Dr Tahir-ul-Qadri called the Taliban Kharijites but when he came to Pakistan hoping for the success of his movement, he declared the Taliban as his brother. - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

Dr Tahir-ul-Qadri called the Taliban Kharijites but when he came to Pakistan hoping for the success of his movement, he declared the Taliban as his brother.

Dr Tahir-ul-Qadri called the Taliban Kharijites but when he came to Pakistan hoping for the success of his movement, he declared the Taliban as his brother. اخبار: نوشتہ دیوار

افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مصالحت ہونی چاہیے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے طالبان کو خوارج قرار دیا لیکن جب اپنی تحریک کی کامیابی کی امید پر پاکستان آئے تو طالبان کو اپنا بھائی قرار دے دیا۔

طالبان کی امارت اسلامیہ اور افغانستان کی جمہوری حکومت اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ میں پاکستان، پوری دنیا کے مسلمانوں اور افغانیوں کو مصالحت کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ رہی یہ بات کہ کون حق پر ہے کون حق پر نہیں؟ توکسی تیسرے فریق کی طرف سے یہ کہنا نہیں بنتا ہے ۔جو یہ ڈھول بجاتا ہے کہ ایک حق پر ہے اور دوسرا باطل ہے تو وہ لڑائی کو جواز بخشنے ، قتل وغارت گری کو بڑھاوا دینے اور افغانی مسلمان بھائیوں کی تباہی وبربادی کا باعث بنتا ہے۔ صحابہ کرام کی آپس میں لڑائیاں ہوئی ہیں۔ حضرت موسی علیہ السلام نے اپنے نبی بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو داڑھی اور سر کے بالوں سے پکڑا تھا۔اب موقع پر موجود کوئی صلح صفائی کروانے کے بجائے ایک کو غلط قرار دیتا اور حضرت ہارون بھی بدلے میں ہاتھا پائی شروع کرتے تو لڑائی طول پکڑلیتی۔ بات مزید آگے نکل جاتی۔ دنیا یہ سمجھ رہی ہے کہ امریکہ نے افغان طالبان کو جان بوجھ کر افغان حکومت کے خلاف لڑنے کیلئے چھوڑ دیا ہے اور یہ ہو سکتا ہے اور نہیں بھی ہوسکتا ۔ ہمارا بنیادی مقصد یہ ہے کہ افغان مسلمان بھائیوں کی خیرخواہی ہوجائے۔ اگر اشرف غنی حکومت یا افغان طالبان میں سے کسی ایک کیساتھ سوفیصد ہمدردی اور دوسرے کیساتھ ایک فیصد بھی اتفاق نہ ہو تو اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جن سے اتفاق نہیں ہے انکے قتل وغارت پر دل کوخوش ہونا چاہیے۔ اسلام اور انسانیت دونوں کا یہ تقاضہ ہے کہ کسی طرح قتل وغارت گری رک جائے۔
جب امریکہ نے جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرائے تھے تو ساری دنیا نے اس پر مذمت کے الفاظ ادا کئے ہوں یا نہیں لیکن دل سے بہت برا تصور کیا ہوگا۔ دنیا میں اکثر انسان چڑھتے سورج کے پجاری ہوتے ہیں اور جہاں یہ دیکھتے ہیں کہ وہ غالب اور خوشحال ہیں تو اس کی غلطیوں کو بھی نظر انداز کردیتے ہیں۔ہاں دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ امریکہ چاہتا تو ایک جاپانی کو بھی زندہ نہ چھوڑتا۔ جب کسی پیغمبر علیہ السلام کو غصہ آگیا تو فرمایا کہ ” کسی بھی کافر کوزمین کے دیار میں زندہ نہ چھوڑنا”۔ رسول اللہۖ نے طائف والوں کی طرف سے انتہائی برا سلوک کے باوجود بھی فرشتوں کو عذاب کی اجازت نہیں دی۔ ہدایت کی دعا فرمائی ۔فرمایاکہ اگر ان کے مقدر میں ہدایت نہیں تو ان کی تقدیر بدل کر ہدایت عطا فرمااور اگر تجھے قطعی طور پر ان کو ہدایت دینامنظور نہیں ہے تو ان کی اولاد میں ہدایت والے آسکتے ہیں اسلئے مجھے اذیت پہنچانے والوں کی تباہی کا عذاب نہیں چاہتا۔
جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کردیا توصرف افغانی نہیں پاکستانی اور دنیا بھر کے لوگوں کی ہمدردیاں افغان طالبان کیساتھ تھیں۔ البتہ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ شمالی اتحاد والے اور مزار شریف کے ہزارہ شیعہ ہی طالبان کی مخالفت کی وجہ سے امریکہ کے حامی بن گئے۔ سقوطِ طالبان کے بعد پاکستان کی تمام قومیتیں، سیاسی جماعتیں، مذہبی تنظیمیں اور کیمونسٹ قوتیں سبھی مظلوم طالبان کے حامی اور امریکہ کے خلاف تھیں۔ البتہ بعض لوگ مسلکی بنیاد پر طالبان کی مخالفت اسلئے کررہے تھے کہ وہ بریلوی مکتبہ فکریا شیعہ برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ 2004 میں جیوٹی وی چینل پر انیق احمد کی میزبانی میں ایک پروگرام میں ڈاکٹر اسرار احمد، ایک اہل تشیع اور ایک بریلوی علامہ آصف گیلانی اور مجھے دیوبندکے نمائندے کی حیثیت سے مدعو کیا گیا۔ پروگرام میں سیدآصف گیلانی نے اپنے خرقہ اور امریکہ تک کینسر کے علاج پر بات کی تو میں نے کہا کہ ایک دم کی پھونک امریکہ کو تباہ کرنے کیلئے بھی ماردو۔ پروگرام کے خاتمے کے بعد چائے کیلئے بیٹھ گئے تو علامہ آصف گیلانی نے کہا کہ طالبان امریکہ سے بھی زیادہ بدتر اور ہمارے دشمن ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے طالبان کو خوارج قرار دیامگر جب اپنی تحریک کی کامیابی کی امید پر پاکستان آئے تو طالبان کو اپنا بھائی قرار دے دیا اسکی پارٹی کے رہنما خرم نواز گنڈہ پور (فوجی ریٹائرڈ) نے مجھ سے اس تضاد بیانی پر کہا کہ” طالبان میں شیطان بھی ہیں اور فرشتہ صفت بھی ہیں”۔
متحدہ مجلس عمل کی حکومت طالبان کو سپورٹ کرنے کی وجہ سے آئی تھی۔ جب سارے پختون طالبان کے سپوٹر تھے تو پاکستان کی فوج امریکہ کی وجہ سے سب کو تو نہیں مار سکتے تھے اور جب سب کی ہمدردیاں طالبان کیساتھ تھیں تو پاک فوج بھی کوئی ایسے جنگلی جانور نہیںکہ جن کے جذبات عام لوگوں سے مختلف ہوں۔ جب امریکہ القاعدہ کے پیچھے آیا تھا تو طالبان سے اس کی دشمنی صرف اسلئے تھی کہ اسامہ بن لادن کو کیوں پناہ دی ہے۔ اسامہ بن لادن کو طالبان زمینی راستے سے چیچنیا بھیجنے کیلئے بھی آمادہ تھے لیکن جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کردیا تو طالبان نے حکومت چھوڑ دی اور وزیرستان سے مولانا معراج الدین شہید نے جس لشکر کی قیادت کی تھی اس کو بھی واپس کردیا۔ صوفی محمد لشکر لیکر گیا تو بہت دیر ہوگئی تھی اور جب وہ پاکستان واپس آیا تو حکومت نے گرفتار کرلیا۔ جس طرح یہ ایک حقیقت ہے کہ پاک فوج طالبان کی حمایت کی وجہ سے سارے پختونوں کو نہیں مارسکتی تھی،اسی طرح امریکہ بھی سب افغان طالبان کو مارنا مناسب نہیں سمجھتا تھا۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ بڑے پیمانے پر انسانوں کی تباہی وبربادی کا حامی کوئی انسان کا بچہ نہیں ہوسکتا ہے۔ اگر اسرائیل چاہے تو ایک دن میں ہی فلسطینیوں کو ٹھکانے لگاسکتا ہے لیکن بڑے پیمانے پر انسانی تباہی کا حامی انسان کا کوئی بچہ نہیں ہوسکتا ہے۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ دو لڑنے والے فریق کے درمیان کسی ایک طرف زیادہ ہمدردی کا جذبہ ہو اور دوسری طرف کم لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ دونوں میں سے کسی ایک کی مکمل تباہی وبربادی پر کوئی بھی خوش ہوجائے۔
پہلے جب افغان طالبان نے جہادی ٹولوں سے جنگ کرکے افغانستان میں حکومت قائم کردی تھی اور پھر اپنی سمجھ کے مطابق اسلامی احکام نافذ کئے تھے تو وہ وقت مختلف تھا۔ افغان عوام ان جہادی گروپوں سے تنگ تھے مگر افغانستان میں ووٹ کے ذریعے حکومت تبدیل کرنے کا طریقہ کار اچھا لگا ہے اور طالبان نے پہلے جسطرح کا اسلام نافذ کیا تھا تو طالبان بھی بہت بدل چکے ہیں۔ یہ پتہ چلا ہے کہ جہاں طالبان نے فتح حاصل کرلی تو ایک شخص کے سوا سب کو نہ صرف معاف کردیا بلکہ 30،30ہزار دیکر ملازم فوجیوں سے کہا ہے بقیہ صفحہ 2نمبر1
بقیہ ……….افغان طالبان اور افغان حکومت
کہ” اپنے بچوں کیلئے روزی ر وٹی کما”۔ طالبان کے اس روئیے سے ان کے مخالفین کے دلوں میں بھی ان کیلئے جگہ پیدا ہوگی۔ جب قرآن کے نظام کیلئے وحی کا نزول ہورہاتھا تو اللہ تعالی نے غزوہ بدر کے قیدیوں کو معاف کرنے اور غزوہ احد کی شکست کا دشمنوں سے سخت ترین بدلہ لینے پر ڈانٹ پلائی اور رہنمائی فرمائی۔ اللہ نے پھر وہ بھی دکھادیا کہ ابوجہل کا بیٹا عکرمہ ،قریشِ مکہ کا بڑاسردار ابوسفیان اور بہت سے دشمن فوج در فوج اسلام میں داخل ہوگئے ۔ اگر کوئی گروہ یہ سمجھتا ہے کہ نبیۖ اور صحابہ کرام کی مشاورت کے باوجود قرآن میں غزوہ بدر کے روئیے اور مشاورت کے بعد فیصلے پر سخت تنبیہ اور ڈانٹ کیساتھ وحی نازل ہوئی تھی لیکن ہم تنقید اور اصلاح سے بالکل بالاتر ہیں تو یہ خام خیالی کے علاوہ کسی بھی اسلام کے دعویدار مسلمان کیلئے بہت بدترین قسم کی گمراہی بھی ہے۔
افغان طالبان کو شاید بعض لوگ بہت منصوبہ بندی کیساتھ کچلنے کا پروگرام بناچکے ہیں۔ بگرام ائیربیس کے علاوہ امریکہ کی یہی چاہت ہوسکتی ہے کہ افغان آپس میں لڑتے اور مرتے رہیں۔ یہ خواہش چین ، روس ، ایران اور پاکستان کی بعض مافیاز کی بھی ہوسکتی ہے ۔اسلئے کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارے لئے درد سر بن سکتے ہیں تو ان کی چاہت ہوگی کہ طالبان کا بخار افغانستان ہی میں نکل جائے اور بعض لوگ صرف مذہب اور جمہوریت کی بنیاد پر افغانیوں کو سپورٹ کرتے ہیں لیکن ان کی اس سپورٹ سے قتل وغارتگری کی آگ کو مزید بھڑکایا جارہاہے۔ ہماری خواہش ہے کہ بڑے پیمانے پر کسی طرح بھی قتل وغارتگری کا ما حول نہیں ہونا چاہیے۔ وقت کیساتھ ساتھ ماحول اور مقف میں بڑی تبدیلیاں آتی ہیں۔
قرآن میں اللہ نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے اور اس پر نبیۖ نے عمل کرکے دکھایا تھا۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی سے زیادہ کسی نے نبیۖ کو اذیت نہیں دی لیکن وہ نبیۖ کے ہاتھوں دفن ہوا تھا۔ اور جنازہ بھی پڑھ لیا تھا۔ اللہ نے نبیۖ سے فرمایا کہ ایسے کا جنازہ نہ پڑھیں اور ان کیلئے استغفار نہ کریں اور اگر70مرتبہ بھی استغفار کریں تو اللہ نے اس کو معاف نہیں کرنا ہے اور اس کی قبر پر بھی کھڑے ہوکر دعا نہ کریں۔ ہمارے ہاں بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ نماز جنازہ دعا ہے اور اس کے بعد قبر پر دعا بدعت ہے۔ حالانکہ قرآن میں عبداللہ بن ابی کی قبر پر دعا سے منع کیا گیا ہے تو دوسروں کو جن توحید پرست علما نے بدعتی قرار دیا ہے وہ بالکل غلط ہے۔ انسے کہا جاسکتا ہے کہ رئیس المنافقین کی قبر پر دعا سے منع کیا گیا ہے ، اپنوں کو اس زمرے میں نہ ڈالو۔
نبیۖ کے دور میں مکہ مکرمہ صلح حدیبیہ کے ذریعے فتح ہوا تھا۔ افغانستان کے مسلمان کافر، مرتد ، مشرک اور اسلام دشمن نہیں ہیں۔ طالبان جنگ بندی اور افغان حکومت صلح کا اعلان کریں۔ افہام وتفہیم کی فضا بنائیں۔ قرآن میں ہے کہ ”صلح خیر ہے”۔ ہر معاملے میں صلح کے اندر خیر ہی خیر ہے۔ جب افغانیوں میں دشمنی کے بجائے دوستی کا ماحول قائم ہوجائے اور ایک دوسرے سے بالکل آزادانہ اور بھائی چارے کی بنیاد پر میل ملاپ کا آغاز ہوجائے تو اسکے اثرات پورے خطے پر بہت اچھے انداز میں پڑیں گے۔ نوازشریف کا چیلہ راشدمراد بھی RMtvلندن سے کھریاں کھریاں کے عنوان سے اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ جس نوازشریف کا گوشت، پوست، ناخن ،بال، ہڈیاں یہاں تک کہ گودا بھی اسٹیبلشمنٹ کے کارخانوں کی مارکیٹ میں بناہے ،اس کی اور فوج کے بیچ میں جس قسم کا بغض وعناد ہے ،اس کی ہلکی سی جھلک راشد مراد کی کھریاں میں دیکھ سکتے ہیں۔ افغانستان سے زیادہ پاکستانیوں کی حالت خراب ہے لیکن یہاں زبانی جمع خرچ کی لڑائی ہے اور وہاں بندوق سے خون بہایا جارہا ہے۔
افغان طالبان نے پہلے مرحلے میں دیسی ملاں کا دیسی اسلام رائج کیا تھا اور اب اپنے زیرکنٹرول علاقے میں اسلام کی نشا ثانیہ والا اسلام نافذ کرکے بھی دیکھ لیں۔ افغان حکومت ہی نہیں پاکستان ، ایران سمیت پوری دنیا بھی ان کے قدموں میں گرجائے گی۔ مولانا فضل الرحمن نے جس طرح دجال کا لشکر کہا تھا وہ اسی سے بڑھ کر خراسان کے مہدی کا لشکر قرار دینے میں دیر نہیں لگائے گا۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟