جنرل قمر جاوید باجوہ اور اس کی بیگم کی افغانی کے ہاتھوں توہین کا مسئلہ کیا تھا؟ حقائق جان لیجئے گا - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

جنرل قمر جاوید باجوہ اور اس کی بیگم کی افغانی کے ہاتھوں توہین کا مسئلہ کیا تھا؟ حقائق جان لیجئے گا

جنرل قمر جاوید باجوہ اور اس کی بیگم کی افغانی کے ہاتھوں توہین کا مسئلہ کیا تھا؟ حقائق جان لیجئے گا اخبار: نوشتہ دیوار

جنرل قمر جاوید باجوہ اور اس کی بیگم کی افغانی کے ہاتھوں توہین کا مسئلہ کیا تھا؟ حقائق جان لیجئے گا

پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو جب ایک افغانی نے فرانس میں گالیاں دیں تو اس نے کہا کہ میں پاکستان کی آرمی کا سربراہ نہیں ہوں۔ لیکن افغانی مسلسل گالیاں دے رہاتھا اور کہہ رہا تھا کہ اگر پولیس نہ ہوتی تو میں تمہارے ساتھ بہت کچھ کرتا۔ تم نے چالیس سال سے افغانستان میں جہاد جاری رکھا ہواہے اور یہاں اپنی بیوی کیساتھ گھوم رہے ہو۔ وہ قارئین کو بتارہاتھا کہ اس کی بہو نیکر میں گھوم رہی تھی اور ہم پر اسلام نافذ کرنے کیلئے جہاد کا حکم جاری کررکھاتھا۔یہ ویڈیو دنیا بھر میں بہت وائرل ہوگئی۔
یوٹیوب پر پیسہ کمانے کے چکر میں بھی لوگ انواع واقسام کی بہت بیہودہ قسم کی ویڈیوزپھیلاتے ہیں۔ افغانستان کے جہاد کا فتویٰ جن علماء ومفتیان نے جاری کیا تھا وہ بھی دنیا بھر میں گھومتے ہیں۔ شیعہ پر جنہوں نے فتوے جاری کئے تھے وہ مفتی عبدالرحیم وغیرہ بھی اپنے مدرسہ میں شیعوں کا استقبال کررہاہے،جس پر سپاہ صحابہ کے رہنماؤں نے بہت برا بھی منایا ہے۔ مولانا حق نواز جھنگوی شہید نے بیگم عابدہ حسین کے خلاف الیکشن لڑا تھا تو اعلان کیا تھا کہ کوئی شیعہ مجھے ووٹ نہ دے۔ اور یہ بھی کہا تھا کہ مجھے قتل کیا گیا تو ذمہ داروں میں بیگم عابدہ حسین بھی ہوگی۔ بیگم عابدہ حسین نے جھنگ کی دونوں سیٹوں سے الیکشن جیت لیا تو مولانا حق نواز جھنگوی کو جس نشست سے شکست دی تھی وہ اپنے پاس رکھ لی۔ یہ1988کا الیکشن تھا جب مولانا حق نواز جھنگوی نے جمعیت علماء اسلام ف سے کتاب کے نشان پر الیکشن میں حصہ لیا۔پھر ان کو شہید کردیا گیا تو مولانا فضل الرحمن نے قتل کا الزام بیگم عابدہ حسین اور نوازشریف پر لگایا تھا۔ شاعر جمعیت سیدامین گیلانی بھی بیگم عابدہ حسین اور تہمینہ کا نام لیکر جلسوں کو اشعار سے گرماتا تھا کہ یہ بیہودہ عورتیں ہیں ۔1990ایثارالحق قاسمی نے بیگم عابدہ حسین کیساتھ مل کر اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم پہلی مرتبہ نشست جیت لی تھی۔
جب مولانا فضل الرحمن متحدہ مجلس عمل میں ایک ووٹ سے وزیراعظم کا الیکشن ہار گئے تھے تو اس وقت مولانا اعظم طارق نے اپنا وہی ووٹ ظفراللہ جمالی کو دیا تھا۔ دوسری طرف عمران خان نے اپنا ایک ووٹ مولانا فضل الرحمن کو دیا تھا۔ جمہوریت کفر وغداری کے سب داغ مٹادیتی ہے اور نسل در نسل جن خصائل اور شمائل کاپتہ نہ چل سکے جمہوریت چند سال میں انسان کے رگ رگ کا پتا دیتی ہے۔ خلافت کے قیام کا وقت قریب لگتاہے لیکن اس سے پہلے مختلف لوگوں کے چہروں سے نقاب کا اترنا بھی اللہ کی سنت رہی ہے۔ اگر شیطان جنت تک پہنچ کر فرشتوں کا استاذ اور بہت زیادہ عبادت گزار نہ بنتا تو کیسے ابلیس کا پتہ چل سکتا تھا؟۔
افغانستان میں روس وامریکہ کے خلاف جہاد کے فتوے پاک فوج نہیں علماء ومفتیان نے دئیے ہیں مگر کیا اس افغانی کی طیش کے حقدار علماء ومفتیان تھے یا پاکستان کی فوج ؟۔ یا پھردونوں ذمہ دار تھے؟۔سینیٹر مشتاق احمد خان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور وہ قوم پرستوں سے مل کر پاک فوج کو بہت برا بھلا کہتا ہے۔ فوج سے بہت لوگوں کو نفرت ہے اور اس بہتی گنگا میں سب ہاتھ دھو رہے ہیں۔ اگر سوات یا وزیرستان میں طالبان نے قبضہ کیا تو پاک فوج ذمہ دار ہوگی یا علماء ومفتیان؟۔ کیا فوج نکل جائے تو طالبان سے عوام اپنی حفاظت کرسکتے ہیں؟۔ عمران خان نے کہا کہISPRپاک فوج کے ترجمان نے مجھے دوغلا کہہ دیا لیکن دنیا جانتی ہے کہ پاک فوج نے دوغلا کردار اداکیا۔ میں نے دنیا بھر میں پاک فوج کا دفاع کیا۔ جب عمران خان نے طالبان اور پاک فوج دونوں کا دفاع کیا تو اس وقت کتنے دوغلے پن کی مشقیں کی ہوں گی؟۔
ہر طرف سے بے ایمانی ، بے غیرتی، بدفطرتی اور انسانیت سوز معاملات کا غلغلہ ہے۔ عمران خان نے کوئی اچھا کردار ادا نہیں کیا ہے تودوسرے بھی دودھ کے دھلے نہیں ہیں اسلئے قوم کو حق وسچ بتانا چاہیے ۔
رؤف کلاسرا کے کالم کتابی شکل میں چھپ چکے ہیں، اس میں فوجی سپاہیوں کی قربانی کا بھی ذکر ہے اور طالبان کیلئے دوغلی پالیسیاں رکھنے والے ماڈرن پاکستانی خواتین کا بھی ذکر ہے۔سچ لکھنے پربڑی مشکلات کا بھی ذکر ہے اور حق گوئی کے دعویدار صحافیوں کے چہروں سے اس وقت نقاب اتر سکتی ہے کہ جب حقائق کی بھرپور نشاندہی عوام کے سامنے کی جائے۔ حکومت، ریاست ، عدالت اور صحافت سب کو چاہیے کہ مل بیٹھ کر اس دور کے درست معاملات عوام کے سامنے لائیں۔ ایک فوج پر سارا بوجھ مسلط کرنا ٹھیک نہیں ہے ۔ جب ہمارے خاندان کے غیر فوجی اور غیرمذہبی لوگ طالبان کو سپورٹ کررہے تھے جن کو یہ معلوم تھا کہ1948کے کشمیری محسودمجاہدکی بیوی پیرآف وانہ نے چھین لی تھی تو کرایہ کے ٹٹو کس طرح قابلِ اعتماد ہوسکتے ہیں؟۔ پھر جاہل محسود وں کا کیا قصور تھا کہ وہ بارود اپنے دبر میں بھر کر مساجد، علمائ، بازاروں اور گھروں پر دھماکے کرتے تھے۔ علی وزیر کو گرفتار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ کوئٹہ پریس کلب میں بلوچ قوم کو یہ کہنا کہ” ہم مورچہ سنبھالیں گے اور آپ کو پیچھے رکھیں گے”۔ بالکل بے تکی بات تھی۔ بلوچ چھاپہ مار جنگ لڑرہے ہیں۔ بلوچ خاتون تک نے خود کش حملہ کردیا۔ علی وزیر قومی اسمبلی میں کہتا ہے کہ ”میرے خاندان نے پاک فوج کی وجہ سے قربانیاں دیں”۔ مضبوط فوج کے خلاف بغاوت کیلئے بڑی ہمت چاہیے۔ مرد پہاڑپرلڑیں اور خواتین احتجاجی دھرنے دیں تو مشکل بات ہے۔PTMایک طرف طالبان کو فوج کے کھاتے میں ڈالتی ہے اور دوسری طرف طالبان کے مسنگ پرسن کیلئے آواز اٹھاتی ہے۔ لوگ ان کواس ٹرائیکاکا حصہ سمجھتے ہیں ۔اگر فوج طالبان کے پیچھے ہے اور طالبان کو مسنگ کردیتی ہے اور یہ طبقہ ان مسنگ کیلئے آواز اٹھاتا ہے تو یہ تینوں آپس میں مربوط ہیں اور سپیرے کا ساز سانپ کو پکڑنے کیلئے ہے۔یہ روزی روٹی چلانے کااچھا دھندہ لگتاہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟