ہارون الرشید اور شیخ رشید جیسے لوگ اسٹیبلشمنٹ کی بدنامی کا باعث ہیں. نادر شاہ
مارچ 16, 2018
مدیر منتظم نوشتہ دیوار نادر شاہ نے کہا ہے کہ بعض صحافی اور سیاستدان اسٹیبلشمنٹ کو بدنام کررہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ پاکستان ایک مرتبہ میچ جیتنے کے بالکل قریب پہنچ گیا تھا اور نجومی ماموں بھی پیشگوئی کررہے تھے کہ فائنل کو پاکستان نے بہر صورت جیتنا ہے۔ آخر میں کھیل کا پانسا پلٹا اور ماموں نجومی بھاگتا ہوا نظر بھی نہیں آیا۔ ہارون الرشید اس وقت اچھا لگتا تھا جب اسٹیبلشمنٹ سیاست میں کردار ادا کررہی تھی ۔ اب جب خفیہ ہاتھوں نے اپنا کھیل خود ختم کردیا ہے اور برأت کا اظہار بھی کیا جارہا ہے تو شیخ رشید اور ماموں ہارون الرشید نہ جانے کس لئے تگنی کا ناچ ناچ رہے ہیں؟۔ ایک تخمینہ تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری اور تحریک انصاف و پیپلز پارٹی کو آخری راؤنڈ کیلئے اسٹیبلشمنٹ نے لاہور میں کردار دیا ہے لیکن شیخ رشید کی لعنتوں نے دوسروں پر لعنت بھیجنے کے بجائے خود پر ہی لعنت بھیج دی۔ یہ کوئی دانشمندی اور اسٹیبلشمنٹ کا کھیل ہوسکتا تھا؟۔ نہیں ہرگز ہرگز نہیں۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے صحافیوں کو طلب کرکے واضح طور سے کہا کہ ’’اگر بلوچستان کی حکومت کو بدلنے میں کسی فوجی افسر یا اہل کار کا کردار ثابت ہوجائے تو اس کو بھرپور سزا دی جائے گی۔ فوج سیاست میں کوئی مداخلت نہیں کرتی ، جبکہ سیاستدانوں کو بھی فوج کو ملوث کرنے کیلئے کسی سے رابطے نہیں کرنے چاہئیں‘‘۔ بلوچستان کی حکومت بدلنے میں مولانا فضل الرحمن کا کردار درخت کے تنے کی طرح ہے۔ اور یہ تنا حکومت نے اپنے پاس نصب کر رکھا ہے۔ ماشاء اللہ چشم بددور ۔
صحافت کے ماموں ہارو ن الرشید نے کہاکہ ’’عمران خان کی طرف سے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو کو اپنا اختیار دیا گیا تھا اور قدوس بزنجو نے اپنا اختیار آصف زرداری کو دیا تھا۔ یہ تو بعض دوسرے لوگوں نے کردار ادا کرکے عمران خان کو سمجھا دیا ورنہ عمران خان اور قدوس بزنجو کھیل بگاڑ چکے تھے‘‘۔
ہارون الرشید کے اس تجزئیے نے جمہوریت میں ہارے ہوئے سیاستدانوں کوحوصلہ دیا کہ وہ خفیہ ایجنسیوں پر الزامات تھوپ سکیں۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ عمران خان نے کہا کہ’’ وہ زرداری سے مل نہیں سکتا اور نواز شریف کے آدمی کو ناکام بنانے کیلئے بھرپور کوشش کریگا‘‘۔ پھر جب مریم نواز نے تقریر کی کہ ’’عمران خان تم کہتے ہو کہ تم جھکتے نہیں ہو اور بکتے نہیں ہو لیکن تم سیدھا سیدھا لیٹ جاتے ہو‘‘ تو عمران خان نے اپنا مؤقف بدلا اور کہا کہ زرداری سے میں کسی صورت اتحاد نہیں کروں گا۔ زرداری کو پتہ تھا کہ ایسی صورت میں ڈپٹی چیئر مین کا عہدہ بھی نہیں مل سکتا اسلئے اپنا مؤقف تبدیل کیا۔ اگر پچھلی مرتبہ مولانا غفور حیدری کو بلوچستان کا دل رکھنے کیلئے ڈپٹی چیئر مین بنایا تھا تو اس مرتبہ چیئر مین کا عہدہ بلوچستان کو دینے میں کیا حرج تھا؟ جبکہ بصورت دیگر نواز شریف کی بالادستی قائم ہوجاتی۔
جمہوریت اپنے منطقی انجام کی طرف جارہی ہے۔ محمود خان اچکزئی نے زندگی بھر پنجاب سے تعصب کی بنیاد پر سیاست کی لیکن اب وہ ایک پنجابی اوراسٹیبلشمنٹ کے سب سے بڑے کارندے کی گود میں بیٹھ گئے ہیں۔ پنجابی اور اسٹیبلشمنٹ سے لوگ نفرت اسلئے نہیں کرتے تھے کہ وہ مسلمان اور انسان نہیں بلکہ پنجابی سیاستدانوں نے رنگ و روپ بدل بدل کر فوج کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کیا۔ آج اسٹیبلشمنٹ نے ان کٹھ پتلیوں سے اپنے ہاتھ اٹھالئے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کے مخالفین کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ جاری رکھو۔ دیانتدارانہ صحافت کا یہ تقاضہ ہے کہ پیسے لئے بغیر جو تجزیہ ٹھیک لگے وہ پیش کرے۔ نواز شریف نے اب صحافت کو بھی خرید لیا ہے۔ جماعت اسلامی ، جمعیت علماء اسلام اور محمود خان اچکزئی و حاصل بزنجو سب کے سب اس کے گرد اسلئے نہیں گھوم رہے ہیں کہ نواز شریف نے پارلیمنٹ میں اپنے اثاثہ جات کا ٹھیک ٹھیک حساب دیکر عوام کو مطمئن کیا بلکہ چوری اور سینہ زوری سے عدالت کو دبایا جارہا ہے اور ن لیگ نے مریم نواز کو ججوں پر چھوڑا ہوا ہے۔ قوم پرستی اور مذہب کو سیاست اور مفادات کیلئے استعمال کرنے والوں کا جنازہ ایک ساتھ نکل رہا ہے۔ عمران خان کے پاس بھی وہی لوگ ہیں جو دوسری سیاسی پارٹیوں کے پاس ہیں۔ بابر اعوان ، فردوس عاشق اعوان ، فواد چوہدری، شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور علی ترین وغیرہ وغیرہ وہی سیاست کررہے ہیں۔ وہ وقت دور نہیں کہ اچھے صحافی اور اچھے لوگ میدان میں نکل کر قوم کو نجات دلائیں گے انشاء اللہ
لوگوں کی راۓ