ڈونلڈ ٹرمپ حقیقی امریکی لیکن دجالی کردار بالکل واضح
دسمبر 1, 2018
امریکہ نے ہر دور میں منافقت، چالبازی، ڈکٹیٹر شپ ، دوغلہ پن اور دجال کا کردار ادا کیا۔ اسرائیل کو اپنا ازلی دشمن سمجھنے والے عرب اور پاکستان نے بھی اسرائیل کے سرپرست بلکہ گماشتہ امریکہ کو سرپرست بنایا۔ جہادِ افغان کے وقت سوشلسٹ شعراء ، ادیب ، دانشور، اور سیاستدان اسرائیل کیخلاف جہاد کا روتے روتے ذکر کرکے مرگئے لیکن کسی نے ان کی نہیں سنی۔ امریکی صدر اور جرنیلوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بہادری کا مظاہرہ کرنیوالا گلبدین حکمتیار نے حکمتِ عملی کو تبدیل کرکے شاید پھر افغانستان میں بہادری کے جوہر دکھائے مگر وہ کل بھی امریکہ کیساتھ تھا اور آج بھی ہے۔ اب سوشلسٹ لیڈر حبیب جالب، فیض وغیرہ بھی آج کے ہیرو بن گئے ، جوکل کے زیرو تھے اورآج گلبدین زیرو ہے۔
امریکہ نے بار بار ایران وسعودیہ کو ڈبونے اور بچانے کا ڈرامہ رچاکر مقاصد حاصل کئے، پاکستان کیساتھ یہی کرتا ہے، منافقت کا ہار گلے میں ڈالنے کی دہائی دیتا ہے پھر ہمارے خلوص، وفاداری، بہادری کا جواب سن کرچپکے سے مسکراکر اطمینان کی سانس لیتا ہے کہ ابھی تک وفا برقرار ہے۔ کوئی یہ جسارت نہیں کرتا کہ ہم پر الزام لگاتے ہو، افغانستان میں حامد کرزئی امریکہ کو دہشتگردی کامنبع کہتا ہے اوراسامہ بن لادن کا پتہ نہیں کہ دوشیزہ کا لباس پہن کرٹیرن سیتا وائٹ کیساتھ امریکی ہوٹلوں میں گھوم رہا ہواور اسرائیلی طیارے میں یہاں ملکر بھی گیا ہو۔
یہ نہیں کہ فوج میں کوئی دانشور نہیں، سب زید حامد ہیں۔ فیض بھی فوجی تھامگر عسکری طبع دانشمندی کے تقاضے سے عاری ہے اسلئے سیاسی قیادت انکے ہاتھوں میں نہیں دی جاتی اوریہی حال صوفیوں کا ہے اسلئے خضر کو ویرانے کی عادت تھی۔ صحابہؓ کے صوفی ابوذر غفاریؓ تھے۔ ابوذرؓ نے نبیﷺ سے عرض کیا کہ مجھے حاکم بنادیجئے۔ نبیﷺ نے فرمایا: ’’ جو اقتدار مانگے اسے ہم نہیں دیتے‘‘۔ حالانکہ حضرت یوسف ؑ جیسی اہلیت والے کو آپﷺ اقتدار دیتے۔ ابوذر غفاریؓ نے ویرانے میں ہی آخری زندگی گزار دی۔ خالد بن ولیدؓ بہترین سپاہ سالار تھے لیکن حضرت عمرؓ نے ان کو عہدے سے اس انداز میں برطرف کیا کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ خالد بن ولیدؓ جمعہ کے دن خطبہ کیلئے منبر پر چڑھ گئے تو حضرت عمرؓ کے نمائندے نے طے شدہ پروگرام کے تحت اٹھ کر پوچھا کہ شاعر کو آپ نے انعام جیب یا حکومت کے فنڈز سے دیا؟، دونوں صورتوں میں آپ برطرف ہیں۔ اگر حکومت کا فنڈز استعمال کیا تو تم کون ہودینے والے؟ اگر جیب سے دیا تو فضول خرچی کی بنیاد پر اس قابل نہیں ہو کہ مزید اقتدار کی کرسی پر بیٹھ سکو۔ خالد بن ولیدؓ نے بلا چوں چرا حکم کی تعمیل کی، منبر سے اترکر عام سپاہی بنکے لڑنے کوترجیح دی۔ ہماری فوج کا یہ شعار تھا کہ جونئیر کو آرمی چیف بنایا جاتا تو سینئر استعفیٰ دیتا۔ پہلی مرتبہ ایک جنرل نے سینئر ہونے کے باوجودجوائنٹ چیف کا عہدہ اسلئے قبول نہ کیا کہ خالد بن ولیدؓ کی روایت کو دھراناتھا بلکہ انکے دو بھائی بڑے فوجی افسر تھے ہمارا نظام منافقانہ ہے۔ بری، بحری اور فضائیہ کے مشترکہ چیف کو ہی طاقت کامنبع ہونا چاہیے تھامگر ہمارے ہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا نظام ہے۔ وزیراعظم کی بجائے صدرکی طاقت زیادہ ہونی چاہیے تھی مگر اس قوم کااپنا کوئی دماغ نہیں، انقلابی اقدام کیلئے آرمی چیف کی جگہ جوائنٹ چیف اور وزیراعظم کی جگہ صدر کے اختیارات میں اضافہ کرنا ہوگا۔ وزیراعظم ایک وزیر اور صدراصل امیر ہوتاہے۔
سوشل میڈیا پر خبر ہے کہ سینیٹر علامہ ساجد میرنے کہا کہ جنرل جاوید قمر باجوہ قادیانی ہے تو علامہ زاہدالراشدی نے کہا کہ آرمی چیف ہمارا پڑوسی ہے ۔ پورا خاندان قادیانی نہیں، یہ جھوٹا پروپیگنڈہ ہے ۔ پھر تحریک لبیک کے رہنما پیر افضل قادری نے علامہ خادم حسین رضوی کی موجودگی میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو کافر کہا تو اوریا مقبول جان نے کہا کہ میرے پڑوسی پیر افضل قادری نے غلط بہتان لگایا، میں قیامت کے دن گواہی نہ دینے کے جرم سے بچنے کیلئے حقیقت بتارہا ہوں۔ جب جنرل باجوہ کیلئے آرمی چیف کا کوئی چانس نہ تھا تب کراچی کے پروفیسر نے خواب دیکھا کہ حضور ﷺ نے جنرل باجوہ کو ایک تحفہ دیا،یہ تحفہ جنرل باجوہ بائیں ہاتھ سے لینا چاہ رہا تھا مگرمیں نے کہا کہ بائیں نہیں دائیں ہاتھ سے لو۔ پھر وہ شخص جنرل باجوہ کے پاس آیا توشکل سے پہچان لیا۔ جنرل باجوہ کو اس کی تعبیر یہ بتادی کہ آرمی چیف بنوگے۔ انکا جواب تھا کہ یہ ممکن نہیں، مجھ سے کافی سینئر ہیں، جنکا اثر رسوخ اور صلاحیت بھی زیادہ ہے لیکن پھر اس خواب کی تعبیر پوری ہوگئی۔
یہ خواب سچا ہوتو اللہ کرے کہ جنرل باجوہ بائیں ہاتھ سے جو تحفہ لے رہا تھا وہ اب دائیں ہاتھ سے لے۔ طالبان کے مقابلے میں صوفی ازم کے حامیوں علامہ خادم حسین رضوی اوربشریٰ مانیکا کے چیلے عمران خان کو پاکپتن کے مزار پر یوٹرن کی عظیم تقریب کے بعد وزیراعظم کی کرسی پر براجمان کرنے کی حرکت تحفہ بائیں ہاتھ سے لینے کے مترادف تھا۔ساجد میر کے قائد نوازشریف نے جنرل باجوہ کو اسی لئے آرمی چیف بنایا ہوگا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نوید مختار اسکے رشتہ دار تھے اور آئی ایس آئی ذرائع نے بتایا ہوگا کہ جنرل باجوہ پرقادیانی کا داغ تھا ۔ پہلے فوج پر قادیانیوں کا اثر ورسوخ تھا اور جو قادیانی نہ تھے تو بھی خود کو احمدی بنا کر نااہل ہونے کے باجود بھرتی ہوتے ۔ اللہ کرے کہ جنرل باجوہ سیدھے ہاتھ سے فرقہ واریت ، ملک دشمنوں اور نااہل سیاستدانوں کو سہارا دینے کے بجائے خاتمہ کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ساجد میر کو بتاناچاہیے کہ نوازشریف نے جنرل باجوہ کو خوش کرنے کیلئے ہی ختم نبوت کیخلاف حرکت کی تھی جوبہت مہنگی پڑ گئی۔
داؤد علیہ السلام کے دور میں اوریا مجاہد تھا جسکی بیگم بادشاہ داؤد ؑ لیتے توبھی وہ حق کی آواز نہ اٹھاتا مگر اللہ نے ’’میرے پاس ایک دنبی ہے اور اسکے پاس 99 دنبیاں ہیں‘‘ کی بات سے وہ بچالی، ورنہ مجاہد وفاداری کا ثبوت دیتا تو اوریا جیسے بیوروکریٹ تائید کرتے۔ حق کی گواہی پرجن مشکلات کاسامنا ہوتاہے انکا اوریا مقبول جان نے کبھی خواب تک بھی نہ دیکھا۔ایسے خواب تو بریلوی دیوبندی اور قادیانی بھی دیکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں؟۔ گیارہویں خلیفہ کا دعویدار خواب سے پھر کیوں پکڑا؟۔ یوسف رضاگیلانی اور سلمان تاثیر کے بیٹوں کے علاوہ کتنے اغوا ہوکر افغانستان پہنچے مگر اس کو لسانی تعصبات کا نام دینا درست نہیں۔ منظور پشتین کا دادا بھی کشمیر کا مجاہد تھا اور کشمیرکے ایک مجاہد سے قیادت کرنیوالے پیر آف وانا نے اپنی مقبوضہ بیوی چھین لی تھی۔ نہیں پتہ کہ وہ منظور پشتین کے دادا تھے یا اس کا کوئی اور ہم قبیلہ۔ فوج، پیر وں اور مجاہدین کو تثلیث سے نکل کر حقائق کی طرف آنا ہوگا۔ جس دن علماء نے اپنا کردار درست کیا تو سب کچھ درست ہوجائیگا ورنہ کھلاڑی اور شکاری بھیس بدل بدل کرآئیں گے ۔عوام کو بے روزگار، بے گھر کیاجارہاہے ۔پانی کیلئے ترسایا جارہاہے جسکا حل ضروری ہے۔اسلام تمام قسم کے معاشی ، معاشرتی اور سیاسی مسائل کا حل ہے۔ اسلام کے خول میں رہ کر اپنے بنیادی مسائل حل کرنے ہونگے اور پاکستان کے خول میں رہ کر ملکی و بین الاقوامی مسائل کے حل کیلئے سرکاری اور سماجی سطح پر عمدگی سے چلنا ہوگا۔ سیدعتیق گیلانی
لوگوں کی راۓ