جمعیت علماء اسلام کو مولانا شیرانی کے سپرد کرنے کا فیصلہ ہواہے:صابر شاکر
جنوری 26, 2021
ملٹری اسٹیبلشمنٹ و موجودہ حکومت کے حمایت یافتہ مولانا شیرانی نے کہا ہے کہ جمعیت علماء اسلام جمعیت علماء ہند کا تسلسل ہے، جمعیت علماء ہند پاکستان کو دھوکہ سمجھ رہی تھی اور ہم پاکستان کو دھوکہ سمجھنے کے مؤقف پرہی قائم ہیں
مولانا شیرانی صاحب پاکستان میں جمہوری جدوجہد کے بجائے انقلابی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں تو الیکشن کمیشن کا فیصلہ درست ہوگا کہ جمعیت علماء اسلام شیرانی کو سپرد کی جائے؟؟
جمعیت علماء اسلام کوئی اقتدار میں لائی جانے والی سرکاری موسم لیگ ہے جس کو اقتدار کیلئے ہردور میں نئے کام اور نئے نام سے تشکیل دیا جائے؟بچکانہ حرکتوں سے حکومت چلے گی؟
صابر شاکر نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور موجودہ حکومت کا یہ مشترکہ فیصلہ اپنی ویڈیو میں بتایا ہے کہ ” مولانا فضل الرحمن کو جمعیت علماء اسلام سے فارغ کیا جائیگا اور الیکشن کمیشن مولانا محمد خان شیرانی، حافظ حسین احمد اورگل نصیب کوجمعیت علماء اسلام سپرد کردیںگے۔ یہ فیصلہ ہوچکا ہے اور نیب بھی مولانا فضل الرحمن کے خلاف کاروائیاں تیز کردے گا۔ مولانافضل الرحمن کے داماد کو بھی اٹھائیس (28)جنوری کو طلب کیا ہے”۔
صابر شاکر نے کل تیئس (23)جنوری کو یہ خبر سنائی اور آج مولانا شیرانی نے کسی چیز کا افتتاح کرتے ہوئے اپنا مقدمہ پیش کیا کہ جمعیت علماء اسلام کی رجسٹریش کیسے ہوئی اور ساتھ میں کہا کہ جمعیت علماء اسلام جمعیت علماء ہند کا تسلسل ہے۔ جمعیت علماء ہند پاکستان کو دھوکہ قرار دے رہی تھی۔ ہماری جمعیت علماء اسلام آج بھی اپنے مؤقف پر قائم ہے کہ پاکستان کوئی ملک نہیں ہے محض دھوکہ ہے۔ سوشل میڈیا کی اس ویڈیو میں یہ بات چل رہی تھی کہ کسی نے ویڈیو میں اردو میں وضاحت پیش کردی کہ ہم پاکستان بھر میں اپنی مہم چلائیںگے۔ مولانا شیرانی صاحب کی تقریر پشتو میں تھی اور اے آر وائی (ARY)کا مائک بھی تھا۔ اس سے حکومت اور ریاست اور صابر شاکر کی صحافت کیا نتائج اخذ کرنا چاہتی ہے؟۔ شیرانی صاحب نے اسرائیل کو تسلیم کرنے پر بات کی تھی۔
(1) کیا ملک دشمن قوتوں کو پاکستان مخالف بیانیہ دیکر ملک وقوم کی خدمت ہورہی ہے؟۔ اگر یہی ایجنڈہ ہے تو پھرپی ٹی ایم (PTM)کے رہنماؤں کو کیوں گرفتا ر کیا ہواہے؟۔
(2) جب بار بار آئی ایس پی آر کی طرف سے وضاحت ہوتی ہے کہ ہم اپنے کام سے کام رکھ رہے ہیں اور سیاست میں مداخلت نہیں کرتے تو یہ کیا پیغام ہے؟۔
(3) اسرائیل کو تسلیم کرنے، بیت المقدس کو یہودکے حوالے کرنے کیلئے پی ٹی آئی (PTI)کی خاتون رکن نے قومی اسمبلی میں تقریر کی تھی تو کیا راہ ہموار کی جارہی ہے؟۔
حکومت زر خرید مولویوں کے ذریعے سے کچھ نہیں کرسکتی ہے لیکن شیرانی نے اگر جھنڈا اٹھالیا ہے تو یہ کسی اور مقاصد کی تکمیل کیلئے نہیں اپنے بلوچستان کی امارت کیلئے اٹھایا ہے۔ حکومت نے اسلام آباد سے بہت سی خواتین ٹیچر کو نوکری سے فارغ کیا ۔ ان کی مشکلات کو ختم کرنے کیلئے ان کی نوکریاں بحال کی جائیں۔ اسٹیل مل کے ڈھیر سارے ملازمین کو بحال کرکے اسٹیل مل کو منافع بخش ادارہ بنایا جائے۔ بلوچستان اور سندھ کے جزائر کو واپس کیا جائے۔ نوکریاں دینے پر رشوت ختم کی جائے۔ مشکلات میں پھنسے لوگوںکی مہنگائی سے جان چھڑانے کیلئے ٹیکس کو کم کیا جائے۔
حکومت اور اپوزیشن ٹام اینڈ جیری کا کھیل ختم کرکے مسائل حل کریں۔ جب عوام اٹھے گی تو ریاست، حکومت اور جعل سازوں کا سیاسی کھیل ختم ہوجائے گا۔ عوام کی مشکلات کے حل پر کسی کی بھی توجہ نہیں ہے۔ مدارس میں حلالہ کے نام پر عزتوں کو کھونے والی خواتین کیساتھ مدارس کے علماء ومفتیان کا ظالمانہ سلوک انتہائی خراب ہے۔ مولانا شیرانی، مولانا فضل الرحمن اور مولانا کفایت اللہ اس کی سزا کھائیں گے۔ حق کیلئے اتنی آواز کسی ٹی وی چینل سے بھی نہیں اُٹھ رہی ہے لیکن وہ وقت قریب ہے کہ انشاء اللہ پاکستان میں اسلامی حکومت ہوگی اور سارے دلال ختم ہوجائیںگے۔
پاکستان میں سیاسی، ملٹری وسول اسٹیبلشمنٹ کے کرپٹ مافیا نے نہ صرف اپنے واجبات وصول کئے ہیں بلکہ پینشن اور بونس کیساتھ بہت کچھ کھالیا ہے۔ تہتر (73) سالوں سے سول وملٹری اور سیاستدانوں کے تمام طبقات میں اچھے سے اچھے لوگوں کی کمی بھی نہیں رہی ہے۔ شیرانی صاحب اچھے انسان ہیں لیکن بڑھاپے کی وجہ سے ابھی اتنی صلاحیت ان میں نہیں رہی ہے کہ کسی جماعت کی قیادت کرسکیں۔ بلوچستان کی عوام کامذہب اور قوم پرستی کی طرف بہت رحجان ہے۔ پاکستان کے اداروں میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ ان کو مطمئن کرسکیں۔ بندوق کے زور پر کسی قوم کو غلام بنانا مشکل ہے۔
پاکستان معاشی اعتبار سے مسائل کا شکار ہے۔ دو روپیہ کی پیشکش پر امریکہ اور عرب کے علاوہ سب کا غلام بننے کیلئے اپنے پر ہمیشہ تولتا رہتا ہے۔ جب برطانیہ نے محسوس کیا کہ برصغیر پاک وہند اس کی حکومت پر بوجھ بنتا جارہاہے تو اس کو آزادی بھی دیدی اور شرمندگی کا داغ لگانے کیلئے یہ شرط لگادی کہ جرمن اور جاپان سے جنگ جیتنے کیلئے یہاں کی افواج قربانیاں دیں گی۔ اس وقت سے لیکر آج تک ہماری فوج بین الاقوامی مشن میں استعمال ہونے کو اپنا اعزاز سمجھتی ہیں۔ بنگال کے اندر سرنڈر ہونا بہت بری بات تھی لیکن بدقسمتی سے وہ داغ بھی لگ گیا اور اس سے زیادہ برا حال اس وقت تھا کہ جب طالبان دہشتگرد اپنی افواج ، پولیس اور عوام کو شہید کررہے تھے اور یہ بے بسی سے صرف دیکھ ہی سکتے تھے۔ اب اللہ نے اپنے فضل سے ایک پرامن فضاء کی صورت بنادی ہے لیکن اس کا فائدہ ہماری قوم اور ریاست نہیں اُٹھارہی ہے۔
پارلیمنٹ مکڑی کے جالوں پر کھڑی ہے اور اپوزیشن بھی مکڑی کے جالوں سے ہی آزاد ہوئی ہے۔ علماء اور مذہبی طبقات بھی مکڑی کے جالوں میں پھنسے ہیںاور جہادی تنظیموں کو بھی مکڑی کے جالوں میں پھنسایا گیا ہے۔ عدالتی نظام اور سول وملٹری کے ادارے مضبوط نہیں بلکہ مکڑی کے جالے ہی ہیں۔ بنگال سے یہاں کے حالات بھی کم نہیں ہیں لیکن کوئی مضبوط تنظیم اور جماعت نہیں ہے۔ آج اگر ہم نے آگ لگنے سے پہلے اپنی قوم اور ملک کو نہیں سنبھالا تو بہت مشکلات کا شکار ہوسکتے ہیں۔
ملک میں سارے عوام غلام کی طرح رہتے ہیں اور حکومت وریاست میں شامل لوگ عوام سے بڑھ کر غلامی کی زنجیر میں جتے ہوئے ہیں۔ سودی گردشی قرضے پر قرضہ چڑھ رہاہے۔ شیخ الاسلام اور مفتی اعظم پاکستان کا معیار یہ ہے کہ جمہور علماء اور اپنے اساتذہ کے برعکس حیلے سے سودی نظام کو اسلامی قرار دے دیا۔ یہ اس قدربے علم اور نالائق ہیں کہ قرآن کے ترجمے بھی غلط لکھ رہے ہیں اور تفسیریں بھی۔
مولانا فضل الرحمن کو چاہیے کہ زرداری اور نوازشریف کو چھوڑ کر حکومت کیساتھ مل کر اسلام کے معاشرتی اور معاشی نظام کی اصلاحات لائیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں وقت ضائع کرنے کی بجائے درست سفارشات مرتب کی جائیں ۔پارلیمنٹ کی گیلری میں بیٹھ کر بھی درست اسلام کی وضاحت کی جائے تو غیرمسلم اقلیت بھی اس کو قبول کرے گی۔انڈیا کی پارلیمنٹ میں ہندو خاتوں نے قرآن کے مسئلہ طلاق کو سب مذاہب کیلئے قابلِ قبول بلکہ قابلِ تقلید مسئلہ قرار دیا ہے۔
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
لوگوں کی راۓ