کیا بلوچستان میں آتش فشاں کا لاوا پھٹ سکتا ہے؟
جنوری 25, 2024
کیا بلوچستان میں آتش فشاں کا لاوا پھٹ سکتا ہے؟
قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے طلباء و طالبات سے بانو ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی فکر انگیز تقریر
پڑھی لکھی یوتھ کوجدوجہد کی دعوت
ہماری تحریک کو60 دن کا عرصہ مکمل ہونے والا ہے اگرآپ سب جاننا چاہتے ہیں کہ پاکستان اور اس کی اسٹیٹ فورسز بلوچستان میں کیا کر رہی ہیں آپ شروع دن سے اس تحریک کو پڑھیں کہ کس طرح ایک پرامن تحریک جس کی تعداد ہم عورتیں ہیں اور اس میں بچے بھی شامل ہیں اس کو کیسے ایکTerrorisedNarrativeکے ذریعے ہم سب کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے اور پوری اسٹیٹ کی مشینری جوInvestigativeJournalistتھے جن کو انویسٹی گیٹ کرنا چاہیے تھا وہ بھی ریاست کا بیانیہ لے کر جا رہے ہیں آگے ۔ہم اسی پر اپنے فورتھ فیس کو آگے لے جا رہے ہیں اور اس میں ہمیں آپ کے ساتھ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔ہم ایجوکیٹ کرنا چاہتے ہیں پاکستان کی یوتھ کو کیونکہ میں اس یونیورسٹی میں کھڑی ہوں جہاں پہ پاکستان کے ہر طبقے کا کوئی نہ کوئی بندہ موجود ہے تو آپ اپنے طبقے کو یہاں پر اون کر رہے ہیں اس موومنٹ کوآگے لے جانے کے لیے ہمیں آپ سب کے ساتھ کی ضرورت ہے۔اس مقام پر اسٹیٹ ایک ایساNarrativeہمارے سامنے لے کرآئی ہے جس کے تحت اسلام آباد پریس کلب کے سامنے ہمارا جو دھرناہے اس کو خدشات لاحق ہیں ۔ہم نے10دن پہلے کہا تھا کہ ا سٹیٹ ہم پر اٹیک کرنے والی ہے اور وہ خدشہ اب بھی ظاہر ہے۔اس کے تحت سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں پرFIRکیے گئے ہیںجو پرامن تحریک کا حصہ بنے رہے ہیں۔لیکن پھر بھی ہم ڈٹے ہوئے ہیں اور پھر بھی ہم اس موومنٹ کو لے کر جا رہے ہیں اس میں بلوچ خواتین کا سب سے بڑا کردار رہا ہے۔آپ سب سے یہی گزارش ہوگی ہماری فورتھ فیز میں آپ سب نے ہمارا ساتھ دینا ہے موبلائز کرنا ہے ایجوکیٹ ہونا ہے پڑھنا ہے اور سمجھنا ہے کہ اسٹیٹ وائلنس کیسے استعمال ہوئی ہے دہائیوں سے۔ اسٹیٹ نے وائلنس کے ذریعے کیسے ایک خوف کا ماحول پیدا کیا ہے۔ اسٹیٹ نے وائلنس کے ذریعے کیسےJustifyکیا ہے جبری گمشدگی کو؟۔ اسٹیٹ نے تشدد کے ذریعے کیسےJustifyکیا ہے ماورائے عدالت قتل کو اور اسی اسٹیٹ کے چلتے ہوئے بلوچ ہو، پشتون ہو، سندھی ہو، گلگتی ہو، وہاں پر عام جوPeacefulMovementsہیں ان کو بھی خدشات لاحق ہیں۔اور آپ کے لیے ہمارا پیغام یہی ہے کہ ہم نے ایکPetitionدرج کیا ہے اس کوآپ جتنا فارورڈ کریں گے اتنا ہی ہمارے لئے آسانی ہوگی کیونکہ ان60دنوں کے دوران اسٹیٹ کی کوشش یہی رہی ہے کہ ہم اپنی موومنٹ کو ختم کر دیںاور ہم پر ہراسگی کی ،ہمیں مارا بھی گیا ٹارچر بھی کیا گیا۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اس چیز پر کوئی کمیشن نہیں بنائی گئی کوئی انکوائری نہیں ہوئی کہ عورتوں کو مارنے والی قوتیں کون تھیں؟۔اور ان کو ہراساں کرنے والی قوتیں کون تھیں؟ اور آج مجھ سمیت میری تحریک کی ہر خواتین کارکن کو ہراساں کیا جارہا ہے اور ہمارے خلافFIRلگائے گئے ہیں۔ ہم یہاں رکنے والے نہیں ہیں۔ میں سمجھتی ہوں اگر اس تحریک میں ہمیں کچھ بھی نقصان پہنچا تو آپ ہمارے ہم آواز ضروری بنیں گے اور آگے بھی اس موومنٹ کا اسی طرح ساتھ دیں گے جس طرح آپ نے ساتھ دیا ہے۔ ہماری تحریک موبلائزیشن کیلئے ہے، ہماری تحریک سیاسی بنانے کیلئے ہے۔ ہم یوتھ کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اسٹیٹ مشینری کے ذریعے بینکنگ ایجوکیشن کے ذریعے ہمیں جو پڑھایا جاتا ہے جس کے ذریعے ہر یوتھ کو یہی پیغام دیا جاتا ہے کہ آپ انفرادی زندگی کی طرف جاؤ۔ سوسائٹی سے ہمیں کٹ آف کیا گیا ہے۔ یہ حل نہیں ہے، سب سے بڑا کردار ہمیں اور آپ کو ادا کرنا ہے۔ جب تک ہم آگے نہیں بڑھیں گے جب تک ان قوتوں کے خلاف آگے نہیں بڑھیں گے جن کی وجہ سے عام لوگوں کی کلنگ کوJustifyکیا جاتا ہے ، سویلین کی کلنگ کوJustifyکیا جاتا ہے ، بچوں کو مارا جاتا ہے۔ تو کسی بھی انسان کا سب سے پہلا فرض یہ بنتا ہے کہ وہ اپنی سوسائٹی میں انصاف لاسکے۔ ہماری ایجوکیشن کسی بھی کام نہیں آئے گی جب تک ہم اس کو یوٹیلائز کرنے کا طریقہ نہیں سمجھتے ہیں۔ یہ سب سے بڑی ذمہ داری ہماری ہے۔ بلوچستان کے کونے کونے سے آئے ہوئے لوگ جو تعلیمافتہ نہیں ہیں لیکن پھر بھی وہ اس تحریک کا حصہ ہیں۔ پھر بھی وہ عزم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آج بھی جب میں کیمپ سے آرہی تھی تو کچھ ایسے خاندان تھے جن کو باقاعدہ ڈیتھ اسکواڈ نے دھمکی دی ہے اور انکے گھر میں ان کے بچوں کو مارنے کیلئے بھی ان کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ لیکن پھر بھی وہ بیٹھے ہوئے ہیں پھر بھی وہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ تو یہ تحریک آپ کی ذمہ داری بنتی ہے۔ کسی بھی سماج میں تعلیمافتہ یوتھ تبدیلی کا باعث بنتی ہے۔ اگر آج ہم نے اس تحریک اور جتنی بھی پاکستان میں تحریکیں ہیں اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیا تو آج اور آنے والے وقتوں میں ہماری سوسائٹی اور زوال پذیر ہوجائے گی۔ اور اس زوال پذیری کی ذمہ دار تعلیمافتہ یوتھ ہوگی۔ کیونکہ ان میں سوچنے سمجھنے کی سکت تھی۔ ایجوکیشن عملی زندگی میں ایک پریکٹس کرنے کا کام ہے جو ہم سمجھتے ہیں جو تھیوری ہم لے کر آئے ہیں انسانیت کیلئے اور ہمارے لوگوں کیلئے۔ اس چیز کا آپ نے حصہ بننا ہے۔ خاص کر جو خواتین ہیں میں ان سے بھی مخاطب ہوتی ہوں کیونکہ کوئی بھی قوم دو حصوں سے بنتی ہے جس میں مرد اور خواتین دونوں برابر ہیں۔ یہاں پر اسٹیٹ کی جو مشینری ہے انہوں نے خواتین کو یکسر طور پر الگ کیا ہوا ہے جہاں پر شدت پسندی پھیلائی گئی ہے۔ یہ پیغام بھی ہم انہی کیلئے لے کر آئے ہیں کیونکہ بلوچ خواتین پچھلے60دنوں سے سردی میں بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنے پیاروں کے لیے آپ اگر ان کی موومنٹ کو دیکھیں گے20سالوں سے یہ لوگ ،آج1خاندان آیا ہے جو کہتا ہے کہ18سال سے میرے بیٹے کو اغوا کیا گیا ہے اور اس کی ماں کہیں بھی نہیں گئی ہے اپنے بیٹے کیلئے۔ تو یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے ان خواتین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آئیں اور اس تحریک کا حصہ بنیں اورآپ سب لوگوں کے پاس آنے کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ آپ وٹنس کر سکیں کہ بلوچستان کے کونے کونے میں کیا ہو رہا ہے بلوچستان میں کس طرح عام لوگوں کو مارا جاتا ہے نیشنل سیکیورٹی کے نام پہ۔ بلوچستان میں کس طرح بچوں کے مارنے پر خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ بلوچستان میں کس طرح سویلینزInnocentلوگوں کو مارا جا رہا ہےInnocentلوگوں کے مارنے پر ہم سب کو آپ لوگوں کے ساتھ کی زیادہ ضرورت ہے اور میں آپ سب کو یہی پیغام دینا چاہتی ہوں اس موومنٹ کے بعد بھی آپ سب لوگ اپنی اپنی کونسلز میں جہاں جہاں آپ کیGatheringہوتی ہے وہاں وہاں یوتھ کوPoliticizedکرنا ہے ۔یوتھ کو وہ تبدیلی لانی ہے جو ان کرپٹ سیاست دانوں نے ہمیں لانے نہیں دی ہے جس کے تحت یوتھ کو ہمیشہ جو جتنی سٹوڈنٹس یونینز ہیں ان کو اپنا پاکٹ آرگنائزیشن بنا کے رکھا ہے جو صرف اور صرف ان کی ووٹنگ مہم ہے اس میں اس کا ساتھ دیتے ہیں اس کے علاوہ ان کوSkillfilledنہیں کیا گیا ہے اس کے علاوہ ان کو پولیٹیکل ایجوکیشن ہے اس سے بہت دور رکھا گیا ہے جس کے تحت یوتھ اتنی کرپشن کا شکار ہو جاتی ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو سوشل سوسائٹی سے الگ کر کے انفرادیت کی طرف لے کر جاتی ہے۔ تو ہمارا پیغام آپ سب لوگوں کے لیے ہے۔ آپ سب لوگوں نے اس مہم میں، یہ موومنٹ ہے باقاعدہ طور پر اور اس موومنٹ میں ہر وہ شخص جو انسانیت پر یقین رکھتا ہے ہر وہ شخص جس کے پیارے ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ اس کے باپ کو18سال تک4×4کی کوٹھری میں بغیر کسی عدالت میں پیش کرنے کے اسے رکھنا نہیں چاہیے ۔جو بلوچNarrativeکے ساتھ ہے بلوچNarrativeجو یہ کہتا ہے کہ میرے معصوم بچوں اور عورتوں کو نہ مارا جائے اپنے قانون کے لیے ان کو عدالتوں میں پیش کیا جائے تو اس میںآپ ہمارا ساتھ دیں گے ہمارے پٹیشن کو سائن کریں۔21تاریخ کو اوپی سی (OppresedPeoplesOfAsia)کے نام پر ہماری کانفرنس چل رہی ہے جس میں ہم باقاعدہ طور پر ہم ریاست اور اس کی مشینری کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم ایک ڈسپلن موومنٹ چلا رہے ہیں اس میں ہر طبقے کی آواز بنیں گے جو اس وقت تک ریاستی جبر کا شکار رہا ہے اس وقت تک جو قانون اور عدالتیں بنی ہیں کس طرح متعصب بن کر صرف اسٹیٹ وائلنس کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ اسٹیٹ وائلنس کے لیے یہ قانون بنائے گئے ہیں ان سب کے خلاف ہم ڈیبیٹ کریں گے ڈسکشن کریں گے ہم ایجوکیٹ کرنا چاہتے ہیں بنیادی طور پر ۔ہم چاہتے ہیں کہ آپ سب جو جس کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہے وہ اپنے علاقے میں ہونے والے سیاسی تحریک کا حصہ بنے۔ سوچیں سمجھیں ہماری ایجوکیشن صرف کورس کی تعلیم حاصل کرنا نہیں ہے آپ جب تک سوسائٹی میں ہونے والے سب سے بڑی تبدیلی جو آرہی ہے اس میں اپنا حصہ نہیں ڈالیں گے تو یہ تمام ایجوکیشن میرے خیال سے فالتو ایجوکیشن ہوگی۔تعلیم یافتہ یوتھ پر سب سے بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ تو آپ سب کا بہت شکریہ ۔ اور ہماریOPCکے جو وینیو ہے وہ اسلام آباد سٹنگ ہوگا ۔ اس موقع پرمیں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ایک بہت بڑی پروپیگنڈہ مہم چلائی جا رہی ہے ہمارے خلاف جس کے تحت جوپہلے دن سے ہم نے کہا تھا کہ اسٹیٹ پیس فل موومنٹ کوبرداشت نہیں کرتی ہے ۔ آج تک وہ لوگ جنہوں نے اسٹیٹ انسٹیٹیوشنز کے جو غیر قانونی طریقے ہیں ان پر جب بات کی تو اس کو بھی کرش کیا گیا۔ یہ آپ سب کے سامنے ہے ۔ہم عورتیں سردی میں وہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور شروع سے لے کر اب تک ہمیں دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔ شروع سے لے کر اب تک صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ جو وزراء ہیں، اور ابھی تو حدیہ ہوگئی ہے کہ جرنلسٹ بھی مسنگ پرسنز کو جبری گمشدگی کو جواز بخش رہے ہیں تو یہ آپ سب کی ذمہ داریاں ہم آپ سب کے پاس یہ پیغام لے کر آئے ہیں کہ اس موومنٹ کو آپ کی عملی شمولیت کی ضرورت ہے ہم ہر طرح کے تشدد کے خلاف ہیں۔ کوئی بھی تشدد ہو ہم اس کے خلاف ہیں۔ لیکن ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ سب سے بڑا وائلنس جو پیدا گیا ہے اس خطے میں پاکستان میں وہ ریاستی تشدد ہے۔ اس کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ میں بولتی ہوں سب سے پہلا جو گند مچایا ہوا ہے وہ ریاستی تشدد نے مچایا ہوا ہے اور کسی بھی اسٹیٹ میں جب تک اس کی جو پاور ہے اس کو ایکسرسائز کرنے کے لیے احتساب کا طریقہ کار نہیں ہوگا مانیٹرنگ کا پروسیس نہیں ہوگا تو سوسائٹی میں اسی طرح ایک نا انصافی پر مبنی معاشرہ تخلیق ہوگا جس کے تحت ایک وہ قانون ہے جو طاقتوروں کا ساتھ دیتا ہے اور ایک وہ قانون ہے جو مظلوم کی نسل کشی کوJustifyکرتا ہے اور اس کو اور زیادہ بڑھاتا ہے۔ آپ سب سے یہی گزارش ہے ہماری مہم کا ساتھ دیں اور ہماری تحریک میں اپنا پریکٹیکل حصہ بنیں۔ اور جو ہمارے خلاف ایک فیکnarrativeکی سوشل میڈیا میں ایک جنگ چل رہی ہے اس میں بھی آپ اپنا پوائنٹ آف ویو لے کر آئیں۔ ہم اپنے ہر پوائنٹ پر ہر ڈیمانڈ پر بیٹھنے کے لیے ڈیبیٹ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اسی وجہ سے ہمارا بنیادی مطالبہ یہی ہے کہUNبلوچستان میں ہونے والے انسانی حقوق کی پامالیوں کا نوٹس لے۔کم از کم پاکستان سمیت انٹرنیشنل دنیا کو سمجھنا ہوگا کہ بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟۔ بلوچستان میں کیوں لوگ محفوظ نہیں ہیں ؟۔آپ سب کے کلاس رومز میں بلوچ سٹوڈنٹس بھی پڑھتے ہیں، آپ ان کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کو دیکھیں کہ کس طرح بلوچ کو اس کی شناخت کی بنیاد پر یہاں اس پاکستان کے سب سے بڑے انسٹیٹیوٹ پر بھی پروفائلنگ کی جاتی ہے۔ گرفتار کیا جاتا ہے اورآج اس سطح پر جب یہ موومنٹ پہنچی ہے تو اسلام آباد میں موجود جتنے بھی بلوچ سٹوڈنٹس ہیں ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔ جیسے ہی یہ موومنٹ یہاں سے ختم ہوگی ان کو پکڑا بھی جا سکتا ہے اغوا بھی کیا جا سکتا ہے۔ تو اس کے بعد یہ ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے کہ آپ ان کے ہم آواز بنیں۔ اور جو بلوچ نسل کشی کاایک سلسلہ جاری رہا ہے اس کے خلاف مؤثر آواز کے طور پر ہمارا ساتھ دیں بہت بہت شکریہ انشااللہ۔
تبصرہ نوشتہ دیوار
جب1991میں ڈیرہ اسماعیل خان جیل کے اندرمجھے قید با مشقت کا سامنا تھا اور قبائل کے40FCRکے کالے قانون کو کسی عدالت میں بھی چیلنج نہیں کیا جاسکتا تھا تو جیل میں بھی اپنے مشن کو جاری رکھا۔ وہاں پر135سال کے سزا یافتہ محمد حنیف شلاؤزان پاڑا چنار اور اس کے3ساتھی بھی موجود تھے۔ جس نے72دن بھوک ہڑتال کرکے زندہ لوگوں میں عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ ایک سکھ نے73دن بھوک ہڑتال کی تھی مگر وہ چل بسا تھا۔ جبکہ کئی کئی سالوں تک قید کی سزائیں کاٹنے والے بہت لوگ تھے۔ وہاں پر میں نے اسلامی نکتہ نظر پیش کیا کہ قتل کے بدلے میں قتل یا دیت ہو تو مقتول کی بیوہ اور بچوں کو ایک لمبے عرصے تک انتظار نہیں کرنا پڑتا ہے۔ یہ سزائیں اسلام اور انسانیت کے منافی ہیں۔ جبری گمشدگی پر مفتی تقی عثمانی نے بھی آواز اٹھائی ہے۔ لیکن اس کے اپنے فتوے میں انسانیت و اسلام کے خلاف اتنا مواد ہے کہ ریاست بھی اس کا تصور نہیں کرسکتی ہے۔ جس دن ریاست پر بلوچ ، پشتون، سرائیکی اور سندھی کے علاوہ مہاجر اور دوسرے طبقات یلغار کریں گے تو یہ مفتیان حضرات اور جماعت اسلامی ریاست کیخلاف فتوے دینے میں پیش پیش ہوں گے۔ سینیٹر مشتاق اور مولانا ہدایت الرحمن نے قوم پرستوں کی مقبولیت کو دیکھ کر جمپ لگائی ہے اور سراج الحق سُود کے خلاف محض ڈھونگ رچارہا ہے۔ اسلئے کہ اسلامی بینکاری کے نام سے عام بینکاری میں سُود کم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسرائیل میں2.5%سُود ہے جبکہ ہم پاکستان اور اسلام کے نام پر22%سے بھی معاملہ آگے لے گئے ہیں تو کیا قرآن میں جس سُود کے خلاف اعلان جنگ ہے اس کا اطلاق اسلامی بینکاری پر ہوتا ہے یا اسرائیلی بینکاری پر؟ اور اسرائیل جس درندگی کا ثبوت دے کر فلسطینیوں کو شہید کررہا ہے اور وہاں کے فلسطینی بچے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں امن دو ، قتل مت کرو، پڑھنے دو، کھانے پینے کی سہولیات فراہم کرو، آزادی سے جینے دو مگر مفتی تقی عثمانی جس نے20سال روس کیخلاف اور20سال امریکہ کے خلاف کبھی جہاد میں حصہ نہیں لیا اور اب یہ کہہ رہا ہے کہ میری خواہش ہے لیکن وہاں جا نہیں سکتا کہ فلسطین میں جان دوں۔ جب جانے کا وسیلہ بن جائے تو کہتا ہے کہ میری اور میرے ٹبر کی ٹریننگ نہیں ہے۔ ہم نیٹو و امریکہ کے بھی خلاف تھے۔ اسرائیل کے بھی خلاف ہیں۔ پاکستان کی ریاست اگر اپنے لوگوں کے ساتھ ظلم و جبر روا رکھتی ہے تو اسکے بھی خلاف ہیں لیکن یہ نہیں کرسکتے کہ خود اپنے گھروں میں بیٹھ جائیں اور دوسروں کو قربانی کا بکرا بنانے کی دعوت دیں۔
جب طاقتور اور کمزور کا مقابلہ ہوتا ہے تو فطری طور پر کمزور کا ساتھ دینا انسانیت کا تقاضہ ہوتا ہے۔ بلوچ کمزور ہیں ریاست طاقتور ہے۔ اس لڑائی میں بلوچوں کو کافی عرصہ سے بہت زیادہ نقصان اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بلوچ دھرنے میں شریک سید صبغت اللہ شاہ جی نے کہا کہ اب ریاست اور بلوچ قوم کے درمیان دشمنی کی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ بلوچ جب فوج پر وار کرتے ہیں تو فوج اس کا بدلہ عام بلوچ سے لیتی ہے اور یہ صورتحال اس وقت درست ہوسکتی ہے کہ جب فوج اپنی بیرکوں میں جائے اور تمام ادارے اپنی اپنی جگہ پر درست کام کریں۔ شاہ جیMAپولیٹکل سائنس ہے ۔ ہماری استدعا یہ ہے کہ پاکستان گمشدہ افراد کی صحیح صورتحال سے بلوچ کمیونٹی کو آگاہ کردے یہ اسلام اور انسانیت کا تقاضہ ہے۔ اور ڈاکٹر ماہ رنگ کو سیاسی جدوجہد کرنے دے تاکہ حالات ٹھیک ہوں۔
بلوچستان میں ایک آزادی کی فضاء قائم کی جائے جس میں ماحول کو بہتر بنانے کیلئے کام کرنے والے اپنی خدمات انجام دے سکیں۔ ریاست اور شدت پسند تنظیموں کی طرف سے کسی کو کام کا موقع نہیں ملے گا تو اسکا سارا خمیازہ بلوچ قوم بھگتے گی۔ انڈے کی غلطی ہے کہ چوزہ پیدا ہوا یا پھر مرغی کی غلطی ہے کہ انڈہ دے دیا۔ یہ بحث کبھی ختم نہیں ہوگی۔ پر امن فضاء سے یہ مائیں ،بہنیں اور بیٹیاںعزت و سکون کی زندگی گزاریں گی۔
1
انعام کھیتران ولد عبدالرحمن کھیتران نے انکشاف کیا کہ مری خاندان کی نشاندہی کرنے والی یہ کھیتران لڑکی شہید کی گئی
جس بلوچ عظیم لڑکی نے اپنے ظالم سردار کے خلاف ویڈیو وائرل کرکے غریب مری خاندان کو موت سے بچایا تھا وہ خود شہید کردی گئی اور پولیس نے اس کی لاش کنویں سے برآمد کرکے کوئٹہ پہنچایا تھا۔ سندھ اور کراچی سمیت بڑی تعداد میں مظاہرہ کرنے والے مری قبائل کوسب لوگوں نے بھرپور سپورٹ کیا۔ سینیٹر مشتاق خان بھی پہنچا تھا مگر ویڈیو کی وجہ سے مری قیدی رہاہوگئے تواس شہید لڑکی کو ایدھی نے لاوارث دفن کردیا۔بانوماہ رنگ بلوچ، بانو ھدیٰ بھرگڑی، فرزانہ باری، طاہرہ عبداللہ اور افراسیاب خٹک ، فرحت اللہ بابر، سینیٹرمشتاق اس لاوارث لاش کو ورثاء تک پہنچادیں تو اچھا ہوگا۔
2
دوستو! دنیا کے تمام مذاہب ایک نجات دہندہ کا انتظار کررہے ہیں۔ماجد ملک
دوستو! دنیا کے تمام مذاہب ایک نجات دہندہ کا انتظار کررہے ہیں۔ ہندو37سو سال سے کالکا کا انتظار کررہے ہیں۔ کنفیوشس (چین کا مقامی مذہب) اور تا ؤ25سو سال سے کسی نجات دہندہ کا انتظار کررہے ہیں۔ پارسی26سو سال سے زرتشت ثانی کا انتظار کررہے ہیں۔ بدھ مت25سو سال سے متریا کا انتظار کررہے ہیں۔ یہودی34سو سال سے مسیحا کا انتظار کررہے ہیں۔ عیسائی2ہزار سالوں سے مسیحا کا انتظار کررہے ہیں۔ سنی مسلم14سو سال سے حضرت عیسیٰ کا انتظار کررہے ہیں۔ شیعہ مسلم1ہزار80سال سے مہدی کا انتظار کررہے ہیں۔ بہائی مسلم 1ہزار سال سے حمزہ ابن علی کا انتظار کررہے ہیں۔ دروس3ہزار5سو سال سے شعیب علیہ السلام کا انتظار کررہے ہیں۔ یعنی بیشتر مذاہب ایک نجات دہندہ کے خیال کو قبول کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا برائی سے بھری رہے گی جب تک وہ نجات دہندہ آکر اسے اچھائی اور انصاف سے نہ بھردے۔ اس کرہ ارض پر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اس انتظار میں ہیں کہ کوئی دوسرا آئے اور ہمارے مسائل حل کردے۔ ہم اپنے مسئلے خود کبھی حل نہیں کرسکتے۔
انصاف کے بغیر تو ایک گھر نہیں چل سکتا۔پھرآپ ریاست کیسے چلا سکتے ہیں ؟۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ
45 سالہ عربی خاتون تحیات فیدال عمدہ لکھتی تھی اسکا گما ن تھا کہ” دابة الارض عام انسان ہے جو عورت مہدی ہوسکتی ہے ۔ مردانگی بہادری کی صفت ہے ”۔ قاسم بن عبدالکریم کے مہدی سے بہترہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کولاہوری اپنا مسیحا بنادیں۔
3
پولیس کی تحویل میں بلوچ بچی کی فریاد
نہ ہمیں گیس دیا جائے نہ ہمیں بجلی دیا جائے نہ ہمیں سیندک کا سونا چاہیے نہ ہمیں گوادر کے وسائل چاہئیں۔ نہ ہمیں کوئلے چاہئے نہ ہمیں فیسی لیٹیز چاہئے۔ ہمیں ہمارے بھائی چاہئیں۔ ہمیں جینے کا حق چاہئے اور ہم کچھ نہیں چاہتے اور ہم کچھ …
ہمارادشمن خدا کی قسم اسرائیل سے بدتر
بلوچ خاتون رہنماکی تقریر۔خدا کی قسم فلسطین وہ خوش قسمت قوم ہے جنہیں ایسا دشمن ملا جو کھلے عام ان کی نسل کشی کررہا ہے۔ ان کیساتھ جنگ لڑ رہا ہے۔ آپ کتنے سالوں سے بلوچ قوم کی نسل کشی کررہے ہیں۔ آج ہم آپ کو بے غیرت اور بے ضمیر کہنا بھی گوارہ نہیں کرینگے۔ آپ وہ دشمن ہیں ہمارے۔ آئیں آپ اپنے اور اپنے تعلق کا اظہار کریں کھلے عام اور کہہ دیں کہ آپ جو بلوچ قوم کی نسل کشی کررہے ہیں اس کے بعد ہم بھی دیکھیں گے کہ باقی آپ رہتے ہیں یا پھرہم رہتے ہیں؟۔
ارمان شہید کی بہن وڑانگہ کا خطاب
چمن لغڑیان دھرنے سے ارمان لونی شہید کی بہن وڑانگہ نے تقریرکرتے ہوئے کہا کہ قوموں کے درمیان جنگ وسائل کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ پنجاب کے فوجی جرنیلوں اور سیاستدانوں نے بیرون ملک بڑی دولت بنائی ہے۔ ہم سے روٹی کا نوالہ بھی چھینا جارہا ہے۔ ان کو ہماری شکل اچھی نہیں لگتی پشتون وطن کے وسائل اچھے لگتے ہیں۔ اگر دہشت گردی وغیرہ سے بچنے کا کوئی مسئلہ ہے تو مل بیٹھ کر بات کرلیتے ہیں۔ دنیا میں ریاست و عوام کے درمیان مسائل اور وسائل قوانین سے طے ہوتے ہیں۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ