پوسٹ تلاش کریں

اپنے کپڑے بیچ کر آٹا سستا کروں گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف

اپنے کپڑے بیچ کر آٹا سستا کروں گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف اخبار: نوشتہ دیوار

اپنے کپڑے بیچ کر آٹا سستا کروں گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مریم نوازشریف کو چاہیے کہ چچا کو کپڑے اتارکر بیچنے کے بعد اپنا دوپٹہ لپیٹ دے!

رسی جل گئی مگر بل نہیں گیا۔ شہبازشریف نے بہت اتار چڑھاؤ دیکھنے کے باوجود بھی اپنی شوبازیاں نہ چھوڑیں!

پنجاب میں اچھے لوگوں کی کوئی کمی نہیں لیکن جنرل جیلانی، جنرل ضیاء الحق ، جنرل حمید گل، جنرل پاشا…… کوشریف برداران اور عمران خان کے علاوہ کوئی نہیںمل سکا؟تاحال یہ سلسلہ جاری ہے اور آئندہ جلد انشاء اللہ بند ہوگا اور اچھے لوگ آئیںگے، آنے دئیے جائیں گے اور لائے جائیں گے۔ اسلئے کہ وقت کیساتھ ساتھ حالات بھی بدلتے ہیں اور شعور بھی بدلتا ہے۔نوازشریف اور شہباز شریف کا کردار کھلی کتاب کی طرح ہے۔ آصف علی زرداری نے مغربی کوری ڈور کا افتتاح کردیا تھا جسے کم خرچ اور کم مدت میں مکمل کرکے کوئٹہ اور پشاور کی تقدیر بدل سکتی تھی لیکن گوادر کے سی پیک کو بھی تختِ لاہور کیلئے شریف برادران نے چھین لیا۔ ایران کی سرحد تک گیس پائپ لائن بچھ چکی تھی لیکن اس پر عمل روکا گیااور قطر سے مہنگی گیس خریدی گئی۔ سی پیک سے ساہیوال میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا پلانٹ لگایا گیا جوساہیوال کیلئے بھی ماحولیاتی آلودگی کا باعث تھا اور گوادر میں ایران سے بجلی سپلائی ہوتی ہے۔ سی پیک سے نہیں۔ کرک سے تیل کو چھین لینے کی بھرپور کوشش کی اور اس کا نام بھی اٹک رکھ دیا۔ سوات میں محمود خان اچکزئی کے بقول بہت سستی اور وافر مقدار میں اتنی بجلی پیدا ہوسکتی ہے کہ پورے پاکستان کو روشن کیا جاسکتا ہے لیکن وزیراعظم شہبازشریف پختون عوام کو بیوقوف سمجھ کر دھائی دے رہاہے کہ اگر پختونخواہ کی حکومت نے آٹا سستا نہیں کیا تومیں اپنے کپڑے بیچ کر تمہارے لئے آٹا سستا کروں گا۔ اگر مراد سعید، مولانا فضل الرحمن،ANPاور منظور پشتین نے قوم کو شعور دیا ہوتا اور ان میں غیرت اجاگر کی ہوتی تو عوام شہباز شریف کی شوبازی پر نعرے بازی کرنے کے بجائے احتجاج کرتے کہ ہمارے ہاں تمہیں کپڑے اتارنے کی ضرورت ہرگز نہیں ہے اور اگر پنجاب میں اتارکر بیچ دئیے تو مریم نوازشریف سے گزارش کریںگے کہ اپنے دوپٹے سے اپنے چچا چھوٹے میاں سبحان اللہ کو لپیٹ دینا۔ دوسری طرف عمران خان کا بھی وہی حال ہے۔ پشتوکہاوت ہے کہ گدھے کی سانس نہیں نکل رہی تھی اور کتے کی لالچ نہیں جارہی تھی تاکہ گدھا مرجائے اور اس کو کھا جائے۔ بڑے عرصہ سے شاہ محمود قریشی انتظار میں تھا کہ عمران خان کو نااہل قرار دیکر ہٹایاجائے اور وہ خود وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھ جائے۔ لیکن نہ رہی بھینس اور نہ بجی بانسری۔ عوام اور مقتدر طبقات کو چاہیے کہ ان دونوں کے بیچ میں فٹ بال نہ بنے اور ایک ایسا انقلاب برپا کردیں جو صحیح معنوں میں اس قوم اور ملک کی تقدیر بدل دے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟