پوسٹ تلاش کریں

ہر استحکام کیلئے ایک انہدام ضروری ہوتا ہے اگر آپ کا گھر زلزلے میں کریک ہوجائے تو کہیں گے کہ گرائیں گے تو اور ٹوٹ جائیگا،دوبارہ بنانا پڑے گا؟ ۔ اس حد تک غیر مستحکم ہیں ہم معاشی ، سیاسی ، اخلاقی لحاظ سے کہ ایک دفعہ اس کا انہدام ضروری ہوگا اور وہ انقلابی تحریک سے ممکن ہے۔ حکومت دھاندلی کی پیداوار ہے۔سندھ اور بلوچستان اسمبلی خریدی گئی ۔الیکشن کے نتائج مسترد!

ہر استحکام کیلئے ایک انہدام ضروری ہوتا ہے اگر آپ کا گھر زلزلے میں کریک ہوجائے تو کہیں گے کہ گرائیں گے تو اور ٹوٹ جائیگا،دوبارہ بنانا پڑے گا؟ ۔ اس حد تک غیر مستحکم ہیں ہم معاشی ، سیاسی ، اخلاقی لحاظ سے کہ ایک دفعہ اس کا انہدام ضروری ہوگا اور وہ انقلابی تحریک سے ممکن ہے۔ حکومت دھاندلی کی پیداوار ہے۔سندھ اور بلوچستان اسمبلی خریدی گئی ۔الیکشن کے نتائج مسترد! اخبار: نوشتہ دیوار

ہر استحکام کیلئے ایک انہدام ضروری ہوتا ہے اگر آپ کا گھر زلزلے میں کریک ہوجائے تو کہیں گے کہ گرائیں گے تو اور ٹوٹ جائیگا،دوبارہ بنانا پڑے گا؟ ۔ اس حد تک غیر مستحکم ہیں ہم معاشی ، سیاسی ، اخلاقی لحاظ سے کہ ایک دفعہ اس کا انہدام ضروری ہوگا اور وہ انقلابی تحریک سے ممکن ہے۔ حکومت دھاندلی کی پیداوار ہے۔سندھ اور بلوچستان اسمبلی خریدی گئی ۔الیکشن کے نتائج مسترد!

حقیقت ہے کہ جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہی ہے کچھ لوگ زمانہ ہوا کہ اسمبلیوں سے مایوس ہیں ایک طبقہ جمہوریت کو کفر سمجھتا ہے ساری قربانیوں کے باوجود ہمارے حق پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے

جمعیت علماء اسلام اورPDMکے قائد مولانافضل الرحمن نے کہا:یہ حکومت عوام کی نمائندہ نہیں دھاندلی کی پیداوار ہے!
پارلیمنٹ میں تحفظات کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا لیکن اس صورتحال سے چاروں صوبوں میں جا کر صوبائی جو ہمارے جنرل کونسلز ہیں مجالس عمومی ہیں ان کو اعتماد میں لینا، چنانچہ ہمارا پہلا اجلاس خیبر پختونخواہ میں ہوا اور ابھی دوسرا اجلاس یہاں کراچی میں ہو رہا ہے اس کے بعد پنجاب میں جائیں گے۔ بلوچستان میں بہت سخت سردی ہے مختلف اطراف سے لوگوں کے جمع ہونے میں دقتیں آرہی ہیں تو اس کو فی الحال موخر کیا ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہی ہے اور پارلیمنٹ اپنی اہمیت کھو رہی ہے۔ اس صورتحال میں اب کیا کیا جائے؟۔ یہ پارلیمنٹ جواس وقت ہم دیکھ رہے ہیں یہ عوام کی نمائندہ نہیں۔ یہ دھاندلی کی پیداوار پارلیمنٹ ہے جس میں کچھ لوگ اپنے آپ کو حکمران کہلائیں گے اور قوم کے دلوں پر وہ حکومت نہیں کر سکیں گے ان کے جسموں پہ تو شاید وہ حکومت کرسکیں لیکن قوم دل سے اس کو تسلیم نہیں کرے گی۔ اس حوالے سے ہم آج یہاں کراچی آئے ہیں۔ یہاں کے صوبائی جنرل کونسل اور ورکرز کیساتھ ساری صورتحال پہ بات کرنی ہے اور پھر مزید ہم پورے ملک میں تحریک چلانے کا لائحہ عمل بھی بنائیں گے۔ بھرپور تحریک ہوگی عوامی قوت کے ساتھ ہوگی اور وہ ملک کی سیاست کو تبدیل کرے گی اس کی کایا پلٹے گی۔ حالات اس طرح نہیں رہیں گے جس طرح کہ ہم پہ مسلط کئے جا رہے ہیں۔ یہ حالات ہم نہ تسلیم کرتے ہیں نہ اس کو ہم قبول کرتے ہیں اس کے خلاف بھرپور عوامی رد عمل آئے گا لیکن ہم اس کو منظم طریقے سے آگے بڑھانا چاہیں گے۔صحافی کے سوال کے جواب میں کہا کہ دیکھئے ہمارا کوئی ذاتی جھگڑا کسی کے ساتھ نہیں ہے کہ وہ ہمیں منا لیں گے۔ مسئلہ قوم کا ہے مسئلہ عوام کا ہے انہوں نے اقتدار کی کرسی کو شاید اپنی جاگیر سمجھ لیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں ہم حکومت کو خرید لیتے ہیں چنانچہ سندھ اسمبلی خریدی گئی ہے بلوچستان اسمبلی خریدی گئی ہے اور مختلف صوبوں میں انہوں نے جو پیسہ انویسٹ کیا ہے پیسے کی بنیاد پر اگر ملک کی حکومت چلنی ہے اور اسمبلی خرید نی ہیں تو پھر ظاہر ہے کہ ہم تو فارغ ہیں۔ایک صحافی کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ دیکھئے ابھی تک کسی گرینڈ الائنس کی باضابطہ تجویز نہیں ہے۔رات کو بھی ہمارے ایک دوست نے کھانے پر سب کو بلایا۔ ملاقات ہوئی سب کے ساتھ بڑی اچھی ملاقات رہی۔ ملاقاتیں ہونی چاہیے اور اس میں مذاکرہ ہوتا ہے اس میں ڈیبیٹس ہوتی ہیں حالات کو سمجھا جاتا ہے اور یہ ہمیں اندازہ لگانا ضروری ہے کہ ہم آئین و قانون کی حدود میں رہتے ہوئے اپنا حق اظہار رائے استعمال کریں اور اس وقت نوجوان نسل میں بہت زیادہ شدت آرہی ہے اور ملک کے اندر ایک نظریہ تو نہیں ہے بہت سے لوگ اپنے نظریوں کے حامل ہیں۔ کچھ لوگ ویسے ہی اسمبلیوں سے مایوس ہیں ایک زمانہ ہو گیا کہ مایوس ہیں مزید ان کو اسمبلیوں اور جمہوریت سے مایوس کیا جا رہا ہے۔ ایک طبقہ جمہوریت کو بالکل کفر سمجھتا ہے ہم نے اس ماحول میں جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہم نے آئین اور قانون کی روشنی میں جمہوریت کی تشریح کی اور لوگوں کو اس کی طرف آمادہ کیا۔ اس ساری قربانیوں کے باوجود کون ہے جو ہمارے اس حق پہ ڈاکہ ڈالتا ہے؟۔ ہم کوئی ڈاکہ تسلیم نہیں کرتے ہم ڈاکہ ڈالنے والے کو مجرم سمجھتے ہیں لاکھ دفعہ وہ اسٹیبلشمنٹ ہو، لاکھ دفعہ وہ فوج ہو، لاکھ دفعہ وہ مسلح قوت ہو لیکن جبر کو جبر کہا جائے گا اسے کبھی عدل تسلیم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ صحافی کے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں بڑی وضاحت سے عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ پیپلز پارٹی کو اور مسلم لیگ ن کو تقریبا وہی مینڈیٹ ملا ہے جو2018میں ملا تھا۔ پھر اس وقت دھاندلی کیوں تھی اور آج دھاندلی کیوں نہیں؟۔PTIکو وہی تقریبا ً مینڈیٹ ملا ہے جو2018میں ملا تھا اس وقت دھاندلی نہ تھی آج دھاندلی کیوں ہے؟۔ دونوں سے سوال ہے لیکن جمعیت علماء اپنے اصولی موقف پہ قائم ہے دھاندلی18میں ہوئی ہے تب بھی دھاندلی ہے اور2024میں ہوئی ہے تب بھی دھاندلی ہے۔ جہاں تک پارٹیوں کا تعلق ہے۔ ضرور سب دوست تشریف لائے ہیں انکے اکابرین تشریف لائے ہم نے ان کو احترام دیا ہے احترام کا رشتہ تو پہلے بھی تھا آئندہ بھی رہے گا اورPTIکے و فود بھی آئے ہیں ایک سے زیادہ مرتبہ وہ تشریف لائے ہیں ہم نے ان کو بھی احترام دیا، عزت دی ہے اور سیاست میں آپ جانتے ہیں کہ ہم نے کبھی بھی تلخی کو فروغ نہیں دیا تعصبات کو فروغ نہیں دیا گالم گلوچ کو فروغ نہیں دیا۔ مؤقف لیا ہے اتفاق رائے بھی کیا ،اختلاف رائے بھی کیا، اعتدال کیساتھ اور دلیل کیساتھ کیا ۔ لیکن میں آپ کو اطمینان دلاتا ہوں کہ اب تک ہم اپنے مؤقف پہ قائم ہیں، پارلیمنٹ میں جائیں گے احتجاجی اور تحفظات کے طور پر ہم جائیں گے کوئی ووٹ ہم نے استعمال نہیں کرنا اور انشااللہ العزیز ہماری جو دوست جماعتیں ہیں جو ہمارے پاس تشریف لائے بار بار لائے انشااللہ اب وہ اصرار نہیں کریں گے ہم نے اپنا مؤقف ان کو تقریباً منوا لیا ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے ایک اور بیان میں کہا ہے کہ
جمعیت والو! میں آپ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں ہم نے10،12سال تک عمران خان کیساتھ اور پی ٹی ائی کے ساتھ ایک لڑائی لڑی ۔ہم نے جو سوالات اٹھائے اور یہ کہ یہ آپ کا ایجنڈا ہے اور اس ایجنڈے کی مزاحمت کریں گے ہم اور ہم نے کی اگر اس کا ایجنڈا مکمل نہیں ہو۔ ابھی آپ نے سپریم کورٹ کا فیصلہ دیکھا۔یہ ریاست کے اندر باہر کے ایجنڈے اس طرح چلائے جاتے ہیں کہ پھر ادارے استعمال ہوتے ہیں اب ایک کیس ہے آپ کے پاس اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ جی2019کا کیس ہے اور2021میں ترمیم ہوئی ہے اور اس وقت یہ قانون نہیں تھا بھلا اب ضمانت پر رہا کردیں بھلا آپ اس کو چھوڑ دیں۔ نیچے جو مندرجات آپ نے تحریر فرمائی ہیں اور اپنا فلسفہ دین آپ نے اس کے اندر سمو دیا ہے ہماری بحث اس سے ہے اور جج صاحب ناراض نہ ہو آپ نے جو کچھ اس میں کہا ہے وہ بدنیتی پر مبنی ہے۔ آپ کون ہوتے ہیں کہ قران کی آیتوں کی غلط تشریح کرتے ہیں۔ اس کی غلط تدبیر کرتے ہیں۔ غلط جگہ پر آپ اس کو بطور دلیل کے پیش کرتے ہیں۔ تو پھر آپ کسی خاص ایسے نظریے کے تابع شخص ہیں کہ ان کو پھر ہم جانتے ہیں پاکستان میں ہمیشہ ایک طبقہ ایسا رہا ہے جنہوں نے دین کا علم سند کی بنیاد پر حاصل نہیں کیا صرف مطالعوں سے انہوں نے دین کو حاصل کیا ہے۔ اور پھر ڈیوٹی لی ہے اس نے کہ میں دین کی ایسی جدید اور نئی تعبیرات کروں گا ایسی تعبیرات جو امت کیلئے قابل قبول ہوں یا نہ ہو لیکن مغرب کے لیے قابل قبول ہوں یہ مغرب کے لیے قابل قبول تعبیرات یہ کون لوگ ہیں؟۔ کون کرتے ہیں یہ؟۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے فیصلے وہ انہی تعبیرات کی پیروی ہے۔

(نوٹ: اس پوسٹ کے بعد عنوان ”مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے” کے تحت پوسٹ ضرور پڑھیں۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟