فوج کا قانون کی بالادستی کو تسلیم کرنا بڑے انقلاب کی ابتداء ہے. ملک اجمل
مئی 18, 2017
نوشتہ دیوار کے ایڈیٹرمحمد اجمل ملک نے ڈان لیکس پر تبصرہ کیا کہ یہ نئی صورتحال قوم کو نجات دلانے کاذریعہ ہے۔ فوج نے ڈان لیکس کا فیصلہ مسترد کرنے کے بعد قبول کرکے شعور کا ثبوت دیا ہے، سرحدات کی تشویشناک صورتحال کے علاوہ اپوزیشن کا منافقانہ طرزِ عمل اور وزیرِ داخلہ چوہدری نثار کی طرف سے ردالفساد کیخلاف ہرزہ سرائی ریاست کی تباہی کیلئے ایک بہت بڑا مسئلہ بن سکتا تھا۔ چوہدری نثار نے یہ کہہ کر کہ ’’مجھے ذمہ دار عہدے کی وجہ سے اس بات کی اجازت نہیں کہ کچھ بول سکوں‘‘ بہت کچھ بول دیا ۔ ڈان لیکس سے زیادہ سنگین معاملہ وزیرِ داخلہ کایہ بیان تھا۔ ریاستی اداروں کو قوم اور حکمرانوں کی تائید کی ضرورت ہوتی ہے۔ آئی ایس پی آر کا ڈان لیکس کے فیصلے کو مسترد کرنا فطری بات تھی لیکن جب حکومت و اپوزیشن دونوں نے مل کر آئی ایس پی آر کا بیان مسترد کردیا تو پاک فوج کیلئے عزت کا راستہ یہی تھا کہ جیسے تیسے فیصلے کو قبول کرلیا جائے۔ جن لوگوں کی چاہت یہ تھی کہ آرمی حکومت کا دھڑن تختہ کرے، فوج نے ان کی خواہش کی تکمیل نہ کرکے بہت اچھا کیا، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی بہت تحمل و بربادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت اور کسی اور کیخلاف انتقامی کاروائی نہیں کر رہے ہیں۔ بھاگے ہوئے زرداری واپس آگئے ، مریم نواز بھی خیر سے واپس آجائیں گی۔ ڈان لیکس کی جعلی رپورٹ کا اصل موضوع منظر عام پر نہیں تھا بلکہ میڈیا پر پاک فوج کا ٹرائیل ہورہا تھا۔ اصل بات یہ تھی کہ شہباز شریف نے ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر کو ڈانٹا تھا یا نہیں؟۔ شہباز شریف جنرل راحیل کے سامنے خواب و خیال میں بھی جسارت نہیں کرسکتا۔ مریم نواز نے ایک تیر سے دو شکار کئے، ایک فوج سے انتقام ،دوسرا شہبازکو قربانی کابکرا بناناچاہا مگر سب تدبیریں الٹی ہوگئیں۔
ڈان لیکس کا اصل معاملہ یہ تھا کہ شہباز شریف اتنا بڑا ڈان نہیں کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی ڈانٹ ڈپٹ کرسکے۔ پاک فوج کو اس نازیبا حرکت پر غصہ آیا تھا۔ حکومت نے خود بھی اس کو بہت بڑی سازش قرار دیا، جب کئی مہینوں کے بعد ان لوگوں کو مجرم قرار دیا گیا جو اس کھیل کا حصہ بھی نہیں تھے تو آئی ایس پی آر نے اس کو مسترد کیا، اپوزیشن لیڈرسید خورشید شاہ نے آئی ایس پی آر کے بیان کو معقول قرار دیا لیکن آصف زرداری کے ترجمان فرحت اللہ بابر اور اعتزاز احسن کا بیان آیا کہ ’’ آئی ایس پی آر کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وزیراعظم کے فیصلے کو مسترد کردے‘‘۔ حالانکہ اس بیان کی وزیرداخلہ چوہدری نثار نے بھی تردید کی تھی۔ آئی ایس پی آر تو ایک فریق تھا مگرچوہدری نثار نے کس طرح وزیراعظم ہاؤ س سے جاری ہونے والے بیان کی تردید کی تھی؟۔ چوہدری نثار نے آئی ایس پی آر کے بیان کو افسوسناک قرار دیا تھا۔ گدھے سے کسی نے پوچھا کہ ڈھینچو ڈھینچو کیوں کرتے ہو؟۔ تو اس نے کہا کہ لوگوں کو ڈراتا ہوں۔ پھر پوچھا کہ ٹیٹ کیوں مارتے ہو؟، تو اس نے کہا کہ خود بھی تو ڈرتا ہوں۔ چوہدری نثار نے اپنے بیان میں دونوں کام کئے تھے۔
حکومت عوام کو بچوں کی طرح بے شعور نہ سمجھے۔ وزیراعظم ہاؤس اور جی ایچ کیو کے درمیان اس لڑائی کو اس طرح کا رنگ دیناغلط ہے کہ گویا یہ گدھا اور گدھی کا کوئی جنسی اسکنڈل تھا، گدھے کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ دانت نکال کر گدھی پر چڑھ دوڑتا ہے، گدھی لاتیں مارتی ہے ، دیکھنے والے اس گھمسان کی جنگ سے پریشان ہوکر سمجھتے ہیں کہ کمزور جنس اپنی جان سے جائیگی، اچانک پھر پتہ چلتا ہے کہ سیٹلمنٹ ہوگئی ہے اور قصہ ختم۔ کہتے ہیں کہ گدھے کی محبت لات مارناہے۔ فوج اور حکومت کے درمیان جس ڈرامائی انداز میں رومانس کا کھیل اپنے اختتام کو پہنچاہے وہ بڑا انوکھا طرزِ عمل ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ وزیراعظم ہاؤس کا بیان قانون کی بالادستی اور طاقتور ترین ادارے فوج نے اس کو قبول کیا ہے۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ طاقتور لوگ قانون کو مانتے نہیں۔ پاک فوج نے قانون کی بالادستی تسلیم کرکے قوم کو نئی راہ پر ڈالا ہے۔ یہ زبردست انقلاب کا پیش خیمہ ہے کہ طاقتور ترین ادارے نے قانون کی بالادستی قبول کرلی ہے۔ اس کی مثبت انداز میں بڑے پیمانے پر اتنی تشہیر کرنے کی ضرورت تھی کہ ہر طاقتور اپنی سطح پر قانون کے سامنے جھک جائے لیکن افسوس کہ اس کو منفی انداز میں پیش کرکے قوم ، ملک اور سلطنت کا جنازہ نکالا جارہا ہے۔جب مسلمانوں کو غزوہ بدر میں فتح کے بعد تنبیہ کی گئی کہ’’نبی کیلئے یہ مناسب نہ تھا کہ اس کے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ خوب خون بہاتے، تم دنیا چاہتے ہو، اللہ آخرت چاہتاہے، اگر پہلے سے اللہ لکھ نہ چکا ہوتا تو سخت عذاب دیتا، جن لوگوں سے فدیہ لیا گیا، اگر انکے دلوں میں خیر ہے تو اللہ اسکا بہتر بدلہ دے گا اور اگر انکے دلوں میں خیانت ہے تو اللہ ان سے نمٹ سکتا ہے‘‘۔ قرآن کی وحی سے یہ مسلمانوں کا تزکیہ ہورہاتھا، ان کو حکمت عملی کی تعلیم دی جاری تھی پھر جب مسلمانوں نے غزوہ احد میں شکست کھائی تو بدلہ میں تجاوز کرنے کی قسمیں کھانے لگے لیکن اللہ نے فرمایا کہ اگر تمہیں زخم لگا ہے تو ان کو بھی پہلے لگ چکا ہے۔ کسی قوم کے انتقام کا جذبہ وہاں تک نہ لے جائے کہ تم عدل نہ کرو اور انہوں جتنا کیا ہے ، اتنا ہی تم بھی کرسکتے ہو، اگر معاف کردو، تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے، معاف ہی کردو اور معاف کرنا بھی اللہ کی توفیق کے بغیر تمہارے لئے ممکن نہیں‘‘۔ شکست میں بھی تزکیہ ہی کیا جارہا تھا، پھر جب مسلمانوں کا اچھا خاصا تزکیہ ہوگیا، حکمت سیکھ گئے تو صلح حدیبیہ کامعاہدہ ہوا، جو مسلمانوں کیلئے قطعی طور پر قابلِ قبول نہیں تھا لیکن اللہ نے اس کو فتح مبین قرار دیدیا۔
کوئی بھی ایسا ماحول نہیں چاہتا جس میں اپنی خواہشات کے برعکس معاملہ سامنے آجائے مگر اللہ تعالیٰ اس سے انسانوں کو دوچار کردیتا ہے۔ امریکہ سے جنگ لڑنے والے طالبان کی پشت پر مسلمان ہی نہیں پوری دنیا بھی خفیہ طور سے کھڑی تھی ، نیٹو کو شکست دینا آسان نہ تھا مگر مجاہدین نے سینہ سپر ہوکر زبردست قربانیاں دیں۔ ان لوگوں کی بدقسمتی یہ تھی کہ تزکیہ وحکمت سے محروم تھے اس لئے ایک اچھے موقع کا غلط فائدہ اٹھایا، خود کو بھی تباہ کیا اور اپنے چاہنے والوں کو بھی تباہ کیا۔آج ن لیگ کو ایک موقع ملا ہے ،پاک فوج تو ریاست کی ملازم ہے ، کوئی کسی کا ذاتی غلام ہو تب بھی اسکے ساتھ زیاتی کرنے کا حق نہیں ہوتا۔ جب دھرنے کے موقع پر نوازشریف نے راحیل شریف سے کردار ادا کرنے کی گزارش کی تو خورشید شاہ نے گرج برس کر کہا کہ ’’یہ تم نے کیا کیا؟‘‘ نواز شریف نے کہا کہ ’’میں نے جنرل راحیل سے کوئی کردار ادا کرنے کیلئے نہیں کہا‘‘، آئی ایس پی آر نے پھر وضاحت کردی لیکن خواجہ سعد رفیق نے میڈیا سے سوال کے جواب میں کہا کہ ’’ وزیراعظم کا کام حکم دینا ہوتا ہے درخواست کرنا نہیں‘‘۔ حالانکہ وزیراعظم کا کام اپنی حدود وقیود کے اندر رہ کر حکم دینا تھا اور دھرنے کو روکنا، ان سے بات چیت کرنا اور سیاسی طور سے ڈیل کرنا فوج کی ذمہ داری تھی اور نہ ہی اس کا وزیراعظم حکم دے سکتے تھے۔ ن لیگ عدالتوں پر تو چڑھ دوڑنے اور آرمی چیف جہانگیر کرامت کو ذلیل کرکے ہٹانے کا قصہ بھی رکھتی ہے اور اگر پرویزمشرف بھی پیٹھ میں چھرا گھونپنے سے نہ بچتے تو آج مغل بادشاہوں کی طرح نوازشریف پاک فوج کو بھی ذاتی غلام بنالیتی۔ فوج طاقتور ادارہ ہے اور اس کی تاریخ ’’حق مانگنا توہین ہے حق چھین لیا جائے‘‘ رہی ہے۔جس پریس کانفرنس کے ذریعے سے ڈان لیکس کے فیصلے کو قبول کرلیا ، تو قبول اور مسترد کرنے میں قانونی اعتبار سے کوئی فرق نہیں ۔جو سیاستدان، نامی گرامی وکیل اور صحافی یہ کہتے ہیں کہ آئی ایس پی آر کو رپورٹ مسترد کرنے کا حق نہیں ، ان کو یہ بھی کہنا چاہیے تھا کہ قبول کرنے کا بھی حق نہیں، بس وزیراعظم ہاؤس سے برآمد ہونے والا اعلامیہ وہ دلہن ہے جسکو مسترد اورقبول کرنا کوئی معنیٰ نہیں رکھتاہے۔ ن لیگ نے میڈیا ہاؤس کو خرید کر جس قسم کا ماحول پیدا کیا ، اس میں ایک آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کا الجھ جانا بعید از قیاس نہیں تھا۔ گدھے گدھی کا جنسی منظر نامہ ایسارومانس ہوسکتا ہے جس میں کاٹنے اور دولوتیاں مارنے کے بعد عوام سے کہا جائے کہ ہم محبت کررہے تھے اور تم نے ہمیں آمنے سامنے لا کھڑا کیا۔ یہ فوج کے کافی حد تک تزکیہ کی دلیل ہے کہ وہ اپنے اوپر تاریخ کی سخت ترین تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کررہی ہے۔ مریم نواز کا نام رپورٹ سے نکالنے کے جواب میں آئی ایس پی آرکے لبوں پر مسکراہٹ آئی۔ وزیراعظم ہاؤس کیلئے اس سے بڑی شکست اور کیا ہوسکتی ہے کہ رنگ میں لڑنے والے کھلاڑی میں کسی کی ہار جیت نہیں ہوئی بلکہ یہ پہلی نوراکشتی تھی جس میں رنگ سے باہر افراد کے نام شکست خوردہ اور سزا یافتہ ہیں۔ جسکا اظہار طارق فاطمی، راؤ تحسین اور پرویز رشید نے بھی کیا ۔ یہ جمہوریت کی فتح نہیں شکست ہے کہ آمروں کی طرح غلط فیصلہ مسلط کیا گیا جس پر آئی ایس پی آر بھی بجا طور سے مسکرائے ۔ وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے سچ کہا کہ ’’یہ کسی کی شکست و جیت نہیں بلکہ قوم کی جیت ہے‘‘۔ قوم کی جیت اسلئے ہے کہ ہمیشہ طاقتور اپنی طاقت کے زور پر اپنا حق چھین لیتا ہے لیکن اس مرتبہ پاک فوج نے بھی طاقتور ہونے کے باوجود اپنے حق کیلئے زور نہیں لگایا۔اگر یہ جمہوری وطیرہ بن جائے کہ جرم کوئی کرے اور سزا کسی کو دی جائے اور وزیراعظم ہاؤس کا یہ فیصلہ ہو کہ طاقتور فوج کو بھی انصاف نہ مل سکے تو پھر اس سے بڑھ کر ظلم وجبر کی انتہاء کیا ہوسکتی ہے؟۔ قوم کا خیر خواہ طبقہ اس بات پر بجا طور سے خوش ہے کہ جن کمزور لوگوں کو طاقتور اچھوت سمجھ کر ظلم و زیادتی کا نشانہ بناتے تھے، آج فوج بھی ہمارے ساتھ شاملِ حال ہوگئی ، جس سے مظلوموں کا حوصلہ بڑھا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا یہ کہنا غلط ہے کہ ’’ ڈان لیکس پر بال کی کھال نہ اتاریں‘‘ اسلئے کہ کھال تو اترگئی ہے ، صرف بال ہی رہ گئے ہیں۔ کھال کے بغیر بالوں کی اتنی بھی حیثیت نہیں ہوتی ہے جتنی دہشت گرد اپنے عروج کے دور میں جعلی داڑھی اور جعلی بال لگایا کرتے تھے۔
عمران خان نے عدالت اور فوج سے جو توقعات وابستہ کررکھی تھیں تو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جمہوری معاشرے میں جہاں عوام کا ضمیر پیسوں سے خریدا جاتا ہو ، وہاں سب ہی دولت کی چمک کے آگے بے بس ہوجاتے ہیں۔ جب عمران خان نے اسلام آباد کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن خود بنی گالہ کے گھر سے بھی باہر نہیں آئے تو تحریکِ انصاف کے کارکنوں کو فوج پر سوشل میڈیا میں تنقید کے تیر چلانے سے پہلے اپنے قائد کی بھی بھرپور خبر لینی چاہیے۔ مسلم لیگ کا ایم این اے اپنی قیادت پر تنقید کی جرأت کرکے یہ بھی کہے کہ ’’چوہدری نثار نے اپنی بیٹی کو بھارت سیف گیمز کیلئے بھیجا تھا‘‘ ، تو چوہدری نثار کی طرف سے اعتزاز احسن کو ذاتیات پر جواب دینے سے زیادہ مناسب یہ تھا کہ اپنی بیٹی کی عزت پر حملہ کرنے کا جواب دیتا، اگر سندھ میں رینجرز عذیر بلوچ کے سرپرست ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو کچھ نہ کہے اور پیپلزپارٹی کی قیادت آصف زرداری کو ٹھیس پہنچانے کیلئے اس کے ساتھیوں کو انتقام کا نشانہ بنائے اور پھر چوہدری نثار بیان دے کہ ہم اپنی فورسزز کیساتھ کھڑے ہیں اور جب ڈان لیکس پر فوج سے معاملات خرابی کا شکار ہوں تو ردالفساد میں بھی وزیرداخلہ پاک فوج پر الزام تراشی کرے تو یہ حکومت اور اپنی ریاست کو ذاتی غلام کی طرح سمجھنے سے کم نہیں ہے۔
میرے دوست خالد نے بتایا کہ 1985ء میں نوازشریف وزیراعلیٰ بنے تو والد کے دوست نے بتایا تھا کہ ایک ہندوکی مل تھی، جس میں میاں شریف کا چاچا ملازم تھا، اس نے1937ء میں میاں شریف کو بھی منشی کی حیثیت سے وہاں بھرتی کروایا، تقسیم کے بعد حالات خراب ہوگئے تو ہندو بھاگااور مل کی چابی میاں شریف کے پاس تھی، اس طرح وہ اس کا مالک بن گیا۔ پھر کراچی میں کسی میمن سے وہ فرم خرید لی جس کو انگریز ملازم چلاتا تھا، فرم لاہور منتقل کردی، انگریز چھٹی پر جارہا تھا تو اپنا کام کسی کو نہیں سکھا رہا تھا لیکن شریف پر اعتماد کرکے اپنا کام سکھایا، پھر چھٹیوں کے بعد آیا تو اس نے آنکھیں پھیر لیں۔ شریف برادران بیرونِ ملک سے اپنی پراپرٹی پاکستان منتقل کریں کہیں الطاف بھائی کی طرح دولت سے محروم ہی نہ کردیا جائے۔ابن انشاء کی روح سے معذرت کیساتھ
کل چودہویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا
کل فیصلے کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
دو نے کہا یہ چور ہے اور تین بولے رُک جا ذرا
سب جو وہاں موجود تھے ناچا کئے گایا کئے
گلو ترا بلو ترا احسن ترا خواجہ ترا
عزت کی تو بس خیر ہے آتی ہے یہ جاتی ہے یہ
اس فیصلے سے جو بھی ہوا بس بچ گیا عہدہ ترا
تجھ پر قلم پھیرا نہیں باقی کسی کو گھیرا نہیں
کیسے بچا سمدھی ترا بیٹی تری بیٹا ترا
JIT بھی ڈھونڈ لے قبر پہ جاکر پوچھ لے
باقی کسی کا کیا گناہ بس پھنس گیا باوا ترا
عامر بڑا ’’ممنون‘‘ ہے کیسا عجب قانون
مل بھی تری، ول بھی تری پھر بھی نہ اک پیسہ ترا
لوگوں کی راۓ