پوسٹ تلاش کریں

آج قرآن اورحدیث کی تطبیق سے تمام مکاتبِ فکرکے علماء کرام بفضل تعالیٰ متفق ہوسکتے ہیں!

آج قرآن اورحدیث کی تطبیق سے تمام مکاتبِ فکرکے علماء کرام بفضل تعالیٰ متفق ہوسکتے ہیں! اخبار: نوشتہ دیوار

آج قرآن اورحدیث کی تطبیق سے تمام مکاتبِ فکرکے علماء کرام بفضل تعالیٰ متفق ہوسکتے ہیں!

درسِ نظامی میں دیوبندی بریلوی حدیث صحیحہ کو قرآن کے خلاف قرار دیتے ہیںمگر جب یہ ثابت ہوکہ حدیث قرآن کے خلاف نہیںتھی تو فقہ حنفی کی بلند وبالا نئی بلڈنگ کھڑی ہوجائے گی ؟

پاکستان کی اکثریت دیوبندی بریلوی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ پہلے اپنی بوسیدہ بلڈنگ گراکر ایک شاندار نئی عمارت کھڑی کردیں جس سے مساجدو مدارس کی رونق اور اعتماد بحال ہو

علماء نے اصول فقہ میں قرآن کے مقابلے میں احادیث صحیحہ کو پچھاڑ دیا ہے اور پھر کمال کی نالائقی یہ کی ہے کہ فقہ کے مقابلے میں قرآن کو پچھاڑ دیا ہے اس سے بڑھ کر گمراہی کیا ہوسکتی ہے؟

شریعت کے چار اصول ہیں ۔ پہلا اصل قرآن ہے اور قرآن سے مراد صرف وہ500آیات ہیں جو فقہی احکام سے متعلق ہیں۔ باقی قرآن قصے ، مواعظ اور دیگر امور ہیں۔ پھر اصل معاملہ چھوڑ کر قرآن کو کیوں متنازعہ بنانا شروع کردیا ؟۔ کہ قرآن” المکتوب فی المصاحف ( قرآنی نسخوں میں لکھا ہوا ) ہے اور مکتوب سے مراد کلام اللہ نہیں کیونکہ یہ محض نقش ہے ”۔حالانکہ یہ قرآن سے پوچھنا چاہیے کہ مکتوب کیا ہے؟۔ ولوانزلنا ہذا القراٰن فی قرطاس لمسوہ ”اور اگر ہم اس قرآن کو کاپی میں لکھا ہوااتار دیتے اور یہ لوگ اس کو چھوتے”۔ پھر بھی انہوں نے اس کو جادو قرار دینا تھا۔ جوکہتے تھے کہ ھٰذا اساطیر الاولین اکتبھا بکرة ًواصیلاً( یہ تو پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں جو صبح شام لکھوائی جاتی ہیں)۔کتابت کا لفظ عربی میں لکھائی ہے جس کا بہت زیادہ مرتبہ قرآن میں استعمال بھی ہواہے اسلئے کتابت اور وہ بھی قرآن کی کتابت کو محض نقش قرار دینا بہت بڑی نالائقی اور گستاخی ہے۔ جس کو کم عقل فقہاء نے یہاں تک پہنچایا ہے کہ سورۂ فاتحہ کو نکسیر اور پیشاب سے لکھنے کو علاج کیلئے نعوذ باللہ جائز قرار دیا ہے۔ قرآن کی تعریف میں یہ پہلا جملہ انتہائی خطرناک اور احمقانہ ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ نے جس علم الکلام کی گمراہی سے توبہ کی تھی اور فقہ کی طرف توجہ فرمائی تھی ، ہمارا یہ المیہ ہے کہ قرآن کی تعریف میں پھر اسی گمراہانہ تصور کو بنیاد بنادیا ہے۔
اہل حدیث کو لاجواب کرنا ہوتا تو ان کے نزدیک چھوٹے شیر خوار بچے کا پیشاب پاک ہے اور ہم ان کو جواب دے سکتے تھے کہ سورۂ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنے کا جواز تمہاری وجہ سے لکھ دیا گیاہے۔
قرآن کی مزیدتعریف کہ” المنقول عنہ نقلًا متواترًا بلاشبہ (جو آپۖ سے نقل کیا گیا ہے تواتر کیساتھ کسی شبہ کے بغیر)۔ متواتر سے غیر متواترآیات نکل گئیں جیسے خبر احاد اور مشہور ۔بلاشبہ سے بسم اللہ نکل گئی۔ اگر چہ صحیح بات یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن ہے لیکن اس میں شک ہے اور شک اتنا قوی ہے کہ اس کی وجہ سے اس کا انکار کرنے سے مسلمان کافر نہیں بنتا ہے۔ باقی کسی آیت سے انکار کرے گا تو کافر ہوجائے گا”۔
امام شافعی کے نزدیک موجودہ قرآن کے علاوہ دیگر آیات کا وجود ماننا قرآن کی تحریف کا عقیدہ ہے اور بسم اللہ میں شک کرنا کفریہ عقیدہ ہے۔ امام ابوحنیفہ نے یہی عقیدہ اپنے شاگردوں کو سکھایا تھا اور امام شافعی اصل میں امام ابوحنیفہ کے شاگرد امام محمد کے شاگرد تھے۔ امام ابویوسف اپنے استاذ امام ابوحنیفہ سے منحرف ہوگئے۔ امام ابوحنیفہ اسلئے جیل میں شہید اور امام ابویوسف قاضی القضاة چیف جسٹس بن گئے۔ مفتی محمود نے بھی آخر میں کسی کے ہاتھ پان اور دورہ قلب کی خاص گولی کھاکر شہادت کی منزل پائی اور مفتی محمد تقی عثمانی نے شریعت کورٹ کے جسٹس کا حلف اٹھالیا تھا۔ جب مفتی محمود نے پان کو بدتر قرار دیا تھا تو کھلانے کا کوئی تُک نہیں بنتا تھا اور اس پر یہ جھوٹ کہ بے تکلفی تھی اور بھیا کہہ کر پان مانگ کر کھالیتے تھے۔ امام شافعی پر درباری علماء ومفتیان اور وقت کے قاضیوں نے رافضی ہونے کا الزام لگایا تھا۔ حالانکہ وہ سراسر بہتان تھا۔
اگر قرآن کی500آیات لکھ دی جاتیں اور اس کا سادہ وسلیس مفہوم طلبہ اور عوام کو پڑھایا جاتا تو آج ساری دنیا مسلک حنفی کے مطابق چلتی۔ آیت کی ریاضی سے تشریح بھی غلط ہے اور جس آیت کے مقابلے میں حدیث صحیحہ کو ناقابلِ عمل قرار دیا،وہ آیت سے متصادم بھی نہیں ہے۔آیت228البقرہ میں ہے کہ المطلقات یتربصن بانفسھن ثلاثة قروء ” طلاق والی عورتیں3ادوار تک خود کو انتظار میں رکھیں”۔ عورت کاایک دورحیض و پاکی کے دنوں کو ملاکر بنتاہے۔ حیض کی حالت میں مقاربت منع ہے اور جیسے روزہ رات کو نہیں دن کو ہوتا ہے۔ اسی طرح عورت کی عدت کا پہلا دور بھی حیض کے بعد طہر ہے۔ جس طہر میں عورت کو طلاق دی جاتی ہے اس سے پہلے وہ ایک حیض مقاربت کے بغیر گزار چکی ہوتی ہے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ تین قروء یعنی3ادوار سے3اطہار مراد ہیں۔ جب ایک عورت کو طلاق مل گئی تو اس نے تیسرے طہر کے بعد عدت کو مکمل سمجھ لیا اور شوہرسے علیحدگی اختیار کرلی۔ جس پر کسی نے اعتراض کیا اور حضرت عائشہ نے وضاحت کی کہ اس نے ٹھیک کیا۔عبداللہ بن عمرنے حیض میں بیوی کو طلاق دی تونبیۖ نے شدید غصے کا اظہار فرمایا اور پھر سمجھایا کہ ” طہر کی حالت میں اپنے پاس رکھو، یہاں تک کہ اس کو حیض آجائے۔ پھر دوسرے طہر میں اپنے پاس رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے اور پھر تیسرے طہر میں چاہو تو معروف طریقے سے رجوع کرلو اور چھوڑنا چاہتے ہو تو ہاتھ لگائے بغیر اس کو چھوڑ دو۔ یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح طلاق کا حکم کیا ہے”۔ جب آخری طہر کے بعد حیض آگیا تو جس طرح رمضان کا چاند تیسرے عشرے کے اعتکاف میں نظر آنے کے بعد اعتکاف والے گھروں کی طرف بھاگتے ہیں اس طرح عورت کی عدت بھی تیسرے طہر کے بعد حیض آتے ہی ختم ہوجاتی ہے۔ حیض نہ آتا ہو تو تین ماہ کی عدت قائم مقام ہے۔
درس نظامی کی کتاب ”نورلانوار” میں ہے کہ ”3کا عدد خاص ہے جس میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی ہے۔ طہر میں طلاق دینا مشروع ہے۔ جس طہر میں طلاق دی جائے تو اس کو شمار کرنا ادھورا ہوجائے گا اسلئے3حیض کی عدت ہے۔ اگر تین طہر مراد لئے جائیں تو پھر یہ ڈھائی بن جائیں گے۔ حالانکہ اگر تین حیض مراد لیں تو پھر جس طہر میں طلاق دی ہے وہ بھی عدت میں شمار ہوگی اور ساڑھے تین بن جائیں گے؟۔ اگر دن کو روزے کی نیت کی جائے تو جب کچھ کھایا پیا نہیں ہوگا پھر روزہ پورا ہوگا نہ کہ ادھورا؟۔ کچھ بڑے درجہ کے علماء ومحدثین کہتے ہیں کہ ”حیض میں طلاق نہیں ہوتی ہے”۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ طلاق روزے کی طرح عمل ہے۔
نورالانوار میں قرآن اور حدیث صحیحہ کو یوں متصادم قرار دیا کہ حتی تنکح زوجًا غیرہ (یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے )کے مقابلے میں حدیث لائی گئی کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: ”جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے ، باطل ہے”۔
نمبر1:قرآن میں عورت کو ولی سے آزادی دلانے کیلئے اللہ نے نہیں فرمایا کہ ”اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ اپنی مرضی سے نکاح کرلے” بلکہ سابق شوہر سے آزادی دلانے کیلئے یہ فرمایا ہے اسلئے قرآن کے مقابلے میں اس حدیث کو لانا بھی موقع محل کے بالکل منافی ہے۔ قرآن سے حدیث صحیحہ کو پچھاڑ دیا۔
نمبر2:احناف کا قاعدہ یہ ہے کہ جب قرآن وحدیث میں تطبیق ممکن نہ ہو تو حدیث کو متصادم قرار دیا جائے۔یہاں تطبیق ممکن تھی اسلئے کہ قرآن میں طلاق شدہ کا ذکرہے اور حدیث سے کنواری مراد ہے۔جمہور فقہاء نے غلط کیا کہ حدیث کی وجہ سے طلاق شدہ وبیوہ کا اختیار سلب کرلیا۔ طلاق شدہ وبیوہ کے احکام مختلف ہیں ۔ قرآن میں طلاق شدہ سے زیادہ بیوہ کیلئے خود مختار ہونے کی واضح الفاظ میں وضاحت ہے۔ ایک طرف حدیث کو ناقابلِ عمل قرار نہ دیا جائے تو دوسری طرف ہم جمہور کو قرآن کے واضح احکام پر متفق کرسکتے ہیں۔
جب کنواری لڑکی کا گھر سے بھاگ کرنکاح معتبر قرار دیا تو اس کی وجہ سے دوسری احادیث کابھی بیڑہ غرق کردیا ۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ نکاح پر دوعادل گواہ بنالو۔ حنفی فقہاء نے دو فاسق گواہ بھی کافی قرار دیدئیے اور حدیث میں ہے کہ دف بجاکر نکاح کا اعلان کردو،یہ کہتے ہیں کہ دو خفیہ فاسق گواہ بھی اعلان ہے۔ حدیث میں مساجد میں نکاح کرنے کا اعلانیہ حکم ہے اور یہ عدالت میں خفیہ دستاویز پیش کرنے کو بھی ٹھیک کہتے ہیں۔ جس سے خاندانوں میں دشمنی ، جنگ وجدل اور قتل وغارت کا ماحول بنتاہے۔ حالانکہ قرآن نے اس رشتے کو بھی دوسرے خونی رشتے کی طرح آپس میں محبت والفت اور احسان قرار دے دیا ہے۔ان نام نہاد غلط حنفی فقہی مسائل کی وجہ سے چھپ کر یاری دوستی کا ماحول قائم ہوتا ہے اور کورٹ میرج کا راستہ بنتا ہے۔
حدیث قرآن سے نہ ٹکرائے پھر بھی ناقابلِ عمل ہو لیکن فقہی مسئلہ سے قرآن کو ناقابلِ عمل قرار دیا جائے تو اس سے بڑی گمراہی کیا ہے؟۔ مہاجرعثمانی عاقلہ بالغہ لڑکی ایک مہاجر لڑکے سے نکاح کرے تو یہ فتویٰ دیا جائے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوا اسلئے کہ لڑکی کا لڑکا کفوء نہیں۔ کیا حدیث قرآن کے مقابلے میں ناقابل عمل ہے ؟۔ مگر فتویٰ کے مقابلے میں قرآن کو پچھاڑ دیا ہے ؟۔ کچھ تو شرم بھی ہوتی ہے ، کچھ تو حیاء اور غیرت بھی ہوتی ہے۔ حالانکہ قرآن میں سب بنی آدم کو برابر اور مٹی سے پیدا کرنے کا تصور دیا گیا ہے اور نبی ۖ نے فرمایا کہ ” عرب کو عجم پر ، عجم کو عرب پر، کالے کو گورے پر ،گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں ،فضلیت کی بنیاد تقویٰ (کردار)ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ایک کیس کے ریمارکس میںلڑکی، لڑکا کا بھاگ کر شادی کرنا لبرل کا کارنامہ قرار دیا کہ پاکستان یورپ کے طرز پر پہنچ جائے گا۔ بھلے مجھے کوئی مولوی کہے ۔حالانکہ یہ مولوی کے ہی کرتوت ہیں۔ جسٹس صدیقیISIکے خلاف بول سکتا تھا لیکن مولوی کے خلاف نہیں۔حالانکہ مولوی کے پاس دلیل نہ ہو تو طاقت کے لحاظ سے یہ بہت ہی کمزور طبقہ ہے۔ بس اس کا ایک فائدہ ہے کہ جب جسٹس صدیقی مرے گا تو عرفان صدیقی اس کے حق میں لچھے دار لکھے گا۔
مفتی تقی عثمانی ایک طرف تقلید کی شرعی حیثیت میں لکھتا ہے کہ ” اجتہاد کا دروازہ ائمہ مجتہدین کے بعد بند ہے، اس کے بعد کوئی اجتہاد کرے گا تو گمراہ ہوگا اور دوسری طرف عالمی بینکاری کے سودی نظام کو اپنے اجتہاد سے جائز قرار دیا کہ دونیکیاں ملیں گی اور اگر غلطی کی تو ایک نیکی ملے گی۔ حالانکہ سود کو جواز بخشنے کا کیا اجتہاد ہوسکتا ہے؟۔ اجتہاد تو ان چیزوں میں ہوتا ہے جو قرآن وحدیث میں موجود نہ ہوں۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا: کنواری اور الایم یعنی طلاق شدہ وبیوہ کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے اور کنواری شرمیلی ہوتی ہے اسلئے اس سے نکاح کی اجازت مانگی جائے تو اس کی خاموشی رضامندی واجازت ہے اور الایم کیلئے زبان سے اظہار ضروری ہے۔( صحیح بخاری)۔ حدیث سے ثابت ہے کہ عورت کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح نہیں ہوسکتا۔ مفتی تقی عثمانی نے فتوی لکھا کہ” عجمی نسل میں کفاء ت نہیں ۔ اگر لڑکی کو اغواء کرکے ڈرادھمکا کر نکاح کرلیا تو یہ رضامندی واجازت ہے اور اب لڑکی یا اسکا رشتہ دار نکاح کو ختم کرنا چاہے تو اسکے سواء راستہ نہیں کہ اس آدمی سے طلاق حاصل کی جائے ۔ (فتاویٰ عثمانی جلددوم :288)
جب سیاسی قائدین جبرکے سامنے سرنڈر کرسکتے ہیں تو کیا اغواء ہونے والی بالغ و نابالغ بچیوں کا نکاح باہمی رضامندی اور دلال کے ذریعے جائز ہوگا؟۔ فتاویٰ عثمانی میں اسلام کو کتنا غلط استعمال کیا جارہاہے؟۔
چھوٹی بچی کو نکاح کیا پتہ ؟۔ اس کی رضامندی بھی معتبر نہیں لیکن اس کے ساتھ زبردستی تو انتہائی درجے کی انسانیت سوز اور ناقابلِ قبول معاملہ ہے۔ ایک بچی کہتی ہے کہ میرا نکاح میری مرضی کے بغیرمیری لاعلمی میں کردیا گیا۔ اب لڑکا بالغ ہوچکا ہے اور میں اس سے آزاد ہونا چاہتی ہوں اور وجہ یہ ہے کہ نابالغ کا نکاح معتبر ہے لیکن طلاق معتبر نہیں ہے۔ اس بے چاری کو جواب ملتا ہے کہ اس سے اب بھی طلاق نہیں لے سکتی ہو اور آپ بالغ ہوجاؤ تو بھی اگر تیرے باپ یا دادا نے یہ نکاح کیا ہے تو اس سے خلاصی نہیں پاسکتی ہو۔ موجودہ دور میں عورت جو کہتی ہے کہ ”میرا جسم میری مرضی ” تو اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ صابرشاہ کا جسم مفتی عزیز الرحمن کی مرضی اور مدرسہ کے طلباء کا جسم اور شیخ الحدیث مفتی نذیراحمد فیصل آبادی کی مرضی۔ ان لوگوں کا ضمیر غارت ہوچکا ہے اور جب تک اس جعلی اسلام کے خلاف مدارس، مساجد ، خانقاہوں اور امام بارگاہوں سے ایک مؤثر آواز نہیں اٹھے گی جو عوام کے ووٹوں سے اقتدار کی دہلیز تک پہنچے اور ڈنڈے والی سرکار کے زور ان سب کو سیدھا کردے تاقیامت بھی مؤمن اسی غلامی اور ذکر صبح گاہی سے جان نہیں چھڑ اسکتا ہے۔
بچی کا نکاح9،10سال کی عمر میں اسکے باپ نے شیرمحمد سے کردیا۔ لڑکی نے بالغ ہونیکے بعد کئی سال تک رخصتی کا انتظار کیا۔ لڑکا بیرون ملک گیا اور5سال تک مفقود الخبر ہوا۔ عدالت میں شادی یا فسخ نکاح کا کیس دائر کیا۔7ماہ تک عدالت کے مطالبے پراسکے رشتہ دار نہیں لاسکے اور پھر جج نے نکاح فسخ کردیا۔ لڑکی نے عدت کے بعد والد کی مرضی سے محمد شفیع سے نکاح کیا ۔اسکے کئی مہینے بعد شیرمحمد نے واپس آکرلڑکی کا مطالبہ کیا تو لڑکی کے باپ نے انکارکردیا۔ مفتی تقی نے فتویٰ دیا کہ لڑکی شیرمحمد کے نکاح میں اب بھی ہے۔
دعا زہرہ کیس میں کیا کیا مشکلات حکومت ، ریاست ، صحافت اور معاشرت کو بھگتنے پڑے تھے؟۔ لیکن وہ کیس تو ہائی پروفائل بن گیا تھا۔ مفتی تقی عثمانی کے ”فتاویٰ عثمانی جلد دوم” بدترین نمونے ہیں۔ اگر عوام کے سامنے آگئے تو برمی بنگالی عورتوں اور بچیوںکو دلال کے ذریعے بیچنے سے لیکر دنیا میں اسلام کے نام پر عورتوں اور بچیوں کے حقوق کی ایسی خلاف ورزی کاوہ شاخسانہ نظر آئے گا کہ الحفیظ والامان کی صدائیں بلند ہوں گی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

عدت کی علت کیا ہے؟ جاوید احمد غامدی
طلاق کے بارے میں قرآن وسنت کے درست تصورات اور مذہبی طبقے کے اختلافات کے حل کی طرف پیش قدمی؟
نکاح کے بارے میں قرآن وسنت کے درست تصورات اور مذہبی طبقات کے اختلافات کے حل کی طرف پیش قدمی