چیئرمین سینٹ ،پاک فوج کورکمانڈرز کانفرنس سے!
جولائی 21, 2018
پاکستان میں معاشرتی تبدیلی کے آغاز کیلئے تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام و مفتیانِ عظام کا ایک نمائندہ اجلاس بلایا جائے۔ درسِ نظامی کا تعلیمی نصاب ایک مرتبہ دیکھ لیا جائے اور اگر یہ معلوم ہوجائے کہ قرآن سے دوری کا یہ سب سے بڑا ذریعہ ہے تو اسکے نصاب کو فوری طور پر تبدیلی کے اقدامات کئے جائیں۔ نصابِ تعلیم ایک بنیاد ہے ۔ علماء ومفتیان اعتراف بھی کررہے ہیں کہ اب اس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ بڑے علماء کرام میں علماء ومفتیان کے سرخیل حضرت مولانا مفتی محمد حسام اللہ شریفی مدظلہ العالی اور دیگر حضرات کھل کر اظہار کررہے ہیں اور کچھ بڑے بڑے اظہار کی جرأت نہیں رکھتے لیکن وہ درونِ خانہ کہتے ہیں کہ اس کافرانہ، گمراہانہ ، بے ایمانہ اور غیرفطری نصابِ تعلیم کو تبدیل کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ جو بلاسوچے سمجھے عرصۂ دراز سے پڑھایا جارہا ہے۔
کچھ ایسے بھی ہیں جو مدارس کے اس نصاب تعلیم کو منافع بخش کاروبار سمجھتے ہیں اور نسل در نسل امت مسلمہ کو قرآن کریم سے دور رکھنے کو اپنی مجبوری سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب امام مہدی علیہ السلام تشریف لائیں گے تو وہ درست کرنے کا کام کرینگے۔ ایسے میں اگر چیئرمین سینٹ قانون سازی کیلئے چند واضح آیات کو اپنے ایجنڈے پر رکھیں، پاک فوج کے کورکمانڈرز کانفرنس میں بھی اس کوواضح انداز میں اعتماد میں لیا جائے تاکہ پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے کا آغاز ہوسکے اور پھر قرآن وسنت کے مطابق جلد سے جلدعدل و انصاف کو یقینی بنانے کیلئے بھی قانون سازی کی جائے۔ جس سے ملک وقوم کی تقدیر بدل جائے گی۔ پارلیمنٹ کی سیاست روایتی انداز میں ایک سیاسی جنگ سے آگے کچھ نہیں کرتی ہے ،جب قرآن وسنت کے واضح قوانین عوام کے سامنے آجائیں گے تو پارلیمنٹ سے بھی ان کی تائید وتوثیق کی جائے گی۔ جب اسلام کے واضح قوانین اور دینِ فطرت کو ملحد اور سیکولر طبقہ بھی قبول کرلے گا تو دنیا میں اس کی گونج سنائی دے گی۔ داعش و طالبان اور دیگر شدت پسند تنظیمیں بھی مدہوشی سے ہوش میںآجائیں گی۔
پاک پولیس،پاک فوج، پاک ایف سی، پاک لیویز، پاک ملیشیا، سب ہی ایجنسیاں اور ادارے شدت پسندی کے خوف سے نکل جائیں گے اور ہماری اپنی ریاست عالمی قوتوں کیلئے کھلونہ نہیں بہترین ماڈل بن جائے گی۔ سیاسی ، مذہبی، سماجی، فلاحی اور مختلف نوعیت کی تنظیمیں اور جماعتیں مثبت سرگرمیوں اور خدمات میں ایکدوسرے سے سبقت لے جانے کے چکر میں پڑجائیں گی۔ منفی سیاست اور مذہبی بنیادوں پر منفی پروپیگنڈوں کا قلع قمع ہوجائیگا۔ ریاستی اخراجات کے بچت میں ایک پرامن وپر سکون ماحول زبردست کردار ادا کریگا۔ جدید اور دینی تعلیمات اور تربیت کیلئے بہترین مواقع پیدا ہوسکتے ہیں۔ تبلیغی جماعت اور دعوتِ اسلامی میں سالوں سال ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں نکلنے والی جماعتیں فضول کے فرائض، واجبات، سنتیں اور آداب سیکھنے اور سکھانے کے بجائے اپنے وقت ، اپنی تعلیم، اپنے تجربے ، اپنی صلاحیت اور اپنی استعداد کو قوم کی ترقی پر خرچ کرینگے تو پاکستان سے جہالت کے اندھیرے بالکل ختم ہوجائیں گے۔
قرآن وسنت میں صرف قول اور فعل کا فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نماز قائم اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا ہے۔ یہ قول ہے اور نبیﷺ نے اس پر عمل کرکے دکھایا ہے اور یہ فعل وعمل ہے۔ قرآن میں بار بار اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم ہے۔ اور اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ یعنی دونوں میں کوئی فرق نہیں ۔ علماء ومفتیان نے قرآن وسنت کو جدا جدا کرکے دین کو اجنبیت کی طرف دھکیلا، خود ساختہ فرائض ایجاد کرکے اپنی حدود وقیود سے تجاوز کیا۔ غسل اور وضو کے فرائض کے بنانے اور ان پر انواع واقسام کے اختلافات کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ وضو اور غسل میں فرق سب ہی جانتے ہیں اور اس سے زیادہ صحابہؓ فرائض ، واجبات اور سنن نہیں جانتے تھے۔
نماز میں فرائض کے علاوہ سنتوں کی تعلیم دی جاتی ہے ، فقہ حنفی میں سب سے بڑے درجہ کے فقیہ قدوری کے مصنف تھے۔ قدوری کے مصنف نے ان فرائض کے علاوہ نمازوں کو سنن کے بجائے نوافل ہی لکھ دیا ہے۔ نماز اصل باجماعت تھی اور اللہ نے وارکعوا مع الراکعین ’’ رکوع کرنے والوں کیساتھ رکوع کرو‘‘ کا حکم دیا ہے۔ باجماعت نماز سے پہلے کوئی مسجد میں پہنچے تو بیٹھے رہنے سے زیادہ اچھا یہی ہے کہ نوافل ادا کرے، اسی طرح فرائض کے بعد بھی نفل پڑھے۔ اس کو ثواب بھی ملے گا اور اطمینان وسکون بھی حاصل ہوگا۔ لیکن جب ایک ساتھ زیادہ سے زیادہ رکعتوں کو مسلط کیا جائیگا تو نماز بھی نماز کی طرح نہیں پڑھے گا اور بوجھ بھی محسوس کریگا۔ اللہ تعالیٰ نے آسانیاں پیدا کرنے کا حکم دیا ہے اور علماء نے ہم کو مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ کسی فقہی مسلک میں بے نمازی کی سزا قتل ہے اور کسی کے نزدیک بے نمازی مرتد ہونے کی وجہ سے قتل کا مستحق بنتا ہے، کسی کے نزدیک کوڑے مارنا اور کسی کے نزدیک زدو کوب کرکے قید رکھنابے نمازی کی سزا ہے۔ حالانکہ قرآن وسنت میں ایسی کسی سزا کا دور دور تک ذکر نہیں ۔ اگر ہوتی تو اتنے سارے اختلافات کیسے بنتے؟۔ زبردستی سے نماز پر مجبور کیا جائے تو بے وضو اور غسل جنابت میں بھی لوگ نماز پڑھنے پر مجبور ہونگے۔ دین میں زبردستی کا کوئی تصور نہیں ہے ۔ جب لوگوں کے خوف سے نماز پڑھی جائے تو یہ عمران خان کے سجدۂ زن مریدی یا فرشِ راہ بوسی سے بھی بہت زیادہ بدتر ہوگا۔
داعش میں بہت سے شدت پسند نظامِ خلافت کے نام پر مسلمانوں کو قتل کرنا جرم نہیں فرض سمجھتے ہیں، دوسری طرف سے طبقاتی تقسیم کی وجہ سے عوام کو انصاف نہیں ملتا ہے تو وہ معاشرے سے انتقام لینے کیلئے داعش کے نظرئیے سے ایمان و دل وجان سے متفق ہوجاتے ہیں اور خود کش کے ذریعے حور کی آغوش میں چلے جانے کو ایک غنیمت سمجھتے ہیں۔ ریاست نے دین اسلام کو مفادپرستوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے بلکہ اپنے مفادات کیلئے بھی ان کو استعمال کیا جاتا ہے جس کا پہلے بھی خطرناک نتیجہ ہماری ریاست خود بھی بھگت چکی ہے۔پاکستان کے پاس اب بہت زیادہ وقت نہیں ہے۔ لسانی،فرقہ وارانہ ، سیاسی جماعتوں کے نام نہاد نظریاتی ، محب وطن وغدار اور اسلام دوست ومذہب دشمن قوتوں کے درمیان کبھی لڑائی چھڑ گئی تو اس آگ پر قابو پانا بہت مشکل ہوگا۔ خون خرابے کی کیفیت کے خدشات بڑھتے جارہے ہیں اور انارکی میں سب کا دماغ خراب ہوجائیگا۔
مجھے امید ہے کہ اسلام دوست، محب وطن، پاسدارانِ ریاست اور اہل دانش سب کے سب نظام کی تبدیلی کی طرف آئیں گے۔ 9/11کا واقعہ امریکہ میں ہوا اور اسلامی دنیا کو تخت وتاراج کیا گیا۔ ایک طرف امریکہ سے مجبوری کی سہی مگر ہمدردی ہے اور دوسری طرف شدت پسندوں کے انتقام کا خوف ہے ،اس دو رنگی نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دیا ہے اور جب بھی بلیک لسٹ تک پہنچے تو ہماری تقدیر کی الٹی گنتی خدانخواستہ شروع ہوسکتی ہے۔ مارا ماری، خون خرابے سے پہلے پہلے ہمارے اصحابِ حل وعقد کو معروضی حقائق کی طرف آجانا چاہیے، بس۔
لوگوں کی راۓ