احتجاجی قافلہ تربت، کوئٹہ ، بارکھان سے ڈیرہ غازیخان تک اسلام آباد کیلئے پر عزم - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

احتجاجی قافلہ تربت، کوئٹہ ، بارکھان سے ڈیرہ غازیخان تک اسلام آباد کیلئے پر عزم

احتجاجی قافلہ تربت، کوئٹہ ، بارکھان سے ڈیرہ غازیخان تک اسلام آباد کیلئے پر عزم اخبار: نوشتہ دیوار

احتجاجی قافلہ تربت، کوئٹہ ، بارکھان سے ڈیرہ غازیخان تک اسلام آباد کیلئے پر عزم

اگر ان ماؤں کو گرفتار کرنا ہے تو14سال سے لاپتہ بیٹوں کے پاس لے جائیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ1:تمام لاپتہ افراد کو رہا کیا جائے۔2:بلوچوں کو قتل نہ کیا جائے،3:بالاچ کے قاتلوں کو سزا دی جائے4:ڈیتھ اسکواڈ کو ختم کیا جائے5:نجی جیلوں کو ختم کیا جائے ۔ بارکھان خطاب میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ
GHQمیں گھسنے اور جناح ہاؤس لاہور کو جلانے پر گرفتاری کاردِ عمل کیا ہے؟۔ اور برسوں سے مسنگ پرسن پربلوچ قوم کس قدر مہذب انداز میں بغیر گالی گلوچ کے تحریک چلارہے ہیں۔ واہ بلوچ واہ بلوچ

ریاست ماں ہے۔ پاگل کتا کاٹے تو بھی ماںنہیں مارتی۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی نے کہا کہ ریاست ہماری سگی نہیں سوتیلی ماں ہے۔ ان کا بھائی سراج رئیسانی بم دھماکے میں200افراد کیساتھ شہید ہوگئے۔ اسٹیبلشمنٹ کا بندہ تھا۔ بڑے لوگوں کی قربانیاں بڑی ہوتی ہیں۔ نوابوں کا حوصلہ بڑا ہے۔ لشکری رئیسانی پاکستان کی ریاست کیلئے بڑا فکر مند رہتا ہے۔ بیشک اپنی بلوچ قوم کی لاشوں کیساتھ ان کا دل دھڑکتا ہے۔لاشوں کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
شہید کربلا امام حسین کیلئے صدیوں سے نوحہ جاری ہے ۔ بلوچ قوم پرستوں کے احتجاج ، دھرنے ، لانگ مارچ ، نوحہ خوانی ، ماتم اور مطالبات جاری ہیں۔ کسی مظلوم کا ساتھ دینا فرض ہے۔ دل دکھی انسانیت کیساتھ دھڑکتا ہے ۔ بلوچوں کے دکھ درد میں اپنی استطاعت کے مطابق ہمیشہ حصہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
اللہ وہ دن بہت جلد لائے کہ جب کوئی بھی دکھی نہ ہو اور ایک خوشحالی والا ایسا ماحول بن جائے کہ کوئی ماں بہن اور بیٹی دکھی نظر نہ آئے اور جو دکھ سہہ چکے ہیں وہ بھی اس کا بہترین نعم البدل اور غموں کو خوشیوں میں بدلنے کے دن دیکھ لیں۔ صرف بلوچ نہیں، پختون ، سندھی ، پنجابی ، مہاجر غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں بلکہ ہمارے حکومتی ادارے ، خان ، نواب سب غلام ہیں۔ آزادی میں انسانوں کیساتھ فارمی مرغیوں کی طرح سلوک روا نہیں رکھا جاتا ہے کہ خون سے ہر وقت زمین رنگین ہو۔ غلامی سے آزادی کا رونا کس نے نہیں رویا ہے؟۔ نوازشریف، عمران خان، مولانا فضل الرحمن، آصف زرداری، الطاف حسین، ولی خان، محمود خان اچکزئی اور سبھی مذہبی وسیاسی جماعتیں مگر بلوچ نے بندوق اٹھالی اور بندوق اٹھانا مشکل کام ہے۔76سالوں میں کسی نے آزادی کی خوشحالی نہیں دیکھی ہے اور نہ تو اس ملک میں عدل وانصاف کا نظام قائم ہوا ہے اور نہ ہی اسلام آیا ہے تو پھر وہ لوگ ضرور ناراض ہوں گے جو عدل وانصاف اور اسلام چاہتے ہیں۔
بلوچ ماؤں بہنوں کی طرح دوسری اقوام سے تعلق رکھنے والے مسنگ پرسن کا بھی یہی حال ہے۔ آمنہ مسعود جنجوعہ نے اپنے شوہر کی تلاش میں عمر گزاردی اور اب اس کی بیٹی عائشہ باپ کیلئے آواز اٹھارہی ہے۔ گم شدگی کا غم کبھی پرانا نہیں ہوتا۔ جب تحریک انصاف اورPDMدست وگریباں تھے تو ہم نے استدعا کی تھی کہ یہGTروڈ کی لڑائی لاہور اور اسلام آباد کے درمیان ہے۔ اس میں سندھ ، کراچی، بلوچستان ، پختونخواہ حصہ نہ لیں ۔ پھر چشم فلک نے دیکھا کہ بلوچستان و پختونخواہ میں کافی لوگ گولیوں سے مار دئیے گئے لیکنGHQمیں داخل اور جناح ہاؤس لاہورجلانے والوں کو خراش بھی نہیں آئی ۔ ہماری بات مان لی جاتی تو کوئٹہ ، پشاور ،باجوڑ کو جانی نقصان نہ اٹھانا پڑتا۔ البتہ یہ دیانتداری سے کہہ سکتے ہیں کہ جناح ہاؤس لاہور نذر آتش کردیا لیکن کسی کو جانی نقصان نہیں پہنچایا گیا بلکہ کسی کو خراش تک نہ آئی۔ اگر یہ پنجابیوں کی جگہ سندھی، پشتوں ، بلوچ اور مہاجر ہوتے تو کور کمانڈر کے گھروالے مشکل سے زندہ بچ پاتے۔ پختون مذہبی لوگ جنت کی لالچ میں خود کش حملہ کرتے تھے۔ بلوچ خواتین نے بھی خود کش کئے ۔ ریاستی اداروں کے اہلکار ظالم تو ظالم بزدل بھی ہیں۔ جب خواتین تک خود کش حملہ آوروں کا خوف بھی ہوتو اس کے نتیجے میں بے گناہ لوگوں کا قتل بالکل جائز نہیں بنتا ۔ بے گناہوں کے قاتلوں کو سزا ملے گی تو ریاست کے خلاف آگ ٹھنڈی ہوجائے گی۔ گناہگار کیلئے لوگ نہیں نکلتے ،بے گناہ کیلئے نکلتے ہیں۔ ذکری کا جنازہ پڑھنے سے کچھ ملاؤں نے روکنے کا اعلان کیا مگر اسکے باوجود بھی تربت کی تاریخ کا یہ بڑا اجتماع تھا۔ ذکریوں اور نمازیوں نے شرکت کی۔ ذکری جنازہ دعا ہے۔ رسول ۖ کا جنازہ کس نے پڑھایا؟۔ذکری عاشقان رسول ۖ ہیں اور دعا سے جنازہ کی سنت کو زندہ کیا۔ جنازہ اصل میں نماز نہیں دعا ہے۔نبیۖ کی دعا سے ابوطالب نچلے جہنم سے اُوپر آگئے(صحیح بخاری) نبیۖ نے فرمایا: ” کوئی نماز سورہ فاتحہ کے بغیر نہیں”۔عربی ڈاکٹر عبداللہ ناصح علوان کی عربی کتاب ”مسلمان نوجوان” کا ترجمہ ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید نے کیا جس میں لکھا کہ ”ایک جماعت کہتی ہے کہ ہم ابھی مکی دور میں ہیں ،مدنی مرحلہ میں حکومتی احکام اور جہاد کریںگے توان پر مکی نہیں مرتد ہونے کے مرحلے کا اطلاق ہوتا ہے”۔ ذکری نے نماز چھوڑ دی۔ مولوی نے سال سے ایک دن پہلے مال بیوی کو ہبہ کرکے زکوٰة چھوڑ دی ۔مفتی نے معاوضہ لیکر سود کو اسلامی قرار دیا۔ حاجی عثمان پر 35سال تبلیغی جماعت کی خدمت اور علماء ومفتیان کے مرشد ہوکر بھی نہ صرف بد عقیدہ واہل کفارکا فتویٰ لگاتھا بلکہ ان کے حلقہ ارادت والوں کے نکاح کا انجام بھی عمر بھر کی حرام کاری اور اولادالزنا قرار دیا گیا۔
نبی ۖ نے حبشہ کے عیسائی بادشاہ کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھایا تھا۔ بابائے جمہوریت غوث بخش بزنجو کا تعلق تربت سے تھا۔ کمیونسٹ کافر بنادیا گیا۔ فاطمہ جناح پر تہمت لگائی گئی ، حالانکہ قائداعظم کا خاندان آغا خانی مسلمان تھا۔ علامہ شبیراحمد عثمانی نے نماز جنازہ پڑھایا۔ حال میں پارسی مذہب کی معتبر شخصیت نے یہ جھوٹ قرار دیا کہ” پارسی مذہب میں بہن بھائی کی شادی جائز ہے”۔ اور تعجب کی بات ہے کہ پارسی نے کہا کہ” ہمارا پیغمبر تھا اور ہم اللہ کی پنج وقتہ نماز پڑھتے ہیں۔ مسلمان مغرب یا مشرق میں ہوتے ہیں تو قبلہ رو ہوتے ہیں۔ ہمارے مذہب میں قبلے کا رخ سورج کیساتھ ہوتا ہے۔ ہم پڑھے لکھے تھے اسلئے ہندو راجہ نے ہماری تبلیغ پر پابندی لگائی تھی۔ ہمارے مذہب کے تین بنیادی اصول:
1:اچھے نظریات پیش کرو۔
2:بھلائی کی فکر رکھو۔
3:بھلائی کے کام کرو”۔
قرآن نے اہل کتاب کیساتھ مشترکہ باتوں پر متحد ہونے کا حکم دیا ۔ جھوٹے پروپیگنڈوں نے ماحول بڑا آلودہ کررکھا ہے۔مذہب ، سیاست اور قوم پرستی کی بنیاد پر نفرتوں کا خاتمہ انصاف کا نظام لانے سے ہوگا۔ کراچی میں رینجرز اہلکار نے غلطی سے گولی چلنے کی وجہ سے ایک ڈکیٹ کو قتل کیا تھا تو اس کو سپریم کورٹ سے سزائے موت ہوئی۔ بالاچ مولانا بخش بلوچ شہید کے قاتلوں کو انصاف کی عدالت میں کھڑا کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔ لواحقین اور عوام الناس کا اس ریاست سے عدالتی انصاف مانگنا مثبت اقدام ہے ۔دوسرا راستہ خطرناک ہے۔ ایک انسان کا ناحق قتل تمام انسانیت کا قتل ہے ۔ اسلام آباد سے حق کا مطالبہ نہ صرف بلوچ بلکہ ریاست کیلئے بھی مثبت نتائج کا حامل ہے۔ ریاست ظلم کرے یا مولوی حلالہ کی لعنت کرے یا سود کو جائز قرار دے تو حقائق کو اجاگر کرنا بنتا ہے۔اکرم زہری نے کہا کہ ذکریوں کے پیشوا نے بلوچوں کو سست سمجھ کر نماز کی جگہ ذکر پر لگادیا یہ لوگ مہدی جونپوری کے پیروہیں جس کی مولانا آزاد نے تعریف کی ہے۔قائد اعظم کے مسلک آغاخانی کے ہاں جماعت خانہ ہوتا ہے ۔ وہ جماعت خانہ میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے اور مسجد میں تو آتے نہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟