عمران خان کے بیان کا جائزہ اور حقائق: فاروق شیخ
ستمبر 16, 2016
عمران خان نے اسفندیار ولی کو کراچی کے جلسہ میں مخاطب کرکے کہا کہ جب تمہاری حکومت تھی تو دوبئی سے خطاب کرتے تھے!
درست بات ہے لیکن اس وقت عمران خان نے اپنی دم ایسی گھسیڑی تھی کہ کرین سے بھی کھینچ لیتے تو کٹ سکتی تھی نکل نہیں سکتی تھی
پہلے جناح کے مزار کے پاس جلسہ میں الطاف کیخلاف بولنے کی جرأت نہ کی تھی زہرہ شاہد کی تعزیت بھی نہ کی تھی۔ فاروق شیخ
یہ سیاسی لیڈر ہیں یا کوئی جوکر اور مداری؟ کیا عوام کو اتنا نادان سمجھ رکھا ہے کہ جو بکتے جاؤ، کسی نے نوٹس ہی نہیں لینا ہے۔ اگر یہ تماشہ جاری رہا تو لوگوں کے دلوں میں الطاف بھائی کی قدر ومنزلت بیٹھ جائے گی۔ کراچی کو اگر الطاف حسین کے شر، سحر، لیڈر شپ اور محبت سے فارغ کرنا ہے تو کسی ڈھنگ کے آدمی کو لانا پڑے گا۔ نشتر پارک میں الطاف حسین کے مقابلہ میں جلسہ کرنا تھا تو اسفندیار ولی کو کیوں یاد کیا؟، یاد کرنا بھی تھا تو کوئی ڈھنگ کی بات ہی کرلیتے، یہ کہتے کہ طالبان جیسی دہشت ، خون خرابہ اور مظالم کا تاریخ انسانی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ریاست اپنے ڈھیر سارے وسائل کے باوجود اتنی خوفزدہ تھی کہ مظلوم عوام کا تماشہ دیکھتی رہتی تھی ، مرد کا بچہ میاں افتخار حسین تھا جس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کیا، بشیر احمد بلور تھا جو دھماکوں کے بعد پہنچ جاتا اور کہتا کہ آج ان شہیدوں کو ہم پوچھنے آرہے ہیں، کل ہماری لاش بھی یہیں پڑی ہوگی، افضل خان لالا تھا جس نے سوات سے آخری وقت تک کوچ نہیں کیا بلکہ مردانہ وار موت کا سامنا کرنے کی حد تک اپنی جگہ پر کھڑا رہا ہے، واہ یہ لوگ! باچاخان نے انگریز کیخلاف جدوجہد کابیج بویا تھا ، طالبان کا دور تو بہت خوف، دہشت اور خون خرابے کا دور تھا، یہ بہادری ان کو وراثت میں ملی تھی۔ او تحریک انصاف کے ورکرو!، سن لو، ہمارے اندر ملالہ یوسف زئی جتنی جرأت بھی نہیں۔ زندہ قیادت ایسی ہوتی ہے جیسے اسفندیار خان کے کارکنوں اور رہنماؤں نے طالبان کے آگے اپنا سر نہیں جھکایا ، ہمارا ان سے نظریاتی اختلاف ہے لیکن بہادری سے اپنے غلط نظرئیے کیلئے ابوجہل کو بھی لڑنا پڑے تو اس کو بزدل نہیں کہا جاسکتا، یہی وجہ تھی کہ ان کا صاحبزادہ حضرت عکرمہؓ جب اسلام قبول کرتے ہیں تو باپ کی بہادری کے جراثیم اسلام کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
عمران خان اے این پی کی بہادری کی داستان سناتا تو اپنے کارکنوں میں بھی غیرت جاگ اٹھتی، یہ جذبہ کراچی کی مشکل صورتحال میں کام آتا، ایک جنرل نیازی نے سقوطِ ڈھاکہ میں ہتھیار ڈال دئیے تھے مگر نیازی ایک بہادر قوم ہے، پتہ نہیں عمران خان نیازی کہلوانے سے کیوں کتراتا ہے؟۔ اچھا ہے ان کا نام لیکر ان کو بدنام نہیں کرتا، الٹی سیدھی باتوں سے کیا حاصل ہوتا ہے؟، اگر انسان میڈیا پر ہو، عوام سے مخاطب ہو تو کوئی اچھا پیغام جانا چاہیے، عمران خان سمجھتا ہے کہ کسی اور پر کیچڑ اچھال رہا ہے اور اسکے جیسے جماعت کے رہنما اور کارکن بھی نہ کچھ سوچتے اور نہ سمجھتے ہیں ۔ نشتر پارک سے زیادہ دور جناح کا مزار نہیں، جہاں اسی عمران خان نے الطاف حسین سے مل کر جلسہ کیا تھا، کوئی لفظ بولنا تو چلو کوئی تاویل ہوسکتی ہے، زہرہ شاہد کی تعزیت کیلئے بھی نہ گیا، ایسی بزدلی کا مظاہرہ کرنے پر کراچی والوں کو پتہ چل گیا تھا کہ لغو قسم کی بکواس کرتا ہے، رینجرز اور پاک فوج کا شکریہ کھلے لفظوں میں ادا کرتا کہ طالبان کی دہشت اور متحدہ کی وحشت سے آزاد کردیا۔
لوگوں کے حافظے اتنے کمزور نہیں ہیں،الٹی سیدھی باتیں تو ہیجڑے بھی بول سکتے ہیں، جب کسی کا دور ہو تو اسکے خلاف آواز اٹھانا مردانگی ہوتی ہے۔ انڈیا کے اداکاروں کو بلواکر شوکت خانم کیلئے فنڈ اکٹھا کیا جاتا تھا، اگر اسوقت اسامہ بن لادن کی بھتیجی وفا بن لادن کو امریکہ سے لایا جاتا تو زیادہ سے زیادہ فنڈز بھی ملتے اور شدت پسند بھی دوسروں پر اٹیک کرنے سے رک جاتے کہ گھر کا معاملہ بھی ٹھیک نہیں ۔ مفتی سعیدخان نے رمضان میں اعتکاف کرنے والوں سے اپنی ہی مسجد چتھر پارک اسلام آبادجی ٹی روڈ مری میں خطاب کیا کہ ’’ مودی مذہبی ذہنیت رکھتا ہے، میں نے عمران خان کو مشورہ دیا کہ اسکو گائے ہدیہ کیا جائے‘‘۔ عمران خان کو چاہیے کہ سیاست چھوڑ کر کوئی دوسرا کام کرے، اسلئے کہ لوگوں میں بہت شعور ہے، پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ امپائر کی انگلیوں کے اشارے سے کوئی تاراج ہوگا اور اس کو تخت پر بٹھایا جائے گا، اس قسم کا ایک اشتہار بھی فیض کے اشعار سے بنایا گیا ہے کہ ’’جب تخت اچھالے جائیں گے‘‘ جس میں جنرل راحیل شریف کیساتھ عمران خان کی تصویر بھی دکھائی جاتی ہے۔حالانکہ یہ نظم تو عمران خان جیسے لوگوں کیخلاف ہی تو فیض نے لکھی تھی۔ ہیلی کاپٹروں میں گھمانے والوں کی امیدیں دم توڑ دیں گی تو عمران خان کو کوئی گدھا گاڑی پر بھی نہیں بٹھائے گا۔ اب تو امید کی وجہ سے ریلے میں وڈے (بڑے)وڈے ساتھ ہیں۔
عوام کو فیصل واوڈا نے بے جا تکلیف دی تو عمران اسماعیل نے کہا کہ اس کام سے پارٹی کا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اگر حکومت نے اس کو رہا نہ کیا تو ہم اپنا لائحہ عمل دیں گے۔ ہاتھی جیسے عمران اسماعیل کو بغیر سینگ والے بکرے کی طرح ایک بوڑھے شخص نے جیسے کیمرہ کے سامنے بھگایا اس سے اس کی ہمت کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔ عوام کو اتنی تکلیف ہوئی، لوگ ائرپورٹ نہیں پہنچ سکے ، اس کا تعلق اگر خالی معافی مانگنے سے ہو تو قانون کا کیا فائدہ؟۔ ایک دن پولیس اس کو کھلی گاڑی میں بٹھادے اور اس وقت ٹریفک کی روانی میں عوام سے کہے کہ لعنت دیتے ہو تو بھی تمہاری مرضی اور یہ سمجھتے ہو کہ تنگ کرکے کارنامہ انجام دیا ہے سیلوٹ کرتے ہو تو بھی تمہاری مرضی۔ پھر اندازہ لگ جائیگا کہ کتنے لوگ لعنت ملامت کرتے ہیں۔ الطاف حسین سے لوگ اسلئے تنگ تھے کہ روز روز یہ ٹریفک کی کہانی ہوتی تھی۔ اب اگر اس کی جگہ واوڈا جیسوں کو لانا ہے تو لوگ ریاست کو ہی قصور وار قرار دینگے۔ راؤ انوار نے بذاتِ خود پکڑ کر زبردست کام کیا، عوام اور اہل اقتدار کی طرف سے ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے تھا۔ کراچی کے لوگ بینروں، جماعتوں، ہڑتالوں اور اس قسم کی ساری حرکتوں سے تنگ ہیں، جو غلط حرکت کرے اس کا گھر بار، کاروبار بیچ کر نقصان کا ازالہ کیا جائے۔ دو چار کیساتھ ایسا ہوگا تو عوام کو نجات مل جائیگی،نئے وزیراعلیٰ سے اُمیدیں دم توڑ رہی ہیں، وقت سے پہلے ٹرالر چھوڑ دئیے جاتے ہیں ، قائدآباد سے ملیر ہالٹ روزانہ عذا ب کا منظر پیش کرتاہے ۔ گلشنِ حدید لنک روڈ کے ٹوٹے پل کیلئے شہبازشریف سے کوئی نسخہ لیتا تو عوام کی مراد بھر آتی۔
لوگوں کی راۓ