پوسٹ تلاش کریں

پاکستان کے گرینڈ مفتی مفتی محمد رفیع عثمانی نے لکھا کہ "خدا کے رسول نے فرمایا کہ حکمران اور رہنما دجال سے بھی بدتر ہوں گے۔”

پاکستان کے گرینڈ مفتی مفتی محمد رفیع عثمانی نے لکھا کہ "خدا کے رسول نے فرمایا کہ حکمران اور رہنما دجال سے بھی بدتر ہوں گے۔” اخبار: نوشتہ دیوار

مذہب، ریاست اور سیاست کے اشرافیہ کا گٹھ جوڑ اور عوام کے استحصال کابدترین نظام مگر سدھار کیلئے کوششیں جاری ہیں؟

آئی ایس آئی نے اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا تو مسلم لیگ ، جمعیت علماء اسلام (س) ، جماعت اسلامی، سپاہ صحابہ اور نیشنل پیپلزپارٹی کے غلام مصطفی جتوئی وغیرہ اس میں شامل تھے۔ پیپلزپارٹی سندھ کے صدر اور( MRD)میں پیپلزپارٹی کے نمائندے جس نے پیپلزپارٹی کو چھوڑ کر اپنی پیپلزپارٹی بنائی تھی۔ حیرت انگیز طور پر غلام مصطفی جتوئی اسلامی جمہوری اتحاد کے صدر اور مولانا سمیع الحق سینئر نائب صدر تھے اور نوازشریف کی حیثیت پنجاب تک تھی۔ غلام مصطفی جتوئی نے الیکشن ہارا اور مولانا سمیع الحق نے نوازشریف کے حق میں وزیراعظم کا عہدہ چھوڑدیا۔ جماعت اسلامی اور نوازشریف کا چولی دامن کا ساتھ تھا۔ مولانا سمیع الحق کے خلاف میڈم طاہرہ کا اسکینڈل اخبارات کی زینت بن گیا۔
یہ شریعت ، ریاست اور سیاست کا کمال تھا کہ مولانا فضل الرحمن کو اپنے مکتبۂ فکر کے اکابرین نے اسلئے کافر قرار دیا کہ ایم آر ڈی میں پیپلزپارٹی کے شامل ہونے کے باوجود شمولیت کیوں اختیار کی ہے؟۔ جس طرح افغانستان میں خلق پارٹی کیمونسٹ ہے ، اسی طرح پیپلز کا مطلب بھی خلق ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے والد مفتی محمود پر مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع والد شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور مشرقی و مغربی پاکستان کے مشاہیر علماء نے بھی 1970ء میں فتویٰ لگایا تھا۔مولانا سمیع الحق میڈم طاہرہ اسکینڈل کی وجہ سے اپنا منہ دھونے کے قابل نہ تھے لیکن نوازشریف طاہرہ سید اسکینڈل کے باوجود شریف رہے۔ جس پر بعد میں رنگیلا وزیراعظم باقاعدہ کتاب بھی چھپ گئی ۔
جب بینظیر بھٹو کی فیک ننگی تصاویر سے لیکر بلاول بھٹو تک کو نہیں چھوڑاگیا تھا لیکن مذہبی ٹھیکیداروں کے سپر وائزرنوازشریف اپنے تمام کرتوتوں کے باوجود اسلامی ریاست کا سب سے بڑا قائد ، بادشاہ، خلیفہ اور امیرالمؤمنین بننے کا خواب دیکھ رہاتھا۔ تاریخ میں محمدشاہ رنگیلا اور خلیفہ سلطان عبدالحمید جیسے لوگ بھی بڑے منصبوں پر فائز رہے ہیں جن کے مشاغل حرم سراؤں کو سینکڑوں اور ہزاروں داشتاؤں اور لونڈیوں سے بھرکر انتہائی عیاشیوں اورفحاشیوں سے بھرپور تھے۔ ایسے میں نوازشریف کے کرتوت سے بھی ہاتھی کے دکھانے والے دانتوں پر جوں رینگنے سے فرق نہیں پڑسکتا ہے۔ البتہ ایک خاص انکشاف کی بات یہ ہے کہ مریم نواز اپنے کزن حمزہ شہباز سے میڈیا کے سامنے بغلگیر ہوتی ہے لیکن ن لیگ کے کارکن کے چھوٹے دماغ اس کو محض پروپیگنڈہ سمجھتے ہیں کہ ن لیگ کی جو اصل اور نقل قائد مریم نوازہے وہ اپنے شوہر کیپٹن صفدر اعوان سے فاصلہ رکھتی ہے تو اپنے کزن سے کیسے اس طرح بغل گیر ہوسکتی ہے؟۔
بعض مسلم لیگی رہنماؤں اور صحافیوں نے اس کو پنجاب کا عام کلچر بھی قرار دیا ہے۔ اصل معاملہ کچھ اور ہی لگتا ہے۔ جب ہم جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پڑھتے تھے تویہ خبر درسگاہ میں ملی تھی کہ بعض خواتین دارالافتاء سے رجوع کرتی ہیں کہ انہوں نے اپنے دامادوں کیساتھ جنسی مراسم رکھے اور اب پتہ چلا ہے کہ ” اپنی بیوی اس کے داماد پر حرام ہوچکی ہے اور اس کیلئے فتویٰ سے رہنمائی لینا چاہتی ہے”۔ فقہ حنفی کا فتویٰ یہ ہے کہ واقعی اس طرح اسکے داماد پر اس کی بیٹی یعنی داماد کی بیوی حرام ہوچکی ہے۔ تین طلاق کے بعد حلالہ سے بیوی حلال ہوسکتی ہے لیکن حرمت مصاہرت کی وجہ سے شوہر کیلئے اس کی بیوی کبھی حلال نہیں ہوسکتی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری پر پہلے نوازشریف کو اعتماد تھا اور پھر مولانا سمیع الحق سے اچھے مراسم بن گئے اور اب مولانا فضل الرحمن کیساتھ شریف فیملی کے بہت اچھے تعلقات ہیں اور ان سب کا مشترکہ اور متفقہ طور پر یہ فتویٰ ہے کہ حرمت مصاہرت کے بعد عورت اپنے شوہر کیلئے کسی طرح حلال نہیں۔
حرمت مصاہرت کے جو مسائل درسِ نظامی اور فقہ کی کتابوں میں ہیں اور ان پر فتویٰ دیا جاتا ہے اگر پارلیمنٹ اور عوام کو پیش کئے جائیں تو ان کو مدارس اور علماء ومفتیان سے شدید نفرت ہوجائے گی۔ یہ تک بھی ہے کہ ” ساس کی شرمگاہ کے بیرونی حصے پر نظر پڑجائے اور نظر میں شہوت آجائے تو اس میں عذر ہے لیکن اگر شرمگاہ کے اندر پر نظر پڑگئی اور نظر میں شہوت آگئی توپھر حرمت مصاہرت ہوگی”۔ (نورالانوار۔ دیوبندی بریلوی مکاتب فکر نصابی بورڈ کا حصہ ہے)
بعض کو اعتراض ہے کہ ان باتوں کو اخبار کی زینت کیوں بنایا جاتاہے ؟۔ مگر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ بڑے مدارس قرآن وسنت کی واضح تعلیمات اور فطرت کے برعکس لوگوں کو فتویٰ دیتے ہیں کہ تمہارے منہ سے تین طلاق کے الفاظ نکل گئے ہیں اور تمہاری بیگم تم پر اس وقت تک حرام ہوچکی ہے کہ جب تک کوئی دوسرا مرد اسکے ساتھ دوسرانکاح کرکے اس کی شلوار اتار کر اس میں شہوت کیساتھ ڈال کر حلالہ کی لعنت کرے”۔
قرآن نے جن واضح الفاظ میں بار بار باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے طلاق کے بعد رجوع کا تعلق باہمی رضامندی اور عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد سے جوڑا اور باہمی رضاکے بغیر ایک طلاق کے بعد بھی رجوع کو حرام قرار دیا ہے اور حضرت عمر کا فیصلہ اور حضرات ائمہ اربعہ کا فتویٰ بالکل قرآن وسنت کے مطابق تھا لیکن ان کو کیا پتہ تھا کہ قرآن وسنت کے برعکس باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع کو بھی یہ یہودونصاریٰ کے نقشِ قدم پر چلنے والے علماء ومشائخ حلالہ کی لعنت سے مشروط کردیں گے۔
اصول فقہ میں بنیادی اصولوں کے نام پر جو خرافات پڑھائے جاتے ہیں وہ مسلمانوں کیلئے انتہائی تباہ کن ہیں اور پھر جن متضاد قسم کے مسائل کا ذکر کیا ہے تو فرشتے بھی اس پر حیران ہونگے۔ مولانا سلیم اللہ خان لکھتے ہیں کہ ” اس اثرکا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص نے کسی بچے کیساتھ بدفعلی کا ارتکاب کیا تو اس کی ماں اس پر حرام ہوجائے گی ۔ سفیان ثوری، امام اوزاعی اور امام احمد بن حنبل اس کے قائل ہیں لیکن جمہور علماء کے نزدیک لواطت سے حرمت ثابت نہیں ہوگی۔ اسلئے کسی بچے سے بدفعلی کے ارتکاب کے بعد بھی وہ شخص اس کی ماں کیساتھ شادی کرسکتا ہے۔ (ارشاد الساری ۔ کشف الباری )یہ بھی لکھا کہ ” وربائبکم اللاتی فی حجورکم من نساء کم اللاتی دخلتم بھن ” تمہاری وہ رضاعی بیٹیاں جو تمہارے حجروں میں ہیں ان تمہاری عورتوں سے جن میں تم نے داخل کیا ہے”۔ ………. امام عبدالرزاق نے مالک بن اوس سے روایت نقل کی ہے ،اس میں ہے کانت لی امرأة قد ولدت لی فماتت فلقیت علی بن ابی طالب فقال لی : مالک ؟ فاخبرتہ فقال: ألہا بنة؟ یعنی من غیرک قلت نعم،قال: فی حجرک ؟،قلت: لا،ہی من الطائف،قال: فانکحھا قلت: فأین قولہ تعالیٰ”وربابکم” قال: قال انھا لم تکن من حجرک (فتح الباری 197/9 ۔ کشف الباری صفحہ 209 )
ایک طرف ایسی روایات کو مضبوط قرار دینا جس سے اپنی سوتیلی بیٹی کیساتھ شادی کی باقاعدہ مضبوط ذرائع سے ترغیب ملتی ہو اور دوسری طرف حرمت مصاہرت کے ان عجیب وغریب مسائل کی ترویج کرنا کتنا بڑا افراط وتفریط ہے؟۔ علماء کرام نے اسلام کی اس طرح سے حفاظت کی ہے کہ قرآن وسنت کے خدوخال عوام کے سمجھادئیے ہیں باقی ان کے علم وعمل اور عقل وسوچ کادائرۂ کار امت کی نجات کیلئے کوئی کشتی نوح نہیں ہے بلکہ تفریق وانتشار اور گمراہی کا ذریعہ ہے۔
مولانافضل الرحمن نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ ” دیوبند ایک مسلک کا نام نہیں بلکہ ایک مدرسے کا نام ہے اور جن لوگوں کی علمی اسناد مدرسہ دیوبند کی طرف جاتی ہیں وہ دیوبندی کہلاتے ہیں۔ جیسے ندوة العلماء کے علماء کو ندوی کہا جاتا ہے۔ دیوبند اصل میں اسلام کی اجتماعی سوچ وفکر کا نام ہے۔ جمعیت علماء اسلام دیوبند الجماعت ہے۔ جو یہ کہتا ہے کہ دوسری جماعتیں بھی دیوبند سے ہی تعلق رکھتی ہیں تو اس میں وحدت نہیں ہر جائی ہے۔ دین کا حکم یہ ہے کہ لیس دین الا بالجماعة ، لیس جماعة الا بالامارة ، لیس الامارة الا بالطاعة، علیکم بالجماعة ” دین نہیں ہے مگر جماعت کیساتھ، جماعت نہیں مگر امیر کیساتھ، امیر نہیں ہے مگر اطاعت کیساتھ اور تم پر جماعت کی اطاعت فرض ہے”۔ جمعیت علماء اسلام کے علاوہ دیگر جتنی دیوبند کے نام سے جماعتیں اور تنظیمیں بنی ہیں ان کی تائید کرنا دین سے بغاوت اور ہرجائی ہے”۔
مولانا فضل الرحمن نے جب میرے سکول کبیر پبلک اکیڈمی کا افتتاح کیا تھا تو مجھے دعوت دی گئی کہ میں ان کا شکریہ ادا کروں۔ مجھے پتہ چلا کہ بعض علماء نے ان پر دباؤ ڈالا تھا کہ میرے سکول کا افتتاح کیوں کررہے ہو؟۔ میں نے شکریہ ادا کرنے کیساتھ یہ عرض کیا تھا کہ جب علماء ومفتیان مولانا فضل الرحمن پر فتوے لگارہے تھے تب سے میرا مولانا فضل الرحمن کیساتھ ایک تعلق ہے ۔ لیکن مولانا فضل الرحمن نے جب ہمارے خاندان کی مذہبی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس میں عتیق جیسے اہل علم بھی ہیں لیکن میں علماء کیساتھ ہوں، جماعت سے جو الگ ہوا ،من شذ شُذ ( جو پھسل گیا وہ آگ میں پھسل گیا)”۔ مہمان کی حیثیت سے اسٹیج پر ان کی بے عزتی انسانی فطرت اور مذہب کے خلاف تھی مگر مولانا فضل الرحمن نے پہلے بھی اپنی جماعت کی شوریٰ میں ان احادیث کو اپنی جماعت پر ہی فٹ کیا تھا جو خلافت کے بارے میں ہیں اور جس کی وجہ سے وعیدیں بھی ہیں۔
میں نے اپنی کتاب ” اسلام اور اقتدار” میں احادیث کے مفہوم اور مقاصد کو واضح کیا اور آخر میں مولانا فضل الرحمن کا نام لکھ کر واضح کیا کہ عاقل کیلئے اشارہ کافی ہے۔ پھر جمعیت علماء اسلام کے ضلعی رہنماؤں اور ٹانک شہر کے اکابرعلماء کرام ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ضلعی امیر وغیرہ نے ہماری تحریری تائید کی ۔ یہاں تک کہ جمعیت علماء اسلام کو چھوڑ کر میرے ساتھ خلافت کیلئے کام کرنے پر بھی آمادہ ہوئے تو مولانا فضل الرحمن نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ہمارے خلاف کچھ لوگوں کو استعمال کیا۔ مارپٹائی ، لڑائی جھگڑے اور پولیس وجیل اور پابندی تک بھی بات پہنچ گئی لیکن جب سارے حربے ناکام ہوگئے توپھر ہمارے گھر تشریف لائے اور واضح کردیا کہ میں اسکے پیچھے نہیں تھا۔ ہم نے اس سے پہلے JUI پر احادیث کو غلط طور پر فٹ کرنے کی اخبار میں وضاحت بھی کی تھی۔
اب پھر مولانا فضل الرحمن نے اپنے پرانے مؤقف کو دہرایا ہے۔ ہم طالبان اور سپاہ صحابہ کیساتھ اختلاف رکھنے کے باوجود بھی خیر خواہی رکھتے ہیں اور دین کا یہ تقاضہ ہے کہ سب سے خیر خواہی رکھی جائے۔ داعش بھی اپنے اوپر خلافت ہی کی احادیث فٹ بٹھاتی ہے۔ حزب التحریر ،جماعت المسلمین اور دوسری تنظیمیں بھی یہ کام کرتی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جمعیت علماء ہند کے مقابلے میں جمعیت علماء اسلام بنی تھی تو ایک جماعت سے دوسری جماعت میں کس نے چھلانگ لگائی؟۔ دوسری بات یہ ہے کہ جمعیت علماء اسلام کے امیرمولانا عبداللہ درخواستی کا مقابلہ کس نے کیا تھا؟۔ تیسری بات یہ ہے کہ مولانا حق نواز جھنگوی ایک طرف سپاہ صحابہ کے امیر شریعت تو دوسری طرف جمعیت علماء اسلام پنجاب کے نائب امیر کیسے تھے؟۔ جبکہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری احرار کے امیر شریعت تھے اور جمعیت علماء ہند اور جمعیت علماء اسلام سے تعلق نہ ہونے کے باجود ان پر باغی اور آگ میں پھسلنے کا فتویٰ کسی نے نہیں لگایا تھا؟۔
مولانا فضل الرحمن پہلے بینظیر زدہ، پھر زرداری زدہ اور مریم نواز زدہ ہوگئے ہیں اور اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں؟۔ اگر کسی قادیانی ڈاکٹر مبشر سے چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی کی دوستی میں اپنے دل کے وال بدل سکتے ہیں تو پھر کسی اچھے ماہر امراض مسلمان ڈاکٹر سے اپنے دماغ کا علاج کرنے میں بھی حرج نہیں ہے۔ نفسیات کے ایک مسلمان ڈاکٹر منیر داوڑ بھی ڈیرہ اسماعیل خان میں موجود ہیں۔ ایک چھوٹے بھائی کی طرح ان کو تشخص کرانے کا مشورہ ہے۔
میرے ایک قابل قدر دوست مولانا غلام اللہ حقانی نے مجھے فون کیا کہ محسود قوم کے ڈھول اور مولانا فضل الرحمن کے پول میں خلفاء راشدین کے حوالے سے یہ لکھنا عوام کو تشویش میں ڈال دے گا کہ ” وحی کے باوجود خلفاء راشدین کی طرف سے بامعنیٰ مشاورت نہیں کی گئی جس کی وجہ سے خلافت راشدہ کے دور میں ہی فسادات ہوئے جبکہ وزیرستان میں وحی کی رہنمائی کے بغیر بھی مشاورت کا نظام تھا جس کی وجہ سے محسود ایریا تاریخ میں امن وامان کا گہوارہ تھا”۔ حالانکہ میں 1992,93سے اپنے کتابچہ ”دعوتِ فکر” میں یہ لکھتا رہا ہوں کہ حضرت ابوبکر کی خلافت حادثاتی طور پر قائم ہوئی ، جس کا ذکر بالکل عام طور پر کتابوں میں بھی موجود ہے۔ حضرت علی چھ ماہ تک ناراض رہے۔ انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہ نے حضرت ابوبکر و عمر کے پیچھے نماز تک نہیں پڑھی اور پتہ نہیں کس قسم کے جنات نے ان کو قتل کردیا تھا؟۔ نبیۖ سے حدیث قرطاس میں وصیت لکھنے پر اختلاف کیا گیا اور حضرت عمر کی نامزدگی مشاورت کے بغیر ہوئی ۔ جبکہ حضرت عثمان کی مشاورت بھی وسیع البنیاد شوریٰ کی حیثیت سے نہیں ہوئی تھی۔ یہی حال حضرت علی کی نامزدگی کا بھی تھا جس سے حضرت حسن نے اختلاف بھی کیا تھا۔ محسود قوم کیساتھ بیٹنی بھی پشتون قوم ہے مگر اس میں حق کیلئے گواہی پر بھی پابندی ہے اور قرآن کی قسم اٹھانے کی بھی ایک قیمت مقرر ہے۔ محسود قوم کی تعریف کسی تعصب ، مفاد یا احسان کے بدلے کی وجہ سے نہیں کررہا ہوں بلکہ یہ وزیر اوربیٹنی کے مقابلے میںمحسود قوم کے طالبان سے اس وقت میری مخاصمت رہی ہے جب محسود قوم کی اکثریت طالبان کیساتھ کھڑی تھی ۔
بیت اللہ محسود نے پہلے قاری حسین اور حکیم اللہ محسود سے ہمارے واقعہ پر بھی بدلہ لینا چاہا تھا لیکن جب بیت اللہ محسود سے کہا گیا کہ ہمیں قصاص میں قتل کردو لیکن تمہارے حکم پر اپنے گاؤں کوٹ کائی کے خاندان ملک اور اس کی فیملی کے افراد کو بھی قتل کیا ہے تو بیت اللہ محسود اپنی بات سے پیچھے ہٹا۔ میری مولانا فضل الرحمن سے کوئی ذاتی مخاصمت نہیں ہے لیکن اس کو اپنے کردار کو ٹھیک کرنا ہوگا اور متضاد علمی فتوؤں کے اجراء سے پرہیز کرنا ہوگا۔ میرے لئے تو کسی بڑے سے بڑے پر تنقید کرنے میں ایک صحافی کی حیثیت سے زبردست پذیرائی ملتی ہے لیکن میں اس کا اپنا دینی فرض اور انسانی فطرت کا تقاضہ بھی سمجھتا ہوں۔ باقی مولانا فضل الرحمن اور طالبان سب کیلئے خلوص وہمدردی بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جان کے بدلے جان ، کان کے بدلے کان ، ہاتھ کے بدلے ہاتھ او ردانت کے بدلے دانت کا حکم دیا ہے۔ نور مقدم کے قتل پر کوئی ابہام نہیں لیکن دیواروں کے پاس زبان نہیں اور بند کمرے میں کوئی چشم دید گواہ نہیں اسلئے عدالت شک کا فائدہ دے کر ملزم کو رہا کرسکتی ہے۔ یہ عدالت نہیں ڈھکوسلہ ہے اور اس کی وجہ سے انصاف کا ملنا مشکل نہیں ناممکن بھی ہے اور اگر ملزم کو جج صرف دباؤ کے بغیر اپنے اوپر لگنے والے الزام کو قبول کرنے کی بنیاد پر سزا دے یا گواہی ضروری ہو تو پھر اتنے مہنگے وکیلوں کو پکڑنے کی کیا ضرورت ہے؟۔ اکثر ججوں نے وکیل کی ٹریننگ کی ہوئی ہوتی ہے اور اپنی مہارت کا بہت بڑا ثبوت دے کر آپس میں ایکدوسرے کے مخالف 180ڈگری پر فیصلہ دیتے ہیں۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے لکھا ” رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ حکمران اور لیڈر دجال سے بدتر ہوں گے ”۔ علامات قیامت اور نزول مسیح۔ افغان حکومت اور طالبان بھی افغان عوام کو تکلیف دینے کے بڑے مجرم ہیں۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟