پوسٹ تلاش کریں

اسلامی انسانی انقلاب کا تصور

اسلامی انسانی انقلاب کا تصور اخبار: نوشتہ دیوار

___اسلامی انسانی انقلاب کا تصور ___
قرآن کی بہت ساری آیات اور خاتم الانبیاء ۖ کی بہت سی احادیث صحیحہ میںعالمی اسلامی انسانی انقلاب کا تصور موجود ہے۔ سورۂ واقعہ ، سورۂ جمعہ، سورۂ محمد، سورہ ٔ الدھر اور بہت ساری سورتوں میں اسلامی انسانی انقلاب کا نقشہ موجود ہے۔ احادیث صحیحہ میں بڑی وضاحت کیساتھ طرزنبوت کی خلافت کا ذکرہے ۔ جس سے زمین وآسمان والے دونوں کے دونوں خوش ہوں گے۔ بین الاقوامی سودی نظام سے صرف پاکستان تنگ نہیں بلکہ پوری دنیا کے چھوٹے بڑے ملک اور ان کی عوام اس کی وجہ سے بہت مشکلات کا شکار ہیں۔ لوگوں کی آزادی سلب ہوگئی ہے۔ دنیا بھر میں حوالہ کا کاروبار اسلئے چل رہاہے کہ بینکنگ کاسودی نظام لوگوں کو جائز رقم منتقل کرنے پر بھی تنگ کررہاہے اور ٹیکس بھی بہت زیادہ ہیں۔
اقتدار میں آنے والے حکمرانوں کی حیثیت کٹھ پتلی سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی ہے۔ دو مرتبہ امریکہ کے صدر بننے والے بارک حسین اوبامہ نے آٹھ سال تک اقتدار میں وائٹ ہاوس کے مزے لئے جو بڑی خوش آئند بات تھی لیکن جب وہ صدر کیلئے حلف دے رہا تھا تو امریکہ کے چیف جسٹس نے اس کا پورا نام لینا تک گوارا نہیں کیا ۔ اگرچہ بارک حسین اوبامہ نے پھر بھی ہمت سے اپنا نام لیاتھا اور اس سے عدلیہ اور اقتدار کے درمیان عدم اعتماد کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔
جب امریکہ کا یہ حال ہے تو دوسرے ممالک میں غلامی کا تصور محسوس کرنا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ امریکہ نے ایک کروڑ ڈالر ملاعمر کے سرقیمت رکھی تھی اور پھر طالبان سے مذاکرات کرکے افغانستان سے نکل گیا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو80سال قید کی سزا دینا امریکی عدالت انصاف کے منہ پر طمانچہ تھا۔ گوانتا ناموبے میں قیدیوں کیساتھ غیرانسانی سلوک اور عراق کو تباہ و برباد کرنے کے بعد یہ کہنا کہ غلط اطلاعات پر ہم نے غلط فہمی میں یہ حرام پنا کیا ہے۔ آخرت میں نہیں دنیا میں ایک عدالت انصاف کی سخت ضرورت ہے لیکن جب ہمارے ہاں اپنے گھروں، معاشرہ، ریاستی ، سیاسی اور عدالتی نظام میں انصاف نہیں ہوگا ۔ تو دنیا سے کیا انصاف طلب کریں گے؟۔ میڈیا نے 17سالہ بلوچ لڑکی کو بہت ہائی لائٹ کیا لیکن آخر کار دھرنا والے بھی اس کو چھوڑ کر چلے گئے۔ کیا اس کی اور اس کے گھروالوں کی حالت ڈاکٹر عافیہ صدیقی، ارشد شریف اور دیگر مظلوموں سے کم ہے؟۔ کتنے لوگوں پر مظالم کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں؟۔ اس کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ مہنگائی سے کتنے لوگوں کی حالت خراب ہے؟۔ سیلاب زدگان کیساتھ بھی وہ بھلائی نہیں ہوسکی ہے جس کی توقع تھی۔ جمعیت علماء اسلام کے جلسے میں سیلاب زدگان کے ٹینٹ بڑی تعداد میں بچھائے گئے تھے۔
پہلے فقہاء نے یہ مسائل مشہور کئے کہ اگر کسی کی چار بیویاں ہوں اور ایک کو طلاق دے اور یہ پتہ نہ چلے کہ کس کو طلاق دی ہے تو پھر چاروں کے ساتھ باری باری مباشرت کرے ، جس میں زیادہ لذت ہو ، اس کو حلالہ کیلئے پیش کرے۔ اسلئے کہ حرام میں زیادہ لذت ہوتی ہے۔ اب بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کسی خاتون نے ہمارے ساتھی سے طلاق کے بعد رجوع کیلئے رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ میں کس طرح سے بتاؤں کہ مجھ سے ایک مفتی نے حلالہ کیلئے کیا بات کی۔ شرم آتی ہے، اس نے کہا کہ تمہارا حلالہ بھی ہوجائے گا اور جماع بھی نہیں ہوگا۔ وہ اس طرح کہ ہمارے آدمی کے ساتھ آپ کو ایک کمرے میں بند کردیں گے۔ کپڑے بھی اتار دیں گے اور ننگا کرنے کے بعدتمہاری شرم گاہ پر صرف ہمارا آدمی اپنی شرمگاہ ٹچ کرے گا، داخل نہیں کرے گا۔ اس طرح سے حلالہ ہوجائے گا اور تمہیں اس کیلئے بس صرف ہماری فیس10ہزار روپے دینے پڑیں گے۔

___علماء دیوبند کے اکابر نے اعتراف کیا___
نبی کریم ۖ نے معاذ بن جبل کو یمن کا حاکم بنایا تو پوچھا: فیصلہ کیسے کروگے؟۔حضرت معاذ نے عرض کیا کہ قرآن سے!۔ نبی ۖ نے پوچھا : اگر قرآن میں نہ ملے تو؟۔ معاذ نے عرض کیا: نبی ۖ کی سنت سے!۔نبی ۖ نے پوچھا: قرآن وسنت میں نہ ملے تو؟۔ معاذ نے عرض کیا : پھر میں خود کوشش کروں گا۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ جس نے اپنے رسول ۖکے رسول کووہی توقیق بخش دی جس سے میں پسند کرتا ہوں”۔ عربی میں کوشش کو اجتہاد کہتے ہیں اور پیغام رساں کو رسول کہتے ہیں۔ بڑی بدقسمتی یہ تھی کہ ” اجتہاد” کو نہ صرف مستقل شعبہ سمجھ لیا بلکہ اجتہادات میں اختلاف و تضادات وبدعات کو دین کا حصہ بنادیا۔ غسل ، وضو کے فرائض سے لے کر نکاح وطلاق جیسے اہم معاشرتی معاملے کے علاوہ معاشی مسائل تک اختلاف اور تضادات کے مستقل فقہی مسالک اجتہاد کے نام پر کھڑے کردئیے گئے۔ جس کے نتیجے میں عبادات، معاشرت اور معاشیات میں اجتہاد کے نام پر بالکل جدا جدا الگ تھلگ مذاہب بھی گھڑ لئے گئے ۔ بس ان کو صرف الگ الگ رسول کا نام دینا باقی رہ گیا تھا۔قرآن نے یہ نسخہ تجویز کیا ہے کہ ” حق آیا تو باطل بھاگ گیا، بیشک باطل تو تھابھاگنے کیلئے ”۔ایک دن پارلیمنٹ کے حال میں سب کو جمع کیا جائے اور سب سے کچھ معاملات پر ان کا مؤقف پوچھ لیا جائے اور قوم کو لائیو دکھایا جائے تو معاملہ حل ہوجائے گا۔ہم یہ گارنٹی دیتے ہیں کہ اگر تمام مسالک کے مخلص لوگ اکٹھے ہوجائیں تو دین کے اندر تضادات کا خاتمہ ہوجائے گا اسلئے کہ قرآن اور نبی ۖ ایک ہیں اور ایمان بھی ایک ہے اور قرآن نے ہر چیز کو الجھایا نہیں ہے بلکہ واضح کیا ہے اور اس میں تضاد بھی نہیں ہے۔
ان اجتہادات کیخلاف عام لوگوں نے نہیں بلکہ علماء دیوبند کے اکابر نے اعتراف کیا کہ قرآن وسنت کی خدمت کی ضرورت ہے اور انہوں نے دین کی کوئی خدمت نہیں کی۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے40سال تک درس نظامی کا نصاب پڑھایا تھا ۔جب شریف مکہ نے گرفتار کرکے آپ کو انگریز کے حوالے کیا تو مالٹا کی قید میں دماغ کی شریانیں کھل گئیں کہ ”امت کے زوال کے دوسبب ہیں۔ ایک قرآن سے دوری اور دوسرا فرقہ واریت” ۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع اس پر لکھتے ہیں کہ ”فرقہ واریت بھی دراصل قرآن سے دوری کی وجہ سے ہے اسلئے امت کے زوال کا ایک ہی سبب ہے اور وہ ہے قرآن سے دوری”۔ شیخ الہند کے بارے میں کوئی کہہ سکتا ہے کہ اسیرمالٹا کو جیل میں خدا کا یاد آنا فطری بات تھی لیکن عملی طور پر کسی مولوی نے فرقہ واریت سے توبہ اور قرآن کی طرف رجوع نہیں کرنا تھا۔ حالانکہ شیخ الہند کے شاگرد مولانا عبیداللہ سندھی نے یکسوئی سے اس مشن کو اپنایا تھا۔ علاوہ ازیں یہ بھی انوکھی خبر ہے کہ مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا رشیداحمد گنگوہی کے شاگرد شیخ الہند نے تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا لیکن مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری نے ساری زندگی درسِ نظامی کی تدریس میں گزار دی اور پھر آخر میں فرمایا کہ ” میں نے اپنی ساری زندگی ضائع کردی”۔ مفتی محمد شفیع نے عرض کیا کہ ” حضرت آپ نے ساری زندگی قرآن وحدیث کی خدمت کی ہے اور آپ کیوں ایسا سوچتے ہیں کہ زندگی ضائع کردی؟”۔ مولانا انور شاہ کشمیری نے فرمایا:” میں سچ کہتا ہوں کہ میں نے قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی ہے بلکہ فقہ کی وکالت میں اپنی ساری زندگی ضائع کردی ہے ”۔( وحدت اُمت: مفتی شفیع)۔رسول اللہ ۖ نے حضرت معاذ بن جبل سے پوچھا کہ کوئی مسئلہ پیش ہو تو اس کا حل کہاں تلاش کرو گے؟۔ حضرت معاذ نے عرض کیا تھا کہ قرآن میں !۔ حدیث وفقہ اور مذہبی کتابوں میں بیوی کو ”لفظ حرام” کیلئے سات سمندروں میں غوطہ زنی کے مرتکب مذہبی ناسور طبقے نے قرآن کی طرف کیوں دیکھنے کی زحمت نہیں کی؟۔ یہ مسئلہ تو سورۂ تحریم میں اللہ نے اپنے رسول ۖ کی سیرت کے ذریعے سے حل فرمادیا ۔

___القائے شیطانی کا درست اور غلط تصور___
حاجی محمد عثمان جب تبلیغی جماعت کے منبر پر وعظ فرماتے تو عوام بڑی متأثر ہوتی تھی ۔ جب دوسرے اکابر تقریر کرتے توحاجی عثمان پنڈال میں عوام کیساتھ بیٹھ جاتے تھے۔ رائیونڈ مرکز میں حاجی محمد عثمان کا یہی معمول ہوتا تھا اور کھانے پینے اور اٹھنے بیٹھنے میں عوام وخواص کے درمیان الگ الگ دسترخوان کی مخالفت کرتے تھے۔ جب یہ اختلاف بعض اکابراور ان کے ٹاؤٹ کو برداشت نہیں ہوا تو حاجی محمد عثمان کے خلاف یہ الزامات لگانے شروع کردئیے کہ ان کی وجہ سے جماعت شخصیت پرستی کا شکار ہورہی ہے۔ تبلیغی جماعت کے مرکزی امیر کیلئے مولانا سعد کا نام حاجی عبدالوہاب نے پیش کیا تھا۔ مولانا سعد مولانا محمد الیاس بانی تبلیغی جماعت کے پڑپوتے ہیں۔ جب مولانا سعد نے تبلیغی جماعت کے عالمی مرکز بستی نظام الدین میں عوام وخواص کے اندر الگ الگ دسترخوان کا سلسلہ ختم کیا اور جن لوگوں نے بیرونی ممالک تبلیغ کے نام سے اپنی قوم کے افراد کو آباد کرنا شروع کیا تھا ،ان کا نیٹ ورک توڑ دیا تو بغاوت ہوگئی۔ اگر حاجی محمد عثمان کی بات اس وقت مان لی جاتی تو نہ صرف آج تبلیغی جماعت کے مراکز رائیونڈ اور بستی نظام الدین متحد رہتے بلکہ بریلوی اور اہلحدیث کو بھی اپنی اپنی جماعتیں بنانے کے بجائے اسی کام سے منسلک ہوکر اصلاح کا کام کرتے۔
مولانا طارق جمیل نے ایسے رنگ میں پیش کیا جیسا اللہ نے حضرت خولہ کے جذبات سے متأثر ہوکر آسمان سے نبیۖ کے خلاف اپنا فتویٰ بدل دیا ہو۔ حالانکہ ظہار کا مسئلہ شیطان نے مذہبی اجتہاد کے سبب بگاڑ دیا تھا تو جب عورت کو مسئلہ پیش آیا اور نبیۖ نے ماحول کے مطابق غلط فتویٰ دیا تو اللہ نے اپنی آیات کے ذریعے اس شیطانی فتوے کو بہت واضح الفاظ میں غلط قرار دیاہے۔
وماارسلنامن قبلک من رسولٍ ولانبیٍ اِلّآ اذا تمنّٰی القی شیطٰن فی امنیتہ فینسخ اللہ مایلقی الشیطٰن ثم یحکم اللہ اٰیٰتہ واللہ علیم حکیمOترجمہ :” اور ہم نے آپ سے پہلے کسی رسول اور نبی کو نہیں بھیجا مگر جب اس نے تمنا کی تو شیطان اپنی بات اس کی تمنا میں ڈال دیتاتھا۔ پس اللہ منسوخ کردیتاتھا جو شیطان نے ڈالا ہوتاتھا ، پھر اپنی آیات کو محکم بنادیتا تھا اور اللہ بہت علم اور بہت حکمت والا ہے۔ (سورہ الحج آیت52)
نبی کریم ۖ نے مذہبی ماحول سے فتویٰ دیا کہ ” ظہار کے بعد عورت شوہر پر حرام ہوجاتی ہے” تو اصل میں یہی غلط مذہبی ماحول ہی القائے شیطانی تھا جس پراللہ نے محکم آیت نازل کی۔ پہلے بھی انبیاء کرام و رسل عظام متاثر ہوئے۔ اللہ نے حضرت آدم وحواء سے فرمایا: ” اس درخت کے قریب نہ جانا” ۔ پھر شیطان نے ان کو شجرة الخلد کا وسوسہ ڈال کر بہکایا ۔ فعصٰی آدم وغویٰ ” پس آدم نے نافرمان ہواتو سرکشی کی”۔ (القرآن)۔ اللہ نے زمین کا خلیفہ بنانے سے پہلے حضرت آدم وحواء کے واقعہ سے یہ عبرتناک سبق سکھایا کہ کس طرح شیطان ورغلاتا ہے؟۔ انبیاء کی رہنمائی اللہ اپنی وحی سے کرتا ہے لیکن غیرانبیاء اس شرف سے محروم ہوتے ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے امتی نبی کا دعویٰ کرکے دجال ہونے کا ثبوت دیا۔ نبیۖ کے دور میں ابن صیاد ایک طرف کہتا تھا کہ وہ مسلمان ہے اور دوسری طرف نبی ۖ کو امیوں کا نبی اور خود کو تمام دنیا کا نبی کہتا تھا۔ دونوں ملعونوںمیں بڑی مماثلت بھی تھی۔ایک کو نبی کریم ۖ سے جان کی امان ملی اور دوسرے کو اکابر نے جانی نقصان نہیں پہنچایاتھا۔ ابن عباس کے باپ نے بعد میں اسلام قبول کیا تھا اسلئے شیطانی آیات کے حوالہ سے ابن عباس کی روایت سنداً صحیح ہے مگرمشرکین مکہ کے غلط پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے۔

___ حرام کو حلال کرنے کے غلط تصورات___
نبی کریم ۖ نے ظہار کے مسئلے پر شیطان کے بچھائے جال پر فتویٰ دیا تو اللہ تعالیٰ نے محکم آیات سے تدارک کردیا تھا۔ یہ صرف رسول اللہ ۖ کی سیرت طیبہ کا اعلیٰ نمونہ ہے تاکہ قیامت تک آنے والے علماء حق اس بات پر پہچانے جائیںکہ جب حق واضح ہوجائے تووہ شیطانی وسوسے پر ڈٹنے کی غلطی نہیں کرتے۔ اللہ نے سورہ مجادلہ میں ماحول کی نزاکت کے مطابق یہ بھی فرمایا ہے کہ ” مائیں صرف وہی ہیں جنہوں نے اس کو جنا ہے” لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آیت کے ظاہری الفاظ سے یہ منطق بنائی جائے کہ سوتیلی ماں سے نکاح جائز ہے ۔ جیسا کہ اسلام سے پہلے مذہبی شیاطین الانس و الجن نے اپنے وسوسوں اور فتوؤں سے یہ کارنامہ انجام دیاتھا اور پھر اللہ نے محرمات کی فہرست میں پہلے نمبر پر رکھ کر اس کی تردید کی اور فرمایا کہ ” نکاح مت کرو،جن عورتوںسے تمہارے آبا ء نے نکاح کیا ہے مگر جو پہلے گزر چکاہے۔ بیشک یہ فاحشہ وناگوار ہے اور بہت برا راستہ ہے ”۔ (النساء آیت22)
امام ابوحنیفہ اسلئے امام اعظم کہلائے کہ درباری بننے اور قاضی القضاة (چیف جسٹس ) کا عہدہ کو قبول کرنے کے بجائے جیل میں زہر سے شہادت کی موت کو ترجیح دی۔ ابویوسف نے قاضی القضاة کا عہدہ قبول کرکے درباری امام کا درجہ حاصل کرلیاتھا۔ امام بوحنیفہ نے دین کی سمجھ میں اپنی کوشش کا سکہ رائج کیا تھاجبکہ امام ابویوسف کے فتوے صرف دربار کی حد تک ہوتے تھے۔
اہل سنت کا اعتقاد یہ ہے کہ مجتہد اپنے اجتہاد میں غلطی اور ٹھیک بات پر پہنچ سکتا ہے۔ اجتہاد کی بھی شرائط ہیں کہ کون اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس پر بھی اختلاف ہے کہ اجتہاد کا دروازہ کھلا ہواہے یا بند ہوچکا ہے؟۔ سودی بینکاری کو اسلامی قرار دینا بھی اجتہادی مسئلہ سمجھاجاتا ہے کہ اس میں اجتہاد کرنے والا ٹھیک ہے یا غلط ہے؟۔ جو لوگ اجتہاد کے دروازے کو بند سمجھتے تھے تو انہوں نے اجتہاد کے نام پر سودی نظام کو حلال قرار دینے کا بڑے معاوضہ کے تحت ٹھیکہ اٹھالیا ۔ اس کا اتنا طوطی بولتا ہے کہ اگر وہ کہے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے قلیل معاوضہ لینے کو منع کردیا ہے اور میں زیادہ معاوضہ لے رہاہوں۔ مدارس سے اپنے بچوں کو نکال کر بینکوں میں بڑی بڑی پوسٹوں پر بٹھادیا تو اس کے معتقدین کی ایک بڑی تعداد اپنے ہاتھوں سے چوتڑ بجاکر کہے گی کہ واہ زبردست ،کیا دلیل دی ہے شیخ الاسلام نے ؟۔گذشتہ شمارہ میں ہم نے انجینئر مرزا محمد علی کواسلئے اہلحدیث قرار دیا کہ وہ شیخ زبیر علی زئی سے عقیدت رکھتے ہیں اور مفتی محمد انس مدنی نے مرزا کو بے پیندے کا کتابی قرار دیا ۔ محمد علی مرزا خود کو اہلحدیث نہیں کہتا اسلئے ہماری طرف سے دونوں کا دل دکھنے پر بہت بہت معذرت۔ شیخ زبیر علی زئی ایک ساتھ تین طلاق کے قائل تھے ، ہمیں نہیں پتہ کہ وہ بھی…۔
مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنی کتاب ” تقلید کی شرعی حیثیت ” میں لکھ دیا ہے کہ ”ائمہ کے بعد اجتہاد کا دروازہ بند ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا تھا کہ ایسا وقت آئیگا اور علم آسمان پر اٹھالینے سے نہیں اٹھے گا بلکہ علماء کے اُٹھ جانے سے اٹھے گا۔ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تولوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنالیںگے۔ لوگ ان سے فتویٰ پوچھیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے اور خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریںگے”۔ (بخاری ومسلم ) ائمہ مجتہدین میں اجتہاد کی صلاحیت تھی اور ان کے بعد علم اٹھ گیا ہے اور اس کے بعد جنہوں نے تقلید نہیں کی اور اجتہاد کیا تو وہ خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کررہے ہیں”۔ مفتی محمد تقی عثمانی کی یہ کتاب ہوسکتا ہے کہ مارکیٹ سے غائب کردی جائے ۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے اپنی کتاب ” عصر حاضر حدیث نبوی ۖ کے آئینہ میں” اس حدیث اور دیگر احادیث کو موجودہ دور پر فٹ کیا تھا اور وہ مارکیٹ سے غائب کردی گئی ہے۔ جس میں معاشی، سیاسی، معاشرتی ، علمی ، حکمرانی اور تہذیبی ہرطرف سے زوال انحطاط کے ماحول کی زبردست نشاندہی کی گئی ہے۔

___حضرت عمراور ذو الخویصرہ میں فرق___
جب پانی نہ ملے تو چاہے وضو کی ضرورت ہو یا غسل کی قرآن میں تیمم کا حکم ہے۔قرآن میں دوسری جگہ نشے کی حالت میں نماز کے قریب جانے سے منع کیا گیا ہے اور حالت جنابت میں بھی لیکن مسافر کو اجازت ہے یہاں تک کہ غسل کیا جائے۔ قرآن کے احکام میں کوئی ابہام نہیں کہ وضو اور غسل کیلئے تیمم کا ایک ہی حکم ہے۔ جب حضرت عمار نے غسل کیلئے تیمم میں لوٹ پوٹ ہونے کا عمل کیا تو نبی ۖ نے فرمایا: ” وضو کی طرح غسل میں بھی چہرے اور ہاتھ کا تیمم کافی ہے”۔ حضرت عمر نے نبیۖ سے عرض کیا کہ ” سفر میں جنابت سے تیمم نہیں کیا، نماز پڑھنی چھوڑ دی تھی ”۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ”آپ نے اچھا کیا”۔
حضرت عمر کا عمل قرآن کے مطابق بالکل درست تھا اور نبیۖ نے اس کی تصدیق بھی کردی ،اسلئے کہ اللہ نے جنابت میں نماز کے قریب جانے سے منع کیا ہے لیکن مسافر کو غسل کے بغیر نماز پڑھنے کی تیمم سے صرف اجازت دی ہے لیکن اگر کوئی نماز نہیں پڑھے تو اس کی گنجائش ہے۔ نبیۖ کو معلوم تھا کہ ذوالخویصرہ کے شدت پسند پیروکار صحابہ کرام سے بھی زیادہ نماز کی پابندی کا اہتمام کریںگے جس کا امت کو بہت نقصان پہنچے گا۔ تبلیغی جماعت کے امیر مولانا نذرالرحمن کی ویڈیو سوشل میڈیا پر پھیلائی جارہی ہے ۔ ڈاکٹر نے آنکھوں کاآپریشن کرنے کے بعد منع کیا ہے کہ سجدہ مت کریں۔ ذوالخویصرہ کی ذریت اس کو اعزاز سمجھ کر سیدھے سادے لوگوں کو گمراہ کرنے کیلئے پھیلارہے ہیں۔ نبیۖ نے صحابہ کی ایک جماعت سے فرمایا کہ بنوقریضہ پہنچ کر نمازِ عصر پڑھو! تو بعض نے راستے میں نماز پڑھ لی اور بعض نے پہنچ کرمغرب کیساتھ قضاپڑھ لی۔ نبیۖ نے اس پر گرفت نہیں کی اور نہ یہ فرمایا کہ نماز کیوں قضا کی؟۔اور نہ یہ فرمایا کہ آئندہ نماز قضا مت کرو۔ نبیۖ کا مقصد اندھیرے سے پہلے پہنچنا اور کسی ناگہانی خوف سے بچانا تھا۔ جب وہ صحیح سلامت پہنچ گئے تو یہ بھی نہیں فرمایا کہ ”میرے حکم کے مطابق وقت پر وہاں کیوں نہیں پہنچے؟”۔
اللہ نے طلاق ، رجوع اور عدت کے مسائل میں نماز خوف کا ذکرکیا :حٰفظوا علی الصلوٰت و الصلوٰة الوسطٰی و قوموا للہ قٰنتینOفان خفتم فرجالًا او رکبانًا فاذآ اٰمنتم فاذکروا اللہ کما علّمکم مالم تکونوا تعلمونOترجمہ :” نمازقائم کرو، خاص کر بیچ کے نماز کی اور اللہ کیلئے عاجزی سے قیام کرو۔پس اگر تم ڈرو تو پیدل چلتے ہوئے یا سواری کرتے ہوئے ( نماز پڑھو) پس جب تمہیں امن حاصل ہوجائے تو ایسا ذکرکرو( نماز پڑھو) جیسے تمہیں سکھایا گیا ہے”۔(البقرہ آیت238،239)۔ یہ حالت جنگ کی بات نہیں بلکہ خوف کی کوئی بھی ایسی صورت ہوسکتی ہے۔
حالت جنگ میں نما ز کی تلقین نہیں ۔ یہ بیت بازی شاعرانہ بکواس ہے کہ
آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز قبلہ روہوکے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
حالت جنگ میں سر بسجود ہونے کے بعد ایک ساتھ محمود اور ایاز کا سر اور گردن کدو اور توری کی طرح کاٹ دیا جاتا۔ یہ بھی جھوٹ لگتا ہے کہ امام حسین نے حالت جنگ میں سجدہ کرتے ہوئے دشمن کو جان دی تھی البتہ دشمن نے دھوکہ دیا ہو تو الگ بات ہے۔ میدان جنگ میں لڑنے والوں کو اس بات کا پتہ ہے کہ رکوع وسجود اور معمولات کے مطابق نماز پڑھنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ اقبال نے کبھی سیاسی قید نہیں کاٹی ہے جب مولانا محمد علی جوہر نے کہا کہ آپ بھی قربانی دیں تو علامہ اقبال نے کہا کہ اگر قوال وجد میں آیا تو پھر قوالی کون گائے گا؟۔

___جنگ نہیںسفر کی نماز میں خوف کا حکم___
نماز سفر میں جنگ کا کوئی ذکر نہیں۔ نبیۖ موجود ہوں تو سفر میں نماز کی ترتیب بتائی ہے۔نبیۖ کو خطرات کا سامنا تھا اسلئے یہ بھی واضح فرمادیا کہ اگر آپ ۖ نماز باجماعت کا اہتمام کریں تو جانثار صحابہ کیلئے یہ احکام ہیں۔
واذا ضربتم فی الارض فلیس جناح علیکم ان تقصروا من الصلوٰة ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا ان الکٰفرین کانوا لکم عدو مبینًاO”اور جب تم سفر کو جاؤ تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ نماز میں سے کچھ کم کرو۔ اگر تمہیں خوف ہو کہ تمہیں آزمائش میں ڈال دیںگے ، بیشک کافر تمہارے لئے کھلے دشمن ہیں”۔ (النساء آیت101)
اس آیت میں ایک تو نماز سفر کی یہ وضاحت ہے کہ قصر کرنے میں حرج نہیں ہے۔ اگر امام صاحب مسافر ہیں اور مقتدی مقیم ہیں اور مقتدیوں کی بڑی تعداد ہے تو مسافر امام پوری نماز پڑھائے۔ تاکہ مقتدیوں کو خلفشار کا سامنا نہیں کرنا پڑے کہ فاتحہ پڑھنے کی اجازت ہے یا نہیں؟۔ اگر کوئی امام ہٹ دھرمی کرے تو اس کو نماز نہیں پڑھانی چاہیے۔ دوسرا یہ کہ امریکہ وغیرہ خواتین جب عوامی مقامات پر نماز پڑھتی ہیں تو یہ بھی بڑا فتنہ ہے کہ جب وہ سجدے میں جاتی ہیں تو پیچھے کھڑے ہوکر کافر اس کا مذاق اڑارہے ہوتے ہیں۔ ایسے فتنے اور آزمائش میں پڑھنے کے بجائے اپنی نماز اسی جگہ ختم کرکے قصر یعنی مختصر کریں اسلئے کہ جب اللہ نے پیدل چلتے اور سواری میں بیٹھتے ہوئے بھی نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے تو تماشا اور فتنہ بننے کی کیا ضرورت ہے؟۔ جس کا حکم اللہ نے سورہ بقرہ کی آیات238اور239میں واضح فرمادیا ۔ ایک طرف نماز کے اہتمام کا حکم ہے اور دوسری طرف اس میں کسی طرح کے خوف کی شکل میں پیدل اور سواری کرتے ہوئے سہولت کا حکم ہے اور یہ اعتدال ہی اسلام کا تقاضہ ہے۔
واذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلوٰة فلتقم طائفة منھم معک ولیأخذوا اسلحتھم فاذا ……………… ”اور جب آپ (اے نبیۖ) خود ان میں موجود ہوں اور نمازکیلئے پڑھانے لگیں تو ان میں سے ایک گروہ آپ کیساتھ اسلحہ لیکر کھڑے رہیں۔ جب وہ سجدہ کریں تو پیچھے ہٹ جائیں اور دوسرا گروہ آئے جنہوں نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھیں اور اپنے ہوش وحواس کے ساتھ اور اپنے اسلحے کیساتھ بیدار رہیں۔ کافر چاہتے ہیں کہ اگر آپ غافل ہوجائیں اپنے سامان اور اپنے اسلحہ سے تو یہ یک بارگی تم پر دھاوا بول دیں۔ اور کوئی گناہ نہیں کہ اگر تہیں کوئی تکلیف ہو بارش یا بیماری کے سبب کہ اپنے اسلحہ کو رکھ لو۔ مگر اپنے ہوش وحواس کو برقرار رکھو۔ بیشک اللہ نے کافروں کیلئے ذلت کا عذاب تیار کررکھاہے”۔ (النساء :102)
اس آیت میں جنگ نہیں بلکہ سفر کا ذکر ہے۔ نبی کریم ۖ کی ذات کو خاص طور پراور مسلمانوں کو عام طور پر خطرات کا سامنا رہتا تھا۔ اس کا احوال سمجھنے کیلئے موجودہ دور میںVIPشخصیات کیلئے پروٹوکول کا اہتمام ہے۔ خصوصاً جب سے دہشتگردی کا معاملہ شروع ہوا ہے تو حفاظت پر مأمور دستوں کو اپنے فرائض کی سمجھ ان آیات سے سمجھ میں آئے گی۔ قرآن تمام ادوار اور حالات کی رہنمائی کرتا ہے اور نبیۖ کے علاوہ کوئی ایسی شخصیت نہیں ہے کہ جس کے پیچھے نماز پڑھنے کی سعادت حاصل کرنے کیلئے لوگ ترس رہے ہوں۔
واذا قضیتم الصلوٰة فالذکروا اللہ ……” اور جب تم نماز پوری کرچکے ہو تو اللہ کا ذکر کرو۔ کھڑے ہوئے، بیٹھے ہوئے اور اپنی کروٹوں پر۔ پھر جب تم مطمئن ہوجاؤ تو نماز قائم کرو۔ بیشک نماز مؤمنوں پر فرض کی گئی ہے اوقات پر”۔ (النسائ: 103)یہ نماز خوف کا بیان ہے جس میں نماز بالکل ختم کرکے پوزیشن بدل سکتی ہے اور پھر اٹھتے ، بیٹھتے اور کروٹیں بدلتے ہوئے اللہ کو یاد کرنے کی بات ہے۔ یہ بہت بیوقوفی کی بات ہے کہ خطرات سے بڑھ کر حملہ ہوجائے اور مسلمان پھر بھی ستو پی کر نماز کی تکمیل پر لگے ہوئے ہوں۔

___اہل حق اور اہل باطل کو مشکل کا سامنا___
ولا تھنوا فی ابتغاء القوم ان تکونوا تأ لمون ……. ” اور سستی سے کام مت لو اس قوم کی تلاش میں۔اگر تم ان کی وجہ سے درد میں مبتلاء ہو تووہ بھی اسی طرح سے درد میں مبتلاء ہیں جیسے تم ہو۔ اور تم اللہ سے جو امید رکھتے ہو وہ ایسی امید نہیں رکھتے ہیں۔ اور بیشک اللہ بہت جاننے والا حکمت والا ہے”۔ (النساء آیت:104)آج افغانستان کو داعش اور پاکستان کو تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے جن مشکلات کا سامنا ہے اس میں دونوں طرف مسلمان ہیں اور دونوں طرف سے اپنے اپنے حق میں دلیل پکڑتے ہیں۔ جب تک قرآن کے احکام واضح نہیں ہوںگے تو مشکلات سے ہم نکل نہیں سکیںگے۔ قرآن وسنت کی طرف درست توجہ کرنے کے بعد ہماری قوم کسی صحیح نتیجے پر پہنچ سکتی ہے۔ پاکستان کی میڈیا پر ریاست کے افسران اور طالبان کی طرف سے بڑے پیمانے پر بھتہ خوری کے عجیب وغریب الزامات سامنے آرہے ہیں۔
انآ انزلنا الیک الکتٰب بالحق لتحکم بین الناس بما ارٰی ک اللہ ولا تکن للخآئنین خصیمًاO”بیشک ہم نے تیری طرف کتاب اتاری ہے حق کیساتھ تاکہ آپ فیصلہ کریں لوگوں کے درمیان جو اللہ نے آپ کو دکھایا ہے۔ اور خیانت کرنے والوں کی طرف سے کبھی جھگڑالو مت بنو”۔ (النساء آیت:105) جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے خائن شخص کا ساتھ دیا تو دوسرے دن پھر وہ خیانت کا مرتکب کھڑا تھا۔ جس کی وجہ سے حضرت موسیٰ مشکل میں پڑگئے تھے۔
واستغفراللہ ان اللہ کان…..O……….” اور اللہ سے بخشش مانگنا، بیشک اللہ بخشنے والا رحم والا ہے۔اور جو لوگ اپنی جانوں کیساتھ خیانت کرتے ہیں ان کی طرف سے مت جھگڑنا۔ بیشک اللہ پسند نہیں کرتا ہے جو خائن گناہگار ہو۔یہ لوگ اللہ سے چھپتے ہیں لیکن اللہ سے نہیں چھپتے۔ اور وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ راتوں کو ایسی بات کرتے ہیں جس سے اللہ راضی نہیں ہوتا ہے۔ اور اللہ ان کے اعمال کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ یہ تم ہی ہو وہی لوگ جو ان کی طرف سے بحث کرتے ہو تو کون ان کی طرف سے اللہ کیساتھ بحث کرے گا؟۔ یا کون ان کا وکیل مقرر ہوگا؟۔ اور جو شخص برا عمل کرے یا اپنے اوپر ظلم کرے پھر وہ اللہ سے معافی مانگے تو پائے گا اللہ کو غفور رحیم ۔ اور جو گناہ کماتا ہے تو وہ اپنے نفس کیلئے کماتا ہے۔ اور بہت جاننے والا حکمت والا ہے۔ اور جو کوئی غلطی کمائے یا کوئی گناہ ۔ پھر اس کا الزام کسی بے گناہ پر لگادے تو اس نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ اپنے اوپر رکھا۔ اور اگر آپ پراللہ کا فضل نہ ہوتا اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ایک گروہ نے قصد کیا تھا کہ آپ کو راستے سے ہٹادے۔ لیکن یہ راستے سے نہیں ہٹاسکتے ہیں مگر اپنی جانوں کو۔ اور آپ کو کچھ ضرر نہیں پہنچا سکتے ہیں۔ اور اللہ نے آپ پر کتاب نازل کی اورحکمت اور سکھایا وہ جو آپ نہیں جانتے تھے۔ اور اللہ کا فضل آپ پر بہت بڑا ہے ۔اور بہت ساری سرگوشیوں میں خیر نہیں ہے مگر یہ کہ کوئی صدقے کا حکم دے،یا معروف کایا لوگوں کے درمیان صلح کا۔ جو اللہ کی رضا جوئی کیلئے ایسا کرے گا تو اس کو ہم اجر عظیم دیں گے۔ اور جو ہدایت کا راستہ واضح ہونے کے بعد بھی رسول کی مخالفت کرے اور مؤمنوں کی راہ کے علاوہ چلے تو ہم اس کو ادھر پھیر دیںگے اور جہنم میں پہنچادیںگے اور بہت برا ٹھکانہ ہے۔ بیشک اللہ معاف نہیں کرتا کہ اس کیساتھ شریک کیا جائے اور اسکے علاوہ جس کیلئے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے اور جو اللہ کیساتھ شرک کرے تو وہ دور کی گمراہی میں جاپڑا ”۔ (النساء آیات:106 سے 116)

___اللہ نے اہل کتاب کو غلو سے منع کیا___
نظام بدلنے کیلئے ضروری ہے کہ اللہ کے احکام سمجھنے کے بعد ان میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ فقہاء کا اختلاف ہے کہ عورت کو ہاتھ لگنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟۔ جب نبیۖ نماز پڑھتے تھے تو کبھی حضرت عائشہ کے پاؤں کو ہٹانے کی ضرورت پڑتی تھی جب نیند میں سامنے آجاتے تھے۔ اگر نبیۖ نے یہ فرمایا کہ عورت کو مس کرنے کے بعد وضو کرو تو اس سے مراد کیا ہے؟۔ حدیث ہے کہ انزال کے بغیر نبیۖ غسل نہیں کرتے تھے تو اس کا مطلب واضح ہے کہ جماع کی ایک صورت میں غسل اور دوسری صورت میں وضو کا عمل تھا۔ جن احادیث میں عورت کو ہاتھ لگانے سے وضو کا حکم دیا گیا تو مراد صرف ہاتھ لگانا نہیں ہے بلکہ جماع کا وہ عمل ہے جس میں انزال نہ ہوا ہو۔ امام ابوحنیفہ نے ہاتھ لگانے سے جماع کا عمل مراد لیا اور بعض نے عورت پر ہاتھ لگنے سے بھی وضو کا معاملہ بنالیا تھا۔ بہر حال یہ معاملات بھی خوش اسلوبی سے حل ہوسکتے ہیں۔
امام ابوحنیفہ نے ہاتھ لگنے پر حرمت مصاہرت کا حکم نہیں لگایا تھا بلکہ ہاتھ لگنے سے مراد جماع تھا۔ بیوقوف فقہاء نے معاملہ کہاں پہنچادیا تھا۔ درسِ نظامی میں ہے کہ ”ساس کی شرمگاہ کوباہر سے شہوت کیساتھ دیکھنے میں عذرہے اور شرگاہ کے اندر شہوت سے نظر پڑگئی تو اپنی بیوی حرام ہوجائے گی”۔ اور جب اللہ نے واضح کیا: وامّھٰتُ نساء کم وربآئبکم الّٰتی فی حجورکم من نساء کم الّٰتی دخلتم بھن فان لم تکونوا دخلتم بھن فلا جناح علیکم ”اور تمہاری بیگمات کی مائیں اور تمہاری وہ سوتیلی بیٹیاں جو تمہارے حجروں میں ہیں، تمہاری ان بیویوں سے جن میں تم نے داخل کیا ہے اور اگر تم نے ان میں داخل نہیں کیا ہے تو تم پر کوئی گناہ نہیں ”۔ (النسائ:23)
اس آیت میں فقہی کتابوں میں حرمت مصاہرت کے انتہائی گھناؤنے مسائل کا جڑ سے خاتمہ ہے۔ ایک طرف جس عورت سے کوئی شادی کرتا ہے تو اس کی ماں معلوم ہوتی ہے اور اس کی ماں سے نکاح کرنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا ہے اسلئے اتنا بھی کافی تھا کہ حرمت کی فہرست میں وہ داخل ہیں۔ دوسری طرف ہوس پرست انسان سے بعید نہیں ہوتا ہے کہ اپنی بیوی کی دوسرے شوہر سے جوان بیٹی کو دیکھ کر اس کی نیت خراب ہوجائے اسلئے واضح الفاظ میں بتادیا ہے کہ جو تمہارے حجروں میں پلی ہیں اور جن کی ماؤں میں تم نے داخل کیا ہے تو ان کے بارے میں نیت کی خرابی کی راہ میں بڑی رکاوٹ کھڑی کرکے ان کو محرمات کی فہرست میں ڈال دیا۔ تیسری طرف القائے شیطانی کے وہ اجتہادات تھے جن سے مذہبی ماحول کے آلودہ کرنے کے خطرات تھے کہ کہاں سے کہاں پہنچاکر مذہبی طبقات دم لیںگے؟۔ ان تمام لغو ولایعنی ، بیہودہ ، گھناؤنے مسائل کی توڑکیلئے آیت کے الفاظ کافی ہیں کہ بیوی میں دخول بھی شرط ہے تاکہ انقلاب آئے تو علماء حرف غلط کی طرح ان کو مٹادیں۔
اصل مسئلہ یہ تھا کہ جس حنفی مسلک میں حرمت مصاہرت کا مسئلہ بہت واضح تھا لیکن امام ابویوسف نے معاوضہ لے کر جب بادشاہ کو فتویٰ دیا کہ اپنے باپ کی لونڈی سے جماع کرنے کی شریعت میںاجازت ہے تو اس کے خلاف امام ابوحنیفہ کے دوسرے شاگرد حضرت عبداللہ بن مبارک نے آواز بلند کی جو ایک بڑے فقیہ، محدث ، مجاہد اور صوفی تھے۔ درباریوں نے عبداللہ بن مبارک کی مقبولیت سے گھبرا کر فقہ کے نصابِ تعلیم سے اس کا نام خارج کردیا۔ آمریت کے دور میں بہت اہل حق کا خون ہوا ہے۔
امام ابویوسف کی تاریخ دہرائی گئی۔ حرمت مصاہرت میں انتہائی غلو اور باپ کی لونڈی کوبیٹے کیلئے جائز قرار دیاگیا۔ دارالعلوم کراچی نے شادی بیاہ کے موقع پر لفافوں کی لین دین کو بھی سود اور70سے زیادہ گناہوں، وعیدوں اور وبالوں میں سب سے کم درجے کاگناہ اپنی ماں کیساتھ زنا کو قرار دیا تھا۔ دوسری طرف پھر عالمی سودی بینکاری کا اسلام کے نام پر جواز پیش کردیا ۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

شہباز شریف کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ محترم آصف زرداری سے ملاقات کریں۔
میری کوئی نیکی نماز روزہ زکوٰة قبول نہیں ہوئی کہا گیا جمعیت کا کارکن ہے اس کے بدلے تجھے جنت دی جاتی ہے۔ کشف
پہاڑوں سے لاشیں آتی ہیں تو لواحقین کو انتہائی اذیت ہوتی ہے