پوسٹ تلاش کریں

In Bathroom, all remains nude but in swimming pool ML (N) absolutely becomes nude.

In Bathroom, all remains nude but in swimming pool ML (N) absolutely becomes nude. اخبار: نوشتہ دیوار

کسی بھی حمام میں تو سبھی ننگے ہوتے ہیں لیکن اس سوئمنگ پول میں مسلم لیگ ن بالکل ننگی تڑنگی ہے۔ ملک کی سیاست کا جائزہ

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

میڈاِن اسٹیبلشمنٹ نواز لیگیوں کا (PTI)کو سلیکٹڈ کہنانری بلیک میلنگ کے سوا اور ہو بھی کیاسکتاہے؟
شہبازشریف وزیراعظم اور حمزہ شہباز پنجاب کے وزیراعلیٰ بن سکتے تھے لیکن مریم کی راجدھانی کوخطرہ تھا

فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفورنے کہا تھا کہ اگر میڈیا آزاد ہوتا اور مشرقی پاکستان کی شکایات سے فوج کوآ گاہ کرتا تو یہ ملک نہ ٹوٹتا۔ حامد میر نے کہا کہ پہلے میں آپ کا شکریہ ادا کرتاہوں اور پھر یہ پوچھتا ہوں کہ (PTM) کو یہ شکایت ہے کہ ہمیں میڈیا پر کیوں نہیں آنے دیا جاتا ہے؟۔ آپ نے الزام لگایا ہے کہ اس کو را فنڈنگ کرتی ہے۔ میں بھی اسلام آباد کے دھرنے میں گیا تھا ، وزیراعظم عمران خان بھی (PTM) کے دھرنے میں شریک ہوا تھا۔ پھر (PTM) کو کھلم کھلا میڈیا پر دعوت کیوں نہیں دیتے؟۔ آصف غفور نے لمبا جواب دیا تھا جسکا خلاصہ یہ ہے کہ اگر آپ کو اور وزیراعظم کو پتہ ہوتا کہ رانے فنڈنگ کی ہے تو آپ نہ جاتے۔ میڈیا پر اگر یہ نعرہ لگانے دیا جائے کہ ”یہ جو دہشتگردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے” تو پھر ان شہداء کے لواحقین کے کیا تأثرات ہونگے جنہوں نے جانوں کے نذرانوں کی قربانیاں دی ہیں؟۔ تفصیل یوٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں۔ کیا را کی فنڈنگ کے ثبوت کو میڈیا پر سب کے سامنے واضح طور پر لانا ممکن نہیں ؟۔
آرمی چیف جنرل باجوہ نے کہا کہ علی وزیر کو بس سٹینڈ پر قبضہ کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خیبر پختونخواہ پولیس نے پھر سندھ پولیس کے حوالے کیوں کیا تھا؟۔ جبکہ بس سٹینڈ پر سندھ میں قبضہ نہیں کیا تھا؟۔ اس کا جواب یہ ہوگا کہ” سندھ میںاپنے غصے کا اظہارجرم بن گیا ہے”۔
کھریاں کھریاںکا ریموٹ نوازشریف ہے، وہ جوالزام لگاتا ہے تو کیا آرمی چیف اور (DGISI)کو بلیک میل کرکے نوازشریف پر پارلیمنٹ، میڈیا اور عدالت میں ثابت شدہ جرائم کوکلین چٹ دینے پر مجبور کر رہا ہے؟۔سیاسی مسئلے کا نچوڑ یہی ہے لیکن اس مسئلے کا حل بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
سب سے پہلے پارلیمانی سیاست کو بے نقاب کرنا بہت ضروری ہے۔ جب شاہد خاقان عباسی کا نام (ECL)سے نکال کر بیرونِ ملک جانے دیا گیا تھا تو اس وقت سوشل میڈیا پرنوازشریف کے ذاتی حجام لگنے والے سیدعمران شفقت نے کہا تھا کہ ”ن لیگ کی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل ہوگئی ہے۔ اب عمران خان کو مدت پوری کرنے دی جائے گی۔ کبھی عمران خان اور کبھی اسٹیبلشمنٹ پرحملے ہونگے مگر یہ سیاست چلتی رہے گی”۔ مولانا فضل الرحمن کے قریبی صحافی شاکر سولنگی نے خبر دی تھی کہ اب نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کا نام لیکر مخالفت نہیں کرینگے اور وہی ہوا۔
مریم نواز نے مولانا فضل الرحمن کو لگادیا تھا کہ حکومت گرانے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ مولانا نے چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف بیان داغ دیا اور پھر پیپلزپارٹی سے مطالبہ کیا کہ پنجاب اور مرکز میں اپنے پتے شو کریں۔
ن لیگ اور مولانا فضل الرحمن کے علاوہ ایک عام تأثر یہی تھا کہ یوسف رضا گیلانی کو حفیظ شیخ کے مقابلے میں جیتنا ممکن نہیں لیکن جب گیلانی جیت گیا تو ن لیگ اور مولانا فضل الرحمن کی روحیں پریشان ہوگئیں۔ مریم نواز نے کھل کر کہا کہ پنجاب میں ہم عثمان بزدار کی حکومت نہیں گرائیںگے۔ مرکز میں بھی وہ عمران خان کی حکومت کو نہیں گرانا چاہتی تھی۔ بلاول بھٹو زرداری نے کھلم کھلا شہباز شریف کو وزیراعظم اور حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کی پیشکش کردی لیکن مریم نواز کو اپنی راجدھانی کی فکر پڑگئی۔ یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین اور مولانا عبدالغفور حیدری کو ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے عہدے پر ہرادیا ۔پیپلز پارٹی کو (PDM) سے باہر دھکیل دیا گیا کیونکہ شہبازشریف اور حمزہ شہباز کو بھی اقتدار کی دہلیز پر پہنچانے سے روکنے کیلئے یہ نوازشریف اور مریم نواز کیلئے ضروری تھا۔ شہباز شریف نے کہا کہ ”میں70سال کا بوڑھا ہوں۔ پہلے بھی علاج کی غرض سے لندن جانے کے بعد واپس آیا ہوں”۔ اور یہ بیان دراصل نوازشریف کے منہ پر ایک زناٹے دار طمانچہ تھا لیکن میڈیانے اس کوبالکل اہمیت نہیں دی تھی۔
مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی ن لیگ کو جانتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہے اور اس کی مثال اس بچے کی ہے جو دوسرے بچے سے کہتا ہے کہ تمہارے منہ میں لالی پاپ بہت خراب ہے ۔ جب وہ بچہ لالی پاپ کو پھینک دیتا ہے تو وہ خود مٹی سے اٹھاکر اپنے منہ میں ڈال لیتا ہے۔ ن لیگ خود اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہے لیکن تحریک انصاف کو سلیکٹڈ کہہ کر اپنی راہ ہموار کررہی ہے اور دوسری طرف پاک فوج پر الزامات لگاکر اس پر اپنا دباؤ بڑھانا چاہتی ہے۔ اگر (RMtv)لندن کھریاں کھریاں میں راشد مراد یہاں تک کہتا ہے کہ آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں کو بھی پاک فوج نے اپنے مذموم مقاصد کیلئے شہید کروایا تھا تو پھر پختون، سندھی، بلوچ، مہاجر، پنجابی اور سرائیکی پاک فوج کے بارے میں کیا سوچیں گے؟۔ جب نوازشریف کے دور میں عمران خان کا دھرنا ختم کرنے کیلئے راحیل شریف نے آرمی پبلک سکول کے پختون بچوں کو قتل کرنے کی سازش کی ہو توپھر لوگوں کا دماغ پنجابیوں، پاک فوج اور تختِ لاہور کے خلاف نہیں بھڑکے گا؟۔ فوج مخالف عناصر کو یہ کون سمجھائے کہ پاک فوج ایک طرف عمران خان کا دھرنا کروائے؟ اور دوسری طرف دھرنے کو ختم کرانے کیلئے معصوم بچوں کا بے گناہ خون کیوں بہائے ؟ ۔پھر تو وزیراعظم نوازشریف پر بھی لعنت ہو۔ لیکن میڈیا لوگوں کا شعور بیدار کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتا ہے۔
فوج میں ہزار خامیاں ہیں لیکن قومی سلامتی کا یہ واحد ادارہ ہے۔ہماری قوم تعلیم وتربیت اور حکمت وشعور سے بالکل عاری ہے۔ ہم کسی بڑے حادثے کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔ نوازشریف کا فوج سے ان خامیوں پر کوئی اختلاف نہیں ہے جو قابلِ اصلاح ہیں بلکہ وہ اپنے جرائم پر پاک فوج کو پردہ نہ ڈالنے کی سزا دینا چاہتا ہے کہ ” مجھے کیوں نکالا؟”۔حالانکہ گیلانی کو بھی نکال دیا گیا تھا۔
اگر(1993عیسوی) میں کرپشن کے ذریعے لندن فلیٹ لینے پر فوج نے مجبور کیا اور (2013عیسوی) میں منتخب وزیراعظم بننے کے بعد فوج نے پارلیمنٹ میں جھوٹا تحریری بیان پڑھنے اور پھر قطری خط لکھنے اور اس سے لاتعلقی پر مجبور کیا تھا تو نوازشریف خالی لندن سے بیان جاری کردے اور فوج سے نمٹنا پوری قوم کی ذمہ داری ہے لیکن اپنے جھوٹ، لوٹ اور کھسوٹ کی سزا افواجِ پاکستان کو دینا ملک ، قوم اور سلطنت کی کیا خدمت ہے؟۔ جنرل راحیل شریف کو خود لائے تھے اور اس دور میں فوج کے اہلکاروں کو کرپشن پر سخت سزائیں دی گئیں تو آپ کو کرپشن سے بچانے کا ٹھیکہ اس نے کیوں لینا تھا؟۔ پھر جنرل باجوہ کو میرٹ کی خلاف ورزی کرکے آرمی چیف بنالیا۔ اس پر بقول انصار عباسی کے شبہ تھا کہ قادیانی ہے تو اس کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینٹ میں شرمناک بل پاس کرنے کی کوشش کی ۔ جب اس بل کے خلاف تحریک لبیک والے کھڑے ہوگئے تو اس کا الزام بھی پاک فوج پر ہی لگادیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بیوی کے نام سے جو جائیداد لی تھی تو اسکا حقِ نمک بھی فائز عیسیٰ نے ادا کردیا؟۔
ن لیگ کی سیاست کا محور یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ(2023عیسوی) کے الیکشن میں اس کو حکومت میں آنے کا موقع دے۔ اس نے پیپلزپارٹی کو (PDM)سے باہر کیا۔ مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کے علاوہ دیگر چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو ساتھ کردیا ۔ الیکٹرانک ، سوشل اور پرنٹ میڈیا کے کئی صحافیوں کو بھی خرید لیا۔ حکومت اس کی تجارت و بادشاہت کے خواب ہیں۔ عدالت نے پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کے فیصلے کو ہی غلط نہیں قرار دیا بلکہ خصوصی عدالتوں کے وجود کو بھی انصاف کے منافی قرار دیا۔ پھر وہ وقت بھی دور نہیں کہ نوازشریف اور مریم نواز کے خلاف عدالتی فیصلوں کو عدالت کالعدم قرار دے دے گی۔ ساری برائیاں فوج کے کھاتے میں اس طرح ڈال دی جائیںگی کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید کے یہ کرتوت تھے۔ قوم خوش ہوگی کہ پنجابی قیادت نے فوج سے جان چھڑائی ہے۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کہتے تھے کہ مجھے ان لوگوں سے بھی پیار ہے جنکے کتے انگریز کو بھونکتے ہیں۔ فوج مخالف سیاستدانوں اور مذہبی وقوم پرست پارٹیوں کو کتے راشد مراد سے بھی پیار ہوگاجو تہمینہ دولتانہ قسم کی عورت کی اولاد ہے جو جوانی سے بڑھاپے تک نواز شریف پر قربان ہیں۔
نظریاتی اختلاف کی جنگ رحمت ہے اور مفادپرستی اور تکبر کی جنگ زحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ سے حضرت انسان کی پیدائش پر فرشتوں نے اختلاف کیا تھا اور شیطان نے اس کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا۔ ایک اختلاف محمود اور دوسرا مذموم تھا۔ پاک فوج سول حکومت کے ہرکاروبار میں شریک ہے جس نے پوری قوم کو فوج سے بدظن کردیا ہے۔ روڈ بنانے اور پانی سپلائی سے ٹول ٹیکس کا ٹھیکہ لینے تک ہر چیز پر قبضہ کرنے کے تأثرات نے بہت خراب فضاء بنائی ہوئی ہے۔
جب پرویزمشرف نے ن لیگ کی حکومت ختم کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تو قوم جشن منارہی تھی لیکن ہم نے اپنے اخبار کے اداریہ میں لکھ دیا تھا کہ فوج کی تعلیم و تربیت اپنے لوگوں پر حکومت کیلئے نہیں بلکہ دشمن سے انتقام کیلئے ہوتی ہے اور یہ فوج اور قوم کے مفاد میں ہرگز بھی نہیں کہ پاکستان پر فوجی اقتدار قائم ہوجائے۔ پرویزمشرف کے بعد پیپلزپارٹی، ن لیگ اور تحریک انصاف باری باری اقتدار کی دہلیز تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے لیکن بقول شاعر افکار علوی کے ” مقاصد تو حل ہوئے مسائل نہیں ہوئے”۔ پاکستان جس طرح چل رہاہے ہماری قوم اس کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ ہمارا اسلام، ایمان، قومی غیرت، اقدار اور سب کچھ جعلی بن چکا ہے۔ تحریک انصاف کے بعد ن لیگ کو لانے کیلئے گٹھ جوڑ کا یہ ملک ہرگز متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ حکومتوں کو لانے اور حکمرانوں کو ہنکانے کیلئے لوٹوں کی فوج ظفر موج ہر وقت تیار رہتی ہے۔ طوفانوں میں ہواؤں کے دوش پر چلنے کے قائدین ریت کے ٹیلوں کی طرح ہوتے ہیں جو آبادیوں کو سہارا نہیں دے سکتے ہیں بلکہ کھیتوں اور کھلیانوں ،جانوروں اور انسانوں کو نقصان پہنچادیتے ہیں۔ ایسے وقت میں چٹانوں سے زیادہ مضبوط انسانوں کی ضرورت ہوتی ہے جس کو ندی نالے بہاکر نہیں لائے ہوں بلکہ قدرت کے عظیم شاہکار ہوں۔
عام انسانوں کیلئے کاروبار، تعلیم اور مزدوری کے دروازے بند کئے جارہے ہیں۔ سود اور ٹیکسوں کے ذریعے سے ریاست اپنی عوام پر وہ بوجھ بنتی جارہی ہے کہ اب سایہ دار درخت بننے کے بجائے عوام کی کمر توڑ رہی ہے۔ سیاسی اشرافیہ کو اپنی حکومت، تجارت اور بادشاہت کی فکر پڑی ہے۔ فوج سے جنگ اپنے مفادات کیلئے ہے مگر عوام کی خاطر کسی کے اندر کوئی سوچ نہیں ہے۔ علامہ اقبال کے اشعار کی گونج” آوازِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو”اب بنتی جارہی ہے کہ
اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخِ امراء کے در ودیوار ہلادو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلادو
پاکستان اسلام کے نام پر بناتھا لیکن سود کے بین الاقوامی سرمایہ دارانہ نظام کو بھی اسلامی بینکاری کے نام پر جائز قرار دیا گیا ۔ مذہبی طبقے مذہبی لبادے میں سراپا شیاطین ہیں۔ اسلام کی ایک ایک بات کو مٹانے میں ان کا بہت بنیادی کردار ہمیشہ سے رہاہے۔ اگر سود کو اسلامی قرار دیا جائے تو پھر زنا، چوری، ڈکیتی اور کونسی ایسی چیز ہوگی جو غیر اسلامی ہوگی؟۔ رسول اللہۖ نے زنا بالجبر پر ہی سنگساری کی سزا دی تھی۔ علماء ومفتیان نے زنا بالجبر کیلئے بھی چار عینی گواہوں کی شرط رکھ کر اس پر اسلام کے اندر زنا کے اطلاق سے انکار کردیا۔ حالانکہ نبیۖ نے ایک عورت کی گواہی کو قبول کیا اور یہ نہیں دیکھا کہ زنا بالجبر کرنے والا شادی شدہ ہے یا کنوارا ہے؟۔ خواجہ محمد اسلام کی کتاب ”موت کا منظر” میںبھی زنا بالجبر کی سزا لکھی ہوئی ہے مگرکہیں اس کو کتب خانوں سے غائب نہ کردیا جائے۔
قرآن میں تورات کے حوالے سے اللہ نے فرمایا ہے کہ ” جان کے بدلے میں جان ہے، دانت کے بدلے میں دانت ہے،کان کے بدلے میں کان ہے، ہاتھ کے بدلے میں ہاتھ ہے اور زخموں کا بدلہ ہے اور جو اللہ کے حکم پر عمل نہیں کرتا تو وہی لوگ ظالم ہیں”۔ پاکستان میں سرمایہ دارنہ اور جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے آج تک قرآن وسنت کے مطابق آئینِ پاکستان کے تحت قانون سازی نہیں کی گئی۔ کیونکہ یہاں ہمیشہ عدالتوں میں انصاف بٹ نہیں بک رہا ہے۔
مولوی کو زکوٰة خیرات اور سیاستدانوں کی کاسہ لیسی سے فرصت ملے تو اسلام کیلئے قانون سازی کی بات کریں؟۔ ریاستِ مدینہ میں یہود اور دشمن منافق طبقے کو اسلام کے معاشرتی اور اقتصادی نظام نے شکست سے دوچار کردیا تھا مگر ہمارے ہاں شیطان نے ایسی پود تیار کررکھی ہے جن کو دیکھ کر شرمائے یہود۔
جب سود کی حرمت پر آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہۖ نے زمین مفت میں کاشت کیلئے دینے کا حکم دیدیا۔ زمین کا اصل مالک اللہ ہے اور اس پر اختیار بھی اسکے حکم سے چلتا ہے۔ اسلام نے زمین کی ملکیت سے محروم نہیں کیا بلکہ زمین کو مزارعت ، کرایہ ، بٹائی پر دینے سے روکا تھا۔ امام ابوحنیفہ ، مالک اور شافعی سب متفق تھے کہ زمین کو بٹائی پر دینا حرام ہے۔ اگرمسلمان اصل اسلام پر چلتے تو دنیا میں جاگیردارانہ نظام کیوجہ سے غلام اور لونڈی کا نظام بھی کب کا ختم ہوجاتا۔ مارکس کو بھی کوئی نظریہ گھڑنے کی ضرورت پیش نہ آتی جس کیلئے علامہ اقبال نے بھی شاعری کی اور چین وروس میں یہ نظام عروج پر پہنچنے کے بعد ختم بھی ہوگیا۔
جب مدینہ کے لوگوں کو مفت میں زمینیں مل گئیں تو ان محنت کشوں میں قوت خرید بہت بڑھ گئی جس کی وجہ سے مدینہ کے تاجر وں نے دن دگنی رات چگنی ترقی کی۔ کسی شیعہ نے شکایت کی کہ آپ فقہ جعفریہ کا نام نہیں لیتے تو میں نے کہا کہ شیعہ کی تقلید کا یہ حال ہے کہ مجھ سے ایک شیعہ نے کہا کہ سمندر کی جن مچھلیوں کو ہم نہیں کھاتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ انسان ہیں جن کو مسخ کیا گیا ہے اور یہ حضرت علی کا فرمان ہے۔ دوسری طرف شیعہ کے اجتہاد کا یہ عالم ہے کہ یہاں تک لکھ دیا ہے کہ سؤر کے گوشت کو قرآن میں جس وجہ سے حرام کیا گیا ہے اگر وہ چیز نکال لی جائے تو پھر سؤر بھی حلال ہے۔ ہم اپنے فقہاء سے ہی جان چھڑا رہے ہیں جنہوں نے بعد میں اسلام کو مسخ کیا ہے تو اگر مزارعت کے مسئلے میں احادیث کو لیا جائے پھر شیعہ باغ فدک کی کئی گھڑی کہانیاں بھول جائیں گے۔
پاکستان میں حنفی مسلک کی اکثریت ہے۔ حنفی مسلک کا تعلق مسخ شدہ مسائل نہیں بلکہ امام ابوحنیفہ ہی کا مسلک ہے۔اگر زمینوں کو محنت کش مزارعین کو مفت میں صرف فصل اُگانے کیلئے دی جائے تو ہوس پرست اور حرام خور طبقہ حرام سے بڑی بڑی جائیدادیں بھی نہیں خریدے گا اور زمین سستی ہوجائے گی اور محنت کش طبقے کو اپنی پوری پوری اُجرت مل جائے گی تو یہ انقلاب کا وہ آغازہوگا جس سے مدینہ کی بہت چھوٹی سی ریاست پوری دنیا پر چھا گئی تھی۔ پاکستان بھی اس مقصد کیلئے بنایا گیا تھا اور ہمیں اسی کی طرف جلد یا دیر سے آنا ہی پڑے گا۔
مولانا فضل الرحمن مریم اور حمزہ کے گلے لگانے ،مولانا عزیز الرحمن کی مذموم حرکت کو بھی اسلام اور مشرقی اقدار کا لبادہ پہنادے تو یہ اسلامی سیاست ہوگی؟۔

خاص خاص باتیں:
بلاول بھٹو نے شہباز شریف کو وزیراعظم اور حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کی پیشکش کردی مگر یہ طے ہوگیا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت کو مدت پوری کرنی دینی ہے اور اس کا اظہار شاہد خاقان عباسی کا نام (ECL) سے نکال کر لندن جانے کی اجازت دیتے ہوئے نوازشریف کے ذاتی حجام لگنے والے سوشل میڈیا صحافی سید عمران شفقت اور شاکر سولنگی نے بہت پہلے کردیا تھا جس پر عمل ہورہاہے

راشد مراد(MRtv)لندن نے کھریاں کھریاں میںالزام لگایا کہ آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں کو فوج نے شہید کیا،اگر عمران خان کا دھرنے کو ختم کرنے کیلئے قدم اٹھایا گیا تھا تو وزیراعظم نوازشریف اور فوج کے بارے میں پنجابی، بلوچ، پختون، سندھی اور مہاجرکیا سوچیںگے؟۔ نوازشریف ذاتی مفاد کیلئے کتے کو لگاکر قوم کا بیڑا غرق کر رہا ہے۔ کیا ہمارا اپنا میڈیا اب اپنی قوم کو شعور دے رہاہے؟
قرآن میں جان کے بدلے جان، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور زخموں کے بدلے کا حکم ہے مگر مولوی کو زکوٰة خیرات ، سیاستدانوں کی کاسہ لیسی سے فرصت ملے تو اسلام کیلئے قانون سازی کی بات کرے ؟ ریاستِ مدینہ کے معاشی اور معاشرتی نظام نے یہود اور منافق طبقے کو انکے عروج کے دور میں شکست سے دوچار کیا،مولوی نے اب سود کے عالمی نظام کو بھی جائز قرار دیا
جب سود کی حرمت کی آیت نازل ہوئی تو رسول اللہۖ نے زمین کو مزارعت، کرایہ اور بٹائی پر دینے کو سود قرار دیا اور امام ابوحنیفہ، مالک اور شافعی سب متفق تھے کہ زمین کو بٹائی پر دینا ناجائز ہے۔ مولانا فضل الرحمن مریم و حمزہ کے گلے ملنے اور مولانا عزیز الرحمن کی بیہودہ حرکت کو بھی اب ناجائز قرار دینے کی بجائے سازش قرار دے تو یہ اسلامی اور مشرقی اقدار ہیں تو یہ بعید از قیاس بالکل بھی نہیں ہے!

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟