فلسطین واتحاد امت کاایک فقیدالمثال اسلام آباد کانفرنس؟ - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

فلسطین واتحاد امت کاایک فقیدالمثال اسلام آباد کانفرنس؟

فلسطین واتحاد امت کاایک فقیدالمثال اسلام آباد کانفرنس؟ اخبار: نوشتہ دیوار

فلسطین واتحاد امت کاایک فقیدالمثال اسلام آباد کانفرنس؟

اتحاد امت اجتماع نہیں بلکہ نظریاتی اتحاد سے ہوسکتا ہے ۔ ہم اپنی تاریخ سے سبق سیکھ کر توبہ کرینگے؟
جب تک خواتین کو لونڈیاں بنانے کی خواہش انگڑائی لے گی تو دنیا چوہے پر رحم کھاسکتی ہے لیکن ہم پر نہیں

علامہ زاہد الرشدی نے اسلام آباد علماء کانفرنس سے اپنے خطاب میں کہا کہ
1: قائداعظم محمد علی جناح رحمة علیہ نے فرمایا کہ اسرائیل برطانیہ کا ناجائز بچہ ہے۔ پاکستان کا سرکاری مؤقف یہ تھا کہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرنا ہے۔ کب سے یہ تبدیلی آئی ہے کہ اسرائیل وفلسطین کا دو ریاستی حل نکالا جائے؟۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کو بھی ایک مستقل ریاست تسلیم کیا جائے۔
2: عالمی طاقتوں کا کہنا ہے کہ فلسطین کے مسئلے کا حل دو ریاستی فارمولہ ہے۔ دو ریاستی فارمولے پر کب عالمی طاقتوں نے عمل کیاہے؟۔ یہ تو در حقیقت ڈیڑھ ریاستی حل پر عمل ہورہاہے ۔یہ منافقانہ پالیسی کیسے کب تک جاری رہے گی؟۔ کیونکہ فلسطین کو مکمل آزادی نہیں دی جارہی ہے بلکہ نیم آزادی دی گئی ہے۔
جمعیت علماء اسلام مفتی محمود پر ایک فتویٰ1970میں لگا تھا جس کی بنیاد یہ تھی کہ کمیونزم کیلئے نرم گوشہ رکھا جارہاہے اور ذوالفقار علی بھٹو کو کافر کیوں نہیں کہا جاتا ہے جو سوشلزم کا نعرہ لگارہاہے۔ پھر1977میں قومی اتحاد کے نام سے مفتی محمود صدر اور جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور جنرل سیکرٹری بن گئے۔ اس تبدیلی کے محرکات کیا تھے؟۔ جس میں بھٹو کو پھانسی پر چڑھادیا گیا تھا؟۔
پھر جمعیت علماء اسلام مولانا فضل الرحمن پر ایک فتویٰ1984میں لگا کہ وہMRDمیں شامل ہے جس میں پیپلزپارٹی ہے۔ پیپلزپارٹی کا منشور کفر ہے۔ علماء کے اس متفقہ فتوے کے روح رواں بھی علامہ زاہدالرشدی تھے۔ پھر اسلامی جمہور ی اتحاد نیشنل پیپلزپارٹی کے غلام مصطفی جتوئی کی صدارت میں بن گیا۔
پیپلزپارٹی کے منشور کی وجہ سےMRDمیں شمولیت پر مولانا فضل الرحمن کو کافر قرار دیا ،اسی منشور کے غلام مصطفی جتوئی اسلامی جمہوری اتحاد کے صدر بن گئے؟۔کیا یہ کھلا تضاد نہیں تھا؟۔ برطانیہ اور امریکہ نے پاکستان اور اسرائیل کو بنایا۔ پاکستان کو اسلام اور اسرائیل کو یہودیت کے نام پر اور پاکستان کے مخالف جمعیت علماء ہند اور مذہبی سیاسی طبقات تھے اور اسرائیل کے مخالف یہودی مذہبی طبقات ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح نے وزیر قانون ہندو، آرمی چیف انگریز اور وزیرخارجہ سرظفر اللہ قادیانی کو بنادیا تھا۔قائداعظم کا آدھا مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ آدھا پاکستان ٹوٹنے کے بعد باقی ماندہ پاکستان نے1973کا آئین بنایا۔1974میں مرزائیوں کو کافر قرار دیا گیا پھر نوازشریف کے دورِ حکومت میں( جس میں مولانا فضل الرحمن اتحادی تھے) مرزائیوں کے حق میں ترمیم پیش کی گئی۔ جو علامہ خادم حسین رضوی کے احتجاج کا کرشمہ تھا کہ واپس لی گئی اور وزیرقانون زاہد حامد کو استعفیٰ دینا پڑگیا تھا۔
اسلامی جمہوری اتحاد کے دور میں نواز شریف نے علامہ زاہدالراشدی کے ساتھی مولانا احمد علی لاہوری کے پوتے مولانا اجمل قادری کو اسرائیل بھیج دیا تھا اور بینظیر بھٹو نے نوازشریف کو اسرائیل کا ایجنٹ قرار دیا تھا۔ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے علماء ومفتیان کو پوچھنا ہوگا کہ شیعہ پر متفقہ کفر کا فتویٰ کیوں لگایا، پھر واپس کیوں لیا؟۔مفتی تقی عثمانی نے اسلامی بینکاری کے نام سے جواز کا فتویٰ دیا تو علماء ومفتیان نے متفقہ فتویٰ کے عنوان سے مخالفت کی ۔ پھر علماء ساتھ ہوگئے کیوں ؟۔اسلام کو بازیچہ اطفال بنانے پرکو ئی شرم نہیں آتی ؟ ۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ فلسطین کے مسلمان خود کیا چاہتے ہیں؟۔ وقت بدلنے کے ساتھ معاملات بدلتے ہیں۔ رسول اللہ ۖ نے مکہ سے ہجرت بھی کی۔ پھرصلح حدیبیہ بھی کیا اور مکہ فتح بھی کیا۔ بدلتے حالات کے تقاضے بدلتے ہیں۔ اگر مشرکینِ مکہ مظالم کے پہاڑ نہ توڑتے تو نبی ۖ مکہ سے ہجرت کیوں کرتے؟ اور اگر مشرکین مکہ اپنی شرائط نہ رکھتے تو نبی ۖ صلح حدیبیہ کیوں کرتے؟۔ لیکن جب مشرکین مکہ نے صلح حدیبیہ کا معاہدہ توڑ دیا تو فتح مکہ کا موقع اللہ نے دیا۔ فلسطین میں غزہ پٹی کے وزیراعظم اسماعیل ہانیہ نے کہا کہ اگر پاکستان دباؤ ڈالے تو اسرائیل جنگ بند کرسکتا ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے کہا ہے کہ جنگ بندی کرنا غلط ہے ، ہمارا صرف اتنا مطالبہ ہے کہ عورتوں اور بچوں کو نہ مارو، لیکن یہ جنگ اسرائیل کے خاتمے تک جاری رہے گی۔ سوشل میڈیا پر صحیح یا غلط یہ پروپیگنڈہ ہورہاہے کہ اقوام متحدہ میں120ممالک نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور20نے جنگ بندی کی مخالفت کی اور45ممالک نے حصہ نہیں لیا ۔ ان20ممالک میں پاکستان بھی شامل تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مفتی تقی عثمانی کابھی وہی مؤقف ہے کہ جنگ بندی نہیں ہونی چاہیے اور اگر کل اقوام متحدہ اور سفارتی تعلقات سے فلسطین کو آزادی بھی ملتی ہے تو علماء نے اس کی مخالفت کرنی ہے؟۔
علامہ جواد حسین نقوی نے گلہ شکوہ کیا کہ دیوبندی مکتب نے کسی شیعہ کو بھی اپنے پاس نہیں بلایا؟۔ علامہ عارف کاظمی نے کہا کہ عمر نے یہودی سازش سے بیت المقدس کو عیسائیوں سے آزاد کیاتھا۔ علامہ انور نجفی نے کہا کہ صلاح الدین ایوبی نے یہود کو فلسطین میں آباد کیا۔ مصر کی فاطمی حکومت ختم کرکے لاکھوں شیعہ قتل کئے ۔ اور حکومت کو بھائی اور بیٹوں میں بانٹ کر خلافت کے ٹکڑے کئے۔
جب شیعہ سنی بھی انتشار کا شکار ہیں اور شیعہ شیعہ اور سنی سنی بھی انتشار کے شکار ہیں۔ ایک فکر ، نظریہ اور عقیدہ رکھنے والوں کا آپس میں ایک دوسرے پر بھی اعتماد نہیں ہے تو فلسطین کا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟۔ حالانکہ فلسطین کے مسئلے کا حل بڑا آسان ہے۔ پہلے مسلمانوں نے کافروں پر یہ واضح کرنا ہوگا کہ اگر ہمیں موقع ملا تو آپ کی بیٹیوں، بہنوں ، بیگمات اور ماؤں کو ہم لونڈیاں نہیں بنائیں گے۔ اگر ہم نے یہ کام کرنا ہے تو پھر وہ چوہے اور نیولے پر رحم کھا سکتے ہیں لیکن مسلمانوں پر نہیں۔ پھر ان کی انسانیت کا رونا مت رؤوبلکہ اپنی روش پر نظرثانی کرلو۔ ہمارے خیال میں قرآن وسنت اسکے بالکل برعکس ہے مگر مذہبی طبقات کی اپنے ائمہ سے عقیدت اور ماحولیاتی آلودگی کا بہت ہی بڑا مسئلہ ہے ۔
علامہ جار اللہ زمحشری نے لکھ دیا ہے کہ ”ایران کو سعد بن ابی وقاص نے فتح کیاتو شہنشاہ ایران کی تین صاحبزادیوں کو عمر نے نیلام کرنے کا حکم دیا۔ علی نے مشورہ دیا کہ ایک کی عبداللہ بن عمر، دوسری کی محمد بن ابی بکر ، تیسری کی حسین سے شادی کرادیتے ہیں، اسلئے ان تینوں افراد کی اولاد آپس میں خالہ زاد تھے”۔
اہل تشیع کے ائمہ اہل بیت میں سے امام موسیٰ کاظم کی ماں بھی لونڈی تھیں۔ حضرت اسماعیل کی ماں بھی لونڈی تھیں۔اہل سنت کے چاروں فقہی مسالک کی کتابوں میں آزاد عورتوں اور لونڈیوں کے احکام ، مسائل اور لباس میں فرق ہے اور لونڈی وغلاموں پر پہلے ابراہم لنکن نے امریکہ میں پابندی لگائی اور پھر اقوام متحدہ نے پوری دنیا میں پابندی لگائی۔ بلوچ قوم میں آزاد اور غلام قوم کا تصور ہے اور ہمارے ہاں بھی غلام نسل کا تصور ہے۔خاندانِ غلاماں کا اقتداربھی تھا۔ پنجاب،سندھ، بلوچستان اور پختونخواہ میں انگریزوں کے تنخواہ دار خاندانوں کی بات ہوتی ہے لیکن ہمارے تمام ادارے فوج، عدلیہ ، پولیس ، سول انتظامیہ سب کے سب انگریز کے نوکر اور باقیات ہیں ۔1947میں برصغیر پاک وہند نے غلامی سے تو آزادی حاصل کی تھی۔اس سے پہلے30لاکھ سکھوں نے7کروڑ مسلمانوں اور دیگر اقوام ہندو، بدھ مت ،پارسی اور عیسائیوں پر حکومت کی تھی۔
حالانکہ سکھ مذہب نے اسلام اور ہندومت کے بیچ سے نکل کر نئے دھرم کی شکل اختیار کرلی تھی۔ سندھ کی مساجد میں خلافت عثمانیہ یا فاطمی خلافت کے خلفاء کا نام جمعہ کے خطبوں میں لیا جاتا تھا۔ شیعہ سنی تفریق کا زیادہ عمل دخل نہیں تھا اور خلافت عثمانیہ کے خلفاء سنی تھے اور فاطمی خلفاء اسماعیلی شیعہ تھے جو بعد میں آغا خانی اور بوہرہ فرقوں میں تقسیم ہوگئے۔ امامیہ یا اثنا عشریہ شیعہ فاطمی خلفاء پر سنی خلافت عثمانیہ کو ترجیح دیتے تھے۔ خلافت عثمانیہ نے مدینہ منورہ مسجد نبوی ۖ پر خلفاء راشدین اور عشرہ مبشرہ کی ائمہ اہل بیت کے بارہ اماموں کے نام لکھے۔ اثنا عشریہ شیعہ اسماعیلی شیعہ کو ایسا سمجھتے تھے جیسے ہم مرزائیوں کو سمجھتے ہیں۔ اب بھی آغا خانیوں کو یہ حکم ہے کہ اپنی مساجد بنانے کی جگہ سنی مساجد میں سنی اماموں کے پیچھے نماز پڑھو۔فرقہ واریت اور دہشت گردی نے معاملہ خراب کردیا ہے۔
بوہری فرقہ تو بالکل صوفی ہے۔ تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی کا آئینہ لگتے ہیں۔ ہم نے شرعی پردے کی آواز لگائی تو بوہری فرقہ نے عمل کرنا شروع کیا۔ ان کی خواتین بھی مساجد میں نماز پڑھتی ہیں۔ فقہی کتابوں میں مساجد کے اندر باجماعت نماز کامسئلہ پڑھایا جاتا ہے کہ پہلے مردوں کی صف، پھر بچوں، پھر بچیوں اور پھر خواتین کی صف بنائی جائیںلیکن اس پر عمل نہیں ہوتا ہے۔ جب مساجد میں اسلام وفقہ پر عمل نہ ہو تو چوکوں اور عدالتوں میں کہاں ہوگا؟۔ لونڈیوں کا مختصر لباس جبے والے مولوی بھی پہن کر شرمندہ ہوجائیں گے لیکن ہمارے مدارس کے نصاب اور علماء کے عمل میں آسمان و زمین کا فرق ہے۔
جب خلافت قائم ہوگی تو مساجد میں مردوں کیساتھ بچے، خواتین اور بچیاں بھی پنج وقتہ نماز پڑھیں گی۔ کعبة اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کی سعی بھی اس خاص ترتیب سے ہوگی کہ حجر اسود چومتے ہوئے اجنبی مرد اور خواتین ایکدوسرے کو چٹنی نہیں بنائیںگے۔ عزت واحترام اور فاصلہ برقرار رکھنے کا معاملہ ہوگا۔ اب تو غیرت مند غریب حج وعمرے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور امیروں میں غیرت کا فقدان ہے اسلئے حجراسود میں عورتوں کو غیرمردوں سے کشتی کرنے دیتے ہیں اور ان کے ایمان ، غیرت اور ضمیر پر کچھ اثر نہیں پڑتا اور ماحولیاتی آلودگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کیا بیت المقدس کی آزادی کے بعد یہود ونصاریٰ کیساتھ مل کر مسجد اقصیٰ کی زیارت کریں گے تو ان سے آداب انسانیت سیکھ لیںگے یا ان کی خواتین کو لونڈیاں بناکر نیم برہنہ کرکے مزیدہم بگڑجائیںگے؟۔
آج دنیا سمجھ رہی ہے کہ مسلمانوں میں بہت خوبیاں ہیں لیکن اگر ان کے ہاتھوں میں دنیا کی خلافت آگئی تو اسلام کے نام پر ہمارا کباڑ خانہ بنارکر رکھ دیں گے اور ان کی اس ذہنیت میں بہت وزن بھی ہے۔ جب حامد میر ہمارے حکمران طبقے کی عیاشیاں اور عوام پر مظالم کی داستان بیان کرتا ہے اور سوشل میڈیا پر جس طرح کی معلومات فراہم کی جاتی ہیں کہ کس طرح ہیرہ منڈی کی ایک لڑکی سے مصطفی کھر نے شادی کرکے گورنر ہاؤس کی زنیت بنادی اور اس کی خوشی کا دن بھی ہیرہ منڈی میں منایا گیا۔ جنرل رانی کا کیا کردار تھا؟۔ نواب آف کا لا باغ کے کیا کرتوت تھے؟۔ حبیب جالب نے اداکارہ ممتاز پر کیسی شاعری کی تھی کہ بھٹو نے زبردستی سے نچوانے کا اہتمام کرایا تھا۔ لاڑکانہ چلو نہیں تو تھانہ چلو۔
بنوامیہ، بنوعباس ، خلافت عثمانیہ ، مغل اور خاندانِ غلاماں سمیت ہندوستان پر حکمرانی کرنے والے لوگوں کی عیاشیاں اور مظالم کی ایک بڑی تاریخ ہے۔پھر شیعہ حضرات تو خلفاء راشدین اور صحابہ کرام کی تاریخ کا بھی منفی پہلو پیش کرتے ہیں ۔ اس میں بھی شک وشبہ نہیں کہ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد مسلمانوں کو آپس کے جنگ وجدل اور قتل وغارت سے بہت نقصان بھی اٹھانا پڑا تھا۔ امام حسن کی قربانی کے بعد صلح ہوگئی اور امیرمعاویہ کی قیادت میں حسن وحسینسب نے اسلامی فتوحات کا شاندار دور دیکھا لیکن پھر یزید کے ہاتھوں کربلا، مکہ اور مدینہ پر چڑھائی اور پھر اس کے مرنے کے بعد عبداللہ بن زبیر کی مکہ میں شہادت کا المناک واقعہ تاریخ بن گیا۔ حقائق کو دیکھا جائے تو بنوامیہ کا خاتمہ بنوعباس نے بھی بہت ظالمانہ طریقے سے کیا لیکن ذاتی ظلم یا عدل اس دور کی بات تھی۔ حضرت عمربن عبدالعزیز نے خلافت راشدہ اور مہدی کی یاد تازہ کردی تھی۔
پشتو فلموں اور گانوں میں ناچتی ہوئی لڑکی گاتی ہے کہ ” اے دلبر آجاؤ، مجھے ظالم رلارہے ہیں اور میدان میں نچارہے ہیں”۔ اردو، پنجابی، پشتو اور سندھی فلموں اور ڈارموں میں سماج کا نقشہ پیش ہوتا تھا مگر بلوچوں نے فلم پر سینما کو بھی آگ لگائی تھی کہ ہمارے کلچر کی بڑی توہین ہے،حالانکہ اداکار بلوچ نہیں تھے۔ تربت میں بالاچ بلوچ شہید کی بڑی عمر والی بہن نے اپنے پڑوسی کونسلر سے کہا کہ آج تک آپ نے مجھے نہیں دیکھا ہوگا، میں بھی غیرتمند بلوچ ہوں لیکن بھائی کی بے گناہ شہادت نے گھر سے نکلنے پر مجبور کیا ہے۔ تربت میں عورتوں کا بہت بڑا جلوس جہاں بلوچ کے کلچر کو بدل رہاہے وہاں ریاست پر بھی اثر انداز ہے۔
جب ایک کھیتران بلوچ لڑکی نے فون سے ویڈیو وائرل کردی تاکہ مظلوم مری خاندان مظالم سے بچ جائے تو وہ جنسی زیادتی کے بعدکنویں میں ڈال دی گئی۔ مری قبائل نے بلوچستان اور سندھ سے بڑی تعداد میں کوئٹہ کے اندر دھرنا دیا تو جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان سمیت دوسری جماعتوں اور قوموں کے لوگ بھی وہاں پہنچتے رہے اسلئے کہ تیار جھمگٹے سے خطاب کرنے کا مزہ ہے۔ پھر مری قبائل کے افراد بازیاب ہوگئے اور جو ناقابلِ شناخت لاش کی لڑکی لیکر مری بیٹھ گئے تھے۔ پھر وہ لڑکی کھیتران نکلی اور ایدھی نے لاوارث دفن کردیا۔
(کالعدم سپاہِ صحابہ) کے سربراہ مولانا احمد لدھیانوی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”ہماری جماعت نے پاکستان میں ناموس صحابہ کے تحفظ کیلئے12ہزار کارکنوں کی شہادت پیش کی۔ فلسطین کیلئے ایک لاکھ کارکن ہماری جماعت کی طرف سے قربانی و جہاد کیلئے حاضر ہیں۔ الحمد للہ کہ یہ دوسری بات ”اتحاد امت” کی قیادت اس حال میں جمع ہے۔ اس سے پہلے یہی اکابرین ”تحفظ ناموس صحابہ و اہل بیت بل” کیلئے اکھٹے ہوگئے تھے۔
علامہ احمد لدھیانوی سے ایک عرض یہ ہے کہ شیعہ پر کفر کے فتوے میں مفتی تقی عثمانی نے پہلے بھی دستخط نہیں کئے تھے اسلئے کہ دار العلوم کراچی متفق نہیں تھا۔ جماعت اسلامی بھی شیعہ کیساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ متحدہ مجلس عمل، ملی یکجہتی کونسل، اتحاد تنظیمات المدارس میں شیعہ شامل ہیں اسلئے جنہوں نے فتوے دئیے وہ بھی الٹے پاؤں پھر گئے۔ مولانا حق نواز جھنگوی نے کھل کر کہا تھا کہ مجھے شیعہ ووٹ نہ دیں ۔ وہ عابدہ حسین سے1988میں جمعیت مولانا فضل الرحمن کی سیٹ ہار گئے تھے۔1990کے الیکشن میں سپاہ صحابہ کے مولانا ایثار الحق قاسمی اسلامی جمہوری اتحاد کے نام پر بیگم عابدہ حسین کے اتحادی تھے اسلئے شیعہ ووٹ کی وجہ سے سیٹ جیت گئے۔ پھر سپاہ صحابہ نے نعرہ لگایا کہ ”کافر کافر شیعہ کافر جو نہ بولے وہ بھی کافر”۔ حرمین میں کافروں کا داخلہ ممنوع ہے۔ شیعہ کو مسلمان سمجھ کر داخلہ سعودی عرب کے حکمران اجازت دیتے ہیں۔ سپاہ صحابہ کے نعروں کا نشانہ سعودی عرب نہیں مولانا فضل الرحمن ہوتے تھے۔ مولانا فضل الرحمن کو عمران خان اور نواز شریف نے وزیر اعظم کا ووٹ دیا مگر مولانا اعظم طارق کے ایک ووٹ سے مولانا فضل الرحمن ہار گئے اور ظفر اللہ جمالی (ق لیگ) جیت گئے۔ مولانا اعظم طارق نے قومی اسمبلی میں تقریر میں کہا تھا کہ” بیشمار نوجوان میری جذباتی تقاریر کی وجہ سے جذبہ جہاد سے اس جنگ میں مارے گئے، جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ الٹا نقصان ہوا”۔کاشف عباسی سے عمران خان نے کہا کہ ” سپاہ صحابہ والوں نے مجھ سے کہا کہ شیعہ سے صلح کراؤ”۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟