پاک فوج اور صحافت کے درمیان سرد جنگ اور اسکے نتائج کا متوازن جائزہ
اپریل 16, 2017
پی ٹی وی کے چیئرمین عطاء الحق قاسمی بڑے لاہوری ہیں، لاہور کو عروس البلاد کہا جاتاتھااور اب تختِ لاہورکی شہرت ہے، جہاں دربار ہوتاہے وہاں درباری بھی ہوتے ہیں، خصائل کیساتھ رذائل بھی ہوتے ہیں، پنجاب سے پاکستان میں سورج طلوع ہوتا ہے ، نمازکاقبلہ مغرب مگر سیاسی قبلہ ہمارامشرق میں واقع ہے، ہندوستان میں ایک بریلوی شہروہ تھاجو علم ودانش اور فکر وانقلاب کا مرکز تھا تو دوسرا الٹا بانس بریلی تھا، شاہ ولی اللہ ؒ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید ؒ کے مرشد سید بریلویؒ کا تعلق معروف شہر بریلی سے تھا جہاں کے مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی کتابیں عربی ممالک کی عربی نصاب میں داخل ہیں۔ الٹے بانس بریلی سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضاں بریلویؒ کا تعلق تھا۔
ہندوستان کے مشہور مذہبی دریا کے بارے میں الٹا گنگا بہنے کی کہاوت ہے، علامہ اقبالؒ نے ’’پنجابی مسلمان‘‘ کے عنوان سے لکھا کہ تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا۔ یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد، ہو کھیل مریدی کا تو ہرتاہے بہت جلد۔ کافی عرصہ ہوا کہ پنجاب کی زمین بانجھ ہوگئی ، عطاء الحق قاسمی کیساتھ صحافی حامد میر جس انداز میں گفتگو کررہے تھے کہ کیا تحقیق کا واقعی کوئی مسئلہ نہیں جو بھونک دیا، سو بھونک دیا۔ حقائق کو ردی کی ٹوکری کی طرح آگ کے شعلے میں جھونک دیا، بس سردی میں گرمی حاصل کرنے کی جو رِیت چلی ہے کوئی نہیں پوچھتا کہ حقیقت میں کیا بیت چلی ہے؟۔میر شکیل الرحمٰن نے کہا کہ ’’ حامد میر حکومت گراسکتاہے‘‘یہ بول مہنگا پڑا۔
حامد میر نے مہمان کی حیثیت سے لاہورمیں عطاء الحق قاسمی کی میزبانی میں محفل جمائی تھی۔ عقیدت ومحبت کے سارے رنگوں کو لٹیرے کی طرح تاریخ پر نقب لگاکر لوٹا جارہاتھا۔ حامد میر نے فوج کیخلاف قربانیوں کے تمغے گنوانا شروع کئے۔ پہلا کارنامہ یہ بتایا کہ ’’سندھ میں فوج کے تشدد پر ڈرامے کیلئے مجھے فوجی کا کردار دیا گیا، طالب علم تھا، میں نے فوجی کا کردار پر سچ مچ میں زور دار طریقے سے ڈنڈا برسانا شروع کیا تو خاتون چیخ پڑی کہ یہ کیا کررہے ہو؟۔ میں نے جواب دیا کہ اس طرح سے لوگوں کو پتہ چل جائیگا کہ فوج عوام پر کتنا تشدد کرتی ہے‘‘۔ حامد میر کی رام کہانی سن کر مسلم لیگ کے رہنماؤں اور کارکنوں کو یاد آیا ہوگا کہ نوازشریف معافی مانگ کر سعودیہ سے پہلے فوج کا تشدد برداشت کررہے تھے تو واقعی حامد میر نے ڈرامے میں اچھا کیاکہ فوجی تشدد کو اس ادا سے اجاگر کیا کہ اس کو سن کو مریم نواز کی طرف سے شاباش کی ٹویٹ بھی ضرورآئی ہوگی۔
دانیال عزیز ، طلال چوہدری اور پریزمشرف کے دور کے بعد لیگ کا شرف حاصل کرنیوالے رہنما ؤں اور کارکنوں میں بھی ذہنی پختگی آئی ہوگی کہ اب کے بار ظالم فوج کا ساتھ نہیں دیناہے اور اگر کوئی طعنے پر اتر آیا کہ مشرف کا ساتھ دیاتھا تو غم کی بات نہیں ضیاء سے لیکر اشفاق کیانی تک ن لیگ کی قیادت روح کی طرح ڈھانچے میں رہی ہے بس غلطی ہوئی تھی جو خواب کی طرح سعودیہ کی طرف رختِ سفر باندھا ،پھر وہ دور گزر گیا۔ حامد میر یہ کہتے تو ٹھیک ہوتا کہ پہلے میں بھی اس طرح کی ذہنیت رکھتا تھا، فوج کو بدنام کرنیوالے سندھی ڈرامے بازوں کو میں نے سچ مچ انتقام کا نشانہ بنایا۔ فوج کے بڑے باغی مولانا فضل الرحمن کو بھی GHQکی دہلیز پر لانے کے کارنامے میرے نامہ اعمال میں ہیں۔ روزنامہ اوصاف کا ایڈیٹر تھا تو ریکارڈ پر بھی لایا، پھر روزنامہ جنگ میں بھرتی ہوا تو ہندوستان سے ’’ایک آنٹی‘‘ کی کہانی لایا، جو اخبار کی زینت بنی، آنٹی نے اللہ کا واسطہ دیکر کہا کہ میری کوکھ سے ہندوؤں نے اپنے بچے جنوالئے، اللہ کا واسطہ دیتی ہوں کہ مجاہدین کے ذریعے میرا انتقام ضرور لینا۔ روزنامہ جنگ میں یہ کہانی چھپنے سے پہلے میں نے مفتی شامزئی کے حوالہ سے روزنامہ اوصاف کے اداریہ میں لکھا تھا کہ مجاہد تنظیمیں واشنگٹن سے رابطۂ عالمِ اسلامی مکہ مکرمہ کے ذریعے رقم تقسیم کرکے علماء کو خرید تی ہیں، پھر منظرنامہ بدلا ۔ اجمل قصاب نے ’’آنٹی‘‘ کا بدلہ لینے کیلئے بھارت کے اوپر زبردست حملہ کردیا۔ جیو ٹی چینل کو بھارت سے امن کی آشا کے نام پر خطیر رقم مل گئی۔ کیمرے کی آنکھ نے پنجاب کی سرزمین سے جیو کی اسکرین پردکھا دیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان سے تھا اور باقاعدہ یہ بھی دکھا دیا کہ خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ عوام کو روک رہے تھے اور صحافت کی نمائندگی کرنیوالے بہت بہادری سے اسکرین پر نشاندہی بھی کررہے تھے۔
کسی پر ایجنٹ کے الزامات لگانے کیلئے عدالت میں ثبوت دینا پڑتاہے، زرداری کی کرپشن کو ٹی وی چینلوں نے بہت اجاگر کیا لیکن 11سال جیل کاٹنے کے باوجود ثابت نہیں کرسکے، نواز شریف کی پانامہ لیکس من وسلویٰ کی طرح قوم پر نازل ہوئی لیکن ملکہ سبا کے تخت کی طرح قطر سے شہزادے کا خط بھی بڑی تیزی سے سامنے آگیا۔ اے آر وائی کو لندن میں نشریات بند کرنی پڑگئی۔ الزامات لگانے سے کام نہیں بنتا۔ حضرت مغیرہ ابن شعبہؓ کیخلاف گواہی دینے والوں کو جان کے لالے پڑگئے تھے۔طاقتوروں پر الزام تراشی کی حوصلہ شکنی ہر دور میں ہوتی رہی ہے لیکن اس دور کا یہ اعزاز ہے کہ سچ نام کی کوئی چیز جھوٹ کی بہتات میں نظر نہیں آتی ہے، جمہوریت اور صحافت نے قوم کی اُمنگ بن کر قوم کے اچھے عزائم کو بھی شکست خوردہ بنادیاہے۔ پہلے حبیب جالب کی طرح کے لوگ ہردور میں عتاب کا نشانہ بنتے تھے ،اب رقم سے خدمات دستیاب ہیں۔ ہر ایک اُلو عقاب بنا پھرتا ہے۔اگر علامہ اقبال کا شاہین نایاب ہے تو اس منصب کیلئے اُلو کیوں بے تاب ہے؟۔
جب حامد میر کو گولیاں لگی تھیں تو بہت افسوس ہوا،اور کیوں نہ ہوتا کہ کسی درخت سے کوئی ہری بھری شاخ کٹے ، نبیﷺ نے حرم کیلئے حکم جاری فرمایا کہ کوئی درخت اور جنگلی گھاس بھی نہ کاٹے۔ آکسیجن زندگی کیلئے ضروری اور زندگی حلقہ احباب کی زینت ہے، زندگی اجڑے تو ماحول اجڑجاتا ہے ، قرآن نے ایک جان کے قتل کو کسی جان یا فساد کے بغیر پوری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ جب فرقہ واریت کو پروان چڑھایا جارہاتھا تو میں نے اگست2003ء کو جنگ فورم میں آواز اٹھائی تھی جسکو سپرٹ کیساتھ جگہ نہ ملی سکی ، رضا ربانی کی طرف سے یاد ماضی کے عذاب کو اجاگر کرنا حماقت ہے ، اگر دستخط سے انکارکرتے تو اسکی گردن کی چٹیہ سرکی چوٹی کا تاج بن کر ابھرتا۔فوج ملک کیلئے امید کی کرن ہے ، ڈان نیوز میں بھی مظلوم کی داد رسی نہ ہوسکی ۔ لوہا لوہے کو کاٹتاہے۔ کہا جاتاہے کہ ’’کلہاڑی میں درخت کا دستہ نہ ہوتا تو درخت نہ کٹتا‘‘،سب اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں۔
ہمارا گھر طالبان نے اجاڑ دیا ،اگر ہمارے گھر سے انکو ایندھن نہ ملتا تو ہمارا گھر نہ جلتا۔فوج نے ماضی میں جو کیااس کی سزابھی خود بھگت لی لیکن اب جب فوج بدل گئی ہے تو اس پر رکیک حملے کرنے میں ملک وقوم کی تباہی ہے۔ حکومت اور صحافت کا فوج کیخلاف ایک گٹھ جوڑ نظر آتاہے۔
لوگوں کی راۓ