شاعرہ لتا حیا کی نعتیں :ریٹائرڈچیف جسٹس مرکنڈے (اداریہ نوشتہ دیوار، شمارہ مارچ 2019)
مارچ 9, 2019
بھارت میں اردو کی معروف شاعرہ لتا حیا کی غزلیں ، نعتیں ، انقلابی شاعری اور انسانیت کا درد ایسا ہے کہ جیسے اسلام کی روح یہ ہندو خاتون عوام کے دلوں کو گھول گھول کر پلارہی ہو۔ ریٹائرڈ چیف جسٹس مرکنڈے کی حق گوئی سے ایک نیا ولولہ بیدار ہوا چاہتا ہے۔خالد خواجہ اور کرنل امام کو طالبان نے کیوں قتل کیاتھا، اسکے کیا عوامل تھے؟مگر لتا حیا کی شاعری ، انسانیت دوستی اور مسلمانوں سے محبت اور اچھوت نسل سے ہمدردی دیکھ کر دل میں تمنا پیدا ہوتی ہے کہ ہمارے جو اسلام اور پاکستان کی معروف شخصیات ہیں۔ اوریا مقبول جان، رستم شاہ مہمند، زید حامد،عمران خان ،نوازشریف، لونڈے لپاڑے، مولانا فضل الرحمن، معروف سیاستدان اور علماء ومفتیان بھی خالد خواجہ اور کرنل امام کی طرح طالبان کے ہتھے چڑھتے تو زیادہ برا نہ ہوتا۔ لتا حیا ایک بھارتی ہندو خاتون ہے اور اُس شدت پسند ہندوانہ ماحول میں اسلام ، مسلمانوں اور انسانیت کی جو خدمت کررہی ہیں، ہمارے ہاں یہ لوگ اسلام کے نام پر اپنی فالتو قسم کی پھکیاں بیچ رہے ہیں۔ ریٹائرڈ چیف جسٹس مرکنڈے کو آسمان کے فرشتے بھی شاباش دیتے ہونگے جو بھارتی معاشرے میں شدت پسند ہندو، تعلیم یافتہ طبقے اور میڈیا کی ایسی خبرلیتا ہے کہ انسان کا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے کہ یہ بھی اس دور کا انسان ہے؟ ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو برصغیرپاک وہند کو تعصبات ، جہالت اور تمام بھونڈے ہتھکنڈوں کی گرفت سے نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انسان اپنے ہاتھوں کی کمائی سے ہی بحروبر کے طوفانوں کی نذر ہوجاتا ہے۔ ظھرالفساد فی البروالبحر بما کسبت ایدی الناس’’خشکی وسمندر میں فساد برپا ہوا،انسانوں کے اپنے ہی ہاتھوں کی کمائی کے سبب‘‘۔ مودی اور شدت پسندانہ تعصب کا زہر اگلنے والوں کو لتاحیا و قابل احترام چیف جسٹس مرکنڈے شعور کی شعاعوں کے ذریعے جہالت کی اندھیر نگری سے نکال رہے ہیں۔ جب جہالت، اندھیرا اور موت معاشرے پر طاری ہوجاتی ہے تو اس کیلئے جن مسیحاؤں کی ضرورت ہوتی ہے انکا کردار روشنی، علم اور حیات کی آبیاری ہوتی ہے۔ جسم کی طرح انسانوں کی روحوں اور دلوں پر بھی موت کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے تو اس کو زندہ کرنا بہت مشکل کام ہوتاہے اور ہر معاشرے اور قوم میں مسیحاؤں کا اصل کام مردہ روحوں اور دلوں میں حیات پیدا کرنی ہوتی ہے۔عسکری قوتیں جانیں لے سکتی ہیں مگر مُردوں میں جان نہیں ڈال سکتی ہیں،البتہ جانیں بچانے میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ پاک فوج نے بھارتی پائلٹ کو گرفتار کرکے تشدد سے بچایا۔ یہ انسانیت ہی اصل کام کی چیز ہے۔ قوت مدافعت کے بغیر قومیں زندہ نہیں رہ سکتی ہیں۔ لوگوں کی زندگی بچانے کیلئے شرپسندوں سے قوتِ مدافعت کا استعمال بھی بہت ضروری ہے، پاک فوج نے حملے کے بدلے میں حملہ کرکے شاطر دشمن کو مناسب سبق سکھا دیا ہے۔ بھڑکیں مارنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ،شرافت سے کام ہونا چاہیے۔ جنگ کا جنون مسائل کا حل نہیں لیکن جب چیف جسٹس مرکنڈے اور لتا حیا جیسی شخصیات اپنی عقل وفکر، علم وعمل اور شعوروآگہی سے اتمامِ حجت کا بہت واضح کردار ادا کرتے ہیں اور ملک کے سربراہان اور اصحابِ اختیار اس پر کان دھرنے سے گریز کرتے ہیں تو ذلت ورسوائی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ پاکستان کے ارباب اختیار کو چاہیے کہ صورتحال معمول پر آتے ہی لتاحیا اور چیف جسٹس مرکنڈے کو پاک سرزمین پر آنے کی دعوت دیں۔ ان سے گزارش کریں کہ علم وآگہی ، درد ومحبت اور دل وروح کی غذاء یہاں بھی لوگوں کی بہت سخت ضرورت ہے۔یہاں بھی ہندوؤں کی طرح اسلام کے نام پر ایمان کا جعلی چورن بیچا جارہاہے جس میں شفاء نہیں زہر ہے، علم نہیں جہالت ہے، روشنی نہیں اندھیرا ہے ،اسلام نہیں ابہام ہے اور ایمان نہیں کفران ہے۔ اوریا مقبول جان کا تصور افسانوی کوئل کی طرح ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ کوّؤں کے گھونسلے میں اپنے انڈے دیتی ہے۔مولانا فضل الرحمن نے طالبان والقاعدہ کے لشکر کو خراسان کے دجال کا لشکر قرار دیا تھا۔ جس میں ہتھوڑے جیسے لمبوترے چہروں والے پٹھان اور ڈھال جیسے گول چہرے والے ازبک وغیرہ تھے۔ اوریا مقبول جان اور مولانا فضل الرحمن سوشل میڈیا کے کنونشن سے ایک جگہ تقریر کرتے ہوئے بھی ایکدوسرے کیساتھ دجل وفریب کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اگر یاجوج ماجوج کے لشکر کو میڈیا قرار دیا جائے تو پھر یہی دجال میڈیا میں کردار ادا کررہے ہیں۔ اگر اس سے مراد دجالی لشکر ہے جو خراسان کی طرف سے بلندی سے آکر میدانی علاقوں میں ہر گھاٹی سے حملہ آور تھے تو بھی حقائق کو سمجھنا مشکل نہ تھا۔ دارالعلوم دیوبند و جمعیت علماء ہند کے وقت سے طالبان کے کردار تک اوریا مقبول جان اور مولانافضل الرحمن کا نظریاتی اختلاف ایکدوسرے کی عقیدتوں کی بالکل نفی کرتا ہے اورپھر بھی ایک اسٹیج سے عوام کو دجل وفریب کا پیغام دیتے ہیں۔ امریکہ نے شکست کھائی یا نہیں کھائی ؟ ہمیں اس سے کیا؟،لیکن افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور پاکستان کی عوام کی جان ومال اور عزتوں کا دنیا میں جنازہ نکال دیا ہے۔ اوریامقبول جان اس وقت بیوروکریسی میں اینکر پرسن کا کردار ادا کررہا تھا، اس کی ذات پر آنچ اسلئے نہیں آئی کہ یہ بک بک مسلسل تسبیح ومناجات کررہا تھا یا سبّ وشتم کے بینڈ باجے بجارہا تھا کہ بیوروکریسی نے پاکستان کا بیڑہ غرق کیا ہے ، فوجی بیچاروں کو کچھ پتہ نہیں تھا۔ یہ خوارج کا وہ کلمہ ہے جسکے بارے میں حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ’’ بات حق ہے مگر یہ اس سے باطل مراد لیتے ہیں‘‘۔ اس وقت بھی جس بیوروکریسی نے ریاست اور عوام کو گمراہ کیا تھا تو اوریا مقبول جان خود بھی بہت منافقت کیساتھ اسی کا حصہ رہے ہیں۔ ملاعمر کو تو کرنل امام اپنے شاگرد کہتے تھے اور پٹھان کی تعریف کرتے تھے تو پٹھان کے دل سے دعانکلتی تھی کہ ’’ایک دفعہ تم بھی انکے ہاتھوں میں پڑجاؤ اور پھر ایک دن شکار ہوگئے‘‘۔ اوریا مقبول بھی انکے ہاتھوں لگ جاتے اور پھر وہی کہلواتے کہ بولو کہ یاجوج ماجوج تو وہی دجالی لشکر ہے جسکا یہ پتہ نہیں چل رہاہے کہ امریکہ اور پاکستان مخالف ہیں یا انکے حامی ہیں؟۔ہمیں طالبان کی حمایت یا مخالفت سے کوئی غرض نہیں لیکن اس بات کا احساس ہے کہ یہ لوگ مفت کی منافقت کررہے ہیں۔ پہلے قوم کو گمراہ کیا تو اب اپنی حرکتوں سے باز آجائیں۔ بخاری میں آخری خطبے کے حوالے سے ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ’’ کوئی نبی بھی ایسا نہیں گزرا ہے جس نے دجال سے قوم کو تنبیہ نہیں کی ہو۔ خبردار ! میں بھی تمہیں دجال کے فتنے سے آگاہ کررہا ہوں۔ اگر تم یہ نہیں سمجھ سکو کہ دجال کون ہے؟تو اللہ دجال کو جانتاہے، دجال ایک آنکھ کا کانا اور اس کی دوسری آنکھ انگور کی طرح ہے۔ تمہاری جان کی حرمت ایسی ہے جیسے اس شہر (مکہ ) میں، اس ماہ (ذی الحج)اور اس دن(عرفہ) کی حرمت ہے، میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایکدوسرے کی گردن مارنے لگو‘‘۔ لتاحیا اور مرکنڈے بھی ان لوگوں سے ہزار درجہ بہتر انسان ہیں جو مسلمان کی حیثیت سے دجالیت، فریب اور خون خرابے کی حمایت کررہے تھے۔
لوگوں کی راۓ