پوسٹ تلاش کریں

مجدد ملت ودین حضرت حاجی محمد عثمان قدس سرہ

مجدد ملت ودین حضرت حاجی محمد عثمان قدس سرہ اخبار: نوشتہ دیوار

دیوبندی مولانا اشرف علی تھانویؒ کومجدد کہتے ہیں حالانکہ انکے ہم عصر مولانا شبیر عثمانی، مولانا مدنی، مولانا کشمیری، مفتی کفایت اللہ، مولانا سیوہاری، مولانا خلیل احمد، مولانا محمد الیاس، مولانا سندھی کے علاوہ انکے استاذ شیخ الہند اور انکے اساتذہ مولانا گنگوہی و مولانا نانوتوی کے سامنے مولانا تھانوی کی حیثیت نہ تھی ، انکے مرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ مجدد تھے۔ فیض کیوجہ سے سب مجدد نظر آئے۔ مجدد الف ثانیؒ نے مرشد خواجہ باقی باللہؒ کو مجدد قرار دیا۔ مجدد کے مرید علماء نے دین کو غلو سے پاک کرنے کا کارنامہ انجام دینا ہوتا ہے۔ حاجی امداداللہؒ کے مریدعلماء نہ ہوتے تو حاجیؒ کو کوئی مجدد نہ سمجھ سکتا تھا ۔ حاجی عثمانؒ کے مرید علماء ہوائی فائرنگ کے مانند فتوؤں سے بھاگ گئے۔ وہ وقت دور نہیں کہ حاجی عثمانؒ کو مخالف بھی مجدد مان لیں گے۔
تصوف کے سلسلے کا جوفیض مولانا اشرف علی تھانویؒ کے توسط سے عام ہوا ، اسکی مثال حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ کے کسی دوسرے خلیفہ میں نہیں ملتی، جس طرح نبیﷺ کے صحابہؓ میں حضرت علیؓ عمر کے لحاظ سے چھوٹے تھے لیکن تصوف کے حوالہ سے حضرت علیؓ کو بہت امتیازی حیثیت حاصل تھی،مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ایک خلیفہ مولانا فقیر محمد صاحبؒ تھے، ان پر عام طور سے گریہ کی کیفیت طاری رہتی تھی مگر مکہ و مدینہ میں حاجی عثمانؒ کا بیان سن کر جذب وکیف میں گھومنے لگ جاتے تھے۔ حاجی عثمانؒ سے کہا کہ مجھ پر بار بار الہام وارد ہوتاہے کہ آپ کو حاجی امداد اللہ ؒ کی نسبت سے خلافت دوں، حاجی عثمانؒ منع کرتے تھے کہ مجھے اجازت نہ ملے ،تو اس نسبت سے خلافت نہیں لے سکتا۔ پھر حاجی عثمانؒ کو بھی اجازت مل گئی اور مولانا فقیر محمدؒ نے لکھا کہ ’’مدینہ منورہ میں 27رمضان المبارک کو ورود ہو ا، اور اس کی تکمیل ہوئی، حاجی عثمانؒ صاحب حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ سے بہت مشابہت رکھتے ہیں، یہ ان کی مہربانی ہے کہ سلسلہ کی خلافت کو قبول فرمالیا ۔‘‘۔ پھر کافی عرصہ بعد بعض حاسدین نے مولانا فقیر محمدؒ سے کہا کہ خلافت واپس لے لو، انہوں نے خلافت کے واپس لینے کا اعلان کردیا، مگر اس کی وجہ سے حاجی عثمانؒ کے حلقہ ارادت پر کوئی اثر نہیں پڑا، لوگ مولانا فقیرمحمدؒ کی وجہ سے نہیں حاجی عثمانؒ کی اپنی شخصیت سے متأثر تھے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے علماء ومفتیان نے مولانا فقیر محمد سے پوچھ لیا کہ خلافت ورود کی نسبت سے دی تو کسی کے مشورے سے واپس لی، یا دوبارہ ورود ہوا؟ تو انہوں نے کہا کہ دوبارہ ورود تو نہیں ہوا، کسی نے مشورہ دیا ، جس پر انہوں نے کہا کہ شرعی طور سے آپ کو خلافت واپس لینے کا حق دوبارہ ورود پر ہے، مشاورت سے یہ خلافت واپس نہیں لے سکتے۔ جس پر مولانا فقیر محمد نے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے لیٹر پیڈ پر لکھ دیا کہ ’’ جو خلافت میں نے حاجی عثمانؒ کو ورود کی نسبت سے دی تھی وہ تاحال قائم اور دائم ہے‘‘۔ اس پر مولانا فقیرمحمدؒ کے دستخط کے علاوہ مفتی احمد الرحمنؒ ، مفتی ولی حسن ٹونکیؒ اور مفتی جمیل خانؒ کے بھی بطورِ گواہ کے دستخط موجود ہیں۔
پھر حاجی عثمانؒ کے خلفاء نے بغاوت کرلی اور علماء ومفتیان نے فتویٰ لگا دیا اور مولانا فقیرمحمدؒ کو بھی مشورہ دیدیا کہ خلافت واپس لے لو، تو خلافت واپس لینے کا بھی اعلان شائع کیا گیا۔ اقراء ڈائجسٹ کی مجلس مشاورت میں حاجی عثمانؒ کا نام بھی تھا۔ حاجی عثمان ؒ کے مریدوں میں فوجی افسران 8بریگڈئیرز،کورکمانڈر جنرل (ر)نصیر اختر، جنرل ضیاء بٹ، پولیس افسرڈی آئی جی وغیرہ شامل تھے۔ جماعت اسلامی، اہلحدیث، تبلیغی جماعت ، دیوبندی مدارس کے علماء ومفتیان بڑی تعداد میں بیعت تھے، مفتی محمد تقی عثمانی ومفتی محمد رفیع عثمانی کے استاذدارالعلوم کراچی کے مدرس مولانا عبدالحق ؒ بھی بیعت اور بڑے خلیفہ تھے، وہ کہتے تھے کہ’’ بیعت کے بعد پتہ چلا کہ نئے سرے سے علم حاصل کروں‘‘۔ مولانا اشفاق احمد قاسمیؒ دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور دارالعلوم کراچی کے ملازم فتوؤں کے بعد بیعت پر قائم رہے۔ مولانا عبداللہ درخواستیؒ کے نواسے مشکوٰۃ اور جلالین کے میرے استاذمولانا انیس الرحمن درخواستی شہیدؒ فتوؤں کے بعد بیعت ہوئے تھے۔
مولانا محمد مکی اور جامعہ صولتیہ مکہ کے مولانا سیف الرحمن فتوؤں کے بعد حاجی عثمانؒ سے تعلق رکھتے تھے ، خطیب العصر مولانا سید عبدالمجید ندیم بھی فتوؤں کے بعد حاجی عثمانؒ سے ملاقات کیلئے تشریف لائے اور کہا کہ حضرت عثمانؓ کی مظلومیت نام کی وجہ سے آپ کو بھی بھگتنا پڑی ہے۔ فتوؤں کے بعد میں نے خواب دیکھاتھا کہ ’’حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ مسجدالٰہیہ خانقاہ چشتیہ خدمت گاہ قادریہ مدرسہ محمدیہ یتیم خانہ اصغر بن حسینؓ تشریف لائے ہیں اور آنے کا مقصد مجھے دیکھنا تھا، میں اپنی جگہ لیٹا رہا اور ملنے کیلئے دل سے آمادہ نہ تھا، آخر کار آپؒ کمرے کے دروازے پر تشریف لائے تو مجھے مجبوراً اٹھنا پڑا‘‘۔حاجی عثمان ؒ نے زندگی میں اپنا جانشین بنانے کیلئے بہت زور ڈالا مگر میں راضی نہ تھا، پھر انکے وصال سے پہلے میں نے رضامندی ظاہر کی تو خوش ہوگئے۔ پھر میں نے وزیرستان سے خلافت کیلئے کام کرنے کا فیصلہ کیا تو خواب میں فرمایا کہ ’’خانقاہ سے آکر کام شروع کرلو‘‘۔ وفات سے قبل مجھ سے فرمایا کہ’’ مولانا یوسف لدھیانوی ؒ سے معلوم کرلینا، انکی طرف سے فتویٰ میری سمجھ میں نہیں آتا‘‘۔
دین کا کام شروع کیا تو مولانا یوسف لدھیانویؒ کی خدمت میں حاضری دی، مولانا لدھیانویؒ نے فرمایا کہ’’وہ میرا فتویٰ نہیں تھا، مفتی جمیل خان نے لکھ کر میری طرف منسوب کیا، میں حاجی عثمانؒ سے بہت عقیدت رکھتا ہوں، فتویٰ دینے والوں کا نام دنیا میں اس طرح سے نہیں رہے گا جیسے امام مالکؒ کیخلاف فتویٰ لگانے والوں کا آج نام نہیں ، تاریخ میں حاجی عثمانؒ کا نام امام مالکؒ کی طرح رہے گا۔ ان کے خلاف ساری خباثت مفتی رشید احمد لدھیانویؒ نے کی ہے‘‘۔ پھر جب میں اپنے کچھ ساتھیوں کو توحید آبادصادق آباد دورۂ صرف کیلئے مولانا نصراللہ خانؒ کے پاس لے گیا تو میری غیر موجودگی میں ساتھیوں پر مختلف جگہوں سے آئے علماء وطلباء نے تہمتوں کا سلسلہ شروع کیا، آخرکار مولانا نصراللہ ؒ سے مطالبہ کیا کہ ہم نکلیں گے یا ان کو نکال دو، پھر وہ نکل کر چلے گئے۔ مولانا نصراللہ نے دوسروں کو مطمئن کرنے کیلئے مولانا لدھیانویؒ کے پاس بھیجا۔ مولانا لدھیانویؒ نے فرمایا کہ مخالفت کرنے والوں کو ہی نکال دو۔ اگر فتوؤں کی داستان شائع کردی تو بھی بہت سے خود کو شیخ الاسلام اور مفتی اعظم پاکستان سمجھنے والے منہ چھپاتے پھریں گے۔ ہمارے ظرف کا کمال ہے کہ ہم ان کو دیوار سے نہیں لگارہے ہیں ورنہ عدالتوں میں بھی ناک رگڑ وادیتے۔
مشاہدات بیان کرنے میں علماء وخلفاء ،تبلیغی جماعت میں چار ماہ لگانے والے اوراہلحدیث تک بھی شامل تھے، ان پر دارالعلوم کراچی کی طرف سے’’ الاستفتاء‘‘ مرتب کرکے لکھا گیا کہ ’’ ایک پیر اپنے خلیفہ کو مجبور کرتے کہ نبیﷺ کو دیکھتے ہو یا نہیں؟‘‘۔ کیا یہ ممکن تھا کہ سہارے سے اُٹھنے کا محتاج پیر کسی پر اس طرح کی زبردستی کرے کہ وہ خودتو نہ دیکھ سکے لیکن ہٹے کھٹے مرید کومجبور کردے؟۔ الائنس موٹرز کے ایجنٹ دنیادار علماء ومفتیان نے کتوں کی طرح بہرحال ہانپناتھا، دنیا و آخرت کی ذلت سے بچنے کیلئے جب تک علی الاعلان توبہ نہ کریں یہ فتویٰ پیچھا نہیں چھوڑے گا۔
اللہ کے ولی کو ستاکر معافی مانگ لیتے تو آج اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں ان کو ذلت کی چماٹوں کے بجائے دنیا میں بھی عزت ملتی اور آخرت میں بھی سرخرو ہوتے۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

آج قرآن اورحدیث کی تطبیق سے تمام مکاتبِ فکرکے علماء کرام بفضل تعالیٰ متفق ہوسکتے ہیں!
رسول ۖ کی عظمت کا بڑ اعتراف
جامعہ بنوری ٹاؤن کے بانی کا بہت مثالی تقویٰ