فرقہ وارانہ شدت کو کم کرنے کی ضرورت ہے جس سے دہشتگردی پر اثر پڑے، سیاسی شدت بھی ختم کی جائے۔
اگست 13, 2023
فرقہ وارانہ شدت کو کم کرنے کی ضرورت ہے جس سے دہشتگردی پر اثر پڑے، سیاسی شدت بھی ختم کی جائے۔
علماء اور جدید مذہبی طبقے کے علم وفہم اور عمل وکردار میں بڑا فرق ہے۔ انجینئر مرزا نے رٹ لگائی ہے کہ نبی ۖ نے فرمایا: ”عمار باغی گروہ کے ہاتھوں شہید ہوگا، عمار جنت کی طرف بلارہا ہوگا اورباغی گروہ جہنم کی طرف بلا رہا ہوگا”۔
بلاشبہ دو گروہ لڑیں گے تو ایک ٹھیک اور دوسرا غلطی پر ہوگا۔ پاکستان بن رہا تھا توکچھ پاکستان اور مسلم لیگ کے حامی اور کچھ مخالف تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد، جمعیت علماء ہند اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی جماعت ”احرار الاسلام” پاکستان اورمسلم لیگ کے خلاف تھے۔ علامہ شبیراحمد عثمانی، مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا ظفر احمد عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع نے جمعیت علماء اسلام کی بنیاد رکھی اور پاکستان و مسلم لیگ کی حمایت شروع کی۔جماعت اسلامی نہ ادھر تھی اور نہ ادھر ۔ آزادی اور سیاسی تحریک بہت بڑی قربانیاں مانگتی ہے۔
مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ نے اپنے فتاویٰ کے نویں جلد میں لکھ دیا کہ انگریز نے جمعیت علماء ہند کو ختم کرنے کیلئے جمعیت علماء اسلام کی بنیاد رکھ دی ۔ آج مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علماء اسلام کا تعلق مولانا احمد علی لاہوری ، مولانا غلام غوث ہزاروی ، مولانا مفتی محمود اور مولانا عبداللہ درخواستی سے ہے جو جمعیت علماء ہند کے نظریاتی ساتھی تھے۔ اصل جمعیت علماء اسلام مرکزی کے نام سے تھی جو مفتی محمد شفیع، مولانا احتشام الحق تھانوی کی جماعت تھی ختم ہو گئی اسلئے کہ انہوں نے1970میں مولانا غلام غوث ہزاروی،مولانا عبداللہ درخواستی ، مولانا عبیداللہ انور ، مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک اور مفتی محمود پر کفر کا فتویٰ لگادیا تھا۔
حضرت امداد اللہ مہاجر مکی کے مریدین وخلفاء میں مولانا محمدقاسم نانوتوی، مولانا رشیداحمد گنگوہی اور بہت بڑے بڑے علماء ومشائخ تھے۔ مولانا اشرف علی تھانوی شیخ الہند مولانا محمودحسن کے شاگردتھے اور شیخ الہند نے اپنے استاذ مولانا رشیداحمد گنگوہی سے بیعت کی تھی۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے مولانا گنگوہی سے بیعت کی خواہش رکھی اور حاجی امداللہ مہاجر مکی سے سفارش کی درخواست کی تھی ۔حاجی امداداللہ مہاجر مکی نے فرمایا کہ ” میں تمہیں خود بیعت کرتا ہوں”۔ اگر حقائق کو دیکھا جائے تومولانا تھانوی کے استاذ کے اساتذہ بھی حاجی امداد اللہ سے بیعت تھے لیکن حکیم الامت اور مجدد ملت کا تمغہ اسلئے مولانا تھانوی کے سر پر سجا تھا کہ مہاجر مکی کے سلسلہ کے اصل جانشین آپ ہی تھے۔ تصوف وسلوک بھی دین کا شعبہ ہے۔شریعت و طریقت کا ٹکراؤ ہوتا ہے۔ مولانا رشیداحمد گنگوہینے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے علم سے اختلاف کیا، تقویٰ حاصل کرنے کیلئے بیعت ہوئے تھے۔مولانا قاسم نانوتوی نے کہا کہ ”میں حاجی صاحب سے ان کے علم کی وجہ سے بیعت ہوا ہوں”۔ مولانا رشیداحمد گنگوہی کے شاگرد مولانا حسین علی تھے ، جن کی وجہ سے شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان اور مولانا طاہر پنج پیری نے توحید کا پیغام پھیلایا۔ اس نے اپنی تفسیرمیں لکھا ” میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ۖ گر رہے ہیں اور میں ان کو سہارا دیکر تھام لیتا ہوں”۔”بلغة الحیران” ۔
مفتی منیر شاکر کو شاید علم نہ ہوکہ دوسروں پر تنقید کے نشتر چلانے والوں نے گھر میں کیا دال دلیہ پکایا؟۔ مفتی منیر شاکرنے کہا کہ اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب میں لکھاکہ شاہ عبدالرحیم نے ایک بزرگ کی قبر پر مراقبہ کیا تو بزرگ نے بتایا کہ تمہاری گھر والی کے حمل میں جو بچہ ہے وہ بڑی شان والا ہوگا۔ بیگم نے بتایا کہ جب تہجد کے وقت ہاتھ اُٹھائے تو میرے ہاتھوں میں بچے کے بھی دو ہاتھ تھے جس سے میں ڈر گئی۔ پھر شاہ عبدالرحیم کو یاد آیا کہ مراقبہ میں بزرگ نے بیوی کے حمل میں موجود بچے حضرت شاہ ولی اللہ کے بارے میں خوشخبری دی تھی اور ان کا نام بھی تجویز کیا تھا۔ یہ وہ باتیں ہیں جو مردوں کو زندہ سمجھنے والوں نے عقل سے عاری عقیدت مندوں کے سامنے گھڑ رکھی ہیں۔
حضرت خضر نے بچے کو قتل کیا تو تصوف و طریقت کی کتابوں میں اتنا بڑا واقعہ نہیں۔ حضرت عیسیٰ جب مٹی کا پرندہ بناتے تو پھونک سے روح آجاتی تھی۔ حضرت ابراہیم نے چار پرندوں کو ٹکڑے ٹکڑے کیا پھر زندہ ہوگئے۔ اللہ نے آگ کو ٹھنڈی ہونے کا حکم دیا تھا۔ بیت المقدس میں رسول اللہ ۖ نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی اور قبر میں سوال پوچھا جائیگا کہ ” اس شخص کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟”۔ عیسیٰ کا باپ کے بغیر آدم کی طرح پیدا ہونا قرآن میں ہے۔ بزرگوں کا انکار کفر و گمراہی نہیں مگر قرآن وسنت پر زد نہ پڑے۔ مولانا طاہر پنج پیری کراچی تشریف لائے تھے تو میں نے ان کی خدمت میں مولانا مسعود الدین عثمانی کی توحید خالص پیش کرنا چاہی مگر اس کے چیلے ناراض ہوگئے اور سوال نہیں کرنے دیا تھا۔ مولانا مسعود الدین عثمانی جامعہ بنوری ٹاؤن اور وفاق المدارس کے فاضل تھے۔ دورہ ٔ توحید ایسا ہو کہ اپنے پرائے کا لحاظ نہ ہو مگر قرآن و سنت کا خیال رکھا جائے ۔ معراج کا ذکر قرآن وسنت میں موجود ہے۔
کوئی سوال کرے کہ ہجرت کی رات براق کیوں نہیں آیا؟۔ اگر مظالم سے بچنے کیلئے معجزات کا سہاراہوتا تو پھر کمال اور آزمائش کی بات نہ ہوتی۔ معراج اور ہجرت جیسا کوئی واقعہ صوفی کا ہوتا تو سوالات اُٹھتے اور مذاق بھی اُڑایا جاتا۔ پشتو شاعر اور عالم دین رحمن بابا کاشعر ہے کہ ”جس کا ایک قدم عرش تک پہنچتا ہے میں نے درویش لوگوں کی رفتار کو دیکھا ہے”۔ مولانا اشرف علی تھانوی کے خلفاء نے یہ واقعہ بیان کیا کہ خواجہ نظام الدین سلطان الاولیائ قوالی کا اہتمام کرتے تھے اور اس وقت کے محتسب قاضی ضیاء الدین سنامی ان کی سخت مخالفت کرتے تھے۔ایک دن سپاہیوں کو لے کر گئے تو سلطان جی اپنے مریدوں کیساتھ ذکر میں مشغول تھے۔ خیمے کی طنابیں کاٹ ڈالیں تو خیمہ ہوا میں معلق ہوا ۔ قاضی نے کہا کہ اس سے متاثر مت ہونا۔ آئندہ آئیں گے اور اس بدعت سے روکیں گے۔ دوسری مرتبہ ذکر شروع ہونے سے پہلے سپاہیوں کیساتھ پہنچ گئے اور کہا کہ اس بدعت سے نہ رکوگے ؟۔ سلطان جی نے کہا کہ اگر نبی ۖ فرمادیں تو؟۔ قاضی رضا مندہوئے تو کیفیت طاری ہوگئی۔ دیکھا کہ نبی ۖ جلوہ افروز ہیں اور فرمایا کہ اس فقیر کو کیوں تنگ کررہے ہو؟۔ قاضی نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ۖ مجھے اس کیفیت پر بھروسہ نہیں لیکن جو دین روایات کے ذریعے ہم تک پہنچاہے ،اس پر اعتماد ہے اورہم اس پر عمل کے پابند ہیں۔ جب کیفیت ختم ہوگئی تو سلطان جی نے کہا کہ اب کیا کہتے ہو؟۔ اب تو نبی ۖ نے تمہیں کیا فرمایا؟۔ قاضی نے کہا کہ روکوں گا، نبی ۖ کی خدمت میں نے کیا عرض کیا؟۔ سلطان جی نے قوال کو اشارہ کیا کہ شروع کرو۔ قوال نے شعر پڑھا تو سلطان جی وجد میں کھڑے ہوگئے، قاضی نے اس کو گریبان سے پکڑ کر بٹھادیا۔ دوسری بار وہ کھڑے ہوگئے پھر گریبان سے پکڑ کر بٹھادیا۔ تیسری بار کھڑے ہوگئے اور اس کے گریبان میں ہاتھ ڈالنا چاہا مگر دست بستہ کھڑے ہوگئے۔ محفل برخاست ہونے لگی تو لوگوں نے سمجھا تھا کہ قاضی بھی مرید بن کر جائیں گے۔ قاضی نے کہا کہ اچھا میں پھر آؤں گا اور تجھے اس بدعت سے روکوں گا۔ لوگوں نے کہا کہ ابھی تو آپ دست بستہ کھڑے تھے؟۔ قاضی نے کہا کہ جب پہلی بار اس کو وجد آیا تو اس کی روح پہلے آسمان تک پہنچی۔ وہاں تک میری رسائی تھی، پکڑ کر واپس لایا ۔ دوسری بار اس کی روح عرش تک پہنچی اور وہاں سے واپس لا یا۔ تیسری بار اس کی روح عرش کے اوپر گئی ، میں جانے لگا تو حاملانِ عرش نے کہا کہ تیری اوقات نہیں ، یہ سلطان جی کا مقام ہے۔ میں تجلیات عرش کے سامنے کھڑا تھا اس بدعتی کے سامنے تھوڑا کھڑا تھا۔ پھر قاضی بیمار ہوگئے ۔ سلطان جی عیادت کیلئے جانے لگے۔ لوگوں نے کہا یہ بر ا بھلا کہتا ہے ؟۔ سلطان جی نے کہا کہ یہ عالم ربانی ہے اس کا یہ منصب ہے کہ مجھے منع کرے۔ حاضری کی اجازت مانگی تو قاضی نے کہا کہ تجھے بدعت سے روکتا رہا۔ اب اپنا چہرہ مت دکھاؤ، ایسا نہ ہو کہ میری عاقبت خراب ہوجائے۔ سلطان جی نے کہا کہ میں اتنا گستاخ نہیں کہ بارگاہ سنت میں بدعت سے ملوث ہوکر آؤں۔ توبہ کرکے آیا ہوں۔ قاضی بڑا خوش ہوا، اپنی دستار دی کہ اس کو بچھاؤ، اس پر چل کر تشریف لائے۔ سلطان نے اپنے سرپر وہ دستار رکھی اور خدمت میں حاضر ہوئے تو قاضی صاحب نے کہا کہ ” آپ وہ لوگ ہو ،جو اپنی نظر کیمیا سے مٹی کو سونا بنادو۔ آپ میری تقدیر پر نظر کرم فرمائیں کہ بری تقدیر اچھی میں بدل جائے ۔ واقعہ پر دیوبندی اور بریلوی خوش ہوںگے لیکن اہل حدیث کہہ سکتے ہیں کہ ولی کا عرش پر چڑھ جانا گستاخی ہے ۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ اللہ کہتا ہے کہ بندہ نوافل کے ذریعے میرا اتنا مقرب بن جاتا ہے کہ اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں ، جس سے وہ دیکھتا ہے ، اس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے، اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ (حدیث قدسی) اس حدیث میں اللہ کا اپنے بندوں کے ہاتھ پیر بن جانا بڑی بات ہے۔ قرآن میں ملکہ سبا بلقیس کا تخت کیسے آنکھ پھیرنے کی دیر میں حاضر کیا گیا تھا؟۔
حقیقت یہ ہے کہ مولوی کی شریعت اور صوفی کی طریقت دونوں میں سب کچھ ہوسکتا ہے مگر ہدایت کامل سے دور ہیں۔مستی احوال اور مستی گفتار مسائل کا حل نہیں۔ اگر ملاکی کتابوں سے گمراہانہ معاملات نکالے جائیں تو قیصرو کسریٰ کی سپر طاقتوں کی طرح موجودہ دور میں بھی ہمارا ایک قدم نظام خلافت کے ذریعے سے امت مسلمہ اور دوسرا دنیا کی سپر طاقتوں کے حدود تک پہنچ جائے گا۔
امام ابوحنیفہ نے علم الکلام کی گمراہی سے توبہ کرکے فقہ کی طرف توجہ کی توپھر فقہاء نے امام ابوحنیفہ کے نام پر علم الکلام کی گمراہی فقہ میں داخل کردی۔ جب یہ عقیدہ پڑھانا شروع کیا کہ قرآن لکھے ہوئے شکل میں اللہ کی کتاب نہیں ہے تو پھر فتاویٰ قاضی خان، صاحب ہدایہ ، فتاویٰ شامی اور مفتی تقی عثمانی نے سورہ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنا بھی جائز قرار دے دیا، اہل تصوف سے بڑھ کر اہل فقہ کی گمراہی قابل گرفت ہے۔ امام غزالی فقہ سے توبہ کرکے تصوف میں آئے تو المنقذ من ظلمات الی النور ” اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالنے کے نام پر کتاب لکھ ڈالی”۔ پھر جس فقہ کے اندھیرے سے روشنی کا سفر کیا تھا جس سے مراد تصوف تھا تو اس تصوف میں فقہ کی گمراہیاں بھی ڈال دیں۔ یہ حقیقت تھی کہ شریعت الگ چیز ہے اور تصوف الگ ۔ جو حضرت موسیٰ اور حضرت خضر کے واقعہ سے ثابت ہے۔ ہمارے ہاں دونوں کو خلط ملط کرکے دونوں میں بڑی گمراہی کا سامان پیدا کیا گیا ہے اسلئے دونوں کی آپس میں بنتی بھی نہیں ہے اور جہاں بنتی ہے تو وہاں زیادہ خرابیاں ہوتی ہے۔ پیسہ ہتھیانے کا چکر بنتا ہے۔
جب قرآن وسنت پر واقعی اعتماد اور بھروسہ ہوگا تو مذہبی جماعتوں کیلئے بھی معاملات آسان ہوں گے۔ کن فیکون ہوگا۔ اس کیلئے اعلیٰ ایمان اور اخلاقیات کی ضرورت ہے۔ بے گناہ لوگوں کو خود کش سے اڑانا اسلام نہیں ۔ اختلاف تو حضرت ہارون اور حضرت موسیٰ کا بھی داڑھی اور سرکے بال پکڑنے تک پہنچاتھا نبی ۖ نے صحابہ سے فرمایا کہ ”میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو”۔ مطلب یہ نہیں کہ خوارج کی طرح حضرت علی و حضرت عثمان پر کفر کافتویٰ لگائیں۔ مفتی تقی عثمانی نے حیلہ سے سود کو اسلامی جواز بخش دیا تو اکابر نے سخت مخالفت کی اور ان کا فتویٰ مدارس اور کتب خانوں میں ہے۔ حدیث میں ائمہ مساجد کو آسمان کے نیچے بدترین مخلوق کہا گیا لیکن اس کا مقصد اچھائی کی طرف لانا ہے۔ فتنہ کے وقت میں لڑنے سے بہتر نہ لڑنا ہے ۔ حضرت علی نے بھی خوارج سے کہا تھا کہ ”اگر تم نہیں لڑوگے تو میں بھی نہیں لڑتا ہوں”۔
حضرت عثمانجب شہید کئے گئے تو حسن و حسین نے دروازے پر پہرہ دیا اور محمد بن ابو بکر پیچھے سے دیوار پھلانگ کر داخل ہوا ۔ حضرت عثمان کو داڑھی سے پکڑا تو حضرت عثمان نے فرمایا کہ اگر تیرا باپ یہ دیکھ لیتا تو آپ پر خفا ہوتا۔ جس پر محمد بن ابو بکر نے چھوڑ دیا اور پھر دوسرے دو افراد نے شہید کردیا۔ حضرت علی سے حضرت عثمان کی بیگم حضرت نائلہ نے واقعہ بیان کیا کہ ان دو نامعلوم افراد کو نہیں جانتی۔ حضرت علی نے محمد بن ابوبکر سے پوچھا تو وہ بھی نہیں جانتے تھے۔
یہ شکر ہے کہ حضرت علی نے مولویوں کی طرح یہ نہیں کہا کہ عورت کی گواہی حدود میں معتبر نہیں۔ اسلئے اگر قاتلوں کا پتہ بھی چل جائے تو بدلے میں قتل نہیں کرسکتے۔ جب امیر معاویہ نے قاتلین عثمان کو حوالہ کرنے کا مطالبہ کیا تو خوارج کے سردار ذو الخویصرہ نے 20ہزار افراد کے لشکر کے ساتھ کہا کہ یہ سب قاتلین ہیں۔ جس پر حضرت امیر معاویہ نے مطالبہ ترک کردیا۔ اس وقت سے آج تک اُمت ایک اضطراب کا شکار ہے اور اس اضطراب سے نکلنے کیلئے قرآن کی طرف رجو ع کرنا بہت ضروری ہے۔ جس سے اُمت مسلمہ کے مسائل حل ہوں گے۔
سراج الحق عوامی جلسوں میں کہتا ہے کہ” سود کا ادنیٰ گناہ اپنی ماںکے ساتھ خانہ کعبہ میں36مرتبہ گناہ کے برابر ہے ”۔ اور یہ نہیں سمجھتا کہ سودکو حلال کرنے کی وعید اس سے بھی زیادہ ہونی چاہیے۔ سراج الحق مولانا فضل الرحمن کو ٹارگٹ کرتا ہے کہ شرعی عدالت نے سودی نظام کے خلاف فیصلہ دیا،حکومت نافذ نہیں کرتی ۔ انگریز کے خلاف جمعیت علماء ہند نے قربانیاں دیں ۔ جاہلوں نے ان پر قوم پرستی وکفر کا فتویٰ لگایا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی بیگم کی لاش کی بے حرمتی کی گئی کہ مسلمانوں کے قبرستان میں اس کو دفن نہ کیا جائے۔صحابہ کی حرمت پر قربانی دینے والے علماء کرام تھے لیکن جماعت اسلامی اپنے ایک رکن کو ایک قرار داد کی وجہ سے کریڈت دیتی ہے۔ قاضی حسین احمدصدر ملی یکجہتی کونسل تھے تو نمائندہ ماہنامہ ضرب حق امین اللہ نے سوال کیا کہ شیعہ کافر ہیں یا مسلمان؟ تو سخت ناراض ہوگئے۔ مولانا فضل الرحمن کی جماعت میں مولانا حق نواز جھنگوی شہید شامل تھے۔ سپاہ صحابہ بدمعاش بن گئی تو مولانا فضل الرحمن نے دہشت گرد قرار دیا ۔مولانا فضل الرحمن معتدل مزاج ہیں ۔عمران خان نے بھی مولانا فضل الرحمن صاحب کہنا شروع کردیا جو خوش آئند ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے امریکی جہاد کو شروع سے پاکستان کیلئے سونے کی چڑیا قرار دیا اور پیسے نہیں کمائے مگر ریاست کو ضرورت پڑگئی تو مجاہدین کا سوتیلا باپ بن گیا۔ مجھ سے زیادہ علماء اور مولانا پر کسی نے تنقید نہیں کی مگر میں ان کو زندہ باد کہتا ہوں ۔ البتہ انقلاب کیلئے مولانا فضل الرحمن اور علماء خود کو تبدیل کریں تو دہشتگردی کی لہر ختم ہوگی۔
مفتی محمد شفیع نے اپنی تفسیر ”معارف القرآن” میں غلط تفسیر لکھ ڈالی ہے کہ مشرک کو قتل کرو اور زکوٰة نہ دینے اور نماز نہ پڑھنے پربھی قتل کا حکم ہے۔ دیوبندی بھی دو فرقوں میں تقسیم ہیں۔ جو سلفی کی طرف رحجان رکھتے ہیں وہ دوسروں کو مشرک سمجھتے ہیں۔ سوات میں طالبان نے بریلوی پیر کو شہید کرکے اس کی لاش بھی چوک پر لٹکادی تھی۔ سلفی گروپ داعش میں ہیں۔داعش عالمی خلافت چاہتا ہے اور طالبان مقامی سطح پر امارت اسلامیہ کے قائل ہیں۔
مفتی منیر شاکر نے کہا کہ میں محمد ۖ کو اسلئے مانتا ہوں کہ اللہ نے کہا ہے۔ میں عبد المطلب ، عبد اللہ اور آمنہ کو نہیں مانتا اسلئے کہ اللہ نے ماننے کیلئے نہیں کہا۔ جس کے جواب میں مفتی گوہر شاہ نے کہا کہ ”بات صحیح ہے لیکن اس سے نبی ۖ کی توہین ہوتی ہے۔ اگر میں کہوں کہ مفتی منیر شاکر کی عزت اسلئے کرتا ہوں کہ وہ عالم ہے اگر وہ عالم نہ ہوتا تو میں اس مینڈک کی طرح شکل کو نہ مانتا تو اس کو کتنا برا لگے گا؟۔ اللہ کیلئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کتوں کا رب ہے ، خنزیروں کا رب ہے۔ لیکن یہ توہین ہے حالانکہ کتوں اور خنزیروں کا بھی کوئی اور رب نہیں ۔ اللہ مفتی منیر شاکر کو ہدایت دے ورنہ …”۔ بڑی حکمت عملی کے ساتھ فضاء کو بدلنا ہوگا۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ