پوسٹ تلاش کریں

تحریک لبیک اور حکومت میں لڑائی، مذہبی انتہا پسندی اور ریاستی منافقت کا علاج

تحریک لبیک اور حکومت میں لڑائی، مذہبی انتہا پسندی اور ریاستی منافقت کا علاج اخبار: نوشتہ دیوار

تحریک لبیک اور حکومت کی لڑائی؟__

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

آج اوریامقبول جان کہتا ہے کہ تحریک لبیک کے مطالبات میں فرانس کے سفیر کو نکالنے کا مطالبہ شامل نہیں ہے۔ وزیرداخلہ شیخ رشید کہتا پھرتا ہے کہ فرانس کے سفارت خانے کو ہم بند نہیں کرسکتے ہیں اور یہ کہ فرانس کا سفیر پاکستان میںموجود نہیں ہے۔ اوریا مقبول جان کہتا ہے کہ ان کے تین مطالبات ہیں۔ سعد رضوی اور دیگر ساتھیوں کو رہا کیا جائے۔ کالعدم کا لیبل ہٹایا جائے اور عدالتوں میں قائم مقدمات واپس لئے جائیں۔
حکومت اور اپوزشن کی نااہلی اور مفاد پرستی نے پاکستان کو تباہی کے دہانے پہنچادیا ہے۔ حکومت کی طرف سے فرانس کے سفیر کو نکالنے کی قرارداد پیش ہونا تھی تو ن لیگ اور مولانا فضل الرحمن تحریک لبیک کیساتھ کھڑے ہوگئے تھے۔ اور ان کا مقصد تحریک انصاف سے اپنا بدلہ چکانا تھا۔ جب دونوں نے اپنی مشترکہ حکومت میں قادیانیوں کے حق میں ترمیمی بل پاس کیا تھا تو تحریک انصاف نے تحریک لبیک کا ساتھ دیا اور شیخ رشید گھیراؤ جلاؤ کی باتوں میں شریک تھا۔ اب ان کی سمجھ میں بات نہیں آتی ہے کہ تحریک لبیک کیساتھ کیا کیا جائے؟۔حالانکہ معاملہ بہت ہی آسان ، سادہ اور قابلِ حل ہے۔
پہلا مطالبہ یہ ہے کہ ” گرفتار ملزموں کو رہا کیا جائے”۔ موجودہ حکومت مجرم نوازشریف اور مریم نواز کو رہائی دے سکتی ہے تو تحریک لبیک کے ملزموں کو رہا کرنا کونسا مشکل کام ہے؟۔ پہلا مطالبہ حکومت مان سکتی ہے کہ جب طاقتور طبقہ پشت پر ہو تو ضمانت پر رہائی ملنے میں دیر نہیں لگتی ہے۔ دوسرا مطالبہ دونوں کے درمیان50،50فیصدکا معاملہ ہے۔ جب تک حکومت سپریم کورٹ میں کالعدم قرار دینے کی درخواست دائر نہیں کرتی ہے تو حکومت کی طرف سے کالعدم قرار دینے کا معاملہ ویسے بھی ادھورا ہے۔ الیکشن کمیشن نے بھی اسلئے تحریک لبیک کو کراچی کے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے سے نہیں روکا تھا۔موجودہ حکومت نے جمعیت علماء اسلام کی ڈنڈا بردار فورس انصار الاسلام پر پابندی کا علان کیا تھا مگر اس پر عمل درآمد نہیں کرایا جاسکا۔ ریاست نے تحریک لبیک کو تحریک طالبان اور انصار الاسلام جیسی تنظیموں کے مقابلے میں زندہ رکھنا ہے۔ اسلئے آدھا مطالبہ خود حکومت نے پہلے سے تسلیم کیا ہے اور باقی آدھے پر بھی عمل کرے تاکہ حکومت اپنے دوغلے پن سے باہر نکل آئے۔ تیسرا مطالبہ عدالتوںسے کیس واپس لینے کا ہے تو اس سے تحریک لبیک دست بردار ہوسکتی ہے اسلئے کہ عدالت کرپشن اور ریپ کے کیسوں میں شواہد نہ ملنے کا رونا روکر ملزموں کو باعزت رہا کروارہی ہے تو مقدمات چلنے میں کیا حرج ہے؟۔ لیکن حکومت وریاست نااہل ہے یا اس کی نیت درست ہے یا غلط ہے مگر ہے کچھ اور۔ اسلئے کہ مسائل پیدا ہونے کا اندیشہ بھی ہوسکتا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان سے بہت زیادہ تحریک لبیک خطرناک ثابت ہوسکتی ہے اسلئے کہ مولانا احمد رضا خان بریلوی نے دیوبندی، اہلحدیث، جماعت اسلامی ، شیعہ اور دیگر فرقوں اور غیرمسلم قادیانیوں کو برابر سب کو گستاخ بھی قرار دیا ہے۔ اگر یہ لوگ اپنے ان تین چھوٹے مطالبات کیلئے پولیس والوں کو جان سے مار سکتے ہیں تو پھر عشق رسول ۖ کے نام پر گستاخوں کے خلاف کیا کچھ نہیں کرسکتے ہیں؟۔ اوریامقبول جان اسلام کی روح اور سیاست کو سمجھنے کے بجائے ریاستی پالیسی کی روح رواں کو سمجھنے کیلئے اپنی ذہنیت بوسیدہ کرچکا ہے۔

_ مذہبی شدت و ریاستی نفاق کا علاج! _
جب حضرت عائشہ پر بہتان لگایا گیا تو ایک عرصہ تک وحی کا سلسلہ بند رہا۔ افواہوں کی گردش نے نبیۖ اور صحابہ کو بہت بڑی آزمائش میں ڈال دیا تھا۔ جب وحی نازل ہوئی تو افواہ پھیلانے والوں کی سرزنش کی گئی اور افواہوں سے متأثر ہونے والوں سے کہا گیا کہ تم نے یہ کیوں نہیں کہا کہ یہ بہتان عظیم ہے؟۔ اور بہتان لگانے والوں کو اسی اسی کوڑے مارنے کی سزا دی گئی۔
جب تقسیم ہند کے وقت مسلمانوں کا خون بہایا جارہاتھا ، جارحیت کے ارتکاب میں زیادہ تر ہندو اور سکھ ملوث تھے اسلئے کہ وہ گائے ماتا کی طرح وطن کی تقسیم کو بھی ناقابلِ قبول سمجھتے تھے جبکہ مسلمانوں کی اکثریت نے ان سے چھٹکارا پانے کیلئے تقسیم ہند کے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ جب قائداعظم نے دیکھا کہ مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں تو فرمایا کہ ”مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتے ”۔ ہندو شدت پسندوں نے مہاتماگاندھی کو بھی اسلئے قتل کیا کہ گاندھی نے مسلمانوں کے حق میں ہندو قوم کی شدت پسندی کے خلاف بھوک ہڑتال کا اعلان کررکھا تھا۔
ہندوؤں کے پاس اپنا کوئی نظام نہیں تھا اسلئے وہ حکومت برطانیہ کے نظام کو قائم رکھنے پر مجبور تھے لیکن پاکستان میں مسلمانوں کے پاس اسلام کانظام قرآن وسنت کی شکل میں موجود تھا۔ خاتون اول ام المؤمنین حضرت عائشہ پر بہتان کی سزا قرآن میں 80کوڑے کا حکم نازل ہوا تھا اور اس میں ایک غریب عورت کیلئے بھی وہی سزا تھی جو ام المؤمنین کے خلاف بہتان لگانے کی تھی۔ غلام احمد پرویز نے احادیث صحیحہ کا انکار کردیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ام المؤمنین پر بہتان لگانے کی سزا صرف80کوڑے ہو۔ اس کی سزا تو قتل ہونا چاہیے تھا، یہ کوئی عام عورت تھی جس پر بہتان لگایا گیا تھا اور یہ اس کی سزا تھی۔ آج پنجاب میں پرویز کی فکر نے شدت پسندی میں نہلے پر دہلا کردیا ہے۔ اگر قرآن وسنت کی درست تعبیر دنیا کے سامنے پیش کی جائے تو نہ صرف شدت پسندی کا خاتمہ ہوگا بلکہ اس سے دنیا میں غریب وامیر کے درمیان تفریق کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔
ایک20اور22گریڈ کے افسر اور غریب کی آدمی کی بیگمات میں بہتان لگانے کے حوالے سے اسلامی قانون کے مطابق کوئی فرق نہیں ہے ، اسی طرح کرپٹ سیاستدانوں اور غریب پارٹی کارکنوں کے درمیان عزت اور قتل کے حوالے سے اسلام نے کوئی فرق نہیں رکھا ہے لیکن ہمارا سارا ماحول بدل گیا ہے۔ ہمارا مذہبی اور سیاسی طبقہ بھی اپنے آپ کو کرپٹ نظام کے ذریعے ترقی اور عروج کے نام پر ایک الگ ماحول بنارہاہے۔80کوڑے کی سزا امیر وغریب کیلئے یکساں ہے لیکن ہتک عزت کے دعوے میں اربوں روپے اور کوڑیوں کے دام کا فرق ہے۔ غریب کی عزت کوڑیوں کی نہیں ہوتی اور کرپٹ لوگوں کی عزت اربوں میں ہوتی ہے۔ غریب کیلئے چند ہزار بڑی سزا ہے اور امیر کیلئے لاکھوں اور کروڑوں کی سزا میں بھی مشکل نہیں ہے۔
المیہ یہ ہے کہ سول وملٹری بیوروکریسی، کرپٹ سیاستدان اور آلۂ کار کے طور پر استعمال ہونے والے مذہبی لوگوں میں سے کسی کو بھی طبقاتی تقسیم کا خاتمہ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ قرآن وحدیث سے بھی کوئی غرض نہیں ہے اور امن وسلامتی سے بھی کوئی سروکار نہیں ہے۔ بس صرف اپنی نوکری پکے کرنے اور زیادہ سے زیادہ مفادات اٹھانے کے چکر میں زمانے کے بدترین گرداب کے شکار نظر آتے ہیں۔ اس سے پہلے پہلے کہ کوئی حادثہ پورے معاشرتی اور ریاستی نظام کا خاتمہ کرکے رکھ دے۔ ہم سنجیدگی سے اپنی ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ ہمارے بدلنے سے پوری دنیا کے تبدیل ہونے میں بھی دیر نہ لگے گی۔ ہم صرف خیرخواہی میں مفت کے مشورے دے سکتے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟