برصغیر پاک و ہند پر 8سو سالہ حکمرانی کے بعد انگریز نے قبضہ کیا اور آزادی و تقسیم ہند کے بعد پاکستان دو لخت ہوا اور اب تک کشمیر پر بھارت کا قبضہ ہے
جون 5, 2016
وزیراعظم کو لندن میں آرام کرنے کا صلہ اسلئے ملاکہ جیو ٹی وی چینل اور کچھ صحافیوں کے منہ میں کچھ ڈال کر خاموش کرادیا ،ورنہ تو ان کی بک بک چلتی تھی کہ صج پاکستان گیا یا شام تک نہ رہیگا،عوام کو حکومت جانے کا فرق بھی نہ پڑتا
نوازشریف زرداری کیطرح ڈاکٹر شاہد مسعود کو پی ٹی وی کا چیئرمین بنادے تاکہ پھر اے آروائی سے بھاگ جائے۔ عرفان صدیقی کی بات کااچھا صلہ دیاکہ صدرتارڑ نے پانچ جنرلوں کے سامنے گن پوائنٹ پر استفعیٰ نہ دیا۔
پانامہ لیکس سے شریف فیملی کی ساکھ متأثر ہوئی، بین الاقوامی سطح اور خطے میں پاکستان تنہائی کا شکار ہوگیا، اندرون و بیرون خطرات سے نمٹنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر پائیدار تبدیلی ضروری ہے قومی حکومت بنانا بہت بہتر رہے گا۔
ایران سے امریکی پاپندی ختم ہوئی، ایران سے چین براستہ افغانستان راہداری کامنصوبہ بھارت کیلئے خطے میں اثر ورسوخ بڑھانے کا ذریعہ ہے۔ پاکستان کو نظریاتی ، معاشی اور معاشرتی معاملات کے ذریعہ پائیداری درکارہوگی
مدارس، مساجد، مذہبی جماعتوں اور عوام نے اگرتبدیلی کا فیصلہ کرلیا تو جنرل راحیل شریف اور چیف جسٹس سمیت ملک کے تمام ریاستی اداروں کے سربراہ خوش ہونگے
پاکستان اب زیادہ آزمائشوں کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے، ہمیں روح اور اپنے اخلاقیات بدلنے کی ضرورت ہے، گوادر ہمارا سر ہے،بلوچ پاکستان کی عزت کے دستار ہیں، ہمارے رویے، غفلت اور ظلم وجبر کے باعث صرف بلوچ، پختون، سندھی ، مہاجر نہیں بلکہ پنجاب کی عوام سب سے زیادہ مظلوم ہیں، جہاں بدمعاش کلچر میں بیٹیوں کی عزت کو بھی سرِ عام تحفظ حاصل نہیں۔ ڈاکٹر اللہ نذر اور تمام بلوچ رہنما ملت اسلامیہ کے خلاف بین الاقوامی معاملہ کو سمجھ لیں، پوری اسلامی دنیا کے مسلمانوں کے خون سے زمین رنگین ہوگئی ، غیروں سے زیادہ اپنا عمل اور اپنی کمزوریاں ہاتھ کی ہتھکڑیاں اور پاؤں کی بیڑیاں بنتی ہیں۔
جس دن غیرتمند بلوچوں کو احساس ہوا کہ ہم غلام نہیں پاکستان کے سر کی دستار ہیں تووہ اعلان کریں گے کہ اکبر بگٹی کو فوج نے گھر میں نہیں مورچہ میں مارا ہے، لڑائی میں ایسا نہ ہو تو کیا ہوگا؟۔ ہم پاکستانی فوج کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہیں جتنا ان سے ہوسکتا تھا اتنا وہ ہمارے ساتھ نہیں کرتے تھے، جنگ میں کوئی فائدہ نہیں، ہم خود ہی دوستی کا ہاتھ بڑھادیتے ہیں، ہم سارے بھائی بھائی ہیں۔ اپنی قوم اور اپنے ملک کیلئے آج کے بعد ہم کوئی مشکل نہ کھڑی کریں گے تودنیا دیکھے گی کہ بہادر بلوچ ملتِ اسلامیہ کی امامت کررہے ہیں۔
طالبان نے نیٹو کیخلاف جانوں کے نذرانے پیش کئے، اب بندگلی کی طرف جانے اور مزید اپنا اور اپنی قوم و ملت کا نقصان کرنے کی بجائے اپنی خدمات طاقت کی بجائے علم کی شمع جلاکر پیش کریں۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ اسوقت ہوگی جب دنیا کو احسا س ہوگا کہ مسلم امہ میں دنیا کی بہترین انسانیت، زبردست اخلاقی اقدار اورسب سے اعلیٰ عدل و انصاف کا نظام ہے۔ دنیا کے پاس صرف قانون، زورزبردستی اور چیک اینڈ بیلنس کاہی سسٹم ہے مگر ہمارے پاس روحانی اور عقیدے کی بنیاد پر ایسا نظام ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔
مساجدومدارس،خانقاہوں وامام بارگاہوں، جماعت خانوں ومذہبی جماعتوں اور مسلم سکالروں کو اکٹھا کرکے قرآن وسنت کی بنیاد پر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز کیا جائے تو ایک انقلاب آجائیگا، کراچی اور پاکستان بھر اردو اسپکینگ کمیونٹی بہترین تعلیمی نظام قائم کرکے پاکستان کے گھر گھر ، گلی گلی، محلہ محلہ، قریہ قریہ، گاؤں گاؤں، شہر شہربلا امتیاز و نسل ،فرقہ وقوم سب کو تعلیم و شعور کے زیور سے آشنا کریگی۔ سندھیوں سے دل کی دھڑکنوں کی طرح پیار و محبت میں خون کے سرخ وسفید جرثومے پورے پاکستان کو پہنچیں گی،مہاجر قوم شہ رگ اور اور سندھی دل دل پاکستان جان جان پاکستان ہیں۔ شہ رگ کٹنے اور دل کی دھڑکن بند ہو تو جسم لاش بن کرموت واقع ہوجاتی ہے۔پھر سندھی جلوس نکالیں گے کہ کالاباغ ڈیم بناؤ اور ازبکستان سے بجلی لانے کی بجائے دریائے سندھ کو پورے کا پورا ڈیم کی طرح بناؤ، جو نہ صرف بجلی بلکہ سطح زمین پر پانی کی قحط نہ رہے، پاکستان سرسبز وشاداب اور زیرزمین پانی کے ذخائر بھی مالامال ہوں، پانی کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتے مگر حکمرانوں کو دلچسپی نہیں۔
اللہ نے فرمایا: ’’گدھے، خچر اورگھوڑے میں نے پیدا کئے ہیں تاکہ تم ان پر سواری کرو اور خوبصورتی کیلئے پیدا کئے ہیں‘‘۔ یہ جانور کام کے بھی ہیں اور ان کی وجہ سے رونق بھی ۔ مسلمانوں کے پاس وہ نصابِ تعلیم، معاشرتی احکام،تہذیب وتمدن اور اخلاقی اقدار نہیں تھے جو انگریز کو برصغیرِ پاک وہند سے روک سکتے۔ سکھ ایک نیا مذہب تھا لیکن پنجاب، کشمیر اور قبائلی علاقہ جات کے دامانی علاقوں تک ان کی حکومت تھی۔ انگریز نے اپنے دور میں جو فوج، بیوروکریسی اور عدلیہ کا نظام بنایا، ان کے مقاصد، خدمات اور معاشرتی رونق کے سوا کیا تھے؟۔ 70سال ہوگئے ہیں کہ برصغیرپاک وہند سے انگریز گیا، بھارت اور پاکستان میں آج بھی یہ ادارے اپنے اپنے خدمات انجام دینے اور معاشرے کو رونق بخشنے کا ذریعہ ہیں۔ پاکستان نے مقبوضہ کشمیرپر بھی قبضہ کرلیا تھا لیکن اقوام متحدہ نے رائے حق دہی کیلئے اس کو پاکستان سے خالی کروایا اور پھر بھی بھارت نے قبضہ کرلیا۔ ہم بھارت سے تو قبضہ نہ چھڑاسکے البتہ مشرقی پاکستان بھی کھو دیا ہے۔ ہم نے اپنی بہت تعریف کرلی، اب اپنی ان کوتاہیوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے باقی ماندہ پاکستان بھی خطرات سے دوچار ہے۔ ٹی وی اسکرین پر بیٹھ کر امریکہ کو بھونکنے اور ڈھینچوڈھینچوکی ورد چھوڑیں۔
اپنے اندر اتنا دم پیدا کریں کہ امریکی امدادشکریہ کیساتھ قبول کرنے کی بجائے ان کے اپنے پڑوسی غریب ممالک کو دینے کی تجویز پیش کریں۔ F.16طیارے کی ہمیں ضرورت بھی پیش نہ آتی ،اگر اسٹیل مل میں کرپشن کی بجائے جنگی سازوسامان ، مسافر طیارے اور دیگراشیاء بناکر اس کو بہترین ادارہ بنادیتے۔ ہمارے ریاستی اداروں کی تشکیل وتعمیر جنہوں جن مقاصد کی خاطر کی تھی ان سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی توقع رکھنا بھی بعض بدبودار قسم کی ذہنیت کا شاخسانہ تھا، جن لوگوں نے اسلام کو اوڑھنا، بچھونا، کھانا پینا اور رہنا سہنا بنانا رکھا ہے وہ خوداسلام سے بہت دور ہیں جن کی نسلیں دارلعلوم میں پیدا، پھل بڑھ کر دفن ہوجاتی ہیں توپاک فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی کے جوانوں اور افسروں سے کس قسم کے اسلام کی توقع رکھی جاسکتی ہے؟ اصلاح کیلئے گمراہی کے قلعوں مدارس کو فتح کرنا ہوگا۔
مجھے مدارس سے نفرت نہیں محبت،بد اعتقادی نہیں عقیدت،بغض وعناد نہیں عشق وپیار ، بدظنی وبدگمانی نہیں حسنِ ظن وخوش گمانی اور بدخواہی نہیں خیرخواہی ہے، وقت آئے تو ادب وتمیز،اکرام واحترام، عجز وانکساری،تواضع اور ایسے خاطر مدارات کا مظاہرہ کروں گا، جیسے ایک فرمانبردار بیٹا اپنے والدین کا کرتا ہے، ماں کی ممتا سے ملنے والے دودھ کی میٹھاس کو یاد نہیں رکھا جاسکتا مگر مدارس کی ممتا سے ملنے والے علم کی میٹھاس دل ودماغ کیلئے فرحت بخش ہوتے ہیں۔ دودھ کی یہ نہریں بزرگوں سے ہوتی ہوئی رسول اللہﷺ تک اور اللہ کی وحی تک پہنچتی ہیں، سب اپنے نصیب کے مطابق سیراب ہوتے ہیں،اساتذہ کرام کی تعلیم وتربیت ہے کہ قرآن و سنت کی روح سے روگردانی نہیں کی، ورنہ میں بالکل بھٹک جاتا۔
اہم اور بنیادی تجاویز اور ان کا مختصر خلاصہ
1:مدارس کے نصاب کی وسیع تر مشاورت سے تبدیلی، جن احکام میں معروف کی جگہ منکرات نے لے لی ہے، اس کو قرآن و سنت کے مطابق معروفات میں تبدیل کرنا۔
(ا): نکاح و طلاق میں معروف کی جگہ منکر نے لے لی ہے ،دلائل وبراہین کے ذریعہ ایک نئے نصاب کی تشکیل اور اس پر معاشرتی نظام کو کاربند کرنے کے نتیجے میں زبردست خوشحالی آئے گی۔ پسند کی شادی کی مخالفت نہیں ناپسند کی شادی کی حوصلہ شکنی کی ضرورت کا احسا س کرنا چاہیے تھا، نبیﷺ نے فرمایا:جس لڑکی کے باپ نے اسکی مرضی کے بغیرنکاح کیا تو وہ نکاح منعقد نہیں(بخاری)۔نصاب اور معاشرے میں اس حدیث کی ترویج ہوتی تو کوئی لڑکی بھاگ کر شادی نہ کرتی۔ طلاق واقع ہونے نہ ہونے کی چیز نہیں بلکہ علیحدگی کا طریقۂ کار ہے جو قرآن اور احادیث صحیحہ میں وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے، جسکی کچھ تفصیل اداریہ میں موجود ہے۔رجوع کا تعلق باہمی صلح سے مشروط اور معروف طریقہ سے ہے، حضرت عمرؓ نے ایک ساتھ تین طلاق پر شوہر کے یکطرفہ رجوع کے حق کو معطل کیا تھا ۔ تین طلاق نہیں ایک طلاق کے لفظ پر بھی عورت راضی نہ ہو تو شوہر یکطرفہ رجوع کا حق کھو دیتا ہے حضرت عمرؓ کا فیصلہ درست تھا لیکن اس کو حلالہ کیلئے غلط رنگ دیا گیا ہے، صلح کی شرط پر رجوع کی قرآن وسنت میں عدت کے دوران اور عدت کے بعد وضاحت ہے۔ بخاری وابوداؤد میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت ابورکانہؓ و امّ رکانہؓ کے واقعات موجود ہیں۔ بیوقوفی اور کم عقلی کی انتہاء ہے کہ احناف نے ’’نورانوار‘‘اور ابن قیم ؒ نے ’’زادالمعاد‘‘ میں اس طلاق کو قرآن کے مطابق فدیہ سے ہی مشروط کیا ہے اور پھر یہ بحث کی ہے کہ فدیہ کوئی الگ چیز ہے یا طلاق کا ضمنی معاملہ ہے؟۔ عدد کی گنتی پوری کرنے کا چکر نہ ہوتا تو اس بحث کی ضرورت بھی نہ پڑتی لیکن علامہ ابن قیمؒ کی سمجھ پر بہت تعجب ہوتا ہے کہ احناف کی ضد میں لکھ دیا کہ ’’ طلاق الگ چیز ہے اور خلع الگ، اسکا نام اللہ نے طلاق نہیں فدیہ رکھا ہے‘‘ حالانکہ آیت میں خلع کا ذکر نہیں بلکہ اس طلاق کا مقدمہ ہے جس کے بعد حلال نہ ہونے کا ذکر ہے۔ خلع کے بارے میں سورۂ النساء کی آیت ہے ، احادیث اسی ضمن میں لکھے جاتے تو معاشرے میں خواتین کے حقوق اجاگر ہوتے ہم بہت سی برائیوں سے بچتے، طلاق کے تضاد اور اختلافات بھی کالعدم نہیں بلکہ معدوم ہی ہوجائیں گے۔
جس طرح اللہ اور اسکے رسولﷺ نے مرحلہ وار دومرتبہ طلاق کے بعد تیسرے مرحلہ کی وضاحت فرمائی ہے،اس سے طرح ہاتھ چھوڑ شوہر کی پٹائی سے صنفِ نازک کو بچانے کیلئے مارنے سے پہلے دومرحلے رکھے ہیں، پہلے مرحلہ میں افہام وتفہیم سے سمجھانا، دوسرا مرحلہ بستر الگ کرنا اور تیسرے مرحلہ میں مارنا۔ کوئی بیوی کو دشمنی اورمنصوبہ بندی سے نہیں مارتالیکن چھوڑنے اور الگ ہونے سے بیوی کو ہلکی پلکی مار خود بھی بہتر لگتی ہے۔جب اتنی برداشت شوہر میں پیدا ہوجائے کہ سمجھانے اور بستر کو الگ کرنے کے مراحل سے گزرے تو مارپیٹ اور تشدد کی عادت بھی نرمی اور شائستگی میں بدل جاتی ہے۔جس طرح طلاق کے بارے میں مرحلہ وار دو مرتبہ طلاق کے مرحلوں کو ترک کیا گیا اسیطرح سے مارپیٹ کے دو مراحل کو بھی نظرانداز کرکے اسلام کے نام پر معروف کو منکر میں تبدیل کردیا گیا ہے۔
2: دنیائے اسلام کا سب سے بڑا مرکز خانہ کعبہ ہے اور حجر اسود ایک ہجوم کا محور رہتا ہے کوئی بھی شریف معاشرہ اس طرح اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ مخلوط ماحول میں اجنبی خواتین و مرد حضرات ہڈی پسلی ایک کرکے ایک دوسرے کے گوشت پوست میں پیوست ہوجائیں۔ یہ انسانی شرافت ، فطرت اور اسلام کے بنیادی تعلیمات کے بالکل منافی ہے، یہ شکر ہے کہ اس کی تصویریں دنیا کو دکھاکر یہ باور نہیں کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دیکھو ہم روشن خیال ہیں۔ مہذب دنیا سے ہم نے لائنوں میں ہی نہیں سیکھا ہے بلکہ اپنے ہرمفاد کیلئے ان کی ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگرحاجی اور عمرہ والوں کو حجراسود کا نمبر ایشوکیا جاتا، بھلے سعودی حکومت اس کاانتظام کرکے فیس بھی وصول کرتی توسب کیلئے بہتر ہوتا۔
3: خواتین کو خلع کا حق عدالتوں کی بجائے معاشرتی بنیادوں پر دیا جاتا تو اس میں تشدد کے عنصر کو ختم کرنے میں مدد ملتی۔ جب شوہر کو یہ پتہ ہوتا کہ عورت چھوڑ کر جانے کا حق بھی رکھتی ہے تو اس کے ساتھ غلامی کی بجائے ایک معاشرتی ساتھی کی طرح سلوک رو ا رکھا جاتا اور اگر عورت پابند نہ ہونے کے باوجود اس کی بد سلوکی پر صبر کا مظاہرہ کرتی تو یہ اصلاح کا ذریعہ بھی بنتا۔ جب عورت سے نکاح نہ ہوا ہو اور پھر بھی اس پر استحقاق جمائی جاتی ہو تو پھر نکاح کے بعد اس کو غلام سمجھنے میں کیوں مرد کو حق بجانب نہ سمجھے گا لیکن اگر قانون سے واضح کیا جائے کہ منکوحہ عورت بھی غلام نہیں تو غیر منکوحہ سے رویہ کبھی غلط نہ ہوسکتا تھا۔
4: طالبان نے ایک کام زبردست کیا جو ہماری ریاست ، سول سوسائٹی اور عوامی دباؤ سے ممکن نہ تھا۔ اس کی وجہ سے لوگ طالبان سے زیادہ نفرت کرنے لگے تھے، مگر خوف کی وجہ سے کچھ بول نہیں سکتے تھے۔ کسی جگہ لڑکی اور اسکے والدین قریبی رشتہ دار سے رشتہ کیلئے راضی نہیں ہوتے تھے تو بھی رسم و رواج کی مجبوری سے شادی کرانی پڑتی تھی۔ طالبان نے لڑکی اور والدین کی مرضی سے کئی شادیاں کرواکر بہترین کردار ادا کیا۔ اگر قرآن و سنت کی تعلیمات عوام کے سامنے ہوتیں تو یہ غلط رسم و رواج بہت پہلے ختم ہوچکے ہوتے۔
5: جس طرح سود کو موجودہ دور میں عام لوگ سمجھتے ہیں اسی طرح سے دور جاہلیت میں بھی سمجھتے تھے۔ قرآن نے منع کیا ، اب پھر معروف کی جگہ منکر اور منکر کی جگہ معروف نے لی ہے، چنانچہ بینک کے سود کو جائز اور کاروبار قرار دیا گیا ، شادی بیاہ کے لفافہ کو سود قرار دیا گیا۔ ہر دور میں وقت کے شیخ الاسلاموں نے اسلام کو اجنبی بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور ان سب کا جائز لے کر عوام کو معروف اور منکر بتانے کی ضرورت ہے۔ عتیق گیلانی
لوگوں کی راۓ