ناکام عدالتی نظام کی وجہ سے طالبان اور شدت پسند: اشرف میمن
دسمبر 7, 2016
1916ء سے 2016ء تک لاہور ہائیکورٹ میں کیس کا فیصلہ نہ ہوسکا تو عدلیہ میں جرگہ سسٹم کیوں نہیں رکھا جاتا
پبلشر نوشتۂ دیوار اشرف میمن نے اپنے بیان میں کہا کہ پانامہ لیکس پر کیمرے کی آنکھ عدالت کے ججوں کو دیکھ رہی ہے۔ماضی بعیداور ماضی قریب میں عدالت عظمیٰ اور اسکے ججوں کا کردار ایک سیاہ باب ہے۔ ججوں نے عدالت کیساتھ اپنا منہ بھی کالا کیا ہے۔جسٹس ڈوگر کیخلاف شہبازشریف کی تقریروں کی گونج اب بھی لوگوں کے کانوں میں موجودہے۔یہ پاکستانی ریاست اسلام کے نام پر بنی ہے اور اس میں جرنیل، جج اور جرنلسٹ کی آزادی اور غیر جانبداری بہت ضروری ہے۔ جانبدارانہ کردار اپنے پیشہ ،ملک وقوم سے غداری ہے۔ اب زمانہ بدلاہے اگر عدالت عظمیٰ نے سوئس اکاونٹ کیخلاف خط نہ لکھنے پر ایک وزیراعظم کو ناہل قرار دیا اور دوسرے کو بچایاتو ڈوگرکا جو حشر کیا گیا تھا،وہی جسٹس جمالی کا بھی ہوگا، شہباز کی شوبازی سے زیادہ مؤثر انداز میں قوم پرست اور شدت پسند حبیب جالب کی شاعری سے عوام کے دل و دماغ گرمائیں توپھرملکی سلامتی خطرے میں پڑجائیگی، شاکر شجاآبادی کی شاعری کالجوں کے نصاب میں پڑھائی جاتی ہے، وہ کہتاہے کہ جن مساجدمیں اللہ کی عبادت اورمخلص نمازی ہیں وہ بیت اللہ ہیں اور جو ملاؤں کے کاروبار ہیں ان کو گرادو۔ اوپر انصاف کا جھنڈا ہے اور نیچے انصاف بکتا ہے، ایسی عدالتوں کو عملے کیساتھ اُڑادو‘‘۔ اگر عدلیہ بچوں کی طرح چھٹیوں پر نہ جائے تو …
عدالت میں قطری شہری کا جو خط پیش کیا گیا ، عدالت ،وکیل اور جج جانے نہ جانے لیکن دنیا جانتی ہے کہ معاملہ اب سیاہ وسفید کی طرح سامنے آگیاہے۔ عرب حکمران بادشاہ ہوتے ہیں یا شہزادے، ججوں کا نعیم بخاری پر قہقہ لگانا کسی وجہ سے ہوگا ۔ خوبصورت ہونا شہزادے یا شہزادی کی علامت ہواور بادشاہوں کا چوپٹ راج ہو تو بادشاہ عوام کی بیگمات بھی چھین لیتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ جلیل القدر نبی نے اپنی بیگم حضرت سارہؑ کو جھوٹ بول کر زوجہ کے بجائے اپنی ہمشیرہ قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے عزت بچائی اور خدمت کیلئے لونڈی حضرت حاجرہؓ بھی دیدی،جو حقیقت میں ایک شہزادی تھی۔ بادشاہ کے ظالمانہ دور میں یہ تمیز مشکل ہوتی ہے کہ شہزادی اور لونڈی میں فرق کیا ہے؟۔ نعیم بخاری خوبصورتی کو شہزادے کیلئے معیار سمجھتے ہیں تو ان کی سابقہ بیگم طاہرہ سید بڑی شہزادی ہوگی جو شاہِ وقت نوازشریف کے کرتوت سے چھن گئی تھی۔ ججوں نے شاید نعیم بخاری کے معصومانہ جواب پرتاریخی پیرائے میں قہقہ لگایا ہوگا؟۔ مظلوموں کی بے بسی پر توہینِ عدالت سے پیشگی معذرت کیساتھ ہنسنابھی منع نہیں۔ جنتی عیش میں شجرۂ ممنوعہ سے انسان نہیں رُکتا، حضرت داؤدؑ اورسلیمان ؑ انبیاء کو بادشاہت ملی ہے تو مجاہد اوریا کی خوبصورت بیگم کو بھی ہتھیالینے اور ملکہ سبا بلقیس کی ٹانگوں کے قصے بن گئے۔ اللہ نے تنبیہ فرمائی کہ ’’ایک بھائی کے پاس 99دنبیاں ہوں اور دوسرے کے پاس ایک ، اور وہ یہ بھی ہتھیالیناچاہے تو کیساہے؟‘‘ ۔
نوازشریف کی معصومیت حماقت ہے،اللہ کی ذات پاک ہے، معصومیت کی تشریح حقائق کے منافی ہوتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے شادی کی خواہش ظاہر کی اور پھر کہا کہ ’’میرے ازدواجی تعلقات خوشگوار ہیں‘‘۔ یعنی دوسری شادی کا جواز ناخوشگواری کے باعث ہے، حالانکہ انکے والد مفتی محمودؒ نے خوشگوار تعلق میں بھی دوسری شادی کی۔ اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ کے بعد رسول اللہﷺ سے فرمایا :’’ اب کوئی شادی آپ نہ کریں چاہے کوئی خاتون شادی کیلئے اچھی بھی لگے‘‘۔ شادی کی چاہت ، شادی کا کرنا معصومیت کیخلاف نہیں ۔ نوازشریف کی معصومیت پر وسیم بادامی کے بقول معصومانہ سوال ہے کہ ’’قطری شہری کا خط آپ کا وکیل اکرم شیخ عدالت میں لایا؟، اکرم شیخ کا یہ کہنا درست ہے قومی اسمبلی کی تحریری تقریر میں حوالہ بھول گئے ؟۔تو لیجئے آپ اپنے دام میں صیاد آگیا۔ قطری شہری کا خط گرفت کیلئے کافی ہے، سرمایہ کاری پریہ نہیں کہا جاتاکہ ’’مجھے آگاہ کیا گیا‘‘ بلکہ دستاویزی ثبوت پیش کیا جاتا ہے۔ دستاویزی ثبوت کی موجودگی میں یہ کہنا کہ’’ مجھے آگاہ کیا گیا ‘‘ کھلے الفاظ میں جھوٹ کا بہت بڑا پلندہ ہے ۔قطری خط بذاتِ خود ثبوت نہیں بلکہ تابوت ہے‘‘۔
وکلاء اور ججوں کے پاس تعلیم کی ڈگریاں ہونگی اور تعلیم کی ڈگری سے زیادہ کاروباری معاملہ کا لکھت پڑھت سے تعلق ہوتاہے۔ ایکزٹ کی طرح دنیا بھر میں جعلی اسناد بکتی ہیں بنوں میں علماء کی اسناد بکنے کا مسئلہ مشہورہے۔ قابلیت کا پتہ ڈگری کے بغیر بھی چلتاہے۔ ملک ریاض نے ڈگری کے حامل لوگوں کو ملازم رکھاہے۔ نوازشریف کا سب سے بڑا اعزاز محنت کرکے کمانا تھا۔ جب پکی پکائی تازہ روٹی قطری شہزادہ دیتا تھا تو پھرنوازشریف اور اسکے خاندان کا کیا کمال ہے؟۔ پھر کس بات پر حمزہ شہبازفخر کرتاہے کہ ’’میں ایک مزودر کا بیٹا ہوں‘‘۔ مزدوری سے اونچی اڑان ہوتی تو پاکستان میں بہت سے لوگوں کی حالت بدل جاتی۔ بعض لوگوں کی بدلی ہے مگر ا نکے پاس ثبوت بھی ہیں۔ وہ فوجی ڈکٹیٹروں کیساتھ مل کر حکومتوں کے ذریعے کرپشن نہیں کرتے رہے ہیں۔ کاروباری معاملہ ہو تو اللہ نے قرآن میں اس وقت بھی انصاف کی حامل تحریر کا حکم دیا تھا جب کاروباری معاملے میں عام بینکوں وغیرہ کا رواج بھی نہ تھا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ میاں شریف نے کسی دستاویزی ثبوت کے بغیر ہی اتنی بڑی کاروباری رقم قطری شہری کو دی ہو؟۔ دستاویزی ثبوت کی موجودگی میں یہ نہیں کہا جاتا ہے کہ مجھے آگاہ کیا گیا بلکہ دستاویزی معاملہ پیش کیا جاتاہے۔ ججوں نے اگر معاملہ الجھانا ہے تو وکالت کے پیشے کی مہارت کے ثبوت کیلئے ضروری ہے کہ جتنا ممکن ہو معاملہ الجھایا جائے اور کسی جج کی اہلیت کیلئے وکالت کا تجربہ ہی بڑی بنیاد ہوتاہے۔ وزیراعظم کی وکالت کرنی ہو تو حماقت بھرا خط مسترد کیا جائے کہ چور کا اپنے ہاتھوں کو خودہی کاٹنے کے مترداف ہے اور اسے حضرت یوسفؑ کے حسن میں ہاتھ کاٹنے والی خواتین کی معذوری قرار دیاجائے۔ عدالت پہلی فرصت میں خط ہی مسترد کردے اور وکیل دوبارہ اسکی تصدیق کیلئے مہریں ثبت کرکے نہ لائے۔ مخالف وکیل خط کے دلیل کا حوالہ دے تو اکرم شیخ کہہ دے کہ ’’غلطی سے یہ خط لایا گیا، وزیراعظم پارلیمنٹ میں بھولا نہ تھا بلکہ میرے مؤکل نے اس خط کو مسترد کیا ہے‘‘ اور اگر عمران خان کے وکلاء نے معاملہ جیتنا ہے تو خط کا قضیہ فیصلہ کن قرار دیں۔ جج شہزادے کی تشریح پرنہیں وکیل کی نااہلی پر قہقہے لگاتے ہونگے۔ ججوں کی چاہت ہوگی کہ قانون کی اندھیر نگری نے ہاتھ باندھے ہیں، قومی دولت کو مال غنیمت سمجھ کرلوٹنے والا عدالت کی گرفت میں آجائے ۔عدالت کا فیصلہ وزیراعظم کے حق میں یا خلاف ہو، دونوں صورت میں پاکستان شاندار مستقبل کی طرف پرواز کریگا، معصوم کوئی بھی نہیں لیکن وزیراعظم کے ہاتھ میں قوم کا مستقبل ہے، بے دریغ قرضوں سے عوام پر ٹیکس بڑھ گیاہے، ایک عام مزدور کی تنخواہ 10سے12ہزار کرنے پر بھی فخر کرنے میں شرم محسوس نہیں ہوتی۔ یہ لوگ اپنے بچوں کے اتنی رقم میں مہینے کے اخراجات پورے کرکے دکھائیں۔ علی احمد کرد کاکہنادرست ہے کہ وزیراعظم غریبوں سے ہی ہونا چاہیے،ملک کا 2فیصدامیر طبقہ 98% غریبوں کامسئلہ سمجھنے سے قاصرہے ۔کرپٹ حکمران کرپشن ہی کرسکتے ہیں
شاہ ولی اللہؒ نے نظام کو پلٹنے کی بات کی تھی، عدالت کے اس فیصلے سے نظام کا کایاہی پلٹ جائیگا۔
لوگوں کی راۓ