پوسٹ تلاش کریں

امریکی عزائم اور سبھی کے جرائم… یہ نازک ملائم اور چابک بہائم

امریکی عزائم اور سبھی کے جرائم… یہ نازک ملائم اور چابک بہائم اخبار: نوشتہ دیوار

behzad-azam

inqalabi-ashaar-bande-ko-khuda-kia-likhna-syed-atiq-ur-rehman-gailani

inqalabi-ashaar-bande-ko-khuda-kia-likhna-syed-atiq-ur-rehman-gailani-1

inqalabi-ashaar-bande-ko-khuda-kia-likhna-syed-atiq-ur-rehman-gailani-2

masood_azhar_Shamzai

جب میں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پڑھتا تھا، مدارس میں ان طلبہ کو باغی سمجھا جاتاتھا جو بحالی جمہوریت کی تحریک ایم آر ڈی میں شریک مولانا فضل الرحمن کو گمراہ نہ سمجھتے تھے۔ شریعت بل کی حمایت نہ کرنے پر حاجی محمد عثمانؒ نے جمعہ کے وعظ میں سخت لہجے سے کہا ’’ بڑے مفتی کے بیٹے نے شریعت بل کو نہ مانا تو اس کا نکاح کہاں باقی رہا؟‘‘۔ مریدوں کی چیخیں نکل گئیں اور میری بے ساختہ ہنسی چھوٹ گئی۔ موقع ملا تو میں نے اپنے مرشد حاجی عثمانؒ سے عرض کیا کہ مارشل لاء بذاتِ خود نظام ہے، شریعت بلوں سے نہیں نظام سے آئیگی تو انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کرلی فرمایامیرے پاس علم نہیں۔ ریفرنڈم کے موقع پر خانقاہ میں جب میں علماء کے فتوے کی مخالفت کررہاتھا تو مجھ سے اپنے اساتذہ مرید علماء نے کہا کہ ’’حاجی عثمان آپ کو حلقہ ارادت سے خارج کردینگے‘‘۔ میں نے کہا کہ ’’ایسا نہیں ہوگا، سیاست دارالافتاء کے مفتی اور خانقاہ کے صوفی کا کام نہیں‘‘۔جب کسی نے حاجی عثمانؒ کو ریفرنڈم کے فتوے کا پوچھا تو جواب دیا کہ ’’فتوؤں کو چھوڑ دو،تم 8سال سے آزماچکے ، اپنے ضمیر سے پوچھ لو، میرا دل نہیں مانتا کہ یہ شخص اسلام نافذ کریگا‘‘۔ جمعیت علماء اسلام کے مولانا شیرمحمدؒ کو میں نے بتایا تو خوش ہوگئے کہ علماء سے تو ایک صوفی زیادہ سمجھ دار ہے۔
جامعہ فاروقیہ میں مفتی نظام الدین شامزئی جمعیت (ف) میں تھے مفتی تقی عثمانی اپنے مرشد ڈاکٹر عبدالحی ؒ کو جنرل ضیاء کے بیٹے اعجازالحق کا نکاح پڑھانے لے گئے جسکی قادیانی جنرل رحیم کی بیٹی سے شادی تھی تو ہمارے اساتذہ نے مفتی تقی عثمانی کے اس روش پر افسوس کا اظہار کیا تھا، جب ڈاکٹر عبدالحیؒ کی میت کو دارالعلوم کراچی میں کندھا دینے جنرل ضیاء آیا تو میرا دل ہوا کہ کوئی پتھر،اینٹ یا کوئی مارنے کی چیز نظرآئے تو اٹھاکر ماردوں کوئی چیز نہیں ملی تو آنکھوں میں مٹی اٹھاکر پھینکنے کی طرف دھیان گیا مگر پھر سوچا کہ ڈاکٹر عبدالحیؒ کی میت کی بے حرمتی نہ ہوجائے ، البتہ جنرل ضیاء کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر غصے سے گھورا تھا، پھر اسکی وجہ سے سب کو میت سے ہٹادیا گیا مگر میں نے اس کا فائدہ اٹھاکر دیر تک کندھا دیا، وردی والوں کے علاوہ صرف میں عام آدمی سادہ کپڑوں والا تھا۔ جب علماء ومفتیان نے ہمارے مرشد حاجی عثمانؒ پر فتویٰ لگایا تو میں افغانستان میں حرکۃ الجہاد الاسلامی کے مولانا خالد زبیر شہید کیساتھ جہاد میں تھا۔
پوچھ گچھ کی گئی کہ کیسے آنا ہوا، بتایا کہ جہاد کو جنت کا مختصر راستہ سمجھ کر خود ہی آیا ہوں، وہ کہہ رہے تھے کہ ہمارے سوا باقی سب امریکہ کے ایجنٹ ہیں، میں نے قبائلی علاقہ سے خلافت کی تجویز پیش کی ،مرشد حاجی عثمانؒ کا بتایا کہ ان کی بھی یہ خواہش ہے اور کراچی کے بڑے مدارس اور فوج کے بڑے افسروں کی بڑی تعداد انکے حلقہ عقیدت میں شامل ہے۔روسی توپوں کی بھرمار میں بے خوف مجاہدین کا مشاہدہ اپنی عملی شرکت سے کیا۔جب مولانا مسعود اظہرکو بتایاتھا کہ مولانا زرولی کو حاجی عثمانؒ پر تہمت لگانے کی وجہ سے ڈرا کر آیا ہوں تو خوش ہوکر کہا کہ مفتی زرولی خان نے مولانا یوسف لدھیانوی کیساتھ یہ کیاتھا، مگر پھرجب حاجی عثمان پرفتویٰ لگانے کے بعدمیں نے علماء ومفتیان کو سرمایہ داروں کا ایجنٹ کہا تو مولانا اظہر ان کا دفاع کرنے آیا وہ میرے مہربان، مجھ سے ہمدردی اور بڑی محبت بلکہ عقیدت تک رکھنے والی شخصیت تھی۔ اس نے کہا کہ حاجی عثمانؒ کے اپنے سندیافتہ پہنچے ہوئے افق کے چاند کیوں مخالف ہوگئے؟، میں نے کہا کہ شیطان سے زیادہ پہنچا ہوا کون ہوسکتاہے؟۔ بعض صحابہ بھی مرتد ہوگئے تھے، قاری شیر افضل خان نے کہا کہ ’’میں اتنا جانتا ہوں کہ جو شخص دارالافتاء کے سامنے مفتیوں کو سرمایہ داروں کا ایجنٹ کہہ رہا ہے ، یہ باطل پر نہیں ہوسکتا‘‘۔ مولانا مسعود اظہر نے بعد میں کہا کہ اس اعدایہ فیل کو چھوڑدو، پہلے لوگ رشک کرکے تمہاری طرف انگلیاں اٹھاکر کہتے تھے کہ ’’ یہ بھی طالب علم ہے۔ اب تمہارا حلیہ دیکھ کر طلبہ خوف کھاتے ہیں کہ حاجی عثمان کا مرید دندناتا پھررہاہے ، کہیں کسی کو پیٹ نہ ڈالے‘‘۔
کچھ دنوں بعد مولانا مسعود اظہر کوپتہ چلا کہ میں نے علماء ومفتیان سے حاجی عثمان کے مغالطے پر اکابرین کیخلاف فتویٰ لیکر پھانس لیا، جسکی فوٹو اسٹیٹ پریہ شعر نقل کیا کہ ’’ہم ضبط کی دہلیز سے اترے تو سمجھ لو پھر شہرِ پُر اَسرار میں تم چل نہ سکو گے‘‘۔ مولانا مسعود اظہر مجھ سے خفا خفا لگ رہے تھے، دور سے دیکھ کر کنی کترائی اور ملاقات کا موقع نہ دیا۔ پھر مولاناجہا د پر گئے تو مفتی رشیدلدھیانوی کی سرپرستی میں چلنے لگے، جامعہ بنوری ٹاؤن نے ان کا نام اپنے مدرس کی حیثیت سے خارج کردیا، مفتی رشید نے مولانا بنوری ؒ کو بھی ستایا تھا، جمعیت علماء اسلام پر فتویٰ لگانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، مولانا مسعود اظہرجب انڈیا کی جیل میں بند ہوئے تو مجھے بڑا دکھ پہنچا مگرجب مفتی رشید لدھیانویؒ پر نوازشریف کی حکومت نے ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی تو تہاڑ جیل سے ضربِ مؤمن میں مفتی رشید کیلئے مولانا مسعود اظہر کا رونا دھونا شائع ہوا۔ میرا ماتھا ٹھنکا کہ مجھے ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں لکھنے کی اجازت نہیں تھی تو بھارت نے کیسے اجازت دی کہ مضمون لکھتے رہو؟ پھر مولانا مسعود اظہر کی ڈرامائی رہائی ہوئی، بارہ سرنگوں کی بات آئی کہ اسمیں ایک مولانا کے سائز کی بھی تھی تو میں نے اپنے اخبار ضرب حق میں لکھ دیا کہ ’’اس سائز کی ایک سرنگ سب کیلئے کافی نہ تھی‘‘۔ مولانا نے نئی جماعت کا اعلان کرتے ہی ہزاروں کی تعداد میں مجاہد ین شامل ہونے اور اسامہ بن لادن کی طرف چالیس ذاتی باڈی گارڈ قبول کرنے کا مژدہ بھی میڈیا کو سنایا تھا۔
میں نے شبہ ظاہر کیا تھا کہ ’’یہ امریکی سی آئی اے کی کوئی بڑی سازش ہوسکتی ہے‘‘۔ جیش کے سرپرست مفتی جمیل خان کا تعلق جنگ گروپ سے تھا، 9/11کے دن امریکہ سے وہ برطانیہ پہنچا توبرطانیہ نے واپس امریکہ کے حوالے کردیا، جس کوجلدہی چھوڑ دیا گیا،حامد میر جب اوصاف کا ایڈیٹر تھا تو اپنے اداریہ میں لکھا کہ ’’مفتی نظام الدین شامزئی نے کہا کہ بعض مجاہد ین رابطہ عالم اسلامی مکہ کے ذریعے واشنگٹن سے رقم لاکرعلماء کو خرید رہے ہیں، اگر اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ان کا بھانڈہ پھوڑ دونگا‘‘۔ ہم نے پرزور انداز میں آواز اٹھائی کہ ڈرو مت حق بتادو مگر اس پر عمل نہیں ہوا۔ پرویز مشرف نے بہت لوگوں کو امریکہ کے حوالہ کرکے گوانتانا موبے بھیجا لیکن مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کے بعد بھی نہ بھیجا۔ ڈان لیکس کے بعد فوج اورحکومت کا ایکدوسرے پر کالعدم تنظیم کے حوالہ سے الزام کوئی خفیہ بات نہیں۔ جنرل (ر) امجد شعیب وغیرہ نے بھی مولانا مسعود اظہر کو انڈیا کی طرف سے الزامات لگانے کے بعد مشکوک قرار دیا تھا۔
مولانا مسعود اظہر پر مفتی رشید نے جہاد کے بجائے مال ودولت بنانے کا الزام لگایا توجواب میں مولانا اظہر نے کہا کہ ’’ اس نے ہمارے اکابر پر بھی فتوے لگائے تھے‘‘۔ مولانا اظہر پہلے سے مفتی رشید کی قیادت میں کام کرنے سے انکار کردیتے تو اداکارہ نیلو اور ممتاز سے زیادہ مولانا اظہر کیساتھ یہ بات جچتی۔ مفتی محمودؒ کو اقبال کی شاعری بڑی اچھی لگتی تھی اور اقبال کو چاہتے بھی تھے لیکن مولانا حسین احمد مدنی کے خلاف اشعار کی وجہ سے کبھی اپنی تقریر میں علامہ کے اشعار نہیں پڑھے۔ اب یہ بڑی خطرناک بات ہے کہ مولانا مسعود اظہر کو امریکہ بہانا بناکر حملہ کردے۔مجھے اس بات کا یقین ہے کہ مولانا اظہر مغالطہ کھا سکتے ہیں ، اپنوں کیلئے استعمال ہوسکتے ہیں مگر غیر کے ایجنٹ کبھی نہیں ہوسکتے۔ محلاتی سازشوں کاشکار ہونے سے پہلے مولانا مسعود اظہرنے طلاق کے مسئلہ پر حق کا ساتھ دیا تو بھارت میں ایک اصلاح پسند عالمِ دین کی حیثیت سے دارالعلوم دیوبند اور بریلوی کے تمام مدارس کو تین طلاق کی مصیبت سے آزاد کرسکتے ہیں، جس سے کشمیر کی آزادی بھی ممکن ہوگی۔ مسلم خواتین کو فتوؤں کے ذریعے عزت دری سے بچایا جائے تو اس سے بڑا جہاد اور اسلامی نظام کی خدمت نہیں ہوسکتی۔ محمد بن قاسمؒ نے ایک خاتون کی عزت کیلئے سندھ فتح کیا ۔ عتیق گیلانی

shan-mother-neelo

لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو(اطہر مسعود ، بانڈھ ،نیٹ سے)
اب تو خیر اچھے خاصے ’’مرد‘‘ بھی حکمرانوں کے اشارہ اَبرو پر رقص کرتے نہیں شرماتے اور کئی تو ایسے ہیں کہ کئی حکومتیں گزر گئیں ان کا پیشہ نہیں بدلا لیکن ایک وقت تھا کہ عورتیں اور وہ بھی ڈانسر‘ جنہیں ہمارے ہاں بڑی تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے‘ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود حکمرانوں کی محفلوں میں ناچنے سے انکار کردیتی تھیں۔جنرل ایوب خان کا اقتدار عروج پر تھا‘ شاید شاہ ایران کو خوش کرنے کیلئے محفل سجائی گئی۔ اس وقت کی نامور ایکٹریس اور ڈانسر نیلو کو بلایا گیا اس نے انکار کردیا جس پر اسے گرفتار کرلیا گیا حبیب جالب نے لکھا
تو کہ ناواقفِ آدابِ غلامی ہے ابھی رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
چار مصرعے تھے جو بعد میں فلم ’’زرقا‘‘ کا ٹائٹل سانگ بنے‘ گانا مہدی حسن نے گایا۔ فلم نے بزنس کے ریکارڈ توڑ دیئے۔ ریاض شاہد جن کی نیلو سے شادی ہوچکی تھی فلم کے ہدایتکار تھے۔ اس شادی کا ایک نشان آج کا ہیرو شان ہے جو ایک تقریب میں جنرل پرویزمشرف کے سامنے اس طرح رقص کررہا تھا کہ اس کی والدہ بھی کیا کرتی ہوں گی133.؟
ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ایک ایسی ہی محفل لاڑکانہ میں سجائی۔ اس وقت کی خوبرو ترین اداکارہ ممتاز کی طلبی ہوئی‘ انکار پر تھانے لے جانے کی دھمکی دی گئی‘ جالب نے جو بھٹو کا معروف عاشق تھا لکھا
قصر شاہی سے یہ حکم صادر ہوا لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو

mumtaz-actress

قصرِشاہی سے یہ حکم صادر ہوا ، لاڑکانے چلو ۔۔۔۔۔۔ورنہ تھانے چلو
اپنے ہونٹوں کی خوشبو لٹانے چلو، گیت گانے چلو ۔۔۔۔۔۔ورنہ تھانے چلو
منتظر ہیں تمہارے شکاری ،وہاں کیف کا ہے سماں
اپنے جلوؤں سے محفل سجانے چلو، مسکرانے چلو ۔۔۔۔۔۔ورنہ تھانے چلو
حاکموں کو بہت تم پسند آئی ہو ،ذہن پر چھائی ہو
جسم کی لو سے شمعیں جلانے چلو، غم بھلانے چلو ۔۔۔۔۔۔ورنہ تھانے چلو

Habib-Jalib-Ashaar2

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟