پوسٹ تلاش کریں

It is not only difficult but also impossible to bring to light the facts behind the Noor Muqaddam murder case. In the battle between the elephant and the ant, the ant dies. Apparently, Jafar’s gang is an elephant.

It is not only difficult but also impossible to bring to light the facts behind the Noor Muqaddam murder case. In the battle between the elephant and the ant, the ant dies. Apparently, Jafar’s gang is an elephant. اخبار: نوشتہ دیوار

ہم کوئی بندوق کی گولی یا راکٹ لانچر کا گولہ نہیں مارتے بلکہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر سب کی خیرخواہی چاہتے ہیں۔دنیا میں فساد کی جڑ امریکہ اور اس کی آلۂ کار شیطانی قوتیں ہیں مگر ہماری خواہش ہے کہ وہ بھی شیطانیت کا روپ چھوڑ کر انسانیت کی اعلیٰ قدروں کی طرف آجائیں۔دنیا میں کمزور مظلوم ہیں، سب سے بڑی مظلوم جبری ریپ کا شکار ہونے والی وہ عورتیںاور بچیاں ہیں جن کو موت کے گھاٹ اتارکر پھر انکی عزت بھی اُچھالی جاتی ہے!

نور مقدم وہ بدقسمت عورت ذات ہے جس کوبدمعاشوں کے گینگ نے اپنے مقاصد کیلئے ہدف کا عنوان بناکرنہ صرف بڑے بہیمانہ طریقے سے قتل کیا بلکہ اس کی عزت پر حملہ کرکے انکے عزتدار خاندان کو بھی انتہائی اذیت دیکر گھناؤنا کھیل کھیلا جارہا ہے

َََََََََََََََََََََََََََََِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِاسلام آباد میں سابق سفیر شوکت علی مقدم کی بیٹی نور مقدم کو بہت اذیتناک طریقے سے اسکا سر تن سے جدا کیا گیا۔ کورنگی ساڑھے 5نمبر کراچی میں ایک 6 سالہ بچی کو جبری جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد گردن توڑ کر شہیدکردیااور اس کی لاش کچرے میں پھینک دی اور یہ اس علاقے کا پہلا نہیں بلکہ چوتھا پانچواں واقعہ ہے۔ پولیس نے قاتل رکشہ ڈرائیورکو گرفتار کرلیامگر یہ ظلم کب ختم ہوگا؟۔ کیا ان مظالم کے اپنے گھروں تک پہنچنے کا انتظار کریں؟۔ ہمارا ناکارہ معاشرتی، مذہبی ، ریاستی، عدالتی ، حکومتی ، جمہوری اور ڈکٹیٹری نظام بالکل ناکام ہوچکا ہے۔
اگرہمارا معاشرتی نظام اچھا ہوتا تو ایسانہیں ہوتا لیکن ہمارے ہاں کیوں یہ وحشی درندوں سے بدتر انسان کی شکل میں شیطان بستے ہیں؟۔ جب پاکستان میں ”عورت آزادی مارچ” منانا شروع کیا گیا تو بعض لوگوں نے ان پر بہت سخت تنقید شروع کردی۔ جماعت اسلامی کے بانی مولانا سیدابواعلیٰ مودودی نے لکھا ہے کہ نبیۖ نے عورتوں کو مارنے پر پابندی لگائی تھی ۔ جب صحابہ نے شکایت کی صحابیات بہت زیادہ منہ پھٹ ہوگئی ہیں تو نبیۖ نے انکے مطالبے پر مارنے کی اجازت دیدی۔ دوسرے دن 70،80خواتین نے احتجاجی جلوس نکالا اور نبیۖ سے مردوں کے مارنے کی شکایت کردی۔ جس پر نبیۖ نے مرد صحابہ کرام کی ڈانٹ ڈپٹ کردی کہ ان کے ساتھ غلط ہوا ہے۔
اللہ نے قرآن میںغیرت کی بنیاد پر عورت کے قتل کی جگہ لعان کا قانون نافذ کردیا۔ سورۂ نور میں اللہ نے واضح کیا کہ ” اللہ کے نور کی مثال اس چراغ کی ہے جس پر شرق وغرب کا اثر نہیں پڑتا ”۔ پہلے مشرق ومغرب کی ہواؤں میں بڑا فرق تھا، جب عزیز مصر نے دیکھا کہ اس کی بیگم زلیخا نے حضرت یوسف پر غلط ہاتھ ڈالا اور حضرت یوسف بالکل معصوم و بے گناہ ہیں تو اپنی بیگم کو نہیں مارا۔ حضرت یوسف بے گناہ مجرم بناکر قید ہوئے۔ مگر رسول اللہۖ کو پتہ چل گیا کہ ” آپ کی لونڈی حضرت ماریہ قبطیہسے ایک قبطی ملتا ہے تو حضرت علی کو اسکے قتل کا حکم دیا مگر حضرت علی نے دیکھا کہ وہ مقطوع الذکر ہے تو اس کو چھوڑ دیا”۔ یہ حدیث قرآن کی آیت نہیں لیکن مشرق ومغرب کی غیرت کا معاملہ بہت مختلف تھا۔ عرب سے زیادہ برصغیر خراسان کے پشتونوں، ہندکے راجپوتوں، سندھ کے سندھیوں، بلوچستان کے بلوچوں اور پنجاب کے پنجابیوں کا پردہ تھا جو اللہ کو پسند تھا توننگا طواف کرنے والے حجازکے عربوں کو بھی گونگھٹ لٹکانے اور اپنے سینوں پر چادریں لپیٹنے کا حکم دیدیا اور اس میں زور وجبر کا مسئلہ نہیں تھا ۔ لونڈیوں کا بہت مختصر ترین لباس بھی اسلام اور مسلمانوں کیلئے قابلِ قبول تھا۔
درسِ نظامی کی احادیث میں پڑھایا جاتا ہے کہ مدینہ میں ایک خوبرو عورت ناچ اور گاناگارہی تھی، حضرت امیر حمزہ نے شراب پی تھی۔جب گلوکارہ نے شعر گایا ،جس کا مفہوم یہ ہے کہ ” لوگوں کیا ہے کہ موٹی موٹی فربہ اونٹنیوں کے پیر نہیں کاٹتے؟” تو حضرت امیر حمزہ نے حضرت علی کی اونٹنی کے پیر کاٹ ڈالے۔ حضرت علی نے نبیۖ سے شکایت کی اور نبیۖ نے اسکا نوٹس لیکر امیر حمزہ سے کہا کہ یہ کیا کیا ہے؟۔ حضرت حمزہ نے کہا کہ جاؤ، تمہارا باپ میرے باپ کے اونٹ چراتا تھا۔ نبیۖ سمجھ گئے کہ نشے میں ہیں اور واپس چلے گئے۔
اسلام نے وحی کے قانون، خلافت اور بہترین معاشرتی اقدار سے ماحول کو درست کیا تھا۔ آج کاا سلام ہوتا تو کوئی شدت پسند خود کش حملہ کردیتا اور کوئی حضرت حمزہ پر نبیۖ کی توہین اور اذیت کی تہمت لگاکر قتل کردیتا۔ علماء کرام اپنے منبر ومحراب سے قرآن وسنت کی درست آواز اُٹھائیں تو بات بن جائے۔
نور مقدم کے قتل کے وقت ظاہر جعفر کی بہن آمرہ اسی گھر میں موجود تھی لیکن وہ کیسے لندن پہنچ گئی ؟،یہ رپورٹ پولیس اور عدالت نے کیوںطلب نہیں کی؟۔ ظاہر جعفر کا سات لاکھ روپے طلب کرنا،نور مقدم کے ڈرائیور سے والدین سے چھپاکر 3 لاکھ دینا اورنور مقدم کا یہ آخری پیغام دینا کہ مجھے تلاش نہ کرنا قتل کردی جاؤں گی ۔ ظاہر جعفر کے دو ساتھی مراد جمالی اور ماہر کانور کو لانے میںکردار یہ سب واضح کرتے ہیں کہ ظاہر جعفر منظم گینگ کا حصہ تھا اور نور مقدم کو منصوبہ بندی سے عبرتناک انجام تک پہنچانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ پیسے بٹورنے، بلیک میلنگ اور عیاشی کیلئے قائم نام نہادکاؤنسلنگ سکول کے مرکزی کردار ظاہرجعفر، ماہر اور مرادجمالی بھی ہیں اور ان کو کوگرفتار کرکے منطقی انجام تک پہنچایاجائے۔
عورت آزادی مارچ میں دو خواجہ سراؤں نے پوسٹر اٹھائے تھے جن کیساتھ جبری جنسی زیادتی کی جاتی تھی۔ جس کی ہدی بھرگڑی اور عصمت رضا شاہجہان وغیرہ نے بھرپور وضاحت بھی کی تھی لیکن پھر بھی عورت مارچ کے خلاف مہم جوئی کی گئی کہ ”ان کا مشن ،اپنا جسم اپنی مرضی ہے”۔ حالانکہ مغرب میں عورتیں مکمل آزاد ہیں تو پھر وہ جنسی آزادی کیلئے ”عورت مارچ” کیوں کریںگی؟۔ وہ بھی جبری جنسی استحصال اور اپنے حقوق کیلئے عورت آزادی مارچ مناتی ہیں۔ جب میڈیا نے اشتعال دلایا تو پاکستان میں عورت مارچ میں ردِ عمل کے طور پر پوسٹر اٹھائے گئے ۔ ہمارے ہاں سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید کرنے کی پالیسی غلط ہے۔
نور مقدم قتل کیس کے پیچھے پسِ پردہ حقائق کو منظر عام پر لانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن لگتا ہے۔ ہاتھی اور چیونٹی کی لڑائی میں چیونٹی مرتی ہے۔ اس کیس میں ایک بائیس گریڈ کے افسر اور معروف کاروباری شخصیت کا واردات کے وقت اس قاتل سے رابطے میں رہنا اور انکے نام کو صیغۂ راز میں رکھنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ظاہر جعفر کا گینگ ایک ہاتھی ہے۔ کم لکھے پڑھے لوگ یہ بات نہیں جانتے ہیں کہ کاؤنسلنگ اور اس کے سکول سے کیا مراد ہے؟۔ ظاہر جعفر کی والدہ نے اسلام آباد میں یہ سکول کھولا ہے اور اس میں ٹیچر پیسے لیکر ذہنی امراض کے شکار لوگوں کا بات چیت اور مسلسل ٹریننگ کے ذریعے سے علاج کرتے ہیں۔
ظاہر جعفر کا پہلا رابطہ نور مقدم سے اس سکول میں ہوا۔ اشرافیہ کو شریف سمجھ کر نور مقدم کے والدین نے ظاہر جعفر سے نور مقدم کا علاج کرانا شروع کردیا۔ نور مقدم کے والدین اور نور مقدم مذہبی رحجانات کے حامل تھے لیکن جب ایک اعتماد کا رشتہ ہوتا ہے اور معالج اور مریضہ کا معاملہ ہوتا ہے تو بات کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ ظاہر جعفر کی بہن بھی نور مقدم کی دوست تھی۔ اردو میں سہیلی کی جگہ پر اب عورتوں اور لڑکیوں نے بھی دوست کا لفظ عام طور پر استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ نورمقدم کے والدین کو یہ معلوم نہیں تھا کہ سکول کے نام پر اسلام آباد میں کیا گینگ چل رہاہے؟ اوریہ بات کہاں تک پہنچے گی؟۔ پسِ پردہ ذہنی امراض کے علاج کے نام پر جو ادارہ چل رہا تھا اس میں امیر زادہ لوگوںکی لڑکیوں کو اپنا ہدف بناکر لوٹ مار ، ریپ ، بلیک میلنگ ، قتل اور ہر طرح کے جرائم کے عادی مجرم اپنی عیاشی بھی کرتے تھے اور پیسہ بھی بناتے تھے۔ اگر کسی ذہنی مریضہ سے کہا جائے کہ کاؤنسلینگ کیلئے سیرو تفریح ، ہوٹل اور گھروں میں کھیل کود وغیرہ ضروری ہیں اور پھر ان کو خفیہ طور پر مشروبات میں نشہ آور اشیاء کا عادی بھی بنادیا جائے اور عورت ذات کی ویڈیوز بناکر ان کو بلیک میل بھی کیا جائے تو اشرافیہ کے جال میں کتنے شریف لوگ پھنس گئے ہوں گے؟۔ ایک واقعہ کی خبر آئی ہے جس میں چارلڑکیاں ظاہر جعفر کی کاؤنسلنگ کے بعد نشے میں حادثے کا شکار ہوگئی تھیں۔ نورمقدم کے خلاف ناجائز تعلقات اور فحاشی کے پیچھے گینگ کا پیسہ چل رہا ہے۔
عورت آزادی مارچ میں جو نعرہ خواتین سے غیرانسانی،غیر اسلامی سلوک اور جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف اُٹھ رہاتھا،ان کو قابو کرنے کیلئے اسلام آباد میں ریاست گردی ، حکومت گردی اور ملا گردی کوناکامی کاسامنا کرنا پڑا تھا۔عورت مارچ کے منتظمین نے جان پر کھیل کر اپنا مارچ کامیاب بنایا تھا۔ اب ظاہر جعفر گینگ نے اس مافیا کی خدمات مستعار لی ہیں یا پھر اس مافیا نے ظاہر جعفر گینگ کو ہدف دیا ہے کہ عورت آزادی مارچ کو بدنام کرنے کیلئے یہ کھیل کھیلا جائے؟۔ سوشل میڈیا پر بے ضمیر اور بے غیرت قسم کا طبقہ روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرکے گھناؤنے جرائم کاجو کھل کر اظہار کررہا ہے یہ قیامت کی نشانی ہے۔ حسان ہاشمی اور عکاشہ گل وغیرہ سوشل میڈیا میںجس طرح بے شرمی سے اس کیس کو غلط رپورٹ کررہے ہیں ،یہ پیسہ پھینک تماشہ دیکھ سے بڑھ کر سنگین معاملہ ہے۔ عورت آزادی مارچ کاپدر شاہی کے خلاف آواز اُٹھانا ان کا سب سے بڑا جرم سمجھا جارہاہے ورنہ فوج میں اس کی ترقی بھی نہیں ہوسکتی ہے جس کی آل واولاد میں مذہبی رحجانات پائے جاتے ہوں۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے کرتے دھرتے کے ہاں کونسے ملاعمر اور طالبان کی طرح پردہ ہے؟۔
نامور مصنف اور شخصیت طارق اسماعیل ساگر ہرموضوع پر جو بہتر سمجھتے ہیں، وہی بول لیتے ہیں۔نور مقدم کے قتل پر ساگر نے بھی دل کی خوب بھڑاس نکالی اور معاشرے پر ماتم اور سوزِ دل کا اظہار بھی کردیا ہے۔ بقیہ صفحہ 3 نمبر 1

بقیہ… نور مقدم کو بہیمانہ طریقے سے قتل کیا
طارق اسماعیل ساگر کے رحجانات بظاہر مذہبی اور فوجی نوعیت کے ہیں۔ اس نے نور مقدم پر الزام لگایا ہے کہ اس کا تعلق ”میرا جسم اور میری مرضی ” والیوں سے تھا اور اس کے والدین نے جو آزادی اس کو دی تھی تو اسکا نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ نور مقدم نے تشدد سے بچنے کیلئے آخر کار کھڑکی یا روشندان سے چھلانگ بھی لگادی تھی اور پھر اس کے ملازموں نے اس کیلئے زخمی حالت میں بھی دروازہ نہیں کھولا تھا اور نہ ہی پولیس کو اطلاع دی تھی۔ ظاہر جعفر نے پھر اس کو بالوں سے پکڑا اور سیڑیوں سے گھسیٹ کر اسی کمرے میں لے گیا۔ نور مقدم کے سر کو تن سے جدا کیا گیا تھا اور اس کے جسم پر پستول سے کئی فائر بھی کئے گئے تھے۔ یہ افغانستان اور عراق کی کسی جنگ کامنظر نہیں بلکہ ہمارے دارالخلافہ اسلام آباد کا پوش ایریا تھا جس سے ہماری یہ اُمید ہے کہ اس کی ہاں اور ناں میں دنیا کی ہاں اور ناں ہوگی۔
طارق اسماعیل ساگر نے اپنی غیرت، اپنے ایمان ، اپنے علم اور اپنی سمجھ کے مطابق اس کو میرا جسم میری مرضی کے کھاتے میں ڈال کر اپنی ہمدردی کا بھی خوب اظہار کردیا اور یہ ماحول کا حصہ ہوتا ہے۔ جب امریکہ کے بلیک واٹر نے محترمہ بینظیر بھٹو کا قتل کیا تو طارق اسماعیل ساگر کو معلوم تھا کہ راوالپنڈی روات میں بلیک واٹر کا مرکز ہے ۔ جہاں جرائم پیشہ پولیس اور کورٹ مارشل میں سزایافتہ برطرف کئے گئے جرائم پیشہ فوجیوں کو بڑے معاوضوں پربھرتی کیا جاتا ہے جو اس خطے کو دہشتگردی اور جرائم کا گہوارہ بنائے ہوئے ہیں تو ساگرصاحب نے اس پر کوئی زبان نہیں کھولی تھی ۔ اگر وہ بقول اسکے جان کیلئے لاحق خطرات کی وجہ سے زباں نہیں کھول سکتے تھے تو کم ازکم ایک بے نام مراسلہ لکھ دیتے کہ یہ کاروائی بلیک واٹر کی بھی ہوسکتی ہے کیونکہ بینظیر بھٹو نے پشاور میں طالبان کو فی کس دو سو ڈالر ماہانہ تنخواہ دینے کا کھل کر ذکر بھی کیا تھا۔ بینظیر بھٹو کے قتل پر سندھ کی علیحدگی کا خطرہ پیدا ہوا تھا۔صوبہ سرحد اور بلوچستان جل رہے تھے۔ طارق اسماعیل ساگرکی یہ بڑی خدمت ہوتی کہ اپنی اسٹبیبلشمنٹ سے اس الزام کا خاتمہ کرکے پاکستان کو بچانے میں اپنا کردار ادا کرتے۔ مجاہدین کے سر سے بھی بدنامی کا الزام ہٹ جاتا اور پاک فوج بھی صاف ستھری قرار پاتی۔
پھرطارق اسماعیل ساگراپنی کتاب میں اسکا ذکر کرتے تو یہ جاسوسی کی تاریخ میں سب سے زیادہ مضبوط ، اہم ترین اور قابلِ عزت واحترام کارنامہ ہوتا لیکن افسوس کہ اس وقت طارق اسماعیل ساگرنے کچھ نہیں کیا۔ ایک بینظیر بھٹو نے جو کچھ کیا تھا اس کی قیمت بھی گولی کھاکر شہادت اور بم دھماکوں سے چکادی تھی۔ آج ہمارا پیارا وطن اور سب کا سہارا وطن خطرات کی دہلیز میں گھرا ہوا ہے اور اگر اللہ نے رحم نہ فرمایا تو ہمارے حالات سانحۂ مشرقی پاکستان، عراق ، لیبیا اور شام سے بھی بدتر ہوسکتے ہیں۔ مجرمانہ کردار نہ صرف عوام ، ریاست اور حکومتوں کا ہے بلکہ خواص بھی اس مجرمانہ غفلت میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔
نور مقدم کے والد، والدہ اور خاندان والے ڈبل صدمے کا شکار ہیں ۔ایک تو بیٹی کا بہت بہیمانہ قتل اور دوسرا پھر میرا جسم میری مرضی کے دلخراش طعنے۔ طارق اسماعیل ساگر نے پتہ نہیں کہ افسانوی کتابیں لکھی ہیں یا تحقیقی ؟۔ لیکن اس کیس میں ایک ذمہ دار شخص کی طرح تحقیق کے تقاضے پورے کرتے تو بہت بہتر ہوتا۔ نور مقدم نفسیاتی مریضہ تھی اور ظاہر جعفر نے اس کو علاج کے بہانے بلیک میلنگ کا شکار کردیا تھا۔ ظاہر جعفر کا یہ جرم تھا کہ وہ جس ادارے میں بیٹھ کر نفسیاتی علاج کرتا تھا ،اس کی سند نہیں رکھتا تھا۔ اس جرم کے اصل کردار اسکے والدین اور وہ تمام بااثر اشرافیہ ہے جو یہ گینگ چلارہاہے۔ اگر ڈاکٹر خالد محمودسومرو کا کیس فوج اپنی عدالت میں چلاسکتی ہے تو اس کیس کو بھی فوجی عدالت میں چلایا جائے۔
نور مقدم کے والدکو اس پدرِ شاہی نظام سے انصاف کی کیا امید ہوسکتی ہے جو نور مقدم کو تازیانہ عبرت بنانے کیلئے ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر دیکھ رہاہے؟۔ نورمقدم کے وکیل شاہ خاور نے جس طرح پولیس کی تفتیش مکمل ہونے اور پوری نہ ہونے پر سرد مہری کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ تک بھی بارہ دنوں کے بعد بھی معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے کہ موقع واردات پر موجود ملزم کی بہن کہاں ہے؟ اور وہ کس طرح لندن پہنچ گئی ہے؟۔ مجرم کے جعلی ٹکٹ جاری کئے گئے تھے لیکن مجرمہ بہن کے اصل ٹکٹوں کا بھی پتہ نہیں لگایا گیا۔ مصطفی کانجونے ایک بیوہ کے اکلوتے بیٹے کو شہید کرنے کے بعد بھی اس کی بیٹیوں کی عزت دری کی دھمکی پر کیس واپس لینے پر مجبور کیا تھا تو مصطفی کانجو ایک فرد تھا اور ظاہر جعفر کے پیچھے بہت بڑا مافیا کھڑا ہے۔ صحافیوں اور نورمقدم کے والدین پر کتنا بڑا پریشر ہوگا؟۔
ایک طرف پیسہ بٹورنے والے گینگ کے کٹھ پتلی ظاہر جعفر کو ذہنی مریض اور دوسری طرف ایک ذہنی مریضہ نور مقدم کو بے حیا ء مجرمہ ثابت کرنیکی کوششوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گینگ کتنا مضبوط ہے؟ اسلامی حکومت ہوتی تو نورمقدم پر بہتان لگانے والوں کو80،80کوڑے لگاکر انکی ویڈیوز الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر چلائی جاتیں اور اس گینگ کے ایک ایک جرم اور ایک ایک مجرم کا معلوم کرکے سب کو قرار واقعی سزا بھی دی جاتی۔ کوئی غریب مجرم ہوتا تو پولیس و عدلیہ کا یہ رویہ بھی نہ ہوتا۔ شائستہ کنڈی پہلی خاتون جج ہیں جس نے ملزم سے سوال کیا۔ہرفورم پر پتہ چل رہاہے کہ ملزم مجرم اور مکار ہے لیکن بااثر مجرم کو پروٹوکول کا ملنا بھی انصاف کا خون کرنے سے کم نہیں ہے۔یہ ہے اسلامی پاکستان؟۔
وزیرستان میں ایک شخص دوبئی سے آیا تو ایک خاندان نے دھوکے سے اس کو خاندان سمیت قتل کردیا۔ جب علاقے والوں کو پتہ چل گیا تو قاتل خاندان کو نہ صرف ماردیا بلکہ ان کی لاشوں کو بھی کئی دنوں تک ایک سڑک کے پل پر لٹکائے رکھا اور ان کے جنازے اور قبرستان میں دفن کرنے پر بھی پابندی لگادی لیکن ان میں ایک بوڑھے شخص کو عبرت کیلئے زندہ چھوڑ دیا۔ اگر انصاف کی حکومت ہوتی تو نور مقدم کے قاتل کے خاندان، گھر کے نوکر چاکراور جعلی ذہنی امراض کے ذمہ داروں کو اجتماعی پھانسی دیکر ان کی لاشیں عبرت کیلئے اسلام آباد کے کسی برج پر لٹکا دی جاتیں اور کسی ایک مجرم کو عبرت کیلئے زندہ چھوڑ دیا جاتا۔
طارق اسماعیل ساگر نے جس انداز سے نورمقدم میں بدکاری کے الزامات لگائے ہیں ،اگر اسلامی حکومت ہوتی تو اس پر 80کوڑے سرِ عام لوگوں کے سامنے برسائے جاتے۔ فرض کریں کہ ایک کچرہ کنڈی والے بچے سے طارق اسماعیل ساگر اپنے جسم کی مالش کراتا ہو اور پھر وہ اسکے ساتھ وہی برتاؤ کرے جو نور مقدم کیساتھ کیا گیا ۔ پھر الزام یہ لگایا جائے کہ طارق اسماعیل ساگر جنس پرستی کی موذی مرض میں مبتلاء تھا، اسکے چوتڑوں کی مالش کرتے ہوئے رنگ رلیاں مناتے ہوئے پھر اس کا یہ حشر کیا گیا تو طارق اسماعیل ساگر کی مردہ لاش اور اس کے لواحقین پر کیا بیتے گی؟۔ جب امریکہ کا بلیک واٹر پوری قوم کی ایسی کی تیسی کر رہا تھا تو یہ بے غیرت، بے شرم ، بے ایمان ،بدنسل اور کم ذات اس وقت خاموش تھا اور کسی شریف کی بیٹی کیساتھ زیادتی ہوگئی تو اس پر الزامات کی بارش کرنے میں ذرا بھی شرم ، حیاء ، غیرت، شرافت اور انسانیت کا مظاہرہ نہیں کرسکتا ہے؟۔
ہماری پاک فوج اور اسلام کو ایسے ہی بدذاتوں نے بدنام کرکے رکھا ہے اور سب سے پہلے انہی کے خلاف بڑے انقلاب کی سخت ضرورت ہے۔ شیخ رشید نے ٹھیک کہا کہ عدالتوں کا معاملہ ہے ورنہ میں قاتل کو بیس گولیاں مارتا۔ وسعت اللہ خان اور ضرار کھوڑو نے ڈان کے ذراہٹ کے میں ایک خاتون کو بلواکر بہت اچھا پروگرام کیا جس میں خاتون نے ”امت اخبار ” کی رپورٹنگ کی بھی تائید کی۔ جہاں نور مقدم کے معاملہ پر اچھی رپورٹنگ کی توقع نہیں تھی کیونکہ اس کا ٹریک ریکارڈ ایسا نہیں۔اللہ نورمقدم کوجلد انصاف اور لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔
ہم ذاتی ذرائع سے جانتے ہیں کہ شوکت علی مقدم بہت شریف مذہبی رحجان رکھنے والی شخصیت ہیں لیکن اس کی عزت کو تارتار کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

طالبان اور پاک فوج کے درمیان جنگ کو صلح میں بدلنے کیلئے ایک واقعہ کی تحقیق کی جائے!
چوہے کی بل سے آواز ایک بڑا راز ؟ فیس بک پر انگریزی کی تحریر کا ارود ترجمہ اور اس کاجواب!
پاکیزہ بات کی مثال پاکیزہ درخت کی طرح ہے اس کی جڑ مضبوط اور شاخیں آسمان میں ہیں