پوسٹ تلاش کریں

جمہوریت یا خلافت

جمہوریت یا خلافت اخبار: نوشتہ دیوار

جمہوریت یا خلافت
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
امریکیCIAہیروئن کی ا سمگلراورIMFسودکا دونمبرہے۔پاکستان اورافغا.نستان کو بلیک میل کرکے لڑائے گا اوربیش بہا خزانوں پر قبضہ کریگا؟
خلافت بیعت کے ذریعے جمہوریت ووٹ کے ذریعے آسکتی ہے۔خلیفہ ایک ہی ہوسکتا ہے اور جمہوری اقتدار مختلف لوگوں کے ذریعے مختلف ممالک اورصوبے میں ہوسکتا ہے!

پاکستان و افغا.نستان کے خزانوں سے لوگوں کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ پوری دنیا میں اس خطے کی قوم بہت عظیم ہے ۔ سندھی، بلوچ،پنجابی، پشتون، افغانی اور کشمیری دنیا کی امامت کے قابل لوگ ہیں۔ پشتونوں کی غیرت بہت مثالی ہے اور پشتون قوم میں بہت قبائل ہیں۔ محسود قوم نے بہت ہی تکالیف اُٹھائے ہیں۔ جنوبی وزیرستان میں محسود اور وزیر دونوں قبائل اپنی الگ الگ روایات اور اقدار کے حامل ہیں۔تحریک طا.لبان پاکستان میں بیت اللہ محسود سے مفتی نور ولی محسود تک طا.لبان لیڈر شپ کا نمایاں کردارتھا۔ اگرچہ نیک محمد وزیرسے مولوی نذیر یا موجودہ قیادت کا بھی نمایاں حصہ تھا۔ محسود طا.لبان نے ہمیشہ پاک فوج سے بھی ٹکرلی ہے اور وزیر طا.لبان کے تعلقات پاک فوج سے اچھے رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے جنوبی وزیرستان کے وزیر ایریا میں کبھی آپریشن کیلئے نقل مکانی کرنے کی ضرورت نہیں رہی ہے۔ محسود قوم نے طا.لبان اور پاک فوج دونوں کے ہاتھوں تاریخی مار کھائی ہے۔ بے عزتی برداشت کی ہے۔ تکالیف اٹھائی ہیں لیکن جنگ نے ان کو خالص سونا اور کندن بنادیا ہے۔حکومت نے بارہا پیش کش کی ہے کہ تم اسلحہ اُٹھاؤ اور اپنی حفاظت کرو مگرمحسود قوم نے اجتماعی طور پر اس کو مسترد کیاہے۔ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہمیں بھلے ماردیا جائے لیکن ہم اپنے علاقے اور قوم کی فضاء میں جنگ کا ماحول نہیں بنائیں گے۔ اگر پاکستان اور افغا.نستان نے محسود قوم کی عظیم فطرت اوروسیع تجربات سے کچھ سیکھ لیا تو بیرونی قوتیں ہمیںلڑانے میں کامیاب نہیں ہوسکتی ہیں۔ نبی کریم ۖ نے ہجرت کرلی لیکن اپنی قوم سے مکہ میں لڑائی کی فضاء نہیں بنائی۔ حالانکہ امیر حمزہ، عمرفاروق اعظم، علی، ابوبکر اور ابوطالب ایک سے ایک بہادر طاقتور شخصیت وبنوہاشم کی قوت تھی۔

محسود قوم نے اپنے وسیع تجربے اور بہت نقصانات اٹھانے کے بعد فطرت کے تقاضوں سے جو کچھ سیکھا ہے وہ عرب کے ابتدائی مسلمانوں نے اللہ کی وحی اور پیغمبر اسلام ۖ کی حکمت سے شروع میں حاصل کرلیا تھا۔ اگر اسلام کی وجہ سے ابتدائی سالوں میں اہل مکہ آپس میں لڑمر کر کھپ جاتے تو پھر اسلام کا چراغ پوری دنیا کی سپر طاقتوں کو شکست سے دوچار کرنے کی صلاحیت نہیں رکھ سکتا تھا۔ جب حضرت بلال اسلام کی وجہ سے مصائب جھیل رہے تھے۔ حضرت سمیہ کو دواونٹوں سے باندھ کر مشرکینِ مکہ نے دو ٹکڑے کردئیے تھے ۔ صحابہ مشکلات کی وجہ سے پہلے بھی حبشہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ وہاں بھی دشمن نے پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔ حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس پہنچ کر شکایت کردی تھی۔ جب رسول اللہ ۖ کا اجتماعی سوشل بائیکاٹ کرکے شعب ابی طالب میں تین سالوں تک مسلمان سخت ترین مشکلات کا شکار بنائے گئے۔جب رسول اللہ ۖ کو ابوجہل نے برا بھلا کہا تو امیرحمزہ نے اس وقت اسلام قبول نہیں کیا تھا لیکن وہ سیدھا کعبے پہنچے اور ابوجہل کو کمان مار کر کہا کہ ” اے چوتڑ پر خوشبو لگانے والے! میدان میں آجاؤ، میں نے اسلام قبول کیا ہے اور دیکھتا ہوں کہ تمہارے اندر کیا ہمت ہے کہ اسلام قبول کرنے پر کسی کو کچھ بول سکو!”۔ یہ کاروائی کرکے نبیۖ کو بتایا تو آپۖ نے فرمایا کہ مجھے اس پر کوئی خوشی نہیں ہے۔ مجھے اس وقت خوشی ہوگی کہ جب تم اسلام قبول کرلو۔ پھر امیر حمزہ نے اسلام قبول کرلیا۔ دوسری طرف ابوجہل سے ساتھ والوں نے کہا کہ ” امیر حمزہ نے اتنی غلیظ گالی بکی اور تم نے جواب تک نہیں دیا”۔ ابوجہل (جو ابولحکم کہلاتا تھا) نے کہا کہ ” اس وقت وہ اسلام کی وجہ سے نہیں آیا تھا بلکہ میں نے اس کے بھتیجے کی سخت بے عزتی کی تھی وہ اپنے بھتیجے محمد(ۖ) کا بدلہ لینے آیا تھا، اگر میں بحث وتکرار میں لگتا تو پھر یہ لڑائی عقیدے کی نہیں قبائل کے درمیان بن جاتی اور محمد مضبوط ہوجاتا”۔

مشرکینِ مکہ دشمن تھے لیکن اہل مدینہ اور اعرابیوں کی طرح ان میں منافقت نہیں تھی۔ نبیۖ نے ان کیساتھ صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا۔ بنوبکر مشرکینِ مکہ کا حلیف قبیلہ تھااور بنوخزاع مسلمانوں کا حلیف قبیلہ تھا، بنوخزاع مسلمان نہیں تھا۔ معاہدے میں یہ طے تھا کہ حلیف قبائل کے درمیان جنگ ہوگی توان کی مدد نہیں کریںگے لیکن پھر مشرکینِ مکہ کے بعض لوگوں نے بنوخزاع کے خلاف بنو بکر کی مدد کی تھی،جس پر ان کو یہ توقع نہ تھی کہ مسلمان کا.فر حلیف قبیلے کی وجہ سے معاہدہ توڑ دیں گے۔ نبی ۖ نے کا.فر قبیلے بنوخزاع کیساتھ زیادتی پر بھی معاہدہ توڑ دیا تو مشرکین مکہ کے سردارابوسفیان نے مدینہ جاکر معاہدے کو قائم رکھنے کی بڑی منت سماجت کی۔ ابوبکر، عمر ، علی اور فاطمہسے بھی سفارش کی درخواست کی لیکن نبیۖ نے بات نہ مانی ۔ یہ بنوخزاع کا.فر کے حق کی خلاف ورزی کا معاملہ تھا۔

مضبوط اور اچھے اقدار معاشرے کے ماضی ،حال اور مستقبل کی عکاس ہوتی ہیں۔ نبیۖ کی بعثت سے پہلے اہل مکہ نے حلف الفضول میں غریبوں اور مظلوموں کی مدد کا معاہدہ کیا تھا اسلئے کہ جب حالات بگڑتے جا رہے تھے تو ان میں اپنے ماضی کے اقدار کو باقی رکھنے کا زبردست احساس پیدا ہوا تھا۔ جب اسلام کی شکل میں نئے دین نے کعبہ سے بھرے ہوئے بتوں کے خلاف آواز بلند کی تو مشرکینِ مکہ کو انتہائی ناگوار لگاتھا لیکن مضبوط اقدار کی وجہ سے مسلمانوں پر ایک دَم ہلہ بول دینے کی ہمت نہیں کرسکتے تھے۔ نبیۖ سے سخت نفرت ہوگئی تھی ۔اللہ نے فرمایا: قل لااسئلکم علیہ اجرًا الا مودة فی القربیٰ ”کہہ دیجئے! میں تم سے اپنے مشن کا معاوضہ نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت”۔یہ قرابتداری،ایک قوم، ایک زبان، ایک شہر اور آپس کی رشتہ داریوں کی محبت کے بارے میں تلقین تھی کہ اور کچھ نہیں مانگتا لیکن اس فطری محبت کا خیال رکھ لو۔ اگر مشرکینِ مکہ میں کچھ شرپسند عناصر نہ ہوتے تو نبیۖ مکہ سے ہجرت نہ کرتے۔ ان شرپسندوں اور دہشت گردوں نے نبیۖ کی ذات کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کرلی تھی۔ ہجرت کی رات جب علی نے نبیۖ کے بستر پر رات گزاری تو نبیۖ کو پتہ تھا کہ علی سے ان کی کوئی غرض نہیں ہے۔ جب فاروق اعظم نے ان بزدلوں کو چیلنج کیا کہ میں اعلانیہ ہجرت کررہاہوں، ہے کوئی جو اپنے بچوں کو یتیم اور بیگم کو بیوہ بنائے؟۔ ابوجہل جیسوں کے دروازوں تک پر دستک دی تھی۔

قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ وماقدروا اللہ حق قدرہ ” اورا نہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسے اس کی قدر کا حق تھا”۔ بنی اسرائیل پر بیشمار نعمتیں اللہ کی طرف سے کی گئیں لیکن وہ ان نعمتوں کی قدر نہیں کرسکے۔ انبیاء کرام کی بعثت سے فرعونوں کے ظلم سے بچایا۔ معاشرے میں امن وامان کی نعمت سب سے بڑی دولت ہے۔ مشرکینِ مکہ میں جب اپنی فطری اقدار کا توازن بگڑ گیا تو سب سے پہلے حلف الفضول کے ذریعے ان کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ پھر نبیۖ کے ذریعے پہلے آزمائش کا شکار کیا اور پھر خوف کے بعد امن کا تحفہ دے دیا تھا۔ اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ظلم کی حکومت میں اللہ نے حضرت ابراہیم اور حضرت موسٰی کے ذریعے نمرود اور فرعون کا مقابلہ کیا۔اور حضرت یوسف کے ذریعے مصر کے بادشاہ اور عزیز مصر کی اصلاح فرمائی۔رسول اللہۖ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہے اور قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔

ہماری ریاست پہلے بھی امریکہ کی بادل ناخواستہ حمایت اور دہشتگردی کے ماحول کا سامنا کرچکی ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے پرویزمشرف کی طرف سےIMFسے جان چھڑانے کے بعد پھر اس دلدل میں خود کو آہستہ آہستہ پھنسادیا۔ پرویزمشرف نے6ارب ڈالر کا سودی قرضہ لیا تھا۔ زرداری نے16ارب ڈالر تک پہنچادیا۔ نوازشریف نے چین کے سی پیک کی مد میں اتنا پیسہ لیا تھا کہ اگر وہ چاہتا توIMFکا قرضہ مزید بڑھنے نہیں دیتا لیکن چھوٹے میاں تو چھوٹے میاں بڑے میاں سبحان اللہ شہبازشریف اور میاں نوازشریف نے پنجاب حکومت اور پاکستان کی مرکزی حکومت کو سودی قرضوں میں غرق کردیا۔IMFکے قرضے کو بھی30ارب ڈالرتک پہنچایا۔ عمران خان نے کہا تھا کہ مرجاؤنگامگرIMFسے قرضہ نہیں لوں گا۔ پھر موت کے کنویں میںموٹر سائیکل پر چکر لگاکر ساڑھے تین سالوں میں قرضہ48ارب ڈالر تک پہنچادیا۔ اتنی بڑی دلدل میں پھنسنے کے بعدیہ کہنا کہ ”ہمیں غلامی قبول نہیں ہے” اس سے بڑی حماقت کیا ہوسکتی ہے؟۔
امریکہ نے افغا.نستان اُسامہ کی تلاش میں تباہ کیا تھا، پھر عراق پر جھوٹے الزامات لگاکر حملہ کیا اور عراق کی مقامی عدالت کے مقامی جج سے صدام حسین کو پھانسی کے پھندے پر چڑھا دیا۔ لیبیا پر بھی اٹیک کیا اور عراق ولیبیا کا تیل لوٹ کر لے گیا۔ خیبر پختونخواہ کی زمین میں بہت ذخائر ہیں۔ اگر پختونخواہ ہی میں ایسے مل لگ جائیں کہ چین خام مال منتقل نہیں کرنا پڑے تو پورا پاکستان اس کے ذریعے خوشحال ہوسکتا ہے اور خیبر پختونخواہ بھی جنت کی نظیر بن سکتا ہے۔ مولوی اور فوجی طبقہ جتنی زیادہ مشقت بھی اٹھاتا ہے لیکن ان کی قربانیاں ان کی کم عقلی اور مفاد پرستی کی وجہ سے ہی رائیگاں جاتی ہیں۔

افغا.نستان کے طا.لبان اور پاکستان کے حکمران مشترکہ طور پر ایک خلیفہ کی بیعت اور نامزدگی کا اعلان کردیں جو کھلے عام خلافت کا فریضہ اور شریعت کے نفاذ کیلئے لوگوں میں تبلیغ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس سے معاشرے کی فضاء اسلامی حوالے سے بہت بہتر ہوجائے گی۔ اگر امریکہ ڈرون سے اس کو نشانہ بھی بنالے تو مسئلہ نہیں دوسرا نامزد کردیں۔ اس طرح بیس افراد کی قربانی ہوجائے تو اکیسواں فرد خلافت کے قیام اور فریضے میں کامیاب بھی ہوسکتا ہے۔ بیعت کیلئے بہت لوگ بھی تیار ہوجائیں گے۔ جب میدان جنگ میں سپہ سالار جھنڈے بھی گرنے نہیں دیتے تھے تو مسلمان خلیفہ کی نامزدگی کے فریضے کیلئے قربانی کیوں نہ دیںگے؟۔ خلیفہ اعلان کرے کہ ہم مکی دور میں ہیں، ہم نے مزاحمت نہیں کرنی ہے توامریکہ کتنے ڈرون مار کر کتنوں کو شہادت کے منصب پر سرفراز کرے گا؟۔
شہادت ہے مطلوب ومقصود مؤمن
اقتدار کی خرمستیاں اور نہ کشورکشائی

پاک فوج کے اعلیٰ افسران شہید ہوگئے لیکن قوم کو کچھ نہیں ہوا۔ غم میں برابر کی شرکت ضروری تھی،اگر مریم نواز کو حادثہ پیش آتا تو قوم میں بھونچال پیدا کیا جاتا؟۔ بینظیر بھٹو کی شہادت پر سندھ کھپے کا نعرہ لگانا واقعی بہت ضروری تھا۔ ہم تو کرایہ کے بھاڑے سے اب لیڈر شپ پیدا کرنے اور ختم کرنے کے چکر میں ہی رہتے ہیں، پنجاب میں میت پر بین بجانے کیلئے کرائے کی عورتیں دستیاب ہوا کرتی تھیں اور اب ہماری بعض سیاسی پارٹیوں نے بھاڑے کے صحافیوں کو کردار سونپ دیا ہے۔ بدمعاشی اور زبردستی مسلط ہونے کے جذبات الگ ہیں۔

خلیفہ کی بیعت کے بعد خلیفہ قوم میں حقیقی جمہوری اقدار کیلئے راستہ ہموار کرے۔ کوئی بھی مسجد کا امام یا کوئی اچھے لوگ اپنی بیٹھک سے ابتداء کریں اور کسی کے ہاتھ پر بیعت کریں کہ ہم جھوٹ نہیں بولیںگے۔ اقتدار کیلئے اپناعہدہ طلب نہیں کریںگے۔ طاقت اور مال کمانے کے چکر میں اس بیعت سے نہیں پھریںگے۔ کسی پر بہتان نہیں باندھیں گے۔ گالیاں نہیں دیں گے۔ حرام خوری نہیں کریںگے۔ اچھائی پر تعاون اور برائی سے عدم تعاون کے پابند ہوں گے۔ اسی کی باتوں پر بیعت لینے کے بعد کثرت رائے اور ووٹ سے کسی کو امیر مقرر کریں گے۔ پھر یہ سلسلہ یونین کونسل، ڈسٹرکٹ کونسل ، صوبائی اور قومی اسمبلی کی حدوں تک بڑھائیں اور عوام کے اندر سے قیادتوں کو ابھار کر مضبوط بنائیںگے تو حقیقی جمہوریت کا راستہ بھی ہموار ہوجائے گا اور اقتدار کے مروجہ طریقے پر بھی کوئی اثر نہیں آئے گا لیکن عوام کی حقیقی رائے سے نہ صرف اصل قیادت سامنے آئے گی بلکہ لیڈر شپ کی غلط وکالت اور اخلاق باختہ رویوں کا بھی خاتمہ ہوگا۔

آسمان سے اصلاح کیلئے فرشتہ نہیں آئے گا۔ قوم کے اچھے لوگوں نے ہی اس سیلاب کا راستہ روکنا ہے جسکے عوام وخواص ، غریب وامیر اور کمزوروطاقتور سبھی شکار ہورہے ہیں۔ ورنہCIAاورIMFخطے کو جنگ وجدل کا میدان پھر سے بنادیں گے اور اس مرتبہ پنجاب اور سندھ کے علاوہ ریاست اور حکمرانوں کا بھی پتہ صاف ہوجائے گا۔ حضرت یوسف نے انتہائی حکمت عملی کیساتھ مصر کی حکومت کو قحط سالی اور غریبوں کو ظلم سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ آج ہم ریاست اور امریکہ سے لڑے بغیر اس خطے کو معاشی مشکلات سے نکال لیں تو یہ بڑی کامیابی ہوگی۔ محسود جیسی عظیم قوم پوری دنیا میں کہیں بھی آج نہیں ہے اسکے اقدار کو طا.لبان اور ہماری ریاست نے تباہ کردیا لیکن اس میں ان کی اپنی غلطیوں کا بھی بڑا عمل دخل تھا۔ ان غلطیوں کو نہ دوہرانے کا عزم ہی انقلاب اور ہمارے معاشرے کی اصلاح کیلئے عظمت کی بہترین بنیادیں فراہم کرتا ہے۔

ایک طرف خلیفہ کی بیعت اور دوسری طرف دنیا کے جمہوری نظام سے وابستگی اور جمہوری طریقے سے اقتدار کا قیام امت مسلمہ کے ممکنہ مفادات میں سب سے بڑا مفاد نظر آتا ہے۔ شرعی خلیفہ کی تقرری کے بعد دہشت .گردی کی بنیاد پر انقلاب کا راستہ نہیں اپنایا جائے گااور جمہوریت سے مطلق العنان بادشاہت کا تصور ختم ہوگا۔ خلافت عثمانیہ بھی خاندانی لیڈر شپ تھی اور اس کے زیر سایہ مغلیہ سلطنت بھی خونی ڈکٹیٹر شپ تھی۔ اورنگزیب بادشاہ نے اپنے بھائیوں کو قتل اور باپ کو قید کیا اور فتاویٰ عالمگیری میں یہ دستور لکھوادیا تھاکہ ”بادشاہ پر قتل، چوری ، زنا وغیرہ کی حد نہیں لگے گی”۔جبری حکومتیں خلافت کیلئے مقدمہ ہیں ۔ خلافت راشدہ کے بعد امارت وبادشاہت کے ادوار تھے۔ جبابرہ عربی میں ہڈی جوڑنے کی پٹی کو کہتے ہیں۔ جمہوریت اور جبری حکومتوں میں بھی عدالت کے ذریعہ انصاف نہیں ملتا ہے لیکن مرہم پٹی کردی جاتی ہے۔ احادیث میں جبری حکومتوں کے آخر میں ایک خلیفہ کو جابر کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور یہ اس کا لقب بھی ہوسکتا ہے اور اس لقب کی وجہ جبری طرز عمل کی جگہ مرہم پٹی کے کام والا لگتا ہے۔ جس کے بعد دوسرے کئی ناموں کا ذکر ہے۔ عربی میں ایک سوشل میڈیا کا چینل اسلام ایچ ڈی (ISLAM HD)کے نام سے ہے اس میں مہدی آخری امیر سے قبل کئی خلفاء اور ادوار اور درمیان میں مختلف فتنوں کا ذکر ہے۔

آخر میں محسود قوم کیلئے وزیرستان کی پشتو زبان میں کچھ اشعار ہدیہ ہیں۔
اوال خالقے ویل چے ماسید قوم ڈیر لابا غڑائی دائی
ویس ویائی چے نن ماسید قوم ڈیر بے غڑائی دائی
پہ ژواندی کشے دائی ژوان دائی او پہ مڑکشے دائی مڑائی دائی
پارین پہ دنیا کشے لاکا غاٹ مانگور او نن دائی پڑائی دائی
ڈیر ہشیور دی دے غیرت نہ ڈاک یونیم سرغنڑائی دائی
شہ خلق او عالمون یے مڑہ کڑل چہ بے غیریاتا چھنڑائی دائی
1: پہلے لوگ کہتے تھے کہ محسود قوم بہت جلد باز اور ایمرجنسی والی ہے۔
2: اب لوگ کہتے ہیں کہ محسود قوم کے اعصاب بہت ڈھیلے ہوگئے ہیں۔
3: زندوں میں اب یہ زندہ ہیں اور مردوں میں اب یہ مرے ہوئے ہیں۔
4: کل دنیا میں ان کی حیثیت بڑے سانپ کی اور آج یہ رسی بنے ہیں۔
5: بہت ہوشیار ہیں اور غیرت سے بھرپور لیکن ایک آدھ بے ننگ ہے۔
6: اچھے لوگوں کو اور علماء کو قتل کردیا یہ کیسے بے غیرت طا.لبان ہیں۔
امریکہ نے ایک نمبر القا.عدہ اور دو نمبر القا.عدہ ، گڈ طا.لبان اور بیڈ طا.لبان کے درمیان اپنی پالیسیاں چلائیں۔ پاکستان میں سرنڈر طا.لبان اور باغی طا.لبان کا بڑا کردار رہا۔ جب لوگوں کو دبانے کیلئے سرنڈر طا.لبان نے بھی اپنا کردار ادا کیا تو باغی طا.لبان کا ان پر کتنا خوف ہوگا؟۔ مٹہ سوات میں بھی طا.لبان کی رٹ قائم ہونے کی خبریں ہیں اوراب وزیرستان میں بھی مہمان طا.لبان کو ٹھہرانے کی اجازت ملنے کی اطلاعات ہیں۔طا.لبان کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جنہوںنے بہت خلوص کے ساتھ امریکہ کے خلاف جہا.د کرکے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اور دوسرے وہ لوگ ہیں جنہوں نے طا.لبان کے لبادے میں جرائم پیشہ عناصر کا بڑا کردار ادا کیا ہے۔ عوام کو دونوں کے درمیان فرق و امتیاز کا کوئی پتہ نہیں ۔ اسلئے بہتر ہے کہ اچھے اور باکردار طا.لبان اپنے سے بیکار اور بدکردار طا.لبان کو الگ کردیں۔ جب خشک لکڑیوں کو آگ لگتی ہے تو گیلے درخت بھی اس کے ساتھ جل جاتے ہیں۔ موت تک اللہ تعالیٰ توبہ کا دروازہ بند نہیں کرتا۔ جو لوگ مظالم کے مرتکب رہ چکے ہیں وہ خود ہی اپنے جرموں کی سزا کیلئے قوم و ملک کے سامنے خود کو پیش کریں۔ پاکستانی قوم اور پاکستانی ریاست ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے جدا اور الگ تھلگ نہیں ہیں۔ جب اسلامی احکام کی اصلاحات قوم و ملک کے سامنے پیش ہوں گی تو نہ صرف پاکستان کی ریاست بلکہ پوری دنیا کے تمام ممالک اس کا استقبال کریں گے۔ شیطانی قوتوں کی سب سے بڑی چاہت یہ تھی کہ اس خطے میں رہنے والی تمام قوموں کو اس حال پر پہنچایا جائے کہ کسی میں سر اٹھاکر جینے کی ہمت نہ ہو اور اس کیلئے سب سے زیادہ جانے یا انجانے میں طا.لبان دہشت گرد استعمال ہوئے ہیں۔ آج لوگوں کو ان سے کئی طرح کی نفرتیں ہیں لیکن اچھے کردار سے یہ محبت میں تبدیل ہوسکتی ہیں۔

 

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟