پوسٹ تلاش کریں

خلافت کی اب معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ

خلافت کی اب معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ اخبار: نوشتہ دیوار

خلافت کی اب معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ

ہم نے جہادکے نام پر بہت بڑے طبقے کو انتہا پسند بنادیا، انہیں اسلحہ اورسیاسی طاقت دیکر مضبوط کیا،انہیں ہم ایسے نہیں چھوڑ سکتے، ہم نے 40سال میں جو بویااب کاٹ رہے ہیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جنرل قمر جاوید باجوہ کو انتہاپسندی کیخلاف جنگ لڑنے پر دنیا میں اعزازی تمغوں سے نوازا جارہاہے۔ پیپلزپارٹی، ن لیگ اور تحریک انصاف،عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام ، جماعت اسلامی انتہاپسندی کے خاتمے میں برابر کی شریک ہیں۔APSپشاور واقعہ کے بعد ریاست، حکومت اور سیاسی جماعتوں نے مل کر قومی ایکشن پلان بنایا۔ جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاویدباجوہ نے دہشتگردانہ ماحول کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا لیکن خلافت کی روک تھام پر جنرل باجوہ کو بیان دینا اسکے اپنے دائرہ کار سے باہر ہے۔ ایک فوجی کی تعلیم و تربیت کا مخصوص ماحول ہوتا ہے وہ اپنے ماحول کے مطابق بات کرنے میں مخلص ہے لیکن جہالت قوم کی کشتی کو ڈبوسکتی ہے۔40سال تک امریکہ کے کہنے پر دہشت گردی کی فصل تیار کرنا غلط تھا اور 40سال تک اسکے کہنے پر فصل کاٹنا بھی غلط ہے۔ آزادی ہند کی تقدیر کا فیصلہ خدا نے کیا اور تدبیر کا فیصلہ سیاسی قائدین نے۔ فوج کا اس میں کوئی کردار نہ تھا۔ وزیرستان کے لوگ کہتے ہیں کہ بھیک مانگنے والا ملنگ کہتا ہے کہ ” تمہاری خیرات سے ہماری توبہ ہے لیکن اپنے کتوں کو روک لو”۔ جنرل باجوہ اپنے پالے ہوئے دہشتگردوں کو روک لے جو ان کیساتھ مل کر بھتہ خوری اور فکری آزادی کو دبانے پر لگے ہیں۔ یہ پالیسی بہت ہی خطرناک ہے عوام اور سیاستدانوں کیلئے ہر گز قابلِ قبول نہیں۔
پشاور سے مشہور صحافی وادیب خالد خان کا ویڈیو بیان سوشل میڈیا پر آیا کہ اسکے پاس میجررستم بٹ کے نام پرایک کروڑ روپیہ بھتہ کیلئے فون آیا اور اس نے اس کو جوک سمجھا۔ پھر ٹھیک ٹائم پر کالی گاڑی میں لوگ آئے۔ جس میں ایک وہی میجر اور دوسرا ایک پٹھان تھا۔ جس کا مخصوص حلیہ تھا۔ اسکے پاس30بور کی پسٹل تھی اور مجھے تھپڑ مارے کہ اگر یہ رقم نہیں دی تو بال بچوں سمیت مار دیں گے۔ میں نے کہا کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ میرے پاس اتنی رقم کہاں سے آئے گی؟۔ ایک قلم کار ہوں اور مشکل سے گزارہ ہوتاہے۔ میرے ساتھ پولیس اور ملٹری انٹیلی جینس نے بہت خوش اسلوبی کیساتھ تعاون کیا اور یہ پیشکش بھی ہوئی کہ حفاظت کیلئے پولیس دیدیتے ہیں۔ یہ تلقین بھی ہوئی کہ اپنے گھر کی چاردیواری بلند کرکے اس پر خار دار تار لگادو۔ مگر میں اپنی حفاظت کیلئے اتنے خرچے نہیں کرسکتا اور ایک شریف آدمی ہوں ،اسلئے اپنے ساتھ گارڈز بھی نہیں گھماسکتا ہوں۔ اور نہ ا نکے کھانے پینے کے خرچے اٹھاسکتا ہوں۔ مجھے معلوم ہوا کہ آفتاب خان شیرپاؤ اور شیخ الحدیث مولاناادریس کو بھی بھتے کی دھمکیاں ملی ہیں۔ مجھے دشمن کا پتہ نہیں بتایا گیا ہے ، حالانکہ ٹیلی فون نمبر اور گاڑی کی تصاویر بھیCCTVکیمروں کی مدد سے پکڑنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ خالد خان کا کہنا ہے کہ مجھے اپنے دشمن نہیں بتائے گئے جو بہت افسوسناک بات ہے۔
جب عمران ریاض خان کہتا ہے کہ ” میری ماہانہ آمدن کروڑوں میں ہے تو پھر بھتہ خور صحافیوں کا تعاقب کریں گے”۔ جب مولویوں نے زکوٰة خیرات کے علاوہ سودی بینکاری سے بھی کمانا شروع کردیا ہے تو بھتہ خور بھی اپنا حصہ وصول کریں گے۔ بھتہ خور کس کس سے بھتہ وصول کریںگے؟۔ اور وہ کن کن طاقتور لوگوں کے مرہون منت ہوں گے ؟۔ یہ بھی ایک مشترکہ کاروبار ہوسکتا ہے؟۔ اگر ان کو40سال تک اپنا پٹھو بناکر ہتھیار اور طاقت سے نوازا گیا اور اب ان کو40سال تک کسی دوسرے دھندے پر لگاکر بدنام کیا گیا کہ بھتہ خور معاشرے میں اخلاقی طاقت کھو بیٹھیں تو یہ ان کو تنہا نہ چھوڑنے اور اپنے انجام تک پہنچانے کا اہم ذریعہ ہوسکتا ہے اور یہ وسائل پر قبضہ کرنے کی اچھی حکمت عملی بھی ہوسکتی ہے مگرکیا قوم یہ بوجھ برداشت کرسکتی ہے؟۔ یہ بھی ایک سوال ہے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھتہ خوروں کو کھلم کھلی آزادی ملنے اور شکایت لگانے کی جگہ عوام ٹھکانے بھی لگانا شروع کردیں۔ جب ایک مرتبہ قومی سطح پر لوگ اُٹھ جائیں تو مشکلات کے پہاڑ کھڑے ہوسکتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت بھی بالکل صلاحیت سے محروم ہے۔ قومی ایکشن پلان میں مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے اتنا تعمیری کام بھی نہیں کیا جتنا پشتون تحفظ موومنٹ کے نام سے چندنوجوانوں نے قیام امن کا جذبہ پیدا کرنے کیلئے کیا۔ لیکن اس کا کوئی زیادہ فائدہ اسلئے نہیں ہوا کہ تعصبات کے رنگ میں نعرے لگائے گئے۔ پشتون قوم پرست اور مذہب پرست کے نام سے آج آمنے سامنے ہیںاگر پھر ان میں قتل وغارتگری کا سلسلہ جاری ہوا جس کے شدید خطرات ہیں تو بھی قوم وملک کا نقصان ہے اوراگر متحد ہوکر ریاست کے خلاف کھڑے ہوگئے تو بھی ملک وقوم کا نقصان ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ پہلے آرمی چیف ہیں جس کو آئین کے تحت توسیع مل گئی اور پونے دو سال تک مزید توسیع کی بھی گنجائش ہے۔ ملک جس سیاسی دہرائے پر کھڑا ہے ،اس کو کٹھ پتلی سیاستدانوں کے رحم وکرم پر بھی نہیں چھوڑا جاسکتا ہے اور کسی نئے نظام کا نیا تجربہ بھاری پڑنے کا اندیشہ ہے۔ پرانے نظام کو چلانا بھی ممکن نہیں رہاہے۔ ایسے میں پارلیمنٹ حکومت واپوزیشن جنرل قمر باجوہ کو ایک مزیدتوسیع دینے کا فیصلہ کریں تو بھی برا نہیں۔ اوریا مقبول جان نے یہ خواب بیان کیا تھا کہ پہلے نبیۖ کی طرف سے تحفہ ملتا ہے تو جنرل قمر باجوہ اس کو بائیں ہاتھ سے لیتا ہے اور پھر حضرت عمر کے سمجھانے پر دائیں ہاتھ سے لیتے ہیں۔ اسلام کے بنیادی احکام کو معاشرے تک پہنچایا جائے تو ہمارے ملک وقوم کا بھلا ہوسکتاہے۔خلافت کی تشریح جنرل باجوہ اور دہشتگردوں کو سمجھ میں آئے تو دنیا میں خلافت کے نفاذ کا راستہ بھی ہموار کرینگے اور لوگ بھی خوش ہونگے۔

www.zarbehaq.comا
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tvCaliphate has no place in society anymore. General Qamar Javed Bajwa

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟