حکومت کاالیکشن سے فرار اور آئین کو سبوتاژکرنا افسوسناک مگر خلافت کی طرف پیش قدمی کا پیش خیمہ ہے - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

حکومت کاالیکشن سے فرار اور آئین کو سبوتاژکرنا افسوسناک مگر خلافت کی طرف پیش قدمی کا پیش خیمہ ہے

حکومت کاالیکشن سے فرار اور آئین کو سبوتاژکرنا افسوسناک مگر خلافت کی طرف پیش قدمی کا پیش خیمہ ہے اخبار: نوشتہ دیوار

حکومت کاالیکشن سے فرار اور آئین کو سبوتاژکرنا افسوسناک مگر خلافت کی طرف پیش قدمی کا پیش خیمہ ہے

پاکستان شاہین کی طرح اب اپنے پَر، ناخن اور چونچ توڑ کرایک نئی زندگی کا آغاز کر رہاہے؟

1973کی50سالہ گولڈن جوبلی کے موقع پر پارلیمنٹ کی طرف سے بھی آئین شکنی کی قرارداد منظور ہوئی ہے جو آئین کے مطابق90دن میں الیکشن سے فرارکا راستہ ہے

کبھی جنرل ضیاء الحق نے آئین کو ایک کتاب قرار دیکر جوتے کی نوک پر رکھا اور کبھی عدالت نے3سال تک جنرل پرویز مشرف کو قانون سازی کی اجازت دی،اب پارلیمنٹ نے…

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ”مجھے کب سے اتنا سادہ سمجھ لیا ہے کہ میں مسلم لیگ ن سے اسلامی دفعات کے نفاذ کی توقع رکھوں؟۔ یہ تو عوام کا قصور ہے کہ ہمارے چندافراد اسمبلی بھیجتے ہیں”

اب سورج مکھی کے پھول شعاعوں سے ڈر گئے
اہل کشتی ناخداؤں کے طوفانوں سے مر گئے
پاکستان میں عوام الناس اور باشعور طبقات کو یہ شکایت بجا رہتی تھی کہ جب سے پاکستان آزاد ہوا ہے ، پہلے اس کی لگام انگریز کی باقیات سول بیروکریسی اور ان کے نامزد گورنر جنرل اور وزیراعظم کے ہاتھوں میں تھی پھر سول اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹروں کے ہاتھوں یہ ملک دو لخت ہوا۔ معجزے میںچاند دو ٹکڑے ہونے کے بعدجڑ گیا مگر پاکستان پھر نہیں جڑ سکا۔1947کے25سال بعد سرزمین بے آئین کو1973میں متفقہ آئین مل گیا، جو دس سال میں اسلامی سانچے میں ڈھل جانا تھا۔1974میں پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیا،پھر الیکشن میں دھاندلی ہوئی اور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک نظام مصطفیۖ چلی۔ پھر11سال تک مارشل لاء نے ڈیرے ڈال دئیے۔ جس کے خلافMRDتحریک بحالی جمہوریت چلی ۔دوسری طرف جنرل ضیاء کی تخلیق کردہ مسلم لیگ جونیجو سندھی اور نوازشریف پنجابی اور جماعت اسلامی نے غیر جماعتی جمہوریت اور اسلام کے نام پر ریفرینڈم کو فتوؤں سے سپورٹ کیا۔
جنرل ضیاء الحق نے جونیجو لیگ کی حکومت کو ختم کردیا تو نوازشریف نے پھر جونیجو سے بے وفائی کردی۔MRDکے اتحاد سے پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی۔ اسلامی جمہوری اتحاد نیشنل پیپلزپارٹی کے صدر غلام مصطفی جتوئی تھے۔سینئر نائب صدر مولانا سمیع الحق تھے۔ جتوئی کی ناکامی پر نوازشریف کو سمیع الحق نے سائیکل تھما دی۔ عدالت نے سود کے خاتمے کا فیصلہ دیا تو نوازشریف نے اپیل کردی۔ مولانا سمیع الحق کے خلاف میڈم طاہرہ کا اسکینڈل بنادیا۔ نوازشریف کاافیئر طاہرہ سید سے تھا۔ میڈیا نے رنگیلا وزیراعظم کتاب سے کچھ بھی عوام کو نہیں بتایا۔ بینظیر بھٹو کی ننگی تصویریں جہاز سے گرانے والے شریفوں سے قدرت کیا انتقام لیتی ہے؟۔ کیپٹن صفدر نے کہاکہ ”چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں”۔ مشرف کو عدلیہ نے تین سال تک قانون سازی کی اجازت دی اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو آئین کی پاسداری پر سزا دی جارہی ہے؟۔ قدرت نے سب کا چہرہ دکھایا۔ریاست خلافت کا اعلان کردے اسلئے کہ الیکشن سے جمہوریت کے اپنے پاسدار بھاگ رہے ہیں۔اسلام کا چہرہ جس دن میڈیا پر دکھادیا تو پاکستان میں اسلام کو ووٹ ملے گااور ملک سے مشکلات ختم ہوں گی۔
مولانا فضل الرحمن سے صحافی نے پوچھ لیا کہ ”مسلم لیگ ن نے آپ سے اسلامی دفعات کو نافذ کرنے کا وعدہ پورا کیا؟”۔ جس کے جواب میں مولانا نے فرمایا کہ ” مجھے آپ نے کب سے اتنا سادہ سمجھ لیا ہے کہ میں مسلم لیگ ن سے یہ توقع رکھوں کہ وہ اپنے وعدوں کی پاسداری کرے گی؟۔1973کے آئین میں یہ شامل ہے کہ قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی ہوگی ۔عوام جب تک ہمیں بڑی تعداد میں اسمبلی میں نہیں بھیجے گی تو اسلامی نظام کا نفاذ نہیں ہوسکے گا۔ چندافراد سے اسمبلی میں اسلامی قانون سازی کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔ جب عوام ہمیں بڑی تعداد میں اسمبلی میں بھیج دیں گے اور ہمارے اپنے ہاتھ میں اقتدارآجائے گا تو پھر اسلام کا نفاذ ہوسکے گا”۔
ایک طرف تحریک انصاف کے زمان پارک میں کارکنوں پر الزامات لگتے ہیں کہ رنگ رلیاں منائی جاتی ہیں اور دوسری طرف عمران خان پر بیٹی چھپانے اور عدت میں نکاح کے کیس عدالتوں میں چل رہے ہیں۔تیسری طرف سوشل میڈیا پر ننگ دھڑنگ ویڈیوز کی بھرمار چل رہی ہے اور چوتھی طرف مریم نواز کا حمزہ شہباز سے سینہ سے سینہ ملاکر معانقہ کا چرچا ہے۔ پس دیوار کیا کیا چل رہاہے؟۔ لیکن نوشتۂ دیوار علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر کیلئے کوشاں ہے۔
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہوجائے گی
آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
بزم گل کی ہم نفس باد صبا ہوجائے گی
شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز وساز
اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہوجائے گی
دیکھ لوگے سطوت رفتار دریا کا مآل
موج مضطر ہی اسے زنجیر پا ہوجائے گی
پھر دلوں کو یاد آجائے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہوجائے گی
نالۂ صیاد سے ہوں گے نوا ساماں طیور
خونِ گلچیں سے کلی رنگیں قبا ہوجائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے
مولانا فضل الرحمن خود بھی اسلام کی حقیقت سے آشنا نہیں ہیں۔افغانستان میں ملا عمر نے جب امارت اسلامی قائم کردی تو لوگوں کو زبردستی سے داڑھی بھی رکھوانا شروع کردی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ وہ بالکل ٹھیک کررہے ہیں۔ جب پختونخواہ میں بھاری اکثریت سے علماء کرام و مفتیان عظام، شیخ الحدیث و شیخ القرآن ، مدارس کے اساتذہ اور مساجد کے ائمہ اسمبلی میں پہنچے تو اکرم خان درانی کو چھوٹی داڑھی رکھواکر وزیراعلیٰ بنادیا اسلئے کہ جماعت اسلامی کو اس وقت داڑھی منڈا قابلِ قبول نہیں تھا۔ حالانکہ مولانا سیدا بوالاعلیٰ مودودی بھی پہلے خود ڈاڑھی منڈے تھے، پھر چھوٹی داڑھی رکھ لی اور پھر علماء کے مطالبے اور اصرار پر ریش دراز رکھ لی لیکن جماعت اسلامی نے کبھی عالم دین کو اپنا امیر نہیں بنایا ہے۔
اگر مدارس اور مساجد کے علماء ومفتیان ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوجائیں تو پاکستان میں اس سے زیادہ مضبوط مذہبی اور سیاسی پارٹی نہیں ہوگی۔ عوام سب سے زیادہ ووٹ بھی اسی پارٹی کو دیںگے۔ پاکستان میں حنفی مسلک کے بریلوی اور دیوبندی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ حنفی مسلک کا کمال یہ ہے کہ قرآن کے مقابلے میں احادیث صحیحہ کو بھی اپنی تعلیمات کے ذریعے بالکل رد کردیتا ہے۔ قرآن و سنت کے ذریعے اللہ نے یہی تربیت صحابہ کرام اور خلفاء راشدینکے دلوں میں بھی اتاری تھی۔ حدیث قرطاس اور فضائل اہل بیت کی احادیث صحیحہ کے مقابلے میںقرآنی آیات وشاورھم فی الامراور وامرھم شوریٰ بینھم ”اور ان سے خاص امر میں مشورہ کریں۔ اور ان کا امر آپس کے مشورے سے طے ہوتا ہے” پر خلفاء راشدین نے عمل کر کے خلافت راشدہ قائم کی تھی۔
رسول اللہ ۖ نے حدیث قرطاس کے ذریعے قرآن کے مقابلے میں کوئی اپنی منشاء مسلط نہیں کی تھی۔ نبی ۖ نے بدری قیدیوں کا فیصلہ صحابہ کے مشورے سے کیا تھا۔ حضرت عمر اور حضرت سعد کی رائے تھی کہ ”جو جس کا قریبی رشتہ دار ہے ،وہ اس کو اپنے ہاتھ سے قتل کردے”۔ نبیۖ کے جانثار صحابہ نے مشورہ دیا کہ ” یہ اپنے لوگ ہیں۔ فدیہ لیکر چھوڑ دیا جائے۔ کل یہ مسلمان بھی ہوسکتے ہیں۔ اگر دوبارہ مقابلہ میں آئے تو اُن کو نمٹ سکتے ہیں”۔ حضرت ابوبکر، حضرت عثمان اور حضرت علی و دیگر صحابہ کرام کی رائے یہی تھی۔جس کی نمائندگی حضرت ابوبکر نے کی تھی۔ نبی اکرم ۖ نے فرمایا کہ ” عمر کی رائے کافروں کیلئے حضرت نوح کی دعا ہے کہ کوئی کافر دنیا میں عذاب سے نہ بچے اور ابوبکر کی رائے ابراہیم کی دعا سے ملتی ہے جس میں اللہ سے رحم کی اپیل تھی، مجھے حضرت ابراہیم کی دعا بہتر لگتی ہے اسلئے حضرت ابوبکر کی رائے پر فیصلہ کردیتاہوں۔
اللہ نے فرمایا: وماکان للنبی ان یکون لہ اسرٰی حتی یثخن فی الارض تریدون عرض الدنیا واللہ یرید الآخرة ….
ترجمہ :” اور نبی کیلئے مناسب نہ تھا کہ آپ کے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ زمین میں خوب خون بہادیتے ۔ تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے”۔
اللہ نے یہ بھی واضح فرمایا کہ ” اگر اللہ پہلے سے نہ لکھ چکا ہوتا تو تمہیں بہت سخت عذاب دیتا”۔ نبیۖ نے فرمایا کہ وہ عذاب اللہ نے مجھے دکھا دیا اور اس سے عمر وسعد کے علاوہ آج کوئی نہ بچتا۔ صحابہ کرام کے بارے میں ہمیں حسن ظن رکھنا چاہیے اسلئے کہ عام مؤمنین سے بھی حسنِ ظن رکھنے کا حکم ہے۔ علی، عثماناور ابوبکر پر کیسے یہ بدگمانی کی جاسکتی ہے کہ اکابر صحابہ دنیا کے طلبگارتھے؟ ، لیکن اللہ نے قرآن میں جو فرمایا ہے وہ بھی فرشتوں سے نہیں صحابہ کے بارے میں فرمایا۔ نبی ۖ نے پھر حضرت عمر وسعد کے علاوہ باقی صحابہ کرام کے بارے میں قرآن کی تفسیر بھی کردی۔ اگر یہاں علی وعمار کے بارے میں استثناء ہوتا تو اہل تشیع پھر ان قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کو خوب اُچھالتے مگریہاں سانپ سونگھتا ہے۔
بدری قیدیوں میں نبی ۖ کے چچا عباس اور داماد بھی تھے اسلئے صحابہ نے اپنے رشتہ داروں کا نہیں مگر نبی ۖ کے رشتہ داروں کا لحاظ رکھ کر مشورہ دیا تھا کہ ان سے فدیہ لیکر درگزر کیا جائے، اللہ نے اس کو بھی دنیا کی چاہت قرار دیا اور نبی کے فیصلے کو بھی واضح الفاظ میں نامناسب قرار دیدیا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز بھی نہیں ہے کہ آیات اور احادیث صحیحہ کا سہارا لیکر گستاخانہ لہجوں سے فرقہ پرستی کا بازار گرم کرکے تعصبات کی ہواؤں سے مخالفین کے دلوں کو ٹھیس پہنچائی جائے۔
اہل سنت والجماعت قرآن وسنت اور عظمت صحابہ کرام کے قائل ہیںلیکن جس قرآن میں اللہ نے سورۂ مجادلہ اور سورۂ احزاب کے ذریعے رہنمائی کی ہے اس میں نبی ۖ کی تضحیک وتوہین مقصد نہیں ہے کہ عورت نے جھگڑا کیا تھا اور اسی کے حق میں فیصلہ آیا تھا اور اللہ نے نبی ۖ سے فرمایا: وتخشی الناس و اللہ احق ان تخشٰہ ”آپ لوگوں سے ڈرتے ہیں اور اللہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈریں” (سورۂ الاحزاب ) ۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ ” اگر اللہ کے نبی ۖ قرآن کی کسی آیت کو چھپاتے تو یہ آیت چھپاتے” (صحیح بخاری )۔
یہ قرآن امت مسلمہ کیلئے رہنمائی کا سبب ہے کہ اسلام میں ڈکٹیٹر شپ کا کوئی تصور نہیں ہے ۔ اللہ نے قرآن میں سچ فرمایا ہے کہ ” انسان کو کمزور پیدا کیا گیا ہے”۔ تکبر وغرور شیطان کا وظیفہ ہے اور جو لوگ اپنی پارسائی بیان کرتے ہیں تو اللہ نے قرآن میں واضح تنبیہ کردی کہ فلا تزکوا انفسکم ” پس اپنی پارسائی بیان مت کرو”۔ جب قرآن وسنت کی سمجھ آجائے گی تو ایک دوسرے کی عزتیں اچھالنے اور اپنی پارسائی بیان کرنے کے بجائے اللہ اور خلق خدا سے اپنے گناہوں اور حق تلفیوں کی معافی تلافی میں لگ جائیں گے۔ اقتدار کی خاطر لڑنے کے بجائے ”پہلے آپ پہلے آپ” کی دل وجان سے پیشکش کریں گے۔
جب آصف علی زرداری نے بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اقتدار حاصل کیا تو نوازشریف کو پیشکش کردی کہ ” پہلے آپ” ۔ زرداری نے پنجاب کی حکومت ق لیگ اور پرویز الٰہی کی پیشکش کو مسترد کردیا اور شہباز شریف کو پنجاب کا اقتدار سپرد کردیا۔ شہباز شریف اور نوازشریف نے پھر بھی ق لیگ کا فارورڈ بلاک بنایا اور سید یوسف رضا گیلانی کو عدالت سے نااہل قرار دینے میں اپنا کردار ادا کیا۔ حالانکہ یوسف رضاگیلانی کا کہنا تھا کہ ” آئین میں صدر کو استثناء حاصل ہے اور میں نے آئین کا حلف اٹھایا ہے تو کس طرح خلاف ورزی کرسکتا ہوں”۔ لیکن عین غین کی طرح عدلیہ کے ترازو میں فرق رکھنے والے چوہدری افتخار نے اس کو نااہل قرار دیدیا اور شریف برادران نے اس بھنگڑے ڈال کر ناچنا شروع کیا۔
شہباز شریف نے زرداری کو چور، ڈاکو اور دنیا بھر کی گالیوں سے نوازنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سڑکوں پر گھسیٹنے اور چوکوں پر لٹکانے کی حلف برداریاں عوامی جلسوں اور میڈیا میں روز کا معمول تھیں۔ ایک دن زرداری نے کہہ دیا کہ نوازشریف کی کھوپڑی میں ایک سیاستدان نہیں لوہار کا دماغ ہے تو مسلم لیگیوں کی چیخیں نکل گئیں کہ ”ہم اس حد تک نہیں گرسکتے جس حد تک زرداری گرگیا”۔
نوازشریف اور شہباز شریف کے دل گوشت نہیں زنگ آلود لوہے سے بنے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر بھی دل ٹھنڈا نہیں ہوا تھا اور انگریز وںکے کتے نہلانے کے الزامات لگاتے تھے۔ بینظیر بھٹو نے انکشاف کیا تھا کہ نوازشریف نے اپنے نئے گھر رائیونڈ میں ایک میٹنگ کی ہے کہ ”20سال تک ملک کی سیاسی اور معاشی قوت کوسوہارتو کی طرح اپنے پاس رکھنا ہے”۔ سوہارتو کے خاندان نے اپنے ملک کو کس طرح سے لوٹ کر اپنے خاندان کو نوازاتھا۔ اس نے جنرل ضیاء الحق کی طرح11سال تک قبضہ کرنے کی بات نہیں کی۔ اس نے کہا کہ ہمارے راستے میں پانچ رکاوٹیں آسکتی ہیں ، ان کو پہلے دور کرنا ہے۔
نمبر1:اپوزیشن پیپلزپارٹی کو ختم کرنا ہے جو مقصد کے حصول میں رکاوٹ ہے۔
نمبر2:ہمیں خطرہ صدر سے ہوسکتا ہے اسلئے کہ اس دور میں آٹھویں ترمیم تھی۔
نمبر3:فوج کو راستے سے ہٹانا ہے،اسلئے کہ اس کا مختلف دور میں کرداررہا ہے۔
نمبر4:عدلیہ کو راستے سے ہٹاناہے اسلئے کہ یہ راستے میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔
نمبر5:پریس ۔انہوں یہ پانچ نکاتی ایجنڈہ بنایا تاکہ قائداعظم کاخواب دفن ہو۔
یہ اللہ کا فضل ہے کہ ہم نوازشریف کے سامنے کھڑے ہیں۔ اس نے مجھ پر اور میرے خاندان پر کتنے کیس بنائے۔ الیکشن کمیشن سے کہا کہ صرف وہی کیس قبول کرنا ہے جو سیف الرحمن نے پیش کیا ہو۔ مجھ پر اور میری ماں پر، زارداری صاحب پر، اس کے باپ پر ، اس کی بہن پر ، اس کے برادر ان لاء پر، ہمارے تمام سیکرٹریوں پر، چوکیداروں پر سب پر اس نے کیس بنائے ہیں”۔
پھر جب بینظیر اقتدار میں آئی تو اس کی حکومت کا خاتمہ کرنے کیلئے فاروق خان لغاری کو بھی استعمال کیا۔ اس کے بھائی مرتضیٰ بھٹو اور اس کے ساتھیوں کی شہادت کا بھی کوئی لحاظ نہیں کیا۔ اس کی حکومت ختم کرکے آصف زرداری کو جیل میں ڈال دیا۔ اس کے خاندانی اختلاف کو دشمنی میں تبدیل کیا۔ زرداری پر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے علاوہ بینظیر بھٹو کے قتل کا الزام بھی لگا ہے۔ مرتضی بھٹو کا بیٹا بھی بلاول بھٹو سے زیادہ اہلیت رکھتا ہے لیکن زرداریوں نے وراثت پر قبضہ کرلیا ہے اور اصل بھٹو ذوالفقار علی جونیئر کی جگہ بلاول زرداری نے لے لی ہے۔
قرآن نے یہ سبق دیا ہے کہ اقلیت اور اکثریت سے بلاخوف وخطر حق کیلئے آواز اٹھانی ہے۔ اگر صحابہ کرام نے نبی ۖ کی قرابتداری کا لحاظ کیا تو بھی ان کی سرزنش ہوئی تھی۔ دوسری طرف اللہ نے اپنی حکمت بالغہ سے مشرکین مکہ کے دلوں میں یہ رعب بٹھانا تھا کہ اس دفعہ رحمت للعالمین ۖ نے مشاورت سے چھوڑ دیا ہے لیکن اللہ نے نبیۖ کے فیصلے کو بھی نامناسب قرار دیا اور اکثریت کے مشورے کو بھی قابل ستائش قرار نہیں دیا بلکہ اس پر گرفت فرمائی ہے۔ قرآن نے ایک طرف دشمن کے دل میں رعب ڈالا کہ آئندہ فدیہ کی توقع پر گرفتاری دینے کی غلطی نہ کرنا ، اگر میدان میں آؤگے تو مارے جاؤگے اور دوسری طرف مسلمانوں کو تنبیہ کردی کہ اکثریت اور نبیۖ کے فیصلے کا بھی اللہ نے لحاظ نہیں رکھا ہے۔ مسلمانوں کی اس تعلیم وتربیت کا نتیجہ تھا کہ حضرت عثمان کی شہادت کے بعدامیرالمؤمنین حضرت علی اور اُم المؤمنین حضرت عائشہ کے درمیان بھی تلوار اٹھانے تک بات پہنچ گئی تھی جہاںدونوں طرف عشرہ مبشرہ کے صحابہزبیرو طلحہ اور علی برسرپیکار تھے۔ ایک طرف قرآن میں حضرت عثمان کی شہادت کے حوالہ سے بیعت رضوان کا معاملہ تھاتو دوسری طرف نبی ۖ کی احادیث تھیں ۔
حضرت علی نے قاتلین عثمان کے بدلے سے انکار نہیں کیا تھا لیکن مجبوری تھی۔ دوسری طرف بہت ساری احادیث حضرت علی کی تائید اور مخالفین کا راستہ روکنے کیلئے موجود تھیں۔ حضرت عمار کی شہادت تو بعد میں ہوئی تھی اور اس سے پہلے نبیۖ نے ازواج مطہرات سے فرمایا تھا کہ میرے بعد حج کرنے کی کوئی ضرورت نہیںہے۔ اور حضرت عائشہ سے یہ بھی فرمایا تھا کہ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا کہ جب حواہب کے کتے آپ پر بھونکیںگے۔ حضرت عائشہ نے کتوں کی آواز سن کر لوٹنا بھی چاہا مگر مشورہ دینے والوں نے خیر کے کام کیلئے اس کو مفید قرار دیا۔ نبی ۖ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ” وہ لشکر کامیاب نہیں ہوسکتا ہے جس کی قیادت عورت کررہی ہو”۔صحیح بخاری کی اس روایت میں حضرت عائشہ کے لشکر کی طرف اشارہ تھا۔ حضرت ابوبکرہ نے اس موقع پر اس کو بیان کیا تھا۔
اگر صحابہ کرام اور خاص طور پر عشرہ مبشرہ کے درمیان جنگ وجدل ہوسکتا تھا تو موجودہ دور کے مسلمانوں میں کیوں نہیں؟۔ اکثریت اور اقلیت معیارِ حق نہیں ہے۔ موجودہ دور میں چیف جسٹس اور اس سے اختلاف کرنے والے جج اور سیاستدانوں میں حق پر کون ہے؟۔ ایک طرف آئین کی پاسداری ہے لیکن دوسری طرف ٹیکنیکل بنیادپر آئین کو سبوتاژ کرنے کی کوشش محض بہانہ ہے۔جو لوگ چیف جسٹس کا آئینی فیصلہ نہیں مانتے وہ ازخود اختلافی نوٹ کو فیصلہ قرار دینے کی جسارت کرنے میں دیر نہیں لگاتے ہیں۔ اکابر صحابہ کرام کی موجودگی میں یزید کی مسند نشینی کا کوئی جواز نہیں تھا اور امام حسین نے حق کا علم بلند کیا تھا مگر حسینیت اور یزیدیت کی تقدیر لکھی جاچکی تھی۔ کچھ لوگ اب بھی یزید کے طرف دار ہیں اور وہ بھی اپنے حس کی وجہ سے معذور ہیں۔ جب تک باغ کے پھولوں میں خوشبو کی مہک کا پتہ نہ چلے تو گٹر کی بدبو میں عادی لوگوں کو کس طرح خوشبو کا ادراک ہوسکتا ہے؟۔ تاریخ کے ادوار مظالم اور جبر سے بھرے پڑے ہیں۔ جن میں یزید تو بہت آئے ہیں لیکن حسین کی یاد اگرچہ اس کے اپنے پوتے زید بن علی بن حسین نے بھی شہادت کی مہک سے یاد تازہ کردی ۔ البتہ حسین کے ماننے والا طبقہ کوفی جس طرح غدار نکلے، اس طرح ان کے بڑے بھائی امام باقرنے بھی ساتھ دینے کے بجائے معذوری سے کام لیا تھا۔ امام ابوحنیفہ کی سخت نگرانی نہیں تھی اسلئے امام ابوحنیفہ نے امام زید کی شہادت کو بڑا اُونچا رتبہ دیا تھا۔امام باقر و امام جعفر کی سخت نگرانی جاری تھی اسلئے امام زید کے حق میں وہ آواز نہیں اٹھاسکتے تھے۔ جب تحریک طالبان پاکستان نے جبر وتشدد اور ظلم وستم کا بازار گرم کر رکھا تھا تو ان کے خلاف نصیحت وخیر خواہی سے آواز اٹھانے کی جرأت بھی کسی میں نہیں تھی ۔ البتہ پارہ چنار کے اہل تشیع نے ان کا ایسا حال کردیا تھا کہ بھنگ کا نشہ پی کر بھی اس طرف رخ کرنے کی ہمت نہیں کرسکتے تھے۔ اعتزاز حسین شہید نے خود کش حملہ آور سے بغل گیر ہوکر بڑی خلق خدا کو بچانے میں کردار ادا کیا تھا۔
ماحول کا بہت اثر پڑتا ہے ۔ مولانا فضل الرحمن نے2007میں طالبان کو خراسان کے دجال کا لشکر قرار دیا تھا۔ جب پیپلزپارٹی کے دور میں خبردار کیا تھا کہ طالبا ن مارگلہ کے پہاڑ کے قریب اسلام آباد تک پہنچ چکے ہیں تو ن لیگ کے رہنماؤں نے مولانا فضل الرحمن کو امریکہ کا ایجنٹ قرار دیا تھا۔ اس دور میں ن لیگ اور تحریک انصاف دونوں طالبان کی آنکھوں کے تارے تھے۔ کلثوم نواز مرحومہ کا تعلق پہلوانوں کے خاندان سے تھا اس نے پہلی بار طالبان کے خلاف زبان کھولی تھی۔ خواجہ سعد رفیق نے بھی کہا تھا کہ طالبان کا یہ رویہ قابل قبول نہیں ہے کہ بعض سیاستدانوں کو قتل کریں اور بعض کو دوست بنائیں۔ عرفان صدیقی کا تعلق لال کرتی سے ہے۔ حافظ سیدعاصم منیرپر اس کا جھوٹ اثر انداز نہیں ہونا چاہیے۔ عمران خان سے زیادہ عرفان صدیقی خود طالبان کا حامی رہاہے۔

(نوٹ: اس آرٹیکل کے بعد ”پاکستانیوں کی مثال ان شاہینوں کی طرح ہے” عنوان کے تحت آرٹیکل پڑھیں۔)

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟