پوسٹ تلاش کریں

نواز شریف کو بیماری کا بہانہ بنا کر ملک سے باہر لانا پارٹ ون اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا آڈیو اور ویڈیو سکینڈل پارٹ ٹو ہے۔

نواز شریف کو بیماری کا بہانہ بنا کر ملک سے باہر لانا پارٹ ون اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا آڈیو اور ویڈیو سکینڈل پارٹ ٹو ہے۔ اخبار: نوشتہ دیوار

نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ دسمبر2021۔ سوشل میڈیا پوسٹ
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)

جب برطانیہ نے نوازشریف سے کہا کہ صحت کی بنیاد پر ویزے میں مزید توسیع نہیں دے سکتے تومردہPDMمیں دوبارہ جان ڈال دی گئی ، مفاہمت اور مزاحمت کا فیصلہ نوازشریف کی آمد اور مفاد کیلئے کیا جائیگا، پیپلز پارٹی کو اسلئے باہر کردیا گیا کہ پھرنوازشریف اپنے مفاد کی سیاست کھل کر نہیں کھیل سکتا تھا۔ بیماری کا جھانسہ دیکر باہر جانا پارٹ ون اور ویڈیوز اسکینڈل پارٹ ٹو ہے۔ریاست اور سیاست کی منافقت نے اب عوام کے اعتماد کو ہر چیز سے اٹھادیاہے!

اس میں کوئی شک نہیں کہ عدالت، فوج، سیاست، سول بیوروکریسی، پولیس، انتظامیہ،مذہبی لوگ، سوشلسٹ اور پاکستان کی تما م عوام میں عظیم لوگوں کی کوئی کمی پہلے بھی نہیں تھی اور آج بھی نہیں ہے لیکن حالات کچھ اس طرح سے ہیں کہ عظیم نہیں بن پارہے ہیں۔ پاکستان کا قومی ترانہ ”ترجمانِ ماضی، شانِ حال اور جانِ استقبال ” کو سوچے سمجھے بغیر ہمارے بچے ، جوان اور بوڑھے پڑھتے ہیں۔
مسلمانوں کا شاندار ماضی وہی تھا جس میں اسلام کی بنیاد پر نبی رحمت ۖ کے دور کی بھی خلافت علی طرز نبوت نے دنیا کی دو سپر طاقتوں مشرق میںایران اور مغرب میں روم کو شکست سے دوچار کردیا تھا۔ جب قومی ترانے کے الفاظ میں” ترجمانِ ماضی ” پڑھا جاتا ہے تو ہمارا ذہن اپنے شاندار ماضی کی طرف نہیں جاتا ہے۔ اگر ترجمانِ ماضی کی طرف ذہن نہیں جاتا ہے تو پھر ”شانِ حال ” کا بھی پتہ نہیں چل سکتا ہے اور ” جانِ استقبال” کا بھی پتہ نہیں چل سکتا ہے۔
جب پاکستان سے دوبارہ طرز نبوت کی خلافت کا آغاز کیا جائے تو پھر اس کو ”شانِ حال ” کہہ سکتے ہیں۔ مولانا طارق جمیل کا یہ کہنا خوش آئند ہے کہ عمران خان ریاستِ مدینہ کی بات کرتا ہے تو بھی بہت اچھا ہے۔ حدیث میں جہاد ہند سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک ایک نظام کی نشاندہی ہے۔ جس میں شانِ حال اور جانِ استقبال کا پورا پورا نقشہ موجودہے۔ اگر پاکستان میں ریاستِ مدینہ قائم ہوگئی تو نہ صرف مشرقی پاکستان دوبارہ مل جائیگا بلکہ پورے کا پورا ہندوستان بھی اپنی مرضی سے بغیر کسی دباؤ کے اسلام قبول کرلے گا اور جو متعصب ہندو پھر بھی ہندو بن کر رہنا چاہتے ہوں تو ان پر کوئی زور وزبردستی اور جبر نہیں ہوگا مگر اسلام کا معاشی اور معاشرتی نظام ان کیلئے بھی مسلمانوں کی طرح قابلِ قبول ہوگا۔ سکھ بھی ہمارے ساتھ مل جائیں گے اور کشمیری بھی مظالم سے بچ جائیں گے۔
عدالت، ریاست ، اپوزیشن ،سیاسی اورمذہبی جماعتوں کا حال یہ ہے کہ نواز شریف کا اسلامی جمہوری اتحاد دراصل انتقامی جرنیلی انتشار تھا۔1988ء کے الیکشن میں پیپلزپارٹی نے اقتدار سنبھالا۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے پاکستان کو پہلی مرتبہIMFکا مقروض بنایا اور نوابزادہ نصراللہ خان کے مقابلے میں غلام اسحاق خان کو صدر بنادیا۔جس کی وجہ سے پیپلزپارٹی دو لخت ہوگئی۔ میرمرتضیٰ بھٹو شہید نے موجودہ پیپلزپارٹی کو اس وقت زرداری لیگ قرار دیا۔ اسلامی جمہوری اتحاد کابانی جنرل حمید گل تھا اور تحریک انصاف کا اصل بانی بھی جنرل حمیدگل تھا۔
جنرل حمید گل نے اپنی وفات سے چند دن پہلے ہمیں بتایا کہ دوشخصیات سے وہ متأثر ہیں۔ ایک قائداعظم محمد علی جناح اور دوسرے امیرالمؤمنین ملا عمر۔بس جب وہ اپنے مشن کیلئے کھڑے ہوگئے تو پھر اس کی تکمیل کرکے ہی چھوڑا تھا۔
علامہ اقبال نے کہا کہ” مجموعۂ اضداد ہوں اقبال نہیں ہوں”۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا: ولو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافًا کثیرًا ”اگریہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی غیر کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سارے تضادات وہ (مخالف) پاتے ”۔ انسان وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا ہے اور اس کے کردار میں بہت سارے تغیرات اور تضادات نمایاں طور پر موجود ہیں اور ہم پاکستان کو مملکتِ خداداد کہتے ہیں لیکن اس کی تشکیل اور وجود میں بھی بڑے تضادات ہیں۔ دوقومی نظرئیے کے تحت پاکستان بن گیا لیکن بنگالی اور سندھی، پنجابی، پختون اور بلوچ پھر مشرقی اور مغربی پاکستان کی ایک قوم کی جگہ دو الگ الگ قومیں بن گئیں۔ ایک بنگلہ دیشی قومیت اور دوسری پاکستانی قومیت۔ کیاوجہ تھی کہ پاکستان و ایران کے بلوچ، پاکستا ن وافغانستان کے پختون، پاکستان و ہندوستان کے پنجابی الگ الگ قومیت اور ملک سے تعلق رکھتے ہیں لیکن کشمیری اب بھی ایک قوم ہیں؟۔ بنگلہ دیش و پاکستان کے لوگ ایک قوم تھے لیکن ایران و افغانستان اور عرب ممالک کے ساتھ پوری دنیا سمیت پاکستان کے لوگ ایک مسلم قوم نہیں تھے؟۔ متحدہ ہندوستان کی قومیت کا نعرہ لگانے والے کانگریس اور جمیعت علماء ہند کے علماء کرام پر علامہ اقبال سے لیکر جاہل مسلم لیگی کارکنوں تک نے ابولہب اور کافر کے فتوے لگائے۔ مولانا ابوالکلام آزاد، عبدالغفار خان اور عبدالصمد خان اچکزئی نے متحدہ ہندوستان کی ایک قومیت کا نعرہ لگایا تھا لیکن وہ افغانستان کیساتھ اکٹھا ہونے کیلئے تیار نہیں تھے؟۔ آج لر وبر یوافغان کا نعرہ جو لوگ لگارہے ہیں وہ اپنے قائدین سے انحراف کررہے ہیں۔
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر مریم نواز کی طرف سے ویڈیوز کے انکشافات کا سلسلہ جاری رکھنے کا معاملہ موضوعِ بحث ہے جس کی بنیاد پر کیسوں اور سزاؤں کو جھوٹا اور انتقامی قرار دیا جارہاہے لیکن میڈیا یہ کام کیوں نہیں کرتا کہ نوازشریف کی پارلیمنٹ کی تقریر جس میں2005ء میں سعودیہ کی وسیع اراضی اور دوبئی مل بیچ کر2006ء میں لندن کے ایون فیلڈ لندن کے فیلٹ خریدنے کا نیا انکشاف تھا ۔ حالانکہ بینظیر بھٹوکے دوسرے دورِ حکومت میں اس پر اٹل ثبوتوں کیساتھ کیس چلے تھے اور غلام اسحاق خان نے نوازشریف کی حکومت کو اسی کرپشن کی وجہ سے ختم کیا تھااورنوازشریف کوISIنے اسلامی جمہوری اتحاد کے نام پرپیسے بھی دئیے تھے اور یہ سب چیزیں عدالت، ریاست ، میڈیا اور عوام کے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔
یہ کس قدر ناکام نظام کی بات ہے کہ اگر اتنے واضح ثبوتوں کے باوجود بھی اسٹیبلشمنٹ کو زور لگانا پڑجائے کہ نوازشریف کو سزا دی جائے؟۔ یہ بھی پتہ نہیں چلتا ہے کہ جسٹس قیوم اورملک ارشد کی طرح جسٹس ثاقب نثار بھی نوازشریف کیساتھ اندورن خانہ ملے ہوں اور ایک ویڈیو بھی بنادی ہو۔ جب انکار کرنے کے بعد پوری قوم ثاقب نثار کی پشت پر کھڑی ہوجائے اور پھر وہ پیسے کھاکر اسکا اعتراف کریں کہ مجھ پر نوازشریف کو نکالنے اور عمران خان کو لانے کیلئے دباؤ تھا۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عدلیہ اور فوجی اسٹییبلشمنٹ دونوں کو ایک ساتھ رگڑا دینے کیلئے ثاقب نثار کی ویڈیوز کو استعمال کیا جائے۔ جیسے حامد میر نے امریکی اخبار کیلئے ایک کالم میں نیا انکشاف کیا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایجنسیوں نے عمران کی چھٹی کرانے کا فیصلہ کیا ہو ۔ گوگلی نیوز میں یہی خبریں دی جارہی ہیں۔
جس طرح ایک وکیل پیسے کھاکر اپنی قانونی پوزیشن مجرم کی حمایت یا مخالفت میں بدلنے کیلئے کوئی شرم نہیں کھاتا ہے ،اسی طرح بڑی رقم ملنے کے بعدآن ڈیوٹی اور ریٹائرڈ جج بھی اپنی اخلاقیات بیچ کر امیروں میں شامل ہونے کیلئے وہ سب کچھ کرنے کیلئے تیار ہوجاتا ہے جو ایک عام انسان کا خاصا ہوتا ہے۔ حدیبیہ پیپر ملز کا کیس ختم ہونے کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ کی بیگم کے نام پر لندن میں پراپرٹی برآمد ہونے کاکیا نتیجہ نکل سکا تھا؟۔ جب جج، جرنیل اور سیاستدان اپنی اپنی جائزاولادوں اور بیگمات کو بھی اپنے سے الگ کرکے ترقی یافتہ ممالک کے آزاد شہری قرار دیتے ہوں اور بڑے پیمانے پر سودی قرضے لیکر منی لانڈرنگ کا معاملہ جاری ہو تو کون کس سے کیا پوچھے گا؟۔ مجرم قانون سے بچنے کے تمام طریقے جانتے ہیں اور عوام پر سودی قرضوں کی وجہ سے مہنگائی کا بوجھ بڑھتا جارہاہے۔
عمران خان اور نوازشریف کے تضادات اور ڈھیٹ پن کا نام سیاست رکھ دیا گیاہے۔ اگر نوازشریف کے خلاف لندن ایون فیلڈ کیس کا تاریخی جائزہ بھی لیا جائے اور ملک ارشد اور ثاقب نثار کی ویڈیوز پر اس کو معصوم اور بے گناہ قرار دینے کی تحریک کا بھی جائزہ لیا جائے تو عوام و خواص سب اس نظام سے مایوس ہوں گے اور عمران خان کی تمام ویڈیوز اور موجودہ کردارکو دیکھا جائے تو بھی سبھی اس نظام سے مایوس ہوں گے۔ جس نظام نے نوازشریف کا کچھ نہیں بگاڑا اور جس نظام کے ذریعے اتنے وعدوں کے باوجود عمران خان ، اس کی پشت پناہی والے کچھ نہیں کرسکے بلکہ اس مدت میں سودی گردشی قرضے ڈبل کردئیے ۔ زرداری سے پہلے پرویزمشرف نے قرضہ اتارنے کے بعد پھر قرضہ لیا۔ پھر زرداری اور نوازشریف اور عمران خان نے اس سلسلے کو جاری رکھا اور اب بات یہاں تک ہی پہنچ گئی ہے کہ جتنا گردشی قرضے کے عوض ہم سود دیتے ہیں ،وہ ہمارے ٹیکس کے قریب پہنچ گیا ہے۔ نوازشریف کے دور میں دفاعی بجٹ سے سود زیادہ ہوگیا تھا اور اب سود اسکے ڈبل تک پہنچ کر ہمارے ٹیکس کی کل مقدار تک پہنچ گیا ہے۔
اسلامی انقلاب کے ذریعے سب سے پہلے ہم اپنی اصلاح کرسکیں گے اور جس طرح امریکہ اور نیٹو کو افغانستان میں اسلامی جذبے نے شکست دی تھی اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کی ظالم فوج کو بھی ہم شکست دے سکتے تھے۔ ہماری ریاست غریب کو انصاف دینے میں مکمل ناکام ہے ۔ بڑے لوگوں کو اپنے انجام تک پہنچانا ممکن نہیں ہے ۔ چور ہیں سب چور ہیں کا شور مچانے سے کچھ نہیں ہوگا ، اپنے نظام انصاف کو درست کرنا ہوگا۔ پارلیمنٹ اور جمہوری ذرائع سے انتخابات بھی تجارت ہیں۔ سینٹ کے انتخابات میںکروڑوں کے اندر ایک ایک ووٹ کی قیمت لگنے سے پتہ چلتا ہے۔ پیسوں کیساتھ کھیلنے والے اس نظام کے کرتے دھرتے اور کرتوت ہیں۔ نظریاتی سیاست کا کوئی نام ونشان تک نہیں۔
سندھ ، پنجاب، مہاجر ، بلوچ اور پختون کارڈ کھیلنا کوئی نظریہ نہیں ۔ پنجاب میں برادری ازم کارڈ کھیلا جاتا ہے اور جب انتخابات کا وقت آتا ہے تو تعصبات اور پیسوں کی جیت ہوتی ہے۔ ایسا ملک اور ایسی قوم کبھی بھی کوئی اچھا وقت نہیں دیکھ سکتی ہے۔ طاقتور طبقات لینڈ مافیا اور بدمعاشوں کی سرپرستی کررہے ہوں اور مظلوم اور کمزور طبقات کو خدا کے سہارے پر چھوڑ دیا گیا ہو۔ فلسطین ومقبوضہ کشمیر کے حالات ہمارے ہاں بھی کم عقل لوگوں کی بیوقوفیوں سے بنتے جا رہے ہیں۔ عمران خان اداروں کو مضبوط کرنے نکلے تھے لیکن ادارے اپنے مضبوط کردار کی بدولت ہی مضبوط بن سکتے ہیں۔ نوازشریف پر بہت زبردست اور سچے کیس بن گئے تھے اور عمران خان بھی پشاورBRTسمیت کئی کیسوں کی نذر ہوسکتے ہیں۔ زرداری اینڈ کمپنی پر ہمارے ناقص نظام کی وجہ سے کوئی چیز ثابت کرنا مشکل ہے اور جو بے قاعدگیاں ہمارے ریاستی اداروں اور اہلکاروں کی طرف سے کی جاتی ہیں تو بڑے بڑے مجرم بھی معصوم لگنے لگتے ہیں کہ یہ توآوے کا آوا بگڑا ہواہے اور سب اس حمام میں ننگے ہیں۔ قانون کی بالادستی کا توسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
کراچی میں نسلہ ٹاور کے علاوہ بہت سارے غیرقانونی قبضے چھڑائے گئے لیکن شاہراہ فیصل اور اس کی ملحقہ سڑکوں پر سروس روڈوں پر بھی قبضے کئے ہوئے ہیں اور ائرپورٹ کے سامنے شاہراہ فیصل پر ریلوے کی زمین پر ناجائز بلڈنگ سمیت پوری شاہراہ فیصل پر کہاں کہاں قبضے ہوئے ہیں ان سب کا جائزہ لیکر اس اہم شاہراہ کی توسیع کردی جاتی تو سبھی لوگ خوش ہوتے کہ قانون کی واقعی اس ملک میں بالادستی ہے۔ کراچی کا پانی مافیا بیچ رہاہے۔ کراچی کے تھانے بکتے ہیں اور کراچی بلڈنگ مافیا کھلے عام ندی نالوں پر قبضہ کرکے فلیٹ بیچ رہے ہیں اور کراچی میں لیز کی تیس سالہ زمینوں پر بلڈنگ مافیا غریب کو دھوکہ دے رہاہے۔ ہماری حکومت اور ریاست کہیں بھی نظر نہیں آرہی ہے ۔ لوگوں کو حکمران طبقے سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ کسی حکمران طبقے کی شکل بھی کسی کو اچھی نہیں لگ رہی ہے لیکن مجبوری اور مظلومیت کی فریاد عرش تک بھی نہیں پہنچائی جارہی ہے اسلئے کہ مخلوق اور خالق کے تعلقات بھی بہت خراب نظر آتے ہیں۔ امیر طبقے سے بھی زیادہ غریب ظالم بنتا جارہاہے، دو ٹکوں کیلئے کسی کی جان لینا بھی بڑی بات نہیں سمجھتے ہیں۔ پوری قوم کو توبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جو کرپشن پر بڑے بڑے ہاتھ مارتے ہیں اگر یہ سیدھے ہوگئے تو لوگوں کو جائز روزگار ملے گا اور پھر ڈکیتی اور چوریوں کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔ یہ ملک کہیں ہاتھ سے نہ نکل جائے۔
مذہبی طبقات کا حال یہ ہے کہ مفتی عزیزالرحمن نے اپنے باریش طالب علم صابرشاہ کو امتحان میں پاس کرنے کی لالچ پر جنسی ہوس کا نشانہ بنایا تھا اور پہلے یہ ظالم کا طرۂ امتیاز ہوتا تھا کہ وہ مظلوم کی ویڈیو بناکر ڈراتا تھا کہ تمہارا جنسی معاملہ آشکار کرکے لوگوں میں بدنام کرکے رکھ دوں گا لیکن اب مظلوم نے بھی اپنی ہی ویڈیو بناکر یہ تماشا دنیا کو دکھا دیا کہ یہ ہو کیا رہاہے؟۔جب پاس کرنے کی لالچ میں صابرشاہ جیسے لوگ یہ کام کرسکتے ہوں تو پھر دہشت گردی، مفادپرستی اور دیگر معاملات میں کہاں سے کہاں اور کیا سے کیا لوگ نہیں کرتے ہوں گے؟۔
امام حسن کو زہر دے کر شہید کیا گیا تھا اور امام حسین کو کربلا میں شہید کیا گیا تھا لیکن اب کالعدم سپاہ صحابہ کے بانی مولانا حق نوازجھنگوی شہید کے بیٹے مولانا اظہار الحق جھنگوی کی لاش پہلے ہوٹل میں مردہ حالت میں ملی تھی جس کا کوئی بھی سراغ نہیں لگ سکا تھا اور اب دوسرے صاحبزادے مولانا مسرورجھنگوی کوبھی باغی قرار دیا جارہاہے۔ کہیں سانحہ کربلا پیش نہ آجائے۔ مولانا حق نواز جھنگوی کا تعلق جمعیت علماء اسلام ف سے تھا اور انہوں نے1988ء میں جمعیت ف کی ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا اور جمعیت ف کے صوبائی نائب امیر بھی تھے لیکن جب ان کو شہید کیاگیا تو مولانا ایثارالحق قاسمی نے بیگم عابدہ حسین شیعہ کے ساتھ اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے اتحاد کرکے جھنگ کی سیٹ شیعوں کے ووٹوں سے جیتی تھی۔ مولانا حق نوازجھنگوی کے بچے اس وقت بہت چھوٹے تھے لیکن آج مولانا حق نواز جھنگوی کا بیٹا اپنے باپ کے نقشِ قدم پر چل کر مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دے رہاہے تو اس کو کالعدم سپاہ صحابہ کا نہیں صحابہ کرام کا بھی باغی قرار دیا جارہاہے۔ مولانا سید محمد بنوری شہید نے بھی مولانا فضل الرحمن کیلئے اپنی جان کی قربانی دیدی تھی لیکن مولانا فضل الرحمن نے اس کا پھر ساتھ نہیں دیا تھا۔
مذہبی اور سیاسی انتشار اور بے اعتمادی سے پہلے ایسی فضاء کی ضرورت ہے کہ جب بنوامیہ اور بنوعباس کی طرح ناجائز لوگ خاندانی بنیاد پر قبضہ کرکے اہل بیت پر مظالم کے پہاڑ اسلئے توڑیں کہ ان کی حیثیت چیلنج ہورہی ہو تو ایسے مظالم کی فضاء نہ بننے دی جائے۔ آج تبلیغی جماعت والے اپنے بانی مولانا الیاس کے پڑپوتے مولانا سعد اور اپنے مرکز بستی نظام الدین کے پیچھے پڑگئے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟