پوسٹ تلاش کریں

حقیقی جمہوری اسلام اور اسلامی جمہوری پاکستان کے نام سے تاریخ ، شخصیات ، پارٹیاںاور موجودہ سیاسی حالات :حقائق کے تناظرمیں

حقیقی جمہوری اسلام اور اسلامی جمہوری پاکستان کے نام سے تاریخ ، شخصیات ، پارٹیاںاور موجودہ سیاسی حالات :حقائق کے تناظرمیں اخبار: نوشتہ دیوار

حقیقی جمہوری اسلام اور اسلامی جمہوری پاکستان کے نام سے تاریخ ، شخصیات ، پارٹیاںاور موجودہ سیاسی حالات :حقائق کے تناظرمیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

عربی میں عبد غلام کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کوکسی دوسرے کی غلامی کیلئے پیدا نہیں کیا ہے بلکہ اپنی خلافت کیلئے پیدا کیا ہے۔ زمین میں انسانوں کی خلافت کیا ہے؟۔ بیوی بچوں ، جانور، پرندے اور درخت کھیتی وغیرہ کی پرورش کی ذمہ داری اُٹھاناروئے زمین میںاسلامی خلافت کا ایک چھوٹا ساآئینہ ہے۔ حضرت عمرفاروق اعظم نے فرمایا کہ ” اگر دریا کے کنارے ایک کتا بھی پیاس سے مرجائے تو اس گناہ کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے”۔ حضرت ابوبکر صدیق اکبر نے ایک چڑیا کو دیکھ کر فرمایا کہ ” یہ کتنی خوش قسمت ہے کہ جوابدہی کے غم سے آزاد ایک جگہ سے دوسری جگہ اُڑتی پھرتی ہے”۔ اپنے بال بچوں کی ذمہ داری اٹھانا کتنا مشکل ہے لیکن پورے ملک وقوم کی ذمہ داری اٹھانا پھر کتنا مشکل کام ہے؟۔
اگر موجودہ جمہوری سیاست میں اسلام کی روح ہوتی تو کیا اقتدار کے حصول کیلئے قائدین اس طرح اپنی الٹی سیدھی حرکتیں کرکے مررہے ہوتے؟۔ حضرت سعد بن عبادہ انصار کے سردارنے خلیفہ بننا چاہا تو حضرت ابوبکر و حضرت عمر نے بہت خطرناک رحجان کو دیکھ کرثقیفہ بنی سعدمیں یہ اقدام اٹھانے سے روک دیاتھا اورہنگامی بنیاد پر حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر حضرت عمر نے بیعت کرلی۔ جس کے بعد انصار و مہاجرین کی اکثریت بھی ان کی خلافت پر متفق ہوگئی۔ حضرت سعد بن عبادہ نے آخری عمر تک نہیں مانا اور حضرت علی وابن عباس اور اہل بیت کے افراد کو بھی اس اقدام پرایک عرصہ تک بہت سخت قسم کے تحفظات تھے۔
پھر حضرت عمر نامزدہوئے اور حضرت عثمان کا انتخاب چند برگزیدہ ہستیوں نے کثرت رائے سے کردیا۔حضرت عثمان کی شہادت کے بعد حضرت علیکا فیصلہ بھی ہنگامی صورتحال میں کیاگیا تھا۔ چاروں خلفاء راشدین کی نامزدگی جمہوری نظام کے تحت نہیں ہوئی تھی لیکن ان کے فیصلے مشاورت سے ہواکرتے تھے۔پھر اس کے بعد خلافت کا نظام خاندانی اقتدار میں بدل گیا۔ پھربنوامیہ کی حکومت جبر سے ختم کی گئی اور ان کے افراد کو عبرتناک انجام تک پہنچایا گیا۔ پھر بنوعباس کا بھی کافی عرصہ بعد حشر نشر کیا گیا اور پھرسلطنت عثمانیہ کا قیام عمل میں آیا اور پھر اس کا بھی خاتمہ 1924ء میں کردیا گیا۔ برطانیہ وامریکہ اور مغرب نے جمہوری نظام کا آغاز کیا جس میں خون خرابے کے بغیر انتقالِ اقتدار کو ممکن بنایا جاتا ہے۔
کیا جمہوری نظام غیراسلامی ہے؟۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: ” اہل غرب ہمیشہ حق پر قائم رہیں گے ، یہاں تک کہ قیامت آجائے”۔ (صحیح مسلم )
مغرب نے دنیا کو جس طرح کا جمہوری نظام دیا ،اگرجمہوری روح کے مطابق اسلامی دنیا میں اس پر عمل ہوجائے تو یہی اسلام کا تقاضہ ہے۔ جب دنیا میں پرامن انتقال اقتدار کا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا تو انقلابی جدوجہد میں بڑے پیمانے پر خونریزی ہوجاتی تھی۔ ایرانی بادشاہت خونریزی سے ختم ہوئی اور عرب و دیگر بادشاہتوں کو تصادم اور خونریزی سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں انتقال اقتدار کیلئے جمہوریت ہے اور ڈکٹیٹروں نے ریفرینڈم بھی کرائے ہیں۔ مکہ خونی تصادم کے بغیرفتح ہوا تھا اور اس سے پہلے صلح حدیبیہ کا زبردست معاہدہ ہوا تھا۔
خلافت راشدہ کے دور میں جمہوری نظام نہیں تھا لیکن جمہوریت کی روح موجود تھی ۔ حضرت عثمان اورحضرت علی کی شہادت کے بعدآخری خلیفۂ راشد امام حسن نے حضرت امیرمعاویہ کے حق میں دستبردار ی اختیار کرلی اور پھر امارت کا دور شروع ہوا۔ جس کے بعد جب تک خاندانوں کو نیست ونابود کرکے نہیں رکھ دیا جاتا تھا اس وقت تک خاندانی بادشاہتوں کا سلسلہ جاری رکھا جاتا تھا۔
آج پاکستان میں جمہوریت ہے مگر جماعتوں میں جمہوریت کی روح نہیں ہے۔ ڈکٹیٹروں کی پیداوار قیادتوں سے جمہوری مزاج اور جمہوری نظام کی توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے؟۔ خاندانوں اور خانوادوں کی سیاست ہے اور اس سے بدتر حالت قائدین اور قیادتوں کی ہے۔پاکستان بننے کے بعد قائداعظم گورنر جنرل بن گئے اور قائدملت وزیراعظم بن گئے اور اپنی بیگم راعنا لیاقت علی خان کو اعزازی فوجی جرنیل کا عہدہ دے دیا۔ پھر کون کون اور کس طرح وزیراعظم بن گیا؟۔ اس کی ایک بہت بھیانک اور مخدوش تاریخ ہے۔ سول و ملٹری بیوروکریسی کا اقتدار پر قبضہ تھا۔ آخر کار جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد جمہوریت کی بنیاد رکھ دی۔ عوام پہلے انگریز کے جس نظام اور جن لوگوں کی غلام تھی تو انگریز سرکار کے تشریف لے جانے کے بعد اس کی باقیات کا قبضہ جوں کا توں تھا۔
جنرل ایوب خان کے مقابلے میں مادرملت فاطمہ جناح نے الیکشن لڑا تھا تو مشرقی ومغربی پاکستان کی زیادہ تر سیاسی و قومی جماعتوں نے فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا لیکن اس کو دھاندلی سے شکست دے دی گئی تھی۔ جنرل ایوب خان کی کوکھ سے قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو نے جنم لیا تھا۔ پھر جب جنرل یحییٰ خان نے الیکشن کرایا تو مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن کی پارٹی نے اکثریت حاصل کرلی لیکن بھٹو نے جرنیلوں کیساتھ مل کر مجیب الرحمن کو جمہوری بنیاد پر قتدارسپرد نہیں کیا جس کی وجہ سے سقوطِ ڈھاکہ اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بننے کا سانحہ پیش آیا تھا۔ پھر بھٹو نے پاکستان میں سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا منصب سنبھال لیا ۔ بنگلہ دیش میں پاک فوج سے ہتھیار ڈالوانے سے پہلے اقوام متحدہ کی فوج بھی تعینات ہوسکتی تھی لیکن بھٹو نے پاک فوج کو ذلیل کرکے اقتدار پر اکیلا مسلط ہونے کیلئے اقوام متحدہ کی اسمبلی میںاس قراردادکے کاغذ پھاڑ دئیے تھے۔ جس کی وجہ سے اقوام متحدہ کی جگہ بھارت نے بنگلہ دیش پر قبضہ کرکے پاک فوج اور سول بیوروکریسی کے 93ہزار قیدی بنالئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تمام پارٹیوں کی مدد سے ایک اسلامی جمہوری آئین تشکیل دیا تھا لیکن اس کوخود معطل کرکے بھی رکھ دیا تھا۔ لاڑکانہ سے کوئی جرأت نہیں کرسکتا تھا کہ بھٹو کے مقابلے میںاپنے کاغذات بھی کوئی داخل کراتا۔ جماعت اسلامی کے جان محمد عباسی نے انتخابی دنگل میں لاڑکانہ سے حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو اس کو بھٹو نے کمشنر خالد کھرل کے ذریعے اغواء کیا تھا۔ یہ وہ خالد کھرل تھا جس کے دادا نے برصغیر پاک وہند کے سب سے بڑے انگریز مخالف انقلابی قائد احمد خان کھرل کی مخبری کرکے نقدی اور سرکاری اراضی کا انعام کمایا تھا۔
بھٹو نے پنجاب وسندھ کو قابو کیا ۔ پہلے پنجاب اور ہندوستان کے مہاجروں کا عوام پر راج ہوتا تھا۔ بھٹو نے ہندوستانی مہاجروں کی سول بیوروکریسی کی ایک بڑی تعداد کو جبری ریٹائرڈ کرکے سندھ اور پنجاب کے اقتدار کی بنیاد رکھ دی تھی۔ دوسری طرف اپوزیشن نے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے صوبوں میں اپنااقتدار حاصل کیا تھا۔ بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام نے زیادہ بڑی اکثریت حاصل کرلی تھی اور خیبرپختونخواہ میں نیشنل عوامی پارٹی نے اکثریت حاصل کی تھی۔ جس میں خان عبدالولی خان، محمود اچکزئی کے والد عبدالصمد خان اچکزئی ، بلوچ قیادت نواب خیربخش مری، سردارعطاء اللہ مینگل، غوث بخش بزنجوتمام قوم پرست تھے۔ لیکن قوم پرستوں نے جمہوریت کے سر کے بال اور جمعیت علماء اسلام نے اسلام کی داڑھی مونڈھ دی تھی اسلئے کہ جہاں بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام کو اسلام کے نام پر عوام نے بھاری اکثریت سے جتوایا تھا وہاں اقلیت والے سردار عطاء اللہ مینگل کو وزیرااعلیٰ بنادیا گیا تھا اور جہاں سرحد(خیبرپختونخواہ )میں نیشنل عوامی پارٹی کو قوم پرستی کے نام پر بھاری اکثریت سے جتوایا تھا وہاں اقلیت والے مولانا مفتی محمود کو وزیراعلیٰ بنادیا گیا تھا۔جس سے اسلام اور جمہوریت دونوں کی بیخ کنی کی گئی تھی۔اگر وزیراعلیٰ بلوچستان جمعیت علماء اسلام سے بنادیا جاتا تو بلوچستان ہمیشہ کیلئے اسلام اور جمعیت علماء کا قلعہ بن جاتالیکن جعل سازی اور سودابازی کے ذریعے بلوچ قوم پرست سردارعطاء اللہ مینگل کو بنایا گیا تو آج تک بلوچستان کی سیاست ، حکومت اور بلوچ عوام اس کے مضراثرات کے متأثرین ہیں۔ اگر وزیر اعلیٰ سرحد(خیبر پختونخواہ) اس وقت مفتی محمود کی جگہ کسی قوم پرست کو بنادیا جاتا تو خیبر پختونخواہ سازشی علماء اور دہشت گردوں کی جگہ قوم پرستوں کا مرکز بن جاتا۔
پنجاب مسلم لیگ بلکہ موسم لیگ اور سندھ پیپلزپارٹی کا قلعہ ہوسکتا ہے تو پھر بلوچستان اسلام اور جمعیت علماء اسلام اور خیبر پختونخواہ قوم پرستوں کا مرکز کیوں نہیں بن سکتا تھا؟۔ بلوچستان اور خیبرپختونخواہ اپوزیشن کی سیاست کا مرکز تھے ۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان کی نام نہاد جھوٹی جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ دیا تو قوم پرستوں کے سہارے کھڑے وزیراعلیٰ مفتی محمود کو بھی استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ پھر بھٹو کے مقابلے میں قومی اتحاد کے نو ستاروں کی تحریک چلی تھی جس میں جعلی قوم پرست اورجعلی اسلام پرست شامل تھے اور اس کوتحریکِ نظام مصطفی کا نام دیا گیاتھا۔ مولانا غلام غوث ہزاروی پہلے جمعیت علماء اسلام کے قائد کی حیثیت سے ایک مودودی سو یہودی کے نعرے لگواتے تھے لیکن پھر اس کی توپوں کا رُخ مفتی محمود کی طرف ہوگیا تھااور ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ دے رہے تھے۔بعض علماء اس 9قومی ستاروں کے اتحادکو ان 9افراد کا ٹولہ قرار دے رہے تھے جن کا قرآن میں ذکر ہے کہ وہ زمین میں فساد پھیلارہے تھے۔
پھر جب اس قومی تحریک کے نتیجے میں مارشل لاء لگا تو کچھ عرصے تک جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دیا گیا لیکن پھر جماعت اسلامی مارشل لائی بن گئی اور کچھ دیگر جماعتوں نےMRDکے نام سے بحالی جمہوریت کی تحریک چلائی ۔ جمعیت علماء اسلام کا فضل الرحمن گروپ اسکا حصہ بن گیا اور درخواستی گروپ مخالف بن گیا۔ مولانا فضل الرحمن نے مولانا غلام غوث ہزاروی کی قبر پر اپنے باپ کے رویے پر معافی مانگی تھی کہ بھٹو کیخلاف جماعت اسلامی کیساتھ ہم غلط استعمال ہوگئے تھے۔ پھر جب جنرل ضیاء الحق حادثے کا شکار ہوگئے تو MRD میں شامل جماعتوں نے1988ء کے الیکشن میں فیصلہ کیا کہ قائدین کو اسمبلی تک پہنچانے کیلئے کسی کو بھی کھڑا نہیں کریں گے۔ مولانا فضل الرحمن ، ولی خان وغیرہ کوسب نے مل کر جتوایا تھا لیکن بینظیر بھٹو کیخلاف ڈاکٹر خالد محمود سومرونے جمہوری معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے الیکشن لڑا تھا،جس سے مولانا فضل الرحمن کی ناک کٹ گئی تھی۔ ڈاکٹر خالد سومرو ایک طرف جے یوآئی کا نمائندہ تھا تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کی اشیرباد پر پیپلزپارٹی کیخلاف قوم پرستوں کا مہرہ تھا۔ مفتی محمود اور ولی خان بھائی بھائی تھے تو ڈاکٹر خالد سومرو اور سندھی قوم پرست بھائی بھائی کیوں نہیں بن سکتے تھے؟۔پھر بینظیر کیخلاف تحریک عدم اعتماد آئی تو مسلم لیگ سے وزیراعظم عمران خان کے موجودہ سسر کے باپ غلام محمد مانیکا وغیر ہ بک گئے تھے۔ پھر اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے نیشنل پیپلزپارٹی ، جماعت اسلامی، مسلم لیگ اور جمعیت علماء اسلام درخواستی گروپ وسپاہ صحابہ وغیرہ نے حصہ لیا اور جب اگلی باری پھر پیپلزپارٹی کی آئی تو مولانا فضل الرحمن بھی حکومت کا حصہ بن گئے تھے۔
PDMمیں پیپلزپارٹی اور جمعیت علماء اسلام ساتھ تھے تو بھی گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں مریم نواز سمیت PDMکے تمام قائدین نے شرکت کی تھی لیکن مولانا فضل الرحمن نے علامہ راشد محمود سومرو کی وجہ سے اس میں شرکت نہیں کی تھی۔ ایک طرف جمعیت کے سومرو برادران لاڑکانہ میں تحریک انصاف کے اتحادی تھے تو دوسری طرف عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان میں باپ کی اتحادی تھی۔ پیپلزپارٹی کی چاہت تھی کہ شہبازشریف کو وزیراعظم اور پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنایا جائے لیکن ن لیگ نے اس سے راہِ فرار اختیار کرنے کیلئے اسمبلیوں سے استعفیٰ اوراسلام آباد لانگ مارچ کے بعد دھرنا دینے کا بہانہ بناکرپیپلزپارٹی اور اے این پی کو PDMسے آوٹ کردیا تھا۔
پھر جمعیت علماء اسلام اور ن لیگ نے اسلام آباد لانگ مارچ اور دھرنے کی ایک لمبی مدت کے بعد23مارچ کی تاریخ دیدی۔ جس میں PDM نے لانگ مارچ کیساتھ دھرنا بھی دینا تھا اور اسمبلیوں سے استعفے بھی دینے تھے۔ جب مارچ آگیا تو پھرPDMنے اپنے وعدوں سے مکر جانے کیلئے جھوٹا شوشہ چھوڑ دیا کہ تحریک عدم اعتماد کیلئے ہمارے نمبر پورے ہیں۔پیپلزپارٹی سے بھی رابطہ کرلیااور چوہدری برادران سے بھی رابطے کرلئے لیکن اصل مقصد لانگ مارچ، اسلام آباد دھرنے اور استعفیٰ دینے کے وعدوں سے توجہ ہٹانی تھی۔ مسلم لیگ ن نے میڈیا ٹیم کے ذریعے سے یہ افواہیں چھوڑ دیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو 3طلاق دیدئیے ہیں اور ن لیگ سے درپردہ حلالہ بھی ہوگیا ہے اسلئے مریم نواز خاموشی سے اپنی حکومت آنے کا انتظار کررہی ہیں۔دوسری طرف تحریک عدم اعتماد سے گھبرا کر عمران خان نے اول فول بکنا شروع کردیا۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹنے کی بات پر حسن نثار جیسے صحافیوں نے کہا کہ فوج بالکل غیرجا نبدار نہ رہے، ہماری جمہوریت اس کی متحمل نہیں یہاں خریدوفروخت کی چھانگا مانگا میں منڈیاں لگتی ہیں۔ وزیراعظم عمران نے کہا کہ ”غیر جانبدار تو جانور ہوتا ہے”۔ پہلے کہاتھا کہ ایمپائر کی انگلی اٹھے گی ، پھر کہا کہ ایمپائر سے مراد اللہ تھا۔ اب کہہ سکتے ہیں کہ ”غیر جانبدار جانور سے آرمی چیف نہیں ڈائنوسار مراد تھا”۔
قائداعظم گورنر جنرل تو آرمی چیف انگریز ، وزیرقانون ہندو اوروزیر خارجہ قادیانی اور پاکستان کا آئین اسلامی اور جمہوری نہیں تھا۔ پھر جنرل ایوبی کوکھ سے ذوالفقار علی بھٹو قائدعوام اور محمد خان جونیجو قائدِ جمہوریت کہلایا ۔ جنرل ضیاء الحق کی کوکھ سے جنم لینے والا نوازشریف جمہوری قائد بن گیا ۔عمران خان کو ٹی وی کے اسکرین پر مرغا بن کر اعلان کرنا چاہیے کہ اپنے بچوں کی ماں جمائما خان کو چھوڑ کر پرائے بچوں کی ماں بشریٰ بی بی کو اپنی بیگم بنایااور یہ جائز تھا لیکن اپنے ٹائیگروں کو چھوڑ کر دوسرے کے بھگوڑوں کو ٹکٹ دینا بہت بڑی غلطی تھی۔ معافی مانگتا ہوں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

بیداری کسی عنوان کے بغیر اور شیطان پر ایک حملہ
مشرق سے دجال نکلے گا جس کے مقابلے میں امام حسن علیہ السلام کی اولاد سے سید گیلانی ہوگا! علامہ طالب جوہری
حقیقی جمہوری اسلام اور اسلامی جمہوری پاکستان کے نام سے تاریخ ، شخصیات ، پارٹیاںاور موجودہ سیاسی حالات :حقائق کے تناظرمیں