جنرل راحیل شریف کا کردار اور پختون قوم کی شکایت
جولائی 11, 2016
پختون قوم کی اکثریت اپنے گناہوں کی سزا کھا رہی ہے ظھرالفساد فی البر والبحر بماکسبت ایدی الناس ’’ فساد ظاہر ہوا خشکی اور سمندر میں بوجہ لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے ‘‘۔ مگر اسکو گلہ پاک فوج کے جوانوں سے ہے۔ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو پوری پاکستانی قوم کی ہمدردیاں طالبان کیساتھ تھیں اور پختون من حیث القوم طالبان بن گئے۔طالبان کے شدت پسند حامی کہتے تھے کہ ’’ اللہ کرے کہ انڈیا ہماری فوج کو پکڑلے‘‘۔ فوج کی طرف سے طالبان کیخلاف کوئی موثر کاروائی ہوتی تو بغاوت بھی پھیل سکتی تھی۔پوری قوم کی طرح پاک فوج بھی طالبان کیخلاف نہ تھی، امریکہ بھی القاعدہ کا مخالف تھااور طالبان رہنماؤں کو دنیا بھر میں آزادی سے نقل وحمل کی اجازت تھی ،امریکہ و طالبان کی مشترکہ منڈی کامرکزقطر تھا،اس اندھی لڑائی میں دوست دشمن کی تفریق ممکن نہ تھی، پاکستان اور امریکہ بھی ایک دوسرے کے برابر دشمن بھی رہے اور دوست بھی۔
جنرل راحیل شریف سے پہلے پرویزمشرف کے دور میں پاک فوج کو عوام نے بہت قریب سے دیکھا، جنرل کیانی کے چھ سالہ دورِ اقتدار میں پاک فوج نے عوام کو اپنا چہرہ اورقریب سے دکھایا، فوج کے اہلکار بوتلوں میں پیٹرول اور ڈرموں میں ڈیزل سڑکوں پر بیچتے تھے، پولیس کی طرح جرائم پیشہ عناصر سے تانے بانے بھی کھل کر ملتے تھے، ریاست کی رٹ بالکل ختم ہوگئی تھی۔ ایک نابینا مولوی کا لطیفہ تھا کہ اپنے شاگرد سے کہا کہ جب لوگ کھانے کے مشترکہ تھال میں کھانا شروع کریں اگردوسرے تیز کھائیں تومجھے بھی ہلکا سا اشارہ کردیں، پسلی پر ہاتھ مار دیں ،پھر میں بھی تیز کھانا شروع کرونگا۔ شاگرد طالب کو اس کی بات ناگوار لگی اور اسکے ذہن سے بات بھی نکل گئی، جب کھانا شروع ہوا تو نابینا نے پہلے سے بڑے بڑے نوالے لینا شروع کردئیے، شاگرد نے سوچا کہ اشارے سے سمجھا دیتا ہوں کہ بُرے لگتے ہو اور ہلکا سا ہاتھ مار کر اشارہ کردیا، مولوی نے سمجھا کہ تیز کھانے کیلئے کہہ رہا ہے۔ اس طرح شاگرد اس کو منع کرنے کیلئے اپنا ہاتھ مارتا رہا اور مولوی مزید تیز ی سے کھاتا رہا اور آخر شاگرد نے زور دار طریقہ سے مکا مارا،کہ بس کرے اور اس نے کھانا اپنے دامن میں دونوں ہاتھوں سے ڈالنا شروع کیا اور گالیاں بھی دے رہا تھا کہ میں رہ گیا اور سب نے لوٹ کر کھانا کھایا ہے جبکہ لوگ اس حریص ہی کا تماشہ دیکھتے رہ گئے۔
جنرل اشفاق کیانی کی قیادت میں بس یہی جملہ کراچی کے رینجرز سے فوج کے تمام اداروں میں مشہور تھا کہ اگرملک زرداری اور اسکے ساتھی کھالیں، لوٹ مار کریں تو ہم کیوں کر مستحق نہیں ہیں، جنرل راحیل شریف کی قیادت میں سب سے پہلے جو ہاتھ ڈالا گیا وہ اپنے ادارے اور اسکے لواحقین پر ڈالا گیا۔ ایگزیکٹ کی طرح دنیا بھر میں جعلی تعلیمی ادارے اسناد بیچنے کا کاروبار کرتے ہیں اور بڑے کھل کر کرتے ہیں مگر جنرل راحیل شریف کی ٹیم نے سارے مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر ان تمام افراد پر پہلے ہاتھ ڈالا،جنکے تانے بانے اپنوں سے ملتے ہوں۔ اس انتھک محنت، جدو جہد اور مؤثر کاروائیوں کے نتیجے میں ملک تاریکی سے اجالے، دہشت گردی سے امن وامان اور کرپشن سے دیانت وامانت کی طرف گامزن ہوا ہے۔
ایک شخص جنرل راحیل شریف اپنی ٹیم کیساتھ بہت کچھ کر گیا اور ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، چیف جسٹس انور ظہیرجمالی بھی بذاتِ خود ایک بہت اچھے انسان ہیں، جن سیاستدانوں کو کرپشن کے علاوہ کوئی کام نہیں آتا، ان پر ہاتھ ڈالے بغیر قوم کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔ پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے، سازشوں کی لہریں اٹھ رہی ہیں، موجودہ حکمرانوں میں اہلیت نہیں ، قوم کو صرف اس طرف لگایا گیا ہے کہ زیادہ کرپٹ، بدمعاش، بداخلاق اور بدکردار سیاستدان ہیں یا پاک فوج ہے؟۔ دونوں اسی دھرتی کے باسی اور ماشاء اللہ وسبحان اللہ ہیں۔دونوں میں اچھے برے ہیں، دونوں نے غلطیاں کی ہیں،دونوں کو قربانیاں دینی پڑیں گی اور پاکستان کی ترقی کیلئے ایک نئے سرے سے لوگوں میں انسانیت، اخلاقیات، صداقت، عفو و درگزر ، شجاعت ، دیانت ،امانت اور ایمانیات کا احساس اجاگر کرنا ہوگا۔
یہ قوم مردہ ، ضمیر فروش، اخلاق باختہ ، انسانیت کُش اور تمام طرح کی روحانی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہوچکی ہے۔ تہذیبِ اخلاق کیلئے صرف جذبہ سے نہیں بلکہ مؤثر قانون سازی اور کردار سے اس میں اعلیٰ انسانیت کی روح پھونکی جاسکتی ہے۔ یہ کس کی سازش ہے کہ ہم سڑکوں پر انسانیت کے تمام معیارات بھول جاتے ہیں؟۔ یہ ہمارے رول ماڈلز کا تحفہ ہے جن کی وجہ سے ٹریفک کی روانی میں عوام کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جہاں سڑک کشادہ ہونی چاہیے تھی، وہاں بااثر طبقہ کی طرف سے اپنی جان کی امان کیلئے رکاوٹیں کھڑی کرکے عوام کا جینا دوبھر کرنے کا سامان کیا گیا ۔رائے ونڈ محل کی سیکیورٹی سے عوام کو مشکلات کا سامنا نہیں لیکن تحریک انصاف کی جہاں حکومت ہے وہاں کے صدر مقام پشاور میں کورکمانڈر ہاؤس کے سامنے ایک طرف کی سڑک رات کو بند کی جاتی ہے، ہمارے دفاعی ادارے عوام کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے ہیں یا اپنے تحفظ کیلئے عوام کا جینا دوبھر کرنے کیلئے؟۔
ایسے سیاسی حکمران بھٹو، نواز شریف اور عمران خان تک کسی کام کے نہیں جو فوجی افسران کا دم چھلہ ہوں، فوج کا کام عوام پر حکمرانی کرنا نہیں اپنی ڈیوٹی انجام دینا ہے اور سیاسی حکمران اگر عوام کے درست معنیٰ میں خادم اور نوکر ہوں تو فوج عوام کی غلام ہونی چاہیے۔ انگریز نے اپنی غلامی کیلئے جن کو بنایا ہے ، یہ اپنی عوام پر حکمرانی کرینگے تو گدھوں کی دولتی سے عوام کی ناک بھی ٹوٹے گی، ناک نہ رہے تو عزت کیا رہے گی؟۔ حکمران غلاموں کے غلام ہونگے تو ان میں اخلاقیات کا کیا معیار ہوگا؟۔ پاک فوج کا سربراہ اپنے غلام حکمران کو کیا سلام کریگا؟۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان جیسے لوگ شرم ، حیاء، اخلاقیات، انسانیت اور اسلام کے کسی اصول کو نہیں مانتے۔جسطرح نوازشریف نے کاروبار سیاست سے فائدہ اٹھاکر اخلاقیات کیلئے کوئی رول ماڈل کا کردار ادا نہ کیا، اسی طرح فلاحی اداروں کے بل بوتے پر اپنا مفاد حاصل کرنے والا کوئی ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان قوم کی تقدیر نہیں بدل سکتاہے۔ پاکستان میں شریف اور اچھے لوگوں کی کسی بھی ادارے میں کمی نہیں مگر اہل لوگوں کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے اور بک بک کرنے والوں اور بے شرمی سے گھناؤنا کردار ادا کرنے والوں کو ہی آگے لایا جاتا ہے۔
سوات میں افضل خان لالا مرحوم نے دہشت گردی کے خلاف جو کردار ادا کیا، اگر حکومت ،میڈیا،سیاستدان اور عوام ان کو پذیرائی بخشتے تو ملالہ یوسف زئی کو آدھا نوبل انعام ملا، اس سے پہلے افضل خان لالا پورے نوبل انعام کے مستحق تھے، اس طرح میاں افتخار حسین نے جن مشکلات کے دور میں جو کردار ادا کیا ، تحریک انصاف کے کارکنوں نے اسکے گھر پر تماشہ لگاکر کتنا مضحکہ خیز کردار ادا کیا؟۔ اس پر قتل کا پرچہ کٹوایا گیا۔ کوئی شریف آدمی تحریک انصاف کے بداخلاق رہنماؤں کیساتھ کسی ذمہ دار عہدے پر کام کرنے کیلئے بھی آمادہ نہیں ہوتا ۔ مولانا فضل الرحمن کا حال تو اتنا بُرا ہوا کہ ہمارے ہاں ایک ریٹائرڈفوجی حوالدارہے جس کو بالآخر یہ تک شرارتی بچہ پارٹی کہتی تھی کہ دو روپیہ میں اپنا چوتڑ دیوار سے ٹکراؤ، وہ رقم کی خاطر ریورس گیر لگاکر چوتڑ کو دیوار سے ٹکرا دیتا تھا، مسلم (ن) کا ایک گھٹیا کارکن بھی مولانا فضل الرحمن کی طرح نہ کہتا کہ ’’پنجاب کے شیروں کو پختونخواہ کے چوہوں نے للکارا ہے‘‘۔ فوج تبدیلی کی خواہش رکھتی ہو تو خود بھی حکمرانی کی کوشش نہ کرے اور گھٹیا سیاستدانوں کو بھی نہ لائے، شریف لوگوں کے ذریعہ نظام کو درست کرنے کیلئے قومی حکومت ہو تو اچھے نتائج نکلیں گے۔عوام چہروں کی نہیں نظام کی تبدیلی چاہتی ہے۔ سید عتیق الرحمن گیلانی
لوگوں کی راۓ