پوسٹ تلاش کریں

کراچی یونیورسٹی میں چینی خواتین اساتذہ پر اعلیٰ تعلیم یافتہ شاری بلوچ کا خود کش حملہ

کراچی یونیورسٹی میں چینی خواتین اساتذہ پر اعلیٰ تعلیم یافتہ شاری بلوچ کا خود کش حملہ اخبار: نوشتہ دیوار

کراچی یونیورسٹی میں چینی خواتین اساتذہ پر اعلیٰ تعلیم یافتہ شاری بلوچ کا خود کش حملہ

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

پہلی مثبت با ت یہ ہے کہ افراتفری کی سیاست میں یہ الزام نہیں لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ کے ایماء پر پاک فوج نے خودکش بمبار شاری بلوچ کے ذریعے سے پاک چین دوستی کو نشانہ بنایا ہے!

دوسری مثبت بات یہ ہے کہ جہاں دنیا میں عورت کا کردار جنسی جذبات بھڑکانے کیلئے ایک آلہ کار کے طور پر استعمال ہورہا ہے وہاں شاری بلوچ نے اپنی زندگی کو ایک بڑے مقصد کیلئے قربان کیا!

تیسری مثبت بات یہ ہے کہ ہماری فوج اور اشرافیہ کی خواتین میں بھی شاری بلوچ کے جذبے سے اپنے ملک ، دین اور ایمان کیلئے مشکل وقت آنے پر خودکش بمبار بننے کا جذبہ پیدا ہوجائیگا

دہشت گردی ، انتہا پسندی اور خودکش حملوں کی اگر اسلام میں اجازت ہوتی تو رسول اللہ ۖ ، شیر خدا علی، اسد اللہ و اسد رسولہ سید الشہداء امیر حمزہ ، فاروق اعظم عمر اور تمام بہادر اور جلیل القدر صحابہ کرام مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بجائے مشرکین مکہ پر دہشتگردانہ حملے کرتے۔ جان و مال اور عزت کے تحفظ سے زیادہ بڑی بات کچھ بھی نہیں ہوسکتی۔ بلوچستان اور وزیرستان کے حالات ملتے جلتے ہیں۔ وزیرستان کے کچھ لوگوں نے مذہبی دہشتگردی کا ارتکاب کیا تو لوگ اپنی عظیم روایات اور اقدار سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ نوجوان خود کش بمبار سے متاثر ہوگئے تو گھروں ، بازاروں اور مساجد تک بے گناہ لوگوں کو اڑانے سے دریغ نہ کیا۔ جب فوج نے آپریشن کیے تو بھی زیادہ تر اسکے جیٹ طیاروں کی بمباری کا نشانہ عوام بنے۔پھر ریاست کیخلاف نفرت کی فضاء بن گئی۔ آج بھی افغانستان میں موجودTTPاور پاک فوج کی لڑائی میں عام لوگ زبردست خوف و ہراس کا شکار ہیں اور اسی صورتحال کا بلوچستان میں بلوچوں کو سامنا ہے ۔
شاری بلوچ پر الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے علاوہ بلوچستان اسمبلی میں بھی اچھی خاصی بحثیں ہوچکی ہیں اور اس اقدام سے انتہاء پسندوں اور دہشت گردوں میں نئی روح شاری بلوچ نے پھونک دی ہے ۔ عید سے پہلے جو خاتون غربت کی وجہ سے اپنے تین بچوں سمیت کراچی کے سمندر میں چھلانگ لگا کر خود کشی کررہی تھی جس کو بچالیا گیا مگر اس خبر کو اہمیت نہیں ملی لیکن شاری بلوچ نے مہمان بے گناہ چینی خواتین کی بھی جان لے کر پوری دنیا میں دھوم مچادی اسلئے اسکے پیچھے ایک قوم کی کہانی ہے۔
ہاجرہ یامین نے اپنی ویڈیو جاری کی ہے کہ کراچی کی بربادی کی وجہ بہت ہی خاندانی اور معصومانہ ہے، گھر میں بن بلائے مہمان آجاتے ہیں اور جانے کا نام نہیں لیتے تو آپ کیا کرتے ہیں؟۔خالہ آپ کے وزن پر کمنٹ کرتی ہیں تو آپ چپ رہتے ہیں۔ تو یہ ناانصافی کیخلاف چپ رہنے کا جو کلچر ہے وہ لائف اسٹائل بن گیا ہے ہمارا۔ سڑک ایک طرف سے ٹوٹ گئی چپ کرکے راستہ بدلو ، فون چھن گیا چپ کرکے نیا فون لے لو، پولیس والے نے رشوت مانگی چپ کرکے پیسے دیدو۔ چینی مہنگی ہوگئی چپ کرکے پھیکی چائے پی لو۔ اب کراچی والوں کا چپ رہنے کا جو رویہ ہے نا یہ دیکھ کر کسی عقلمند کو بہت شاندار آئیڈیا آیا۔ اس نے سوچا ایک ایسا علاقہ بناتے ہیں جس میں جتنے بھی امیر لوگ ہیں ان کو اکھٹا کرتے ہیں اور ان سے ان کا سب کچھ چھین لیتے ہیں یہ زیادہ سے زیادہ کیا کریں گے ؟ چپ رہیں گے۔ تو یہ ہاؤسنگ سوسائٹی کا جو آئیڈیا تھا یہ بہت سکسس فل رہا۔ لوگوں سے بجلی چھین لی تو انہوں نے جنریٹر لگوالئے، پانی بند کردیا تو انہوں نے ٹینکر ڈلوالئے، پانی بند کردیا لیکن پانی کا بل بھیج دیا تو انہوں نے بل ادا کردیا۔ چوری اور ڈکیتی بڑھ گئی تو لوگوں نے پرائیویٹ گارڈ ہائر کرلئے۔ تو ظلم کے خلاف کوئی کچھ نہ بولا اور سب لوگ ہنسی خوشی زندگی بسر کرتے رہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ تم نے چپ رہنا کب سیکھا ؟۔ تب جب بچپن میں تمہیں سوال کرنے سے روکا گیا یا شاید تب جب تمہیں احساس ہوا کہ دیواروں پر پان کی پیکوں کے بیچ معصوم خون بھی ہے۔ یا شاید تب جب تمہارے سر پر کسی نے پستول رکھ دی
بقیہ صفحہ3نمبر2

بقیہ … شاری بلوچ خودکش بمبار
اورتمہاری جان اور مال کے بیچ میں سے ایک چننا پڑا۔ میں نہیں جانتی کہ آپ نے کب چپ رہنے کا فیصلہ کیا لیکن اتنا ضرور جانتی ہوں کہ اب وہ لمحہ ہے وہ موقع ہے جب آپ کو بولنے کا فیصلہ کرنا ہے۔ میں نہیں جانتی کہ آپ کے بولنے سے کتنا فرق پڑیگا؟ لیکن اتنا تو اب آپ بھی جانتے ہیں کہ ایک قطرے میں کتنی طاقت ہوتی ہے۔ قطرہ قطرہ ملا کر دریا بن ہی جاتا ہے۔
خود کش بمبارشاری بلوچ نے اپنے وطن اور اپنی قوم کے نام پر جو قربانی دی ہے ،اس کی مذمت تو اسکے شوہر کے خاندان نے بھی کردی ہے۔ اپنے خاندان نے بھی اس پر حیرت کا جس طرح اظہار کیا ہے اس کو ڈان نیوز نے شاری بلوچ کے پڑھے لکھے چچا سے انٹرویو لیکر قابلِ قبول نہیںقرار دیا ہے کیونکہ صحافی وسعت اللہ خان نے پوچھا کہ آج سے20سال پہلے ہم نے تربت میں آپ سے پوچھا تو آپ نے نشاندہی کی کہ ارباب اختیار جانتے بوجھتے ہوئے جذبوں کے تلاطم خیزموجوں سے آنکھ بند کئے ہوئے ہیں۔ کیا یہ اس کی ایک شکل نہیںہے ؟۔
بلوچ ہمارے بہت معزز بھائی ہیں اورخود کش بمبار شاری بلوچ ہماری بہن تھیں۔ مریم نواز نے کہا تھا کہ” اپنی والدہ کے انتقال سے زیادہ دُکھ بلوچ مسنگ پرسن کی تکلیف کو دیکھ کر پہنچا ہے”۔ میری ایک گھر والی تربت کی بلوچ ہے اورپہلے اس کو بھی شدت پسندوں سے دلی ہمدردی تھی۔ اس کے کئی رشتہ دار بھی مارے گئے اور جنہوں نے جہاز اغواء کیاتھا اور پھانسی لگی تھی۔ شبیراور شاہ سوار ۔ شبیر چاچی کا سگا بھائی تھا۔ پھر شدت پسندوں سے بہت سخت نفرت ہوگئی۔ بہت قریبی رشتہ داروں نے خوف سےBLAکو چھوڑ دیا۔ جبPCہوٹل گوادر پر حملہ کیا گیا تو اس کو سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادت پر دُکھ تھا اسلئے کہ اپنی روٹی روزی اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کیلئے نوکری کررہے تھے اور شدت پسند تو گئے ہی مرنے کیلئے تھے۔ یہ اس کی ذہنیت تھی۔ گوادر میں دہشتگردوں سے اسلئے نفرت پھیل گئی کہ خودکش نے چینیوں کو اڑایا تو کئی بہنوںاور والدین کا اکلوتہ بھی شہید ہوا۔ایک انسان کے بے گناہ قتل کو قرآن نے پوری انسانیت کا قتل قراردیا۔ شاری بلوچ نے خود کش کردیا تو میری بلوچ گھر والی نے کہا کہ اس کو کسی طرح بلیک میل کیا ہوگا۔ ایک عورت اپنے بچوں کو چھوڑ کرایسا کیسے کرسکتی ہے؟۔ اور بے گناہ چینی خواتین اساتذہ کے قتل پر سخت غصہ بھی آگیا۔
جب میں نے یوٹیوب یا فیس بک سے مسنگ پرسن کیلئے آواز اٹھانے والی ایک لڑکی کی تقریر سنائی جو یہ کہہ رہی تھی کہ ہم گھروں سے اپنے پیاروں کی تلاش میں عرصہ سے نکلے ہیں اور لوگوں کی نظریں جب ہم پر پڑتی ہیں تو بہت چھبتی ہیں۔ پھر شاری بلوچ کی جاری کردہ بلوچی زبان میں ویڈیو دیکھ لی جس میں وہ کہہ رہی ہے کہ دشمن کو ہماری عزتوں پر ہاتھ ڈالنے کی بھی پرواہ نہیںہے اسلئے میں نے یہ قربانی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پھر میری گھر والی نے سمجھ لیا کہ اس میں بلیک میل ہونے کا کوئی مسئلہ نہیں بلکہ مشن کیلئے اتنا بڑا قدم اٹھایا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ایجنسی والے اب اس کو چھوڑیں گے نہیں،آخری حد تک سراغ لگاکر ایک ایک کردار کا بہت برا حشر کریںگے۔ پھر میں نے بتادیا کہBBCکی ویب سائٹ پر شاری کے شوہر کے گھر والوں نے اس کی سخت مذمت کردی ہے۔ یہ ڈرنے کی وجہ سے کی ہوگی۔ تو اس نے کہا کہ نہیں ، وہ اپنی ایک لڑکی کے اس طرح نمایاں ہونے پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں اور غیرت کے خلاف لگتا ہے کہ ایک عورت اس طرح سے نمایاں ہو۔
سوشل اور الیکٹرانک میڈیا سے بڑے پیمانے پر آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ بلوچوں کیساتھ زیادتیاں ہورہی ہیں۔ ان کے مسنگ پرسن کو آزاد کیا جائے اور یہ سلسلہ بڑے عرصے سے چل رہاہے۔ قومی اسمبلی میں تین ماہ پہلے سرداراختر مینگل نے کہا تھا کہ پہلے ہمارے نوجوانوں کو اٹھایا جارہاتھا، پھر بوڑھوں کو بھی اٹھایا جانے لگا اور اب خواتین اور بچوں کو بھی اٹھایا جارہاہے۔ آپ نے ہمیں غدار قرار دیا۔ ہماری نسلوں کو ختم کردیا اورہماری خواتین کی عزتوں کو بھی نہیں چھوڑا لیکن ہم نے ہمیشہ تمیز کی حد میں رہ کر آواز بلند کی ہے اور کبھی گالی تک بھی نہیں دی ہے۔ کس کس کو غدار نہیں کہا؟۔ فاطمہ جناح، ولی خان، نوازشریف اور الطاف حسین سمیت جو بھی اپوزیشن کی بینچوں پر بیٹھا وہ غدار کہلایا اور کل تحریک انصاف والے اپوزیشن بینچ پر ہوںگے اور ہم اس طرف بیٹھے ہوں تو پھر وہ غدار کہلائیںگے۔ جب میں وزیراعلیٰ تھا تو چاغی میں ایٹمی دھماکوں پر مجھے اعتماد میں نہیں لیا گیا اور جب مجھے پتہ چلا تو احتجاج کرنے پر مجھے برطرف کردیا گیا تھا۔ جس کی غلطی کا اعتراف نوازشریف نے بھی کیا ہے۔
نوازشریف نے سوئی گیس سے بلوچستان کی محرومی کا ذکر بھی کیا تھا لیکن جب حکومت مل گئی توسی پیک کے مغربی روڈ کا رُخ کوئٹہ اور پشاور سے موڑ کر لاہور کی جانب کردیا تھا۔ جس کی وجہ سے بلوچوں کے گاؤں مسمار کردئیے گئے اور محرومیوں کا احساس مزید بڑھادیا گیا۔ خوشحال گھرانے سے تعلق رکھنے والی شاری بلوچ کے خود کش حملے کو جس طرح کی پذیرائی ملی ہے وہ خطرناک صورتحال تک معاملات کو پہنچاسکتی ہے۔ طالبان کی دہشت گردی کو اہمیت نہیں دی گئی لیکن پھرGHQپر قبضے سے لیکر ہماری ریاست ، حکومت، مذہبی طبقات او ر پوری اشرافیہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ بلوچ قوم کو عزت دینے کے نام پر رام کرنا بہت آسان ہے ، پٹھانوں کو غیرت کے نام سے رام کرنا آسان ہے اور سندھیوں کو محبت کے نام سے رام کرنا بہت آسان ہے اور پنجاب کو شعور کے نام سے رام کرنا بڑا آسان ہے۔ بھانڈوں ، جوکروں، مسخروں اور بدتمیزوں وبد تہذیبوں کے رحم وکرم پر پاکستان کو چھوڑدیا گیا ہے۔
منظور پشتین نے وزیرستان میں یہ بہت کام کی بات کہہ دی ہے کہ ” پختون غیرتمند قوم ہے۔اگر دشمنی ہو تو پھر چوک اور چوراہے پر للکارتے ہوئے اپنے دشمن کو ماردیتے ہیں ، کسی کی آڑ لیکر چھپ کر وارکرنا غیرت وحمیت کے خلاف ہے”۔
اگر وزیرستان میں فوجیوں کے قتل کیلئے بھی اسی غیرت ہی کا پیمانہ رکھا جائے اور عوام اور طالبان کیلئے بھی اسی غیرت کے ترازو سے کام لیا جائے تو امن وامان قائم ہونے میں دیر نہیں لگے گی لیکن اگر فوجیوں کا قتل اس بنیاد پر جاری رہے کہ پاک فوج جانے اور شہداء جانیں تو پھر یہ سلسلہ جاری رہے گا اور طاقت کے استعمال کے اس کھیل میں فساد اورقتل وغارتگری کا سلسلہ جاری رہے گا۔ بلوچ ہیومن رائٹ کے معروف رہنما وہاب بلوچ نے بتایا کہ ”بلوچوں سے سب سے زیادہ ہمدردیوں اور عملی تعاون کا مظاہرہ پنجابی کرتے ہیں”۔ سندھی قوم پرست جب منظور پشتین کے کسی بیان سے ناراض تھے تو وہاب بلوچ نے ان میں صلح صفائی کروائی تھی۔ وہاب بلوچ نے کہا کہ سب سے زیادہ مؤثر کردار مذہب کی بنیاد پر ادا ہوسکتا ہے لیکن مذہبی لوگوں نے اس کو غلط استعمال کرکے کارگر نہیں بنایا ہے۔
پاکستان میں جس طرح مذہبی لوگوں نے مذہب کے نام پر تباہی مچائی ہوئی تھی ۔ مولانا نورمحمدسابق ایم این اے اور معراج الدین ایم این اے کو بھی شہید کردیا گیا تھا۔مساجد میں خود کش حملوں سے لیکر بازاروں ، سکولوں ، گھروں اور سرکاری ، سیاسی اور مذہبی لوگوں پر اٹیک تک بہت کچھ کیا گیا۔ خاتون ڈاکٹر بھی اغواء برائے تاوان کیلئے لے گئے تھے۔ اگر ہماری اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ دوغلی پالیسی کھیل کر اس حلیے اور لبادے میں اپنے اپنے طالبان اور دہشت گرد پالنے کی غلطی نہ کرتے تو عوام ہی نے ان کا قلع قمع کردینا تھا۔ اسماعیل ساگر نے بتایا تھا کہ اس وقت ہمارے اندر اتنی جرأت نہیں تھی کہ کھل کر آواز اٹھاتے مگر امریکہ کے بلیک واٹر نے اربوں روپے سے قبائل میں لوگ پیدا کئے تھے۔ راولپنڈی کے قریب روات میں ان کا ٹریننگ سینٹر تھا۔جہاں کورٹ مارشل اور جرائم پیشہ فوجی اہلکاروں اور پولیس کو بھاری رقوم دے کر بھرتی کیا جاتا تھا۔
خود کش حملہ آور کرائے پر ملتے تھے۔ بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ”200ڈالر ماہانہ تنخواہ پر افراد بھرتی کئے جاتے ہیں”۔ ایسا کھیل کھیلا گیا کہ فیض احمد فیض اور احمد فراز کی شاعری زندہ کی گئی تھی۔ شریف ، شرافت اور اشرافیہ سب کا جنازہ نکل گیا تھا۔ جہاں غربت تہذیب کے آداب بدل دیتی تھی وہاں خود کش اور ٹارگٹ کلنگ کی دہشتگردی نے تہذیب کے آداب بدل ڈالے تھے۔ مونچھوں والا بدمعاش یونہی دلّا اور بے غیرت لگتا تھا اور چوتڑ تک بال رکھنے والے کی دہشت چھا گئی تھی۔
ریاست پاکستان ، مذہبی طبقات کے فتوؤں ، سیاسی قائد کے بیانات بالکل غیرمؤثر تھے۔ متحدہ مجلس عمل کی حکومت تھی اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ اکرم خان درانی نے ہنگو میں شیعوں کے جلوس میں دھماکہ کرنے پر کہا تھا کہ ”یہ امریکہ کے ایجنٹ ہیں ”، تو ان کے قریبی لوگوں پر حملہ کرکے شہید کردیا گیا تھا اور پھر اکرم خان درانی کو یہ بیان دینا پڑا تھا کہ ” اگر کسی نے کہا کہ ہم پر طالبان نے حملہ کیا تو اس کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کروں گا”۔ جب قائد جمعیت علماء اسلام مولانا فضل الرحمن نے جمعہ کی تقریر میں حضرت ابوبکر صدیق اکبر سے منقول ابن ماجہ کی حدیث کا حوالہ دیا کہ” طالبان خراسان کے دجال کا لشکر ہیں اوران میں حدیث میںموجود تمام نشانیاں پائی جاتی ہیں ” تو میڈیا نے مولانا فضل الرحمن کے بیان کو شائع نہیں کیا۔
قوم کا یہ حال تھا کہ مجھے لگتا تھا کہ وزیرستان کے غریب عوام کی عزتیں اس جنگ میں خراب اور پامال ہونگی ۔ کرائے کے لوگ اسلام کیلئے نہیں مفادات کیلئے لڑرہے ہیں اور جذباتی طبقہ اور عوام غلط استعمال ہورہے ہیں۔ تو ایک بھائی نے کہا تھا کہ ”مجھے ان کے خلاف اُٹھ کر جہاد کرنا چاہیے” ۔ جس پر میں نے عرض کیا تھا کہ ”پھر سب سے پہلے اپنے بھائیوں کے خلاف جہاد کرنا پڑے گا اسلئے کہ وہ دل سے اس جہاد کے حامی ہیں”۔ جس طرح آج عمران خان کیلئے لڑنا بعض لوگ امریکہ کے خلاف جہاد سمجھتے ہیں اسی طرح سے دہشتگرد بلیک واٹر کے ایجنٹوں کی دل سے ، ڈر سے اور ایمان کے جذبے سے لوگ تائید کرتے تھے۔ منصوبہ بندی کے تحت ہمارے ریاستی ادارے اور عوام پیسے اور جذبے میں استعمال ہورہے تھے۔
پھر ایک موقع آیا کہ ” پہلے طالبان نے میرے بھائی کا پیچھا کیا تھا اور پیسوں والے افراد کو لوٹنا اور دہشت گردی سے ڈرانا ان جرائم پیشہ افراد کا وطیرہ بن چکا تھا”۔ پھر مجھ پر حملے کا بہانہ مل گیا اور اس واردات میں اصل ہدف میں تھا اور گھر کے اسلحے اور مال وزیورات کو لوٹنا تھا تو13افراد شہید کردئیے گئے اور اپنے بھی کچھ مردے اٹھا کر لے گئے اور چوروں اور ڈاکوؤں کی طرح رات کی تاریکی میں دفن کردیا۔ حالانکہ نعرہ تکبیر لگاکر حملے کرنیوالے اپنے مردوں کو شہید سمجھ کر دھوم سے دفن کرتے تھے ، مردار جانوروں کی طرح چھپ کر نہیں دفناتے تھے۔
مجھ سے کہا گیا کہ اب موقع ہے کہ ان کے خلاف جہاد کا اعلان کیا جائے کیونکہ اب تو عوام میں بھی ان کے خلاف بڑی نفرت پھیل گئی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ علی کا پوتا ہوں، جس نے کافر دشمن کو لٹادیا تھا اور تلوار کے وار سے ختم کرنا تھا مگر جب اس نے علی کے چہرے پر تھوک دیا تو علی نے معاف کردیا ،اس نے کہا کہ غصہ زیادہ بڑھ جانا چاہیے تھا تو علی نے فرمایا کہ جب ذاتی رنجش اس میں شامل ہوگئی تو پھر یہ اللہ کی راہ میں جہاد نہیں رہاہے۔ اب ذاتی رنجش کے بعد جہاد کرنا اسلام نہیں ہے۔
پھر ایک وقت آیا کہ وزیرستان سے طالبان کااثر ورسوخ اتنا بڑھ گیا کہ سوات سے کراچی تک محسود قوم کے افراد بہت دندناتے گھوم رہے ہوتے تھے۔ کراچی میں بھی طالبان نے باقاعدہ فیصلے کرانے اور بھتے لینے شروع کئے تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ وزیرستان سے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر کچھ پیسے مل جائیں تو حکیم اللہ محسود، قاری حسین وغیرہ کو ہم نشانہ بنالیں گے۔ میں نے کہا کہ پیسے ضرور دیں گے لیکن وہ ہمیں اپنے ہدف تک پہنچا دیں۔ میری سندھی گھر والی اور اپنے بچوں سے خود کش کرانے کا میں نے فیصلہ کرلیا اور مشاورت بھی ہوگئی اور میں نے طے کرلیا کہ اب مجرم کی تلاش کو چھوڑ کر محسود قوم کو پنجاب، سندھ ، کراچی ، کوئٹہ اور پختونخواہ میں گوریلا طرز پر نشانہ بنایا جائے۔ جب وہ محفوظ ہیں اور دہشت گرد بھائی ، بیٹوں اور رشتہ داروں کو محفوظ پناہ گاہیں دیتے ہیں اور رائیونڈ کا مرکز انکا سہولت کار ہے تو پھر قرآن نے من حیث القوم لڑنے کیلئے افراد کے مقابلے میں افراد کے قتل کی اجازت دی ہے جن میں آزادمرد اور عورت اور غلام سب شامل ہیں۔ ایم کیوایم ، شیعہ، بریلوی اور سب کو ان کے خلاف منظم کرنے کا فیصلہ کرلیا لیکن بھائیوں نے اس کی مخالفت کی کہ بے گناہوں کا خون بہہ جائے گا۔
اگر اس وقت راست اقدامات اٹھائے جاتے تو دہشت گردوں کا خاتمہ محسود قوم نے اپنے مفاد اور نقصان سے بچنے کیلئے بھی کرنا تھا لیکن جب فوج نے آپریشن کرکے ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو بہت بے گناہ بھی مارے گئے اور ان کی عزتوں کی بھی تذلیل ہوگئی اورآج تک ان کا رونا نہیں جاتا ہے۔ جب آگ جلتی ہے تو خشک لکڑیوں کیساتھ گیلی بھی جل جاتی ہیں۔
شاری بلوچ اور عمران خان کے جذبات میں کیا فرق ہے اور دونوں ریاست کی غلامی سے جان چھڑانے کی بات کررہے ہیں ۔ عمران خان الفاظ کیساتھ کھیلتا ہے کہ میر جعفر اور میر صادق کون ہیں ؟۔ لیکن شاری بلوچ نے خود کش بمبار بن کر فیصلہ کیا کہ آزادی کی تحریک افغانستان کے طالبان کی طرح اس طرح سے چلائی جاسکتی ہے۔ جو فوجی اہلکار دل وجان سے عمران خان کی حمایت کررہے ہیں ،ان کیلئے شاری بلوچ شان و عظمت کی نشانی ہے۔ اگر جنرل حمیدگل کے بیٹے، بیٹیاں اور بیوی خود کش حملہ کرنے والوں میں شامل ہوتیں اور اسطرح ہمارے اشرافیہ کے تمام جرنیل، سیاستدان اور سول بیروکریسی اور علماء ومفتیان میں طالبان کے حامی اور انکی خواتین خود کش کی قربانیاں دیتیں تو جنگ بھی جلد جیت جاتے اور نقصان بھی نہیں اٹھانا پڑتا۔
بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے ایک عالم دین نے بتایا کہ جمعیت علماء اسلام مولانا فضل الرحمن میں شامل ہوگئے ہیں اور کسی کے حکم سے شامل ہوئے ہیں تو شاید مفتی محمد تقی عثمانی کو بھی دعوت ملی ہوگی کہ اب عمران خان کے خلاف جہاد کرنے کیلئے آپ بھی جمعیت علماء اسلام کا ساتھ دیں۔ شاید اسلئے اس نے مولانا مفتی محمود کی وفات کے بارے میں اپنا جھوٹا بیان بھی ریکارڈ کروادیا لیکن جب اسلام آباد میںجہاد کے عمل کی بات سامنے آئی ہوگی تو شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے کہا ہوگا کہ بھیا ! میں نے اپنے بدنمادانت اکھڑوا دئیے ہیں اسلئے مجھ پر قربانی نہیں ہوتی ہے، اسلئے پھر عید پرصلح صفائی کیلئے بیان بھی دیدیا۔
سلمان تاثیر کو ممتاز قادری سے قتل کروانے سے پہلے جنگ گروپ کے صحافی انصار الاسلام عباسی نے جسٹس خواجہ شریف کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی گھڑی تھی جس پر رؤف کلاسرا نے ایک کتاب ”وہ قتل جو ہو نہ سکا”لکھ دی تھی۔اب یہ سلسلہ چل رہاہے کہ نوازشریف نے ممتاز قادری کو پھانسی سے نہیں بچایا اور عمران خان نے آسیہ کو فرار کروایا۔ جنہوںنے سازش کے جال بن لئے تھے وہ خود اپنے دام میں پھنس رہے ہیںمگر وقت انکے انتظار میں ذلت کا ہار پہنانے کیلئے بے تاب کھڑا ہے ۔
جب1965ء میں لوگ ہندوستان کے ٹینکوں کے آگے اپنے جسم پربم باندھ کر لیٹ جاتے تھے تو وہ خود کش حملہ ہی ہوتا تھا۔ افغانستان میں نیٹو کے خلاف جہاد کیلئے خود کش کے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا۔ کرائے کے خود کش نے جہاد کو بدنام کردیا ہے لیکن شاری بلوچ کو کرائے پر استعمال کرنے کا بھی کوئی نہیں سوچ سکتا ہے۔ اس کے پیچھے ریاست بھی نہیں ہوسکتی ہے اور اس کو جنت کے حور وقصور کی لالچ بھی نہیں دی جاسکتی تھی۔ اس میں ظالم ومظلوم اور اپنی قوم اور وطن سے محبت کے سوا کچھ نہیں تھا لیکن اس راستے سے بلوچ قوم پرست کی قیمتی جانیں ضائع ہوں گی اور اس کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں پرامن زندگی کی خواہش رکھنے والوں کی مشکلات بھی بڑھ سکتی ہیں۔ قربانی کے پیچھے تالی بجانے سے بات نہیں بنتی بلکہ اپنی خواتین کو بھی اس مقصد کیلئے قربان کرنے کا فیصلہ کرنا ہوگا اور جب اپنے لئے اس کو پسند نہ کیا جائے تو دوسروں کو اس کی تبلیغ اخلاقی طور پر کوئی اچھی بات نہیں ہوسکتی ہے۔ شاری بلوچ کے شوہر کو شاری کے خاندان کے سامنے جانے سے بھی ہچکچاہٹ ہوگی۔ عورت نے قربانی دی ہو اور شوہر زندہ ہو تو یہ ایک عار کی بات ہے۔ البتہ شاری بلوچ نے اپنے دل ودماغ سے جو فیصلہ کیا وہ دوسروں کیلئے مشعل راہ بھی بن سکتا ہے، حسن وحسین دونوں جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں اور جنت میں کوئی بوڑھا ہوگا بھی نہیں اور حسن و حسین کے درمیان فرق اسلئے تھا کہ حسن کے مقابلے میں معاویہ اور حسین کے مقابلے میں یزید تھا۔ یزیدی کردار پر حسینیت کی قربانی بنتی ہے اور سب میں اتنا بڑا دل نہیں ہوتا۔
شاری بلوچ کی عقل وفکر اور فطرت وعمل سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن علماء ومفتیان، مذہبی وسیاسی طبقات اور تمام قوم پرستوں کیلئے اس کی قربانی سے مثبت نتائج نکالے جاسکتے ہیں اور اس کی قربانی سب کیلئے مشعل راہ بن سکتی ہے۔ جان کی اگر قربانی نہیں دے سکتے ہیں تو حق بات کیلئے زبان کی قربانی دیں اور حاجرہ یامین کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ظلم اور ظالم کے خلاف آواز اٹھانے کی قربانی دیں۔ مجھے لگتا ہے کہ پاکستان کی ریاست ، حکومت، علماء ومفتیان ، مذہبی طبقات اور عوام الناس اب اپنے مفادات کو چھوڑ کر قربانی دینے کی پوزیشن پر آگئے ہیں۔ کیونکہ اگر اب نہیں بدلے تو بہت برے حالات کا شکار ہوجائیں گے اور اس خوف کا تقاضا ہے کہ ہم سدھر جائیں۔
قیادت کی پیاس اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ عمران خان جیسے آزمودہ اور نالائق انسان پر بھی لوگ اعتماد کرکے کہتے ہیں کہ آزادی کیلئے ہر قربانی دینی ہے۔ جب پیاس لگتی ہے توآدمی کو سراب بھی پانی نظر آتا ہے۔ عمران خان کا سراب بھی متأثر کن بن گیا ہے۔ عمران خان گھڑی گھڑی اپنے بیانات بدلتا رہتا ہے۔ پہلے اس نے امپائر کی انگلی اٹھنے کی بات کہی تھی اور پھر کہا تھا کہ امپائر سے مراد میں نے اللہ لیا تھا۔ پھر جانور سے بھی مشکل لگنے پر کچھ اور مراد لیا اور میرجعفر اور میر صادق سے بھی کچھ اور مراد لیا۔ حضرت حسین نے کربلا کا راستہ چن لیا تھا تو پھر شہادت کی منزل تک کوئی بیان تبدیل نہیں کیا۔ پہلے سے یہ تجاویز رکھ دی تھیں کہ واپس جانے دیا جائے۔ سرحد پار جانے دیا جائے ۔ یزید سے براہِ راست بات کرنے دی جائے لیکن یزید کی بیعت پر آخری وقت تک راضی نہیں تھے۔
عمران خان ایا ک نعبد وایا ک نستعین سے پہلے اور بعد کی آیات کو بھی سمجھ کر تلاوت کرتا تو نرگسی اور خود پسندی کا شکار نہ ہوتا بلکہ تمام تعریفیں اللہ کیلئے قرار دیتا اپنے لئے نہیں اور رحمن و رحیم کی صفات سے مخالفین کیلئے بھی رحم دلی کاجذبہ رکھتا اور مالک یوم الدین کے بعد خود کو انقلاب کے دن کا بھی بادشاہ سمجھنے کی غلطی نہ کرتا۔ پھر اللہ سے صراط مستقیم کی ہدایت بھی مانگتا۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر اللہ نے انعام کیا ہے جن پر نہ غضب ہوا اور نہ گمراہ ہوئے۔ عمران خان کبھی طالبان بن جاتا تھا اور کبھی پاک پتن کے مزار کی راہداری کو چومتا تھااور کبھی مدینہ میں جوتے اتارنے کا ڈرامہ کرتا۔PDMکی بانی جماعتوں کی نالائقی سے عمران خان پروان چڑھ گیا اور عمران خان کی نالائقی نےPDMکی قیادت کو پھر زندہ کردیاہے حالانکہ ان کی فاتحہ بھی لوگ پڑھ چکے تھے اور اب پھر وہ زندگی کی طرف لوٹ گئے تو انکی وجہ سے عمران خان پھر زندہ ہوگیا۔
شاری بلوچ کی قربانی کو ہلکا نہ لیا جائے، مسنگ پرسن کے لواحقین اور ان کی خواتین نے خود کش دھماکے شروع کردئیے تو عمران خان اور نوازشریف کی باتوں سے ڈرنے والوں کیلئے زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے۔ باتوں کا جواب باتوں سے دیا جاسکتا ہے لیکن خود کش بمبار کا کوئی علاج معالجہ نہیں ہے۔
جب گوادر کے مولانا عنایت الرحمن کا بیان میری بلوچ گھر والی نے سنا تو اس نے شدید غصے کا اظہار کیا کہ اب اس کو دیکھو کہ اپنے معمولی مفاد کیلئے اس شاری بلوچ کی قربانی کا ذکر کررہاہے۔ مٹھی بھر بلوچ اپنی قوم اور اپنے وطن کی آزادی کیلئے اٹھے ہیں اور اب ان کو ناراض بلوچ کہنے کی بات بھی گالی لگتی ہے لیکن ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ان سے دل وجان سے محبت کریں۔ عمران خان کو بندر کی طرح کاندھے پر چڑھا کر اقتدار میں لایا گیا اور جب اپنی نالائقی سے اتر گیا تو ملک میں بدتمیزی کا طوفان برپا کرکے حقیقی آزادی کے نام پر بھونچال برپا کردیاہے۔ اگر غوث بخش بزنجو سے لیکر ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ تک کسی قوم پرست بلوچ کو پاکستان حوالے کیا جاتا تو مشرقی پاکستان کے بنگالی بھی ہم سے جدا نہ ہوتے۔ بلوچ دوسروں سے نفرت نہیں کرتے بلکہ غلامی قبول نہیں کرتے ہیں۔ جب نوازشریف نے جنرل کاکڑ کو آرمی چیف بنایا تو غلام اسحاق خان اور نوازشریف دونوں کو فارغ کردیا گیا۔ آج عمران خان اور شہبازشریف کی جگہ پر مرکز میں منظور پشتین، علی وزیر، محسن داوڑ ، اختر مینگل، سرفراز بگٹی ، شاہ زین بگٹی ، خالد مقبول صدیقی اور ڈاکٹر فاروق ستار سیاست کررہے ہوتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟