Hafiz Hussain Ahmed of JUI states that Molana Fazal-ur-Rehman handed over JUI rented out to PML N.
جولائی 1, 2021
چھوٹے سے دارالخلافہ کوئٹہ میں تبدیلی کے اثرات خطے پر پڑیں گے
جمعیت علماء اسلام کے رہنما حافظ حسین احمد کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن نے جمعیت علماء اسلام مسلم لیگ ن کو رینٹ پر دی ہوئی ہے۔
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
کوئٹہ(quetta) میںبلوچ(baloch)، پختون (pakhtoon)اور ایک چھوٹی آبادی ہزارہ برادری(hazarabradri) کی ہے۔ کوئٹہ میں سب سے زیادہ ہمارے اخبار کا کام ہوا ہے۔ بلوچستان (balochistan)کے دینداروں اور قوم پرستوں میں تقسیم کی بنیاد اس وقت پڑگئی جب اکثریت نے جمعیت علما اسلام کو جمہوری بنیادوں پر بڑے پیمانے پر ووٹ دیا ۔ مفتی محمود
(mufti mehmood) اور ولی خان(wali khan) نے دینداروں، جمہوریت پسندوں اور قوم پرستوں کو دھوکہ دیا۔ جہاں جمعیت علما اسلام کی اقلیت تھی وہاں صوبہ سرحد میں مفتی محمود نے وزیر اعلی کا منصب سنبھال لیا جہاں جمعیت علما اسلام کی اکثریت تھی وہاں بلوچستان میں سردار کا درجہ نیچے اور نواب کا اوپر ہوتا ہے۔ غوث بخش بزنجو (ghuos bakhsh bizanjo)بابائے جمہوریت کی موجودگی میں نواب خیر بخش مری (nawab khairbakhsh marri)کو بھی وزیرارعلی بنانا درست نہ تھا لیکن سردار عطا اللہ مینگل (attaullah mengle)کو نوازا گیا۔ بلوچ فطری طور پربہت اچھے لوگ ہیں اسلئے جمعیت علما اسلام کے حق پر نواب، سردار اور جمہوریت پسندوں کے درمیان وزیر اعلی کیلئے کوئی لڑائی نہیں ہوئی پھر ذوالفقار علی بھٹو(zulfaqar ali bhutto) نے شبِ خون مارکر بلوچستان میں گورنر راج قائم کرکے جمہوری حکومت کا خاتمہ کردیا۔ نواب اکبر بگٹی (nawab akbar bugti)گورنر بنادئیے گئے اور جعلی جمہوریت کا خاتمہ کردیا گیا۔آج بلوچستان اسلام اورجمہوریت سے محروم ہے اور قوم پرستی کے نام پر قسمت بھی خراب ہے۔ مفتی محمود(mufti mehmood) صوبہ سرحد کے وزیراعلی تھے تو خیبر پختونخواہ میں نیشنل عوامی پارٹی کی جمہوریت اقلیت میں تبدیل ہوگئی۔ علما اکثریت سے محروم ہونے کے باجود اقتدار کا خواب دیکھنے لگے تو دہشتگردی کی جڑیں پڑ گئیں ۔ پھر مولانا فضل الرحمن (fazal rehman)بندوق اٹھانے کی بات کرتے تھے۔ پختونخواہ میں اپنی سیٹ ایک دفعہ ہارتے اور دوسری مرتبہ جیتے مگر بلوچستان کی جمعیت علما اسلام ہمیشہ حکومتوں میں شریک اقتدار ہوتی تھی جہاں سے بڑی نفری اور کرپشن کے مزوں نے علما کی عادت بہت خراب کردی تھی۔
جے یو آئی کے قدآوررہنما حافظ حسین احمد کہتے ہیں کہ ”مولانا فضل الرحمن نے جمعیت علما اسلام مسلم لیگ ن کو رینٹ پر دی ہوئی ہے”۔ بلوچستان کی عوام میں نوابی اور سرداری نظام بھی بڑی حد تک مضبوط ہے۔ بدقسمت عوام نے اپنے دین کو علما ومفتیان کے سپرد کردیا ہے۔ مسلک حنفی میں تقلید کی کوئی گنجائش نہیں۔ فقہ حنفی (fiqqa e hanfi)میں اصولِ فقہ میں احادیث کے مقابلے میں قرآنی آیات پڑھائی جارہی ہیں جن سے احادیث صحیحہ کو رد کیا جاتا ہے ۔ اگرچہ اس کا بہت بڑا فائدہ بھی اس امت کو اسلئے پہنچا ہے کہ احادیث کے ذخائر میں قرآن کے خلاف سازش اور بڑا بیہودہ موادہے۔ قرآنی آیات کا بکری کے کھا نے سے ضائع ہونے کی احادیث اورحضرت عائشہ (hazrat ayesha)پر صحیح بخاری میں یہ تہمت کہ بڑے آدمیوں کو اپنا محرم بنانے کیلئے اپنی بہن کادودھ پلا دیتی تھیں۔ حالانکہ دودھ پلانے کا مخصوص وقت ہر وقت نہیں ہوتا کہ بچہ ہو یا نہ ہو مگر عورت میں دود ھ ہو۔ جب یہ تک لکھا گیا ہے کہ بڑے آدمی کو دودھ پلانے اور رجم کی آیات بکری کے کھا نے کی وجہ سے ضائع ہوگئیں تو حضرت عائشہ پر بہن کا دودھ پلانے کے حوالہ سے بہتان میں کوئی شک باقی رہ جاتا ہے؟۔ مسلک حنفی کی تقلید اسلئے بہت بہترین رہی ہے۔
اب جدید تعلیم کا سلسلہ بڑھ گیا ۔ علما کی بڑی تعداد بھی مدارس سے فضیلت کی دستاریں باندھ رہے ہیں۔ عربی کی سمجھ بوجھ میں بھی بڑا اضافہ ہوا ہے۔ قرآن واحادیث کے تراجم بھی موجود ہیں۔ ایسے میں علما کرام اور لکھی پڑھی عوام کیلئے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اسلام کی بنیادی تعلیمات کے سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں رہی ہے۔ مولانا طارق مسعود، علامہ امین شہیدی اور مفتی شاہ حسین گردیزی دیوبندی،شیعہ اور بریلوی علما نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں گفتگو کی ہے۔ اہل تشیع بار بار چیلنج اور واضح کرچکے ہیں کہ ہماری کسی کتاب میں قرآن کے چالیس پارے اور بکری کے کھاجانے سے آیات ضائع ہونے کی کوئی روایت نہیں۔ مفتی طارق مسعود نے کہا کہ” علامہ امین شہیدی کے کہنے پر معلوم ہوا کہ شیعہ میں بھی ایسے لوگ ہیں جو قرآن کے پارے بکری کے کھانے کا عقیدہ نہیں رکھتے ”۔ سعودی عرب میں ہم نے ابن ماجہ کی روایت کتب خانے میں موجود علما کو دکھائی جو شیعہ پر قرآن نہ ماننے کا الزام لگارہے تھے تو وہ حیران ہوگئے کہ سنیوں کی یہ احادیث ہیں؟۔
کوئٹہ میں بڑے علما ، سرکاری افسران اور تعلیم یافتہ طبقات کی مدد سے فرقہ واریت اور شدت پسندی پر قابو پانے کیلئے مرکزی سطح سے علاقائی سطح تک ایسی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جس سے فرقہ واریت اور شدت پسندی کے ناسور کا خاتمہ ہوجائے تو اس کے اثرات افغانستان(afghanistan) اور ایران (iran)پر بھی پڑجائیں گے۔
مولانا فضل الرحمن،مولانا محمد خان شیرانی(molana sherani) اورحافظ حسین احمد(hafiz hussain ahmed)، سپاہ صحابہ (sipah e sahaba)اور شیعہ(shia) ، بریلوی(barailvi) اور اہلحدیث (ahlehadic)علما سے ایک مثبت گفتگو کیلئے وقت لیا جاسکتا ہے۔ حکومت اور ہماری ریاست بھی بھرپور تعاون کرے گی۔ مدارس کے نصاب(madaris ka nisab e taleem) تعلیم کے حوالے سے مولانا محمد خان شیرانی(molana khan sherani) نے مجھ پر( 2004) میں بھی اعتماد کا اظہار کیا تھا جس کو میں نے اپنی کتاب” آتش فشاں” (aatish fishan)کے سرورق پر اندر کی طرف سے جلی حروف میں واضح کردیا تھا۔ بڑے عرصہ سے فقہی لایعنی مسائل کا سلسلہ جاری ہے۔ اگر علما اور عوام کو حقیقت کا پتہ چل جائے تو انقلاب بھی آجائے گا۔ غسل کے تین فرائض بتائے جاتے ہیں ۔ منہ بھر کر کلی کرنا، ناک کی نرم ہڈی تک پانی پہنچانا اور پورے جسم پر ایک مرتبہ پانی بہانا۔ یہ فرائض مسلک حنفی کے ہیں۔ شافعی مسلک والے پہلے دوفرائض کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا فرض نہیں سنت سمجھتے ہیں۔ تین میں سے دو فرائض پر اتفاق نہیں ہے اور تیسرے فرض پورے جسم پر ایک مرتبہ پانی بہانے سے مالکی مسلک میں فرض ادا نہیں ہوگا جب تک کہ مل مل کر جسم کو نہ دھویا جائے۔ گویا کسی فرض پر بھی اتفاق نہیں اور جوفرائض رسول کریم ۖ اورخلفا راشدین کے ادوار میں نہیں تھے ان کو ایجاد کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ قرآن میں ہے کہ لا تقربوا الصلو وانتم سکری حتی تعلموا ما تقولون Oوالا جنبا الا عابری سبیل حتی تغتسلوا” اور نماز کے قریب مت جا، جب تم نشے کی حالت میںہو یہاں تک کہ تم سمجھو جو کچھ تم کہتے ہو اور نہ حالت جنابت میں مگر جب کوئی مسافر ہو، یہاں تک کہ نہالو”۔ قرآن میں یہ واضح ہے کہ مسافر پر غسل فرض ہو تو بھی اس کیلئے تیمم سے نماز کی گنجائش ہے۔ نماز پڑھنے کاحکم اوراجازت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ حضرت عمر (hazrat umer)نے گنجائش سے فائدہ اٹھایا اور نماز نہ پڑھی اور حضرت عمار(hazrat ammar) نے تیمم (tayammum)سے نماز پڑھ لی ۔ نبیۖ (nabi pak)نے دونوں کی تصدیق فرمائی جو قرآن کی تفسیر ہے۔ پھر بھی حضرت عبداللہ بن مسعود(abdullah bin masood) اور حضرت ابوموسی اشعری(hazrat abu mussa ashra) کے درمیان اس مسئلے پر صحیح بخاری(sahi bukhari) میں اختلاف وتضاد(ikhtilaf o tazad)اور مناظرہ(manazra) نقل کیا گیا۔
اللہ نے فرمایا کہ” جب تم نماز پڑھنے کیلئے اٹھو تودھو اپنے چہروں کو اور ہاتھوں کو کہنیوں تک اور اپنے سروں پر مسح کرو اور پیروں کو ٹخنوں تک اور اگر تم جنابت میں ہو تو خوب پاکی حاصل کرو”۔ فقہا نے اس پر اختلاف کیا کہ خوب پاکی سے کیا مراد ہے؟۔ حالانکہ وضو کے مقابلے میں نہانا ہی خوب پاکی ہے۔ حضرت عمر نے قرآن کے اوراق مانگے تو بہن نے کہا کہ پہلے غسل کرلو ۔ جس کا مطلب یہی ہے کہ نہانا سب کو آتا تھا، عربی میں غسل نہانے کو کہتے ہیں۔
بریلوی عالم علامہ شاہ تراب الحق قادری نے فقہی مسئلہ نکالا کہ” رمضان کے روزے میں جب پاخانہ کرو تو اپنے پاس کپڑا رکھو۔ استنجا کے بعد مقعد سے جو آنت نکلتی ہے جو پھول کی طرح ہوتی ہے ،اس کو اندر جانے سے روکو اور پہلے کپڑے سے سکھا، پھر اندر جانے دو۔ اگرایسا نہیں کیا تو روزہ ٹوٹ جائیگا”۔
ہم نے اپنے اخبار ضرب حق کراچی (zarbehaq)میں اس کو تنقید کا نشانہ بنایا تو بریلوی علما نے بھی ساتھ دیا لیکن دعوتِ سلامی والے کسی کی سنتے نہیں ہیں اسلئے ان کے مفتی صاحبان بعد میں بھی لگے ہوئے تھے کہ ” استنجا کرتے وقت سانس بھی نہیں لینا۔ اگر پانی کا قطرہ گیا تو آنت سے معدے تک پہنچ جائیگا اور روزہ ٹوٹ جائیگا”۔
پہلے فقہا نے جہالت پر مبنی مسائل بنانے کیلئے خرافات گھڑنے کی کوششوں میں اپنی عمریں ضائع کردی تھیں اور اب جاہل اس پر عمل کیلئے بھی آمادہ ہوگئے۔ کوئٹہ میں اگر بلوچ، پشتون اور ہزارہ برادری نے مل کر شعور بیدار کیا تو اس کے اثرات کابل وقندھار(qandahar)،تہران وقم ، اسلام آباد(islamabad) ولاہور (lahor)، ملتان(multan) وپشاور (peshawar)اور حیدر آباد(hedrabad) و کراچی (karachi)کے علاوہ دنیا بھر پر پڑجائیںگے۔
(syed atiq ur rehman gillani)(zarbehaq)(navishta e diwar)
لوگوں کی راۓ