Drum of Mehsud nation of Waziristan and pool of Maulana Fazlur Rehman in Saleem Safi’s program, Maulana Fazlur Rehman admitted that Maulana had signed permission for drone strikes on tribes under Pervez Musharraf.
اگست 7, 2021
وزیرستان کی محسود قوم کا ڈھول اور مولانا فضل الرحمن کا پول
سلیم صافی کے پروگرام میں مولانا فضل الرحمن نے اعتراف کیا کہ پرویزمشرف دور میں قبائل پر ڈرون حملوں کی اجازت پر مولانا نے دستخط کئے ۔
دی پٹھان (The Pathan Book)نامی انگریزی کتاب میں ہے کہ” وزیرستان ایسا علاقہ ہے جہاں کسی نے بھی صحیح معنوں میں حکومت نہیں کی ”۔ اقتدار میں لوگ محکوم بنتے ہیں، حکمران ٹیکس وصول کرتے ہیں ، نمائندوں کے ذریعے حکمرانی کرتے ہیں اور لوگوں کو اپنی مرضی کا پابند بنایا جاتا ہے لیکن تاریخ میں ایسا کوئی حکمران نہیں آیا جس نے وزیرستان میں ایسے احکام نافذ کئے ہوں جو حاکم اور محکوم کے لوازمات ہیں۔ بیش بہا مراعات کے بدلے آزاد منش کسی علاقہ کی عوام کو کچھ معاہدوں کا پابند بنانا حکومت قائم کرنے کا تصور نہیں ہوتا ہے۔ وزیرستان کے سرکاری ملکان کو عوام جاسوس کہتے تھے۔ سرکار ی نمائندوں کی کوئی عوامی اوقات نہیں تھی۔
جب میں نے کانیگرم وزیرستان سے خلافت کے آغاز کیلئے ڈیرہ ڈال دیا تو ماموں چیف آف کانیگرم نے میرے بھائی سے کہا کہ (40FCR)کے تحت جیل بھیجتے ہیںتاکہ عوام ڈھول کی تھاپ پر چڑھائی نہ کردیں۔ محسود قوم ڈھول اٹھالے توبڑے بڑوں کی ہمت ختم ہوجاتی ہے ۔ رسول اللہۖ کی بعثت سے قبل اہل مکہ نے ”حلف الفضول” کا معاہدہ کیا ۔اس میں ظالم کیخلاف مظلوم کی مدد اہم بات تھی۔ نبیۖ نے آخری خطبہ میں بھی فرمایا کہ ”مجھے سرخ اونٹوں سے عزیز حلف الفضول ہے”۔ اگرچہ معاہدے پر عمل نہ ہوسکا۔ورنہ تو نبیۖ کے حامی خاندان کو شعب ابی طالب کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور نہ نبیۖ اور مسلمانوں کو مکہ چھوڑ کر ہجرت کرنی پڑتی۔ عرب اسلام سے پہلے کسی کے محکوم تھے نہ وہاں کوئی باقاعدہ آئین تھا۔ وزیرستان کی محسود قوم کا یہ بڑا کمال تھا کہ حکمران کا تصور نہیں تھا لیکن ایک دستور کے وہ بالکل پابند تھے اور وہ دستور حلف الفضول کے عہدنامہ کی طرح عظیم الشان روایات واقدار کی شکل میں تھا۔باہمی مشورہ کے بعد فیصلہ ہوتاتھا تو اس پر عمل درآمد ڈھول کی تھاپ پر کرایا جاتا تھا۔
محسود قوم کا دنیا میں ایک بالکل منفرد کردار تھا۔ سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ آزادانہ مشاورت کے بعد فیصلہ ہوتا تھا اور ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد ہوتی تھی اور یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی خلفا راشیدین تھے لیکن مشاورت کی وہ روح وہاں بھی ناپید تھی جو وزیرستان کی مقدس سرزمین پر وحی کی رہنمائی نہ ہونے کے باوجود موجود تھی۔اسی لئے خلفاء راشدین کے ادوار میں فسادات ہوئے لیکن محسود اجتماعی فتنوں سے محفوظ تھے۔
پاکستان (1947) میں بن گیا لیکن اب تک( 1973) کے آئین پر عمل در آمد نہ کرنے کا رونا رویا جاتا ہے۔ محکمہ تعلیم پنجاب کے افسر ڈاکٹر نعیم باجوہ نے غلطی سے ن لیگ کے (MNA)پرویز خان کوبورڈ کے امتحان میں اپنی جگہ دوسرے بندے کو بٹھانے پر پکڑلیا تو نوازشریف کے بدمعاش بھانجے عابد شیر علی نے میڈیا کی اسکرین پر اس بیچارے کو ایسا ذلیل کیا تھا کہ الحفیظ الامان ۔
اگر مولانا فضل الرحمن اور ن لیگ سمیت (PDM)کا اتفاق ہے کہ آئندہ فوج کو سرحداور بیرکوں میں بھیجنا ہے تو خوش آئند ہے لیکن عوام پر واضح کیا جائے کہ پارلیمنٹ میں نوازشریف کے لندن فلیٹ کاتحریری بیان اور قطری خط کیا تھا؟ اگر نوازشریف نے اپنا درست بیانیہ ثابت کیا تو محسود قوم ڈھول کی تھاپ پرمخالف کے خلاف راست قدم اٹھائے ۔یہ وہی قوم ہے جس نے آزادکشمیر فتح کیاتھا۔ اگر نوازشریف درست وضاحت نہ کرسکے تو محسود قوم ڈھول کی تھاپ پر رائیونڈ کے محل کو مسمار کرنے پہنچے۔ یہاںزیادتیاں کرنے والوں نے تماشہ لگا رکھا ہے۔
مولانا فضل الرحمن کرائے کے مکان میں تھا اوراب لائن سے بنگلے اور بڑی جائیدادیں ہیں۔اللہ تعالی موصوف کے اقبال میں مزید اضافہ کرے۔ مفتی محمود کے چھپر اور ٹین کے دروازے پر دھوکہ کھانے کی طرح معاملہ ٹھیک نہ تھا۔جب حرام خوری کا معاملہ آتا ہے تو اس بھیڑ میں بہت ہیں،اگر مولانا شامل ہوجائے تو مضائقہ نہیں لیکن عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا بہت بری بات ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو اصولی سیاست اور جمہوریت کیلئے فوج کی مخالفت کا بڑا کریڈٹ جاتا ہے۔ کچھ معاملات کی نشاندی اور وضاحت کرنا انتہائی ضروری ہے۔
حامد میر نے پوچھا کہ مولانافضل الرحمن نے جنرل مشرف سے مراعات لی ہیں؟۔ مولانا راشد سومرو نے مولانا کیلئے ایمان کی قسم کھائی ۔ انصار عباسی نے کہا کہ جنرل مشرف نے (GHQ)سے مولانا فضل الرحمن کو ساتھیوں کے نام پر اتنی اتنی زمینیں الاٹ کی ہیں۔ جسکے دستاویزی ثبوت ہیں۔ اگرانصار عباسی نے غلط بیانی کی ہو تو وزیرستان کے محسود جمعیت علما اسلام کے( MNA)مولانا جمال الدین محسود اور (MPA )مولانا عصام الدین قریشی کی قیادت میں ڈھول کی تھاپ پر انصار عباسی کا گھر گرانے کیلئے پہنچ جائیں اوراگر انصار عباسی کی بات درست ہو تو پھر مولانا فضل الرحمن سے پوچھ لیں کہ کونسی خدمات کے عوض یہ زمین (GHQ )نے دی ؟۔ یہ کونسی ڈرامہ بازی ہے کہ ایک طرف قوم کو جمہوریت کی بالادستی اور فوج کے خلاف بھڑکایا جاتا ہے اور دوسری طرف ناجائز مراعات بھی لی جائیں؟۔ سلیم صافی کے پروگرام میں مولانا فضل الرحمن نے اعتراف کیا کہ پرویزمشرف دور میں قبائل پر ڈرون حملوں کی اجازت پر مولانا نے دستخط کئے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلئے (GHQ)نے زمین الاٹ کی تھی؟۔
وزیرستان کے سینٹر دوست محمد محسودکا رونا کسی کام کا نہیں کہ” کاش میں فلسطینی یا کشمیری ہوتا تو میرے لئے کوئی دو آنسو بہاتا۔ پنجاب میں آئل چوری کرنے پر ڈھائی سو افراد مرتے ہیں تو ان کو چالیس چالیس لاکھ معاوضہ مل جاتا ہے جبکہ ہم تباہ وبرباد ہوگئے اور ہمارا کوئی پرسان حال نہیں ”۔ (PTM)کے نعروںمیں گلہ تھا کہ ”یہ کیسی آزادی ہے کہ ہمارے گھراجڑ رہے ہیں، ہمارے جوان قتل ہورہے ہیں”۔یہ محسود قوم کی خلعتِ افغانیت کے اعلی اقدار کے منافی ہے۔
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی یابندہ صحرائی یا مردِ کوہستانی
جو فقر ہوا تلخی دوران کا گلہ مند اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی
نام رہ گیا ہے ابھی وزیری ومحسود یہ خلعتِ افغانیت سے ہیں عاری
احادیث صحیحہ اور امام بوحنیفہ کے نزدیک زمین کو مزارعت ، ٹھیکہ اور کرائے پر دینا سود اور حرام ہے ۔ مولانا فضل الرحمن الاٹ کی گئی زمین وزیرستان کے غریب متاثرین کو دیں تاکہ اسلام کی نشا ثانیہ کا آغاز ہو۔ اگر محسود قوم مولانا فضل الرحمن سے پوچھ لے کہ پارلیمنٹ میں تمہارے نمائندوںکو اسلئے بھیجاہے کہ ہماری تباہی وبربادی پر تم مراعات لو، زمینیں نام کرا، صوبائی حکومت لو؟۔ احتجاج سے حکومتیں ہل جاتی ہیں لیکن احتجاج کرنا محکوم قوم کا کام ہے۔جب دنیا میں طالبان مظلوم تھے تو محسود قوم نے امریکہ کو شکست یا فتح کرنے کے چکر میں ساتھ دیا لیکن اب تو طالبان امریکہ سے صلح کرچکے ہیں۔ محسود قوم آخری حد تک تذلیل کی پاتال میں پہنچادی گئی اور یہ اپنے اعمالنامے کا نتیجہ تھا۔ چھڑی بڑی طالبان اور انتہائی سخت گیر جاہل و مفاد پرست فوج نے انکا کباڑہ کرکے رکھ دیا۔ محسود قوم پر طالبان نے حکومت کی اوراب آدابِ محکومی سکھائے جارہے ہیں۔ ڈھول کی تھاپ پرمولانا فضل الرحمن سے GHQکی زمین چھین لیں تو بیت المقدس کی فتح بھی یقینی بن سکتی ہے۔ پرامن انقلاب کیلئے محسود قوم کو اپنے اندراور باہر سے فساد کا خاتمہ کرنا ہوگا۔قومی مشاورت سے مجھے بھی طلب کریں تو میں خیرمقدم کروں گا۔ محسود قوم کی یہ سب سے بڑی خوبی تھی کہ آپس کی دشمنیوں کا بھی تیسرے فریق کے دائرے کار میں بدلہ نہیں اتار تے تھے بقیہ صفحہ2نمبر2 بقیہ ………محسود قوم کا ڈھول اور مولانا فضل الرحمن کا پول
مجھ سے یہ غلطی ہوگئی تھی کہ حاجی قریب خان کی پیشکش کو نہیں مانا کہ یہ علما کا کام ہے۔ علما نے بندکمرے کا حال نہیں بتایا۔ریکارڈنگ بھی نہیںکرنے دی تھی۔ اختلافات بڑا مسئلہ نہیں۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب ”منصبِ امامت ” میں لکھ دیا ہے کہ قرآن میں اللہ تعالی نے ملا اعلی کے فرشتوں کا ذکر کیا ہے کہ ایک گروہ ایک طرف کی حمایت کرتا ہے اور دوسرا گروہ دوسری طرف کی حمایت کرتا ہے۔ پاکستان بن رہاتھا تو جمعیت علما ہند اور جمعیت علما اسلام کے علما آپس میں ایک دوسرے کے خلاف کھڑے تھے اور دونوں طرف کے شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی اور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی متحدہ ہندوستان اور پاکستان کے مقف پر اپنے اپنے دلائل دے رہے تھے اور ایکدوسرے کو ہندں اور انگریزوں کا ایجنٹ قرار دے رہے تھے۔
جب مولانا فضل الرحمن پہلی مرتبہ ہمارے گھر تشریف لائے توجٹہ قلعہ علاقہ گومل کی تاریخ کا یہ پہلا سیاسی جلسہ تھا۔ مولانا قاضی فضل اللہ ایڈوکیٹ بھی اس میں شریک تھے۔ اس وقت افغانستان میں طالبان کی حکومت نہیں آئی تھی لیکن کلاچی کے قاضیوں نے پروپیگنڈہ کیا کہ مولانا فضل الرحمن نے نبوت کا دعوی اور مہدی کا دعوی کرنے والے کی صدارت میں جلسہ کیا ۔ عثمان دوتانی کا تعلق جمعیت س سے تھا ، اس نے بتایا کہ قاضی عبدالکریم اور قاضی عبد اللطیف سے میں نے کہا کہ جیل میں اس شخص کو میں جانتا ہوں، یہ سیاسی جماعتوں سے بالاتر ذہن رکھتا ہے۔ قاضی فضل اللہ سینٹر مولانا صالح شاہ قریشی ، مولانا نیاز محمد قریشی وغیرہ سے کہا تھا کہ اگر سید عتیق الرحمن گیلانی ہماری پارٹی میں شامل ہوجائے تو جمعیت میں بھی انقلاب آجائیگا۔ قاضی فضل اللہ کے کان میں ہمارے رشتہ دار مولانا سید آصف گیلانی نے کچھ کہا تھا تو مولانا فضل الرحمن سے قاضی فضل اللہ نے میرا تعارف پوچھا۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ”یہ ہم سے بڑا انقلابی ہے مگر تھوڑا جذباتی ہے”۔ ٹانک کے سب اکابر علما کرام ہماری تائید کرتے تھے اور پاکستان کی سطح پر بھی تمام مکاتبِ فکر کے علما کرام نے ہماری زبردست تائیدکی تھی۔
طالبا ن کی حکومت سے پہلے افغاستان میں قندھار کے لوگ قوم لوط کے عمل سے مشہور تھے۔ ہمارے ہاں بنوں، لکی مروت، گومل اور دوسرے پختونوں میں قوم لوط کا عمل مشہور تھا لیکن محسود اور وزیر میں یہ خطرناک بیماری نہیں تھی لیکن جب کنڈیکٹری اور طالب گردی کی زد میں یہ قومیں آگئیں تو اس بیماری نے بھی وزیرستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مولانا گل نواز محسود نے کہا تھا کہ طالبان کے بہت گروپ ہیں لیکن دو زیادہ مشہور ہیں ۔ایک اپنے لبوں کو لال کرتے ہیںاور دوسرے اپنے ہاتھوں کو مہندی لگاتے ہیں۔ آئی ایس آئی تو بہت اچھی ہے لیکن یہ دونوں گروپ قوم لوط کی بیماری میں بھی مفعولیت کا کردار ادا کررہے ہیں۔
جب انسان کی غیرت مرجاتی ہے تو اس سے کوئی بھی توقع رکھی جاسکتی ہے اور اس بات پر بہت خوشی ہے کہ گودام مسجد ٹانک کے امام مولانا قاری حسن شکوی شہید مجھ سے صرف محبت نہیں بلکہ عقیدت بھی رکھتے تھے۔ پہلے انہوں نے جب القاعدہ والوں کو اپنے پاس رکھا تو مجھ سے کہا کہ وہ فرشتے اور صحابہ کرام کی طرح لگتے ہیں لیکن جب میں نے عرض کیا کہ ازبکستان سے جہاد کی غرض سے آنے والے یہاں کیوں آگئے ہیں؟۔ مجھے لگتا ہے کہ امریکہ کی گہری سازش ہے اور یہ ان لوگوں کو بھی پتہ نہیں ہوگا۔ پھر انہوں نے تحفظات رکھنا شروع کردئیے تو ان کو شہید کردیا گیا۔ پھر ان کی شہادت کے بعد تعزیت پر گیا تو ایک وزیرصحافی کے چچا کہہ رہے تھے کہ ”وزیر تو پہلے سے بے غیرت ہیں لیکن مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ غیرتمندمحسود قوم کو کیا ہوا ہے ؟۔ پہلے تو یہ ماں اور بیوی کی گالی پر قتل کردیتے تھے اور اب کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ فلاں طالب نے یہ کیا مگر کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ پتہ نہیں ہے”۔ جن بے غیرت بدکرداروں نے محسود اور وزیرقوم کے اچھے لوگوں کو قتل کرنے میں دیر نہیں لگائی تھی وہ علتی ہیں۔ جب تک ماحول نہیں بدلے گا تو یہ بھی نہیں بدلیں گے لیکن محسود قوم کو اپنی پرانی یادیں تازہ کرکے بڑا زبردست کردار ادا کرنا ہوگا۔ مجھے اچھے کی توقع ہے باقی اللہ جانے کہ کیا ہوگا؟۔
لوگوں کی راۓ