کی مرکزی قیادت مولانا حق نواز جھنگوی، ضیاء الرحمن فاروقی اور دوسرے رہنما ہاتھ میں نہیں آرہے تھے تو مرکزی قیادت کو راستے سے ہٹادیا گیا اورپھر بات نہیں بن رہی تھی تو لشکر جھنگوی تشکیل دی گئی۔ جس رفتارسے لشکر جھنگوی نے ترقی پائی تھی ،اگر ہماری ایجنسیاں ان کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے توشاید دہشت گردی اس رفتار سے نہ آگے نہیں بڑھ سکتی تھی۔ عمران خان نے جب ایران کا دورہ کیا تھا تو اپنی ریاست کے اس کرتوت کا ذکر بھی افسوس کیساتھ کیا تھا۔
ایک آدمی نے شکایت کی تھی کہ میرا گدھا بہت سست چل رہاہے، اس کو تیزی کا کوئی نسخہ کھلا دو۔ حکیم صاحب نے گدھے کو پیچھے سے مرچ ڈال دی تو گدھا بہت تیز بھاگنے لگا تھا۔ گدھے کے مالک نے شکایت کی کہ اب گدھا بہت تیز بھاگ رہا ہے لیکن میں پہنچ نہیں پاتا ہوں۔ میرا بھی علاج کردو۔ حکیم صاحب نے اس کو پیچھے سے مرچ ڈال دی تو وہ بھی تیز بھاگنے لگا تھا۔ پھر ان کو پتہ چل گیا کہ یہ نسخہ کارآمد نہیں بلکہ بہت بیکار تھا۔ پہلے ہمارے ملک میں سعودی عرب کے خلاف بولنے کی بھی اجازت نہیں تھی لیکن اب حکیم صاحب کے نسخے کی کھل کر بہت مخالفت ہورہی ہے۔ چلو در آید درست آید۔ پاکستان کو فتنوں سے بچانے کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا۔
شیعہ، سنی، حنفی اہلحدیث اور بریلوی دیوبندی کے علاوہ تحریک طالبان ، داعش اور تحریک لبیک کی شکل میں مذہبی انتہاء پسندی کا دروازہ کبھی بھی ملک وقوم میں فساد برپا کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ سختی اور پابندی مسائل کا حل نہیں ہے۔ ڈالی ہوئی مرچیں بھی نکالنا ضروری ہیں اوراس پر مکھن لگانے کی بھی سخت ضرورت ہے۔ ہمارا صحافی طبقہ صرف پیسہ کھاکر اپنے ملک اور اغیار کیلئے کام کرنا جانتا ہے اور کچھ نہیں۔
پرویزمشرف اور فوج کے خلاف جتنی باتیں کی جائیں کم ہیں لیکن کیا کوئی ایک بھی ایسا کلپ ہے کہ نوازشریف سے کسی نے پوچھا ہو کہ پارلیمنٹ میں لندن کی پراپر ٹی کے حوالے سے تحریری بیان جاری کیا تھا تو وہ کس کے کہنے پر کیا تھا؟۔ پھر اس کی تردید کیلئے جھوٹا قطری خط اور پھر اس سے دستبرداری کیسے اختیار کی تھی؟۔ جیو نیوز کا نوازشریف سے بہت اچھا تعلق ہے ، شاہ زیب خانزادہ نوازشریف کی صفائی میں اپنی صحافت کھپاتا ہے تو کم ازکم ایک سوال تو نوازشریف سے بھی بنتا تھا؟۔
ریٹائرڈ جنرل امجد شعیب اور دیگر لوگ سوشل میڈیا پر پاک فوج کا دفاع نہیں کرتے ہیں بلکہ اُلٹا باشعور لوگوں میں نفرت کو بڑھاتے ہیں۔ اگر بنگلہ دیش کا ذمہ دار ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمن اور جنرل یحییٰ خان تھے تو پھر پاک فوج زندہ باد کا نعرہ نہیں بنتا ہے۔ اگر کسی کاقتل ہونا ہی اس کا برے انجام کو پہنچنا ہے توپھر جنرل ضیاء الحق کا حادثہ اور جنرل پرویزمشرف کا اپنے ملک میں نہ آسکنا کیا ہے؟ ۔ یزید کو پھر کہنے کا حق تھا کہ نبیۖ کے خانودے حضرت علی اور حسن و حسین اور کربلا کے لوگوں کا کیا انجام ہوا تھا۔ یہ کتنی کم عقلی کی بات ہے کہ ایک طرف ایک جنرل کو اسلئے سزا دی جاری ہے کہ اس نے امریکہ کو غلط معلومات فراہم کرکے بے گناہ قائلیوں کا خون کیا تھا اور ریٹائرڈمنٹ کے بعد امریکہ کا ایجنٹ بن گیا اور دوسری طرف ایک جنرل پر الزام ہے کہ اس نے امریکہ کو خفیہ معلومات فراہم کیں ؟۔ حالانکہ عدالت میں اس نے جنرل بلال اکبر کے واٹ سیپ پیش کئے کہ اعتماد میں لیاتھا اورجس کا الزام ہے وہ پہلے سے سب میڈیا پر موجود تھا اسلئے خفیہ معلومات پہنچانے کی بات بالکل غلط ہے۔ ایک باعتماد قیادت کی بہت ضرورت ہے۔ ہمارے سارے سیاسی قائدین بشمول وزیراعظم عمران خان آج کل عوام کو نوسر باز لگتے ہیں۔ اگر فوج اور ریاست سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا تو ریاست میںافراتفری کی فضاء سے عوام کو زیادہ نقصان پہنچے گا۔ ریاست کو اپنا کردار کو درست کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
امجدشعیب نے اچھا کیا کہ بتادیا کہ ہندوستان نے بنگلہ دیش سے93ہزار صرف فوجی نہیں پکڑے تھے بلکہ31ہزار فوجی اور62ہزار سیولین تھے جن میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ریاستی اداروں کے پاکستانی ہندوستان کے حوالے کئے گئے تھے۔ پہلے بہت سے باشعور لوگوں سے ہم سنتے تھے کہ فوج نے طالبان کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیا۔ اللہ ہندوستانی فوج اور طالبان سے پاکستانی فوج کو سخت ترین شکست سے دوچار کرے۔ اب طالبان کے حامی پھر یہ کہتے ہیں کہ طالبان کی حمایت ہم فوج کی وجہ سے کررہے تھے۔ اللہ کرے کہ افغانی طالبان اور ہندوستان کے فوجیوں کے ہاتھ سے ہمارے فوجی چٹنی بن جائیں اور ان کی بیگمات ہمارے لئے رہ جائیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کی زندگیاں مسلم لیگ اور ملا کی حمایت میں گزری ہے اور ب پیپلزپارٹی کے حامی بن گئے ہیں۔
امجد شعیب کی باتوں سے فضاء بدلنے والی نہیں ہے کیونکہ بنگلہ دیش آج اتنا مقروض نہیں ہے، جتنا پاکستان مقروض ہے۔ ہم سے پسماندہ بنگلہ دیش بھی آگے نکل گیا ہے۔ اگر ہماری ریاست نے ٹھان لی ہے کہ پنجاب کو مشرقی پنجاب سے ملا دینا ہے ، آدھے بلوچستان اور پختونواہ کو افغانستان کے حوالے کرنا ہے اور سندھ کو آزاد کرنا ہے تاکہ بین الاقوامی قرضوں سے اس کی جان چھوٹ جائے تو عوام کو اعتماد میں لیکر شائستگی سے یہ کام کریں لیکن اگر پاکستان کو باقی رکھنا ہے تو اپنا رویہ بھی بدلیں۔ عوام پر قرضوں اور قبضوں کا بوجھ لادنے کے بجائے ان کوخوشحال بنائیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

 

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟