آئی ایم ایف سے قرضہ لیتے جاؤ لیتے جاؤ اور ملک و قوم کو ڈبوتے جاؤ ڈبوتے جاؤ!
اگست 22, 2022
آئی ایم ایف (IMF) سے قرضہ لیتے جاؤ لیتے جاؤ اور ملک و قوم کو ڈبوتے جاؤ ڈبوتے جاؤ!
سعودیہ و عرب امارات میں دریا نہیں، سمندر کے پانی کو میٹھا اور جدید سائنسی طریقے استعمال کرکے بڑے پیمانے پر ہریالی اور گندم اگائی گئی ،اپنی ڈفر ریاست نے تباہی مچادی!
ایک روپیہ پٹرول بڑھتاہے تو نوازشریف کے دل میں درد اٹھتاہے۔ مریم نواز۔ جب شہباز شریف نے پٹرول84روپے بڑھایا تو نواز شریف کو2014کے جنرل کا دورہ پڑا
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
ہماری معیشت پر سودی نظام کے ذریعے قبضہ کیا گیا ۔1989میں پہلی باربینظیر بھٹو دور میںIMFسے قرضہ لیا گیا۔ پھر نام نہاداسلامی جمہوری اتحاد کے نوازشریف نے مزید قرضہ لیا۔ باری باری دونوں جماعتوں نےIMFسے نہ صرف قرضے لئے بلکہ کرپشن میں ایک دوسرے سے آگے نکل گئے۔ مشرف کی حکومت آئی تو2004سے2007تکIMFسے جان چھڑائی گئی۔ مگر پھر2008میں جنرل مشرف نے6ارب ڈالر کا قرضہ لیا۔ زرداری نے اس کو16ارب ڈالر تک پہنچایا اور نوازشریف نے30ارب ڈالر تک پہنچایا۔ عمران خان نے48ارب ڈالر تک پہنچادیا۔ اب مفتاح اسماعیل سب کے ریکارڈ توڑنا چاہتا ہے۔ عوام پرمہنگائی کا بوجھ اسلئے پڑ رہاہے کہ سودکی مد میں دی جانے والی رقم اب دفاعی بجٹ سے دگنی ہوچکی ہے۔ عوام دفاعی بجٹ کا رونا روتے تھے اور سودی رقم دفاعی بجٹ کے دگنی سے بھی بڑھ جائے تو ہمارا دفاع کن کے ہاتھ میں ہوگا؟۔ جب قومی اثاثے گروی رکھے جائیں گے تو ایسٹ انڈین کمپنی کی طرح ایک دن ہماری قوم، ملک اور سلطنت پھر اغیار کے ہاتھوں میں ہوگی۔
اب 20سال بعد پھر شریعت کورٹ نے سودی بینکاری کو اسلامی بینکاری میں بدلنے کا جو فراڈ فیصلہ کیا ہے وہ بھی بڑا مضحکہ خیز ہے۔ وفاق المدارس عربیہ پاکستان کے سابق صدرشیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان استاذ مفتی محمد تقی عثمانی اورسابق صدر ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے بہت کھل کر اسلامی بینکاری کے نام پر خالص سودی نظام کی شدید الفاظ میں مذمت اور دلائل سے تردید کی ہے لیکن یہ ستم ظریفی ہے کہ پورے پاکستان کے تمام مدارس کے علماء کرام و مفتیانِ عظام نے سودی بینکاری کو اسلام کے نام پر جواز بخشنے کی مخالفت کی تھی لیکن دارالعلوم کراچی اور جامعة الرشید کراچی نے سودی نظام کو حیلے کے ذریعے اسلام کے نام پر جواز بخشا تھا اور اب وفاق المدارس پاکستان سے الگ بورڈ بھی بن گیا ہے تو ایک کا سربراہ مفتی محمد تقی عثمانی اور دوسرے کی سربراہی جامعة الرشید والے کر رہے ہیں ۔ گویا چت بھی حیلہ بازوں کی اور پٹ بھی حیلہ سازوں کی۔اسلامی سودی بینکاری کے ساز باز میں اب شریعت کورٹ بھی شامل ہوگئی ہے۔
سعودیہ اور عرب امارات میں کوئی دریا، نہر،ندی اور نالہ نہیں لیکن وہاں پر سمندر سے کھارا پانی اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کھیتوں کو آباد اور بڑی مقدار میں گندم اگائی گئی ہے۔ہمارے ہاںقدرت کے عظیم نظام سے دریاؤں اور نالوں کا سلسلہ موجود ہے ۔ انگریز دور سے نہروں کا بھی سلسلہ ہے لیکن بہت طریقے سے جنگلات کو کاٹا گیا ہے۔ وزیرستان کے صحافی شفت علی محسود نے جنگلات کی بے دریغ کٹائی پر آواز اٹھائی لیکن ہماری ڈفر ریاست اور حکمران طبقے نے کوئی نوٹس نہیں لیا جس کی وجہ سے ایسا حال ہوگیا کہ کانیگرم بدر کی ندی تک میں پانی ناپید ہوگیا تھا جس کے خشک ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ہم نے تصاویر شائع کی تھیں کہ کس طرح لکڑیاں جلانے کیلئے بٹے بنائے گئے ہیں جس کا کوئلہ بناکر ا.فغا.نستان کے راستے روس سے نوآزاد ممالک میں سمگلنگ کیا جارہاہے؟۔
حال میں تخت سلیمان پختونخواہ سے بلوچستان تک بڑے پیمانے پر جنگل کو آگ لگنا ،بونیر، سوات اور کشمیر کے جنگلات میں آگ لگنا اسی ہوس پرستی کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔ اب ہمارے مقتدر طبقات کوئلے کی اسمگلنگ کرکے چلغوزے اور دیگر جنگلات پر اپنی ذاتی جیبیں بھرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ جب اس ملک سے ہریالی و جنگلات کا خاتمہ ہوگا تو قدرتی خشک سالی کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس سازش میں کوئی اور نہیں ملک کے محافظ حکمران طبقات کی ہوس اور نااہلی کی قیمت ہماری نسلیں چکائیں گی۔ جب جنرل ظہیرالاسلام سابقDGISIریٹائرڈ ہوگئے ہیں تو مریم نواز کا پاپا میاں نوازشریف کہتا ہے کہ مجھے2014کے دھرنے میں آدھی رات کو اس نے فون کیا تھا کہ اقتدار چھوڑ کر استعفیٰ دیدو۔ میں نوازشریف کسی کی غلامی نہیں مان سکتا۔ حالانکہ جب وزیراعظم بن کر تمہارا یہ حال تھا تو کیا غلام نیلے پیلے رنگ رنگیلے انڈے دیدتے ہیں؟۔ یہ سیاسی مرغیاں ہمیشہ کڑک رہتی ہیں جب بھی ان کو انڈوں پر بٹھاؤ تو خوش رہتی ہیں لیکن ان کو قومی مفادات سے کوئی غرض نہیں ہوتی ہے۔ چین نے پاکستان کو اہم کانفرنس میں اسلئے نہیں بلایا کہ زرداری اور مولانا فضل الرحمن نے سی پیک کے مغربی روڈ کا افتتاح کیا تھا اور پھر کوئٹہ وپشاور کے مختصر راستے کو چھوڑ کر تحتِ لاہور کو نوازنے کیلئے سی پیک سے شیطان کی آنت بناڈالی۔19ارب ڈالر کی پہلی قسط میں10ارب ڈالربندر بانٹ کی نذر ہوئے اور9ارب ڈالر لگے تھے۔ سی پیک سے ہمIMFسے بھی جان چھڑاسکتے تھے۔ اب اگر دریاؤں میں جگہ جگہ بند بناکر پانی کو ذخیرہ کرنے کا کام کیا جائے اور پھر کالاباغ اور دیگر ڈیم بنائے جائیں جس کے فائدے متعلقہ و متاثرہ عوام کو دئیے جائیں اور اسلامی مزارعت شروع کی جائے تو بعید نہیں ہے کہ سستی بجلی اور سستی اناج سے ملک وقوم کی غربت ختم ہوجائے۔
لوگوں کی راۓ