خانہ کعبہ بیت اللہ کی تعمیر، ہجرت اور صلح حدیبیہ کا معاملہ
اکتوبر 11, 2017
سنی شیعہ علماء اپنے اپنے مسلکوں کو کاروبار بنانے کے بجائے راہِ حق کیلئے میدان میں کام کریں تو ملت اسلامیہ کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ صحیح بخاری کو کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین قرار دینے والے شیعہ کی طرح ائمہ اہلبیت کیساتھ علیہ السلام بھی پڑھا کریں یا واضح کریں کہ وہ بخاری میں غلط لکھ دیا گیاہے۔ منافقانہ رویہ کو چھوڑنے کیلئے کھلی کھلی باتیں کرنا ہوں گی۔
درسِ نظامی میں بسم اللہ کو مشکوک بتایاجاتا ہے جس کی وجہ سے قرآن کے بلاشبہ ہونے کا عقیدہ نہیں رہتا۔ مساجد میں بنی امیہ کے دور سے پابندی لگائی گئی تھی کہ جہری قرأت میں بسم اللہ نہ پڑھی جائے۔ امام ابوحنیفہؒ کو تشدد کا نشانہ بناکر جیل میں زہر دیکر شہید کیا گیا ، انکے شاگرد ابویوسف قاضی القضاۃ چیف جسٹس اور شیخ الاسلام کے منصب پر فائز تھے۔ ایسا تو موجودہ دور کے لوٹے سیاستدان وزیرکریں تو بھی شرمندہ ہوں۔ مساجد میں جہری نمازمیں جہری بسم اللہ سے انقلاب کا آغاز ہوگا تو مذہبی طبقے کے بند ذہنوں کی بندشریانے کھل جائینگی، آغاز اچھا ہو تو انجام بھی بہترین ہوگا۔
بنوامیہ کے بعد بنوعباس کاامارت پر قبضہ ہوگیا اور نبیﷺ سے نسبت قریب ہونے کا دعویٰ کرنے کیلئے ابوطالبؓ سے متعلق کفر پر مرنے کی روایت گھڑ ی۔ تاتاری بغداد کو تار تار کرگئے تو اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اقتدار قائم رہے۔ حرم سراؤں میں خوبصورت ترین لڑکیوں کو قیدرکھنے والے سلاطین اچھے تھے؟۔ انہیں لونڈیوں کی پیداوار بادشاہوں کی اولاد ہونے کے ناطے پھر تختِ خلافت پر بیٹھتے تھے۔ جنکے درباری ملا کے ہاتھوں میں اہل حق کی گردن زدنی کے فیصلے ہوا کرتے تھے۔ آج بھی کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔ تیز رفتار مواصلاتی نظام، کمپیوٹر اور چھپائی کے موقع نہ ہوتے اور اللہ کی حفاظت کا معاملہ نہ ہوتا تو ہم بھی کربلا کے شہیدوں میں شمار ہوتے۔ پشاور میں عمران خان کی جمہوری حکومت نے سول سوسائٹی آرمی پبلک سکول کے شہداء پر جلوس بھی نکلنے نہیں دیا تھا۔
یزید کے بیٹے معاویہ میں اتنی غیرت تھی کہ تخت خلافت سے 40 دنوں میں الگ ہوا کہ ظالمانہ نظام کا میں حصہ نہیں بنوں گا۔ ہمارا یہ حال ہے کہ یزید وابوجہل کو برا کہتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ ابوجہل کے بیٹے مخلص صحابیؓ بن گئے ۔ ہماری قیادتوں کے خمیر اس سے بھی عاری ہیں۔ رئیس المنافقین ابن ابی کے بیٹے بھی مخلص صحابہؓ تھے۔ ہم نے جاہلانہ عصبیتوں کو اسلام ، جہاد اور فرقوں کا رنگ دیدیا ہے۔
امیر حمزہؓو علیؓ جیسے شیر، فاروق اعظمؓ جیسے دلیراورابوبکرؓو عثمانؓ جیسے اہل خیر موجود تھے جو ابولہب وابوجہل کی طبیعت صاف کردیتے مگر اللہ نے مسلمانوں کو دہشتگردی کی راہ پر نہیں لگانا تھا۔ مدینہ ہجرت کے بعد صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا، حضرت ابوجندلؓ نے زنجیریں توڑ ڈالی تھیں ، نبیﷺ نے معاہدے کے مطابق واپس کردیا۔خواتین بھاگ آئیں تو نبیﷺ نے ان کو حوالہ کرنے کا مطالبہ مسترد کردیا۔ یہ اللہ کی چاہت بھی تھی فرمایا کہ ’’ خواتین سابقہ مشرک شوہروں کو نہ لوٹائی جائیں یہ ان کیلئے حلال نہیں اور وہ بھی ان کیلئے حلال نہیں‘‘۔ حضرت علیؓ نے سمجھاکہ ’’ شرعی حلال مرادہے‘‘ اور حد سے تجاوز کرکے فتح مکہ کے بعد مشرک بہنوئی کو قتل کرنا چاہا۔ نبیﷺ نے اس کو امان دیدی۔ علماء کرام ومفتیان عظام نے حلالہ کی نوعیت پر بہت بڑا مغالطہ کھایا ، لوگوں کے گھر تباہ ہوئے، عصمتیں لٹ رہی ہیں اور اس سلسلے میں بعض فقہاء نے حلالہ کی لعنت کو کارِ ثواب قرار دیکر بہت غلط کیاہے۔ علماء کو چاہیے کہ رجوع کریں۔مجاہد قائدین کہہ دیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بدلے ہمیں قید کرلیجئے گا۔
ہم نے چند مرتبہ وضاحت کی کہ ’’بخاری کی روایت میں قریش خواتین کو دنیا کی دیگر خواتین پراُ ونٹ کی سواری کی وجہ سے فضیلت دینے کا ذکر ہے اور سعودیہ میں خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی غلط ہے‘‘، اب سعودیہ نے پابندی اٹھادی توبہت اچھا ہوا اور اصلاح کا طریقہ یہ نہ تھا کہ دہشت گرد اپنی خواتین کو حکومتی احکام کی خلاف ورزی پر مجبور کرتے۔ صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں کیلئے مکہ میں تیر اٹھانے کی اجازت بھی نہ تھی۔ اسلام نے ہی دنیا کوریاست کے آداب سکھادئیے تھے مگر ہم اسلام بھی بھول گئے اور قرآن وسنت کا سلیقہ بھی یاد نہیں رہاہے۔ آج حرمین شریفین میں صلح حدیبیہ کے مقابلہ میں زیادہ پابندی ہے۔
لوگوں کی راۓ