پوسٹ تلاش کریں

کیا پاکستان میں سودی قرضوں کے طوفان نوح سے بچنے کیلئے کرپشن کشتی نوح ہے؟

کیا پاکستان میں سودی قرضوں کے طوفان نوح سے بچنے کیلئے کرپشن کشتی نوح ہے؟ اخبار: نوشتہ دیوار

کیا پاکستان میں سودی قرضوں کے طوفان نوح سے بچنے کیلئے کرپشن کشتی نوح ہے؟

مشرف نےIMFسے6ارب ڈالر قرضہ لیا ، زرداری نے مزید10ارب ڈالر قرضہ لیا اور نواز شریف نے30ارب ڈالر تک قرضہ پہنچادیا تھا

ریاست اور عوام نے مفت کینسر ہسپتال کے بانی اور چندوں کے اُستاد عمران خان کو منتخب کیا تو ساڑھے3سال میں48ارب ڈالر تک پہنچادیا

جنرل ایوب خان کو ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے میں لوگ اسلئے یاد کرتے تھے کہ انکے دور میں مہنگائی کم تھی۔ جنرل ضیاء الحق کے بعد پہلی مرتبہ بنیظیر بھٹو نے اقتدار سنبھال لیا تو پاکستان نے پہلی مرتبہIMFسے قرضہ لیا۔ زرداری کے گھوڑوں کا خرچہ، سوئس اکاونٹ ، سرے محل اور دوبئی کی رہائش گاہ وغیرہ بعد کی جائیدادیں ہیں۔ کرپشن کی وجہ سے اس کی حکومت ختم ہوئی۔ پھر نوازشریف نے اقتدار سنبھال لیا تو لندن فلیٹ سے لیکر دنیا بھر میں اپنی دولت بنائی۔ کرپشن ہی کے الزام اس کی حکومت گئی۔ ان دونوں کی دو دوبار کی حکومتوں میںIMFکے سودی قرضے بڑھ گئے۔ پرویزمشرف نے2004میںIMFسے پاکستان کو چھڑا دیا لیکن2008میں پھر6ارب ڈالرکا قرضہIMFسے لیا۔ زرداری اگر معیشت ٹھیک کرسکتا تھا تو یہ قرض ختم یا کم کردیتا لیکن اس نے10ارب ڈالر مزید لیکر پاکستان کو16ارب ڈالر کا مقروض کردیا۔ نوازشریف آیا تو اس نے مزید14ارب ڈالر لیکر پاکستان کوIMFکے سودی گردشی قرضے کے شکنجے میں30ارب ڈالر تک پھنسادیا۔ ہم نے اس وقت لکھ دیا تھا کہ دفاعی بجٹ سے بھی ڈیڑھ گنا سودی گردشی کا قرضہ بڑھ گیا ہے اور پاکستان دیوالیہ بن جائیگا۔ عمران خان نے چندوں سے کینسر ہسپتال کی طرح ملک چلانے کا وعدہ کیا تو اس نے کم مدت میں48ارب ڈالر تک قرضہ پہنچادیا تھا۔موجودہ حکومت نے عوام کے سامنے مہنگائی مارچ کئے اور حکومت پر خوب گولے برسائے ۔ اپنے زرخرید صحافی بھی پیچھے لگائے لیکن جب خود ساڑھے تین ماہ میں اتنی مہنگائی کرلی کہ لوگ عمران خان کے ساڑھے چار سال بھی بھول گئے۔ سیلاب زدگان کے فنڈز بھی لگتا ہے کہ بالکل کھا گئے ہیں۔ ایک مریم نواز تھی جو عمران خان کو ترکی بہ ترکی جواب دیتی تھی لیکن پنجاب کے ضمنی الیکشن میں شکست کے بعد دل شکستہ ہوکر قومی اسمبلی کے ضمنی الیکشن سے باہر بھاگ گئی۔ موجودہ حکومت نےIMFکا قرضہ مزید تیز رفتاری سے بہت بڑھا دیا ہے۔ احمقوں کی جنت میں رہنے والے سمجھتے ہیں کہ وہ معیشت بہتر کرلیںگے۔ پالیسی شاید یہ ہے کہ پیٹرول وڈیزل کی قیمت بڑے پیمانے پر بڑھا کر پھر معمولی کم کیا جائے اور جیو ٹی وی چینل میں خبریں لگائی جائیں کہ پیٹرول کی قیمت کم کرنے کا دھماکہ۔ ڈالر میں بارود پھٹ گیا اور پاکستانی روپیہ کے مقابلے میں نیچے آگیا۔ لوگ ابھی ان جھوٹی کہانیوں میں آنے والے نہیں ہیں۔ صحافی کبھی جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ میں بدلنے کی تھوڑی صلاحیت رکھتے تھے ، اب عوام کو یہ بالکل ایک کھلا مذاق لگتا ہے۔
سودی گردشی قرضہ بڑھے گا تو معیشت کیسے ٹھیک ہوگی اور مہنگائی پر قابو پانا کیسے ممکن ہوگا؟پرویزمشرف کے بعد6ارب ڈالر سے60ارب ڈالر تک سود پہنچے گا تو کتنے پیسے ادا کرنے پڑیںگے؟۔ نوازشریف نے30ارب ڈالر تک پہنچادیا تھا تو دفاع سے ڈیڑھ گنا صرف سودکی مد میں ادا کرنے والی رقم تھی اب تو دفاع سے تین گنا بڑھ گیا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ایکس ٹینشن بھی اسلئے نہیں لے رہاہے کہ اس معاشی گھمبیر صورتحال میں کوئی دیوانہ ذمہ داریوں کو قبول کرے گا۔ جو سیاسی جماعتیں اقتدار کیلئے مررہی ہیں ان میں شرم نہیں۔
ریاست اور حکومت کا حجم اتنا بڑھ گیا کہ جب تک بھاری بھرکم سودی قرضہ نہ لیاجائے توہیرونچی کی طرح ہاتھ پھیلائے بغیر اس کا خرچہ بھی نہیں چلتا ہے۔ سب سے پہلے معاشی اور سیاسی استحکام ضروری ہے لیکن جب ریاست کی چولیںPDMکے بعد اب عمران خان نے ڈھیلی کردی ہیں تو ریاستی استحکام کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ جب اکیلا مولانا فضل الرحمن لانگ مارچ کر کے اسلام آباد پہنچ گیا تھا تو فوج کو زبردست دھمکیاں دیں اور لعن طعن کی ۔ جس پرDGISPRنے کہا تھا کہ ”آئندہ الیکشن میں ہم نہیں آئیںگے”۔ پہلے سیاسی جماعتوں کیلئے فوج کا نام لینا بھی ممکن نہیں تھا۔ مولانا فضل الرحمن نے اوریامقبول جان وغیرہ کی موجودگی میں لطیفہ سنایا کہ ایک عورت کے شوہر کا نام ”رحمت اللہ” تھا جس کو وہ ”منے کا ابا” کہتی تھی جب نماز پڑھتی تھی تو سلام پھیرتے وقت بھی کہتی تھی کہ ”السلام علیکم منے داابا”۔ جہاں سے نام لینا شروع ہوگیا تھا اور اس سے پہلے بھی خلائی مخلوق کا نام لینے سے بھی بلاول بھٹو ڈرتا تھا۔ پھر سلیکٹڈ کہنا شروع کردیا۔
ہم نے صحافت کا حق ادا کرتے ہوئے شہہ سرخی میںلکھا تھا” خلائی مخلوق لیٹرین کے گٹر سے لوٹے بھر بھر کر قومی اسمبلی میں پہنچارہی ہے”۔ISIنے مجھے بھی وارننگ دی تھی کہ ہمارے خلاف مت لکھو، ورنہ اخبار وغیرہ بند ہوجائے گا۔ پہلے بھی نقصان پہنچ چکا ہے۔ میں نے جواب دیا تھا کہ میرے اندر اتنی طاقت تو نہیں ہے کہ آپ سے لڑ سکوں لیکن اگر اخبار بند کردوگے تو ہم اپنے فرائض منصبی سے سبکدوش ہوکر غم نہیں کھائیںگے اسلئے کہ جتنا ہم کرسکتے ہیں اس سے زیادہ نہیں کریںگے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھاگ کر جان بچائی تھی اور اب ریاست کی اجازت کے بغیر کوئی باہر بھی نہیں جاسکتا ہے۔ میں نے کہا تھا کہ مجھے ریاست بہت کمزور نظر آتی ہے اور یہ مفاد پرستی ہے کہ اپنے مفاد کیلئے اس پر تنقید کرنا چھوڑ دو۔ اس پر تنقید سے ہی اس کو فائدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنے شرعی مسائل تک خود کو محدود رکھو اور ہم بھی آپ سے تعاون کریںگے۔ میں نے کہا کہ مجھے پتہ ہے کہ اگر ریاست نے ساتھ دیا تو لوگ امام ابوحنیفہ اور بڑے بڑوں کو بھول جائیںگے اور مجھے بہت بڑا فقہی امام مان لیںگے لیکن یہ مفاد پرستی ہے اور اس کا مرتکب ہونا میرے ضمیر کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ اتنی تنقید کسی میڈیا میں نہیں ہے جتنی آپ کرتے ہو۔ میں نے عرض کیا کہ بتاؤ کہاں کیا بات غلط لکھی ہے؟۔ کہنے لگا کہ لکھتے تو بہت زبردست ہو۔ آخر میں پوچھا کہ ہماری طرف سے کوئی تکلیف تو نہیں پہنچی ہے۔ میں نے کہا کہ فون آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب کسی کا آئے تو ہمیں بتانا اور پھر کبھی ایسا فون نہیں آیا۔
عمران خان نے کہا تھا کہ غریدہ فاروقی کو مردوں میں نہیں جانا چاہیے اور جب وہ اپنی عزت کا خود خیال نہیں رکھتی ہیں تو ہم کیا کرسکتے ہیں؟۔ عورتوں نے اس کا بالکل بجا طور پر بہت برا منایا لیکن عمران خان اپنی بات درست طریقے سے نہیں کہہ سکا تھا۔ عمران خان کا مطلب یہ تھا کہ غریدہ فاروقی تحریک انصاف اور اس کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے تو ان کو ہمارے جذباتی کارکنوں میں نہیں آنا چاہیے۔ کاش وہ اس بات کا بھی سوچ لیتے کہ فوج کے خلاف بات کرنے سے صحافیوں کو دور ہونا چاہیے ،اگر وہ فریق بنیںگے تو جذباتی لوگوں کی طرف سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔ جس طرح کیپٹن صفدر اورمریم نواز کے مسئلے پر ایک فوجی افسر نے جذباتی ہوکر سندھ پولیس کے افسر کی بے عزتی کی تھی جس پر سندھ پولیس نے ایکشن لیا تو جنرل قمر جاویدباجوہ نے اس کو ہٹادیا۔
اگر شہباز گل اور اعظم سواتی پر درست انداز میں شکایت لگائی جاتی تو شاید اس کا ازالہ بھی کردیا جاتا لیکن صحافیوں نے ماحول میں ایسا بگاڑ پیدا کیا کہ عمران خان اور فوجی قیادت کو بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ کیسے معاملات بگڑ گئے ؟۔ نجم سیٹھی مسلسل ایک طرف عمران خان کا گراف گرانے کیلئے ن لیگ سے گٹھ جوڑ کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف عمران خان کو منصوبہ بندی سے اوپر چڑھانے کا الزام بھی لگاتا ہے ، جو صورتحال بھی ہوگی تو اپنے سابقہ کلپ دکھائے گا اور اس کا سب سے زیادہ نقصان ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کو پہنچاہے۔ جھوٹ کی مدد سے الٹا نقصان پہنچتا ہے اور وہ بہت سے دوسرے صحافی بھی پہنچارہے ہیں۔
اعظم سواتی نے پٹھان غریب خاندان کیساتھ جو سلوک روا رکھا تھا یہ اس کی بد دعائیں ہیں کہ سچا یا جھوٹا پروپیگنڈہ کرکے خود کو زندہ لاش کہہ رہاہے۔ بلوچ و پشتون قوم پرستوں کو فوج کو ذلیل کرنے یا بچانے کی خاطر نہیں اپنے لئے واضح کرنا ہوگا کہ ان کے ساتھ تو جنسی زیادتی نہیں ہوئی ہے؟۔ اگر نہیں ہوئی ہے تو پھر اعظم سواتی اور شہباز گل کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے۔ عمران ریاض اور سمیع ابراہیم نے مطیع اللہ جان پر جنسی تشدد کا الزام لگایا تھا لیکن اب وہ خود خوار ہیں۔
وقت بدلنے میں دیر نہیں لگتی ہے۔ عمران خان کہتا ہے کہ فوج نے مجھے بحال کردیا تو لڑائی ختم ہے لیکن یہ مسائل کا حل تو پھر بھی نہیں ہے۔ معاشی استحکام کی بنیاد عوام کو بھوک پیاس سے نجات دلانی ہے۔ پاکستان زرعی ملک ہے ،ا سلامی تعلیمات کے مطابق مزارعین کو مفت زمینیں دی جائیں تو حکومت کو عشر سے بڑا کچھ ملے گا۔ جس سے کامریڈ اور مذہبی طبقہ دونوں ریاست کی تائید میں سرگرم نظر آئے گا۔ روس بھی اتنی بڑی پیش رفت دیکھ کر اسلام کی طرف مائل ہوگا۔ چند جاگیرداروں کی ناراضگی کے عوض بڑے پیمانے پر عوام خوشحال ہوجائے گی۔ ہم کوئی مزارع نہیں بلکہ اس کا اثر ہمارے گھر اور خاندان پر بھی پڑے گا۔ ابتداء تو اپنی ذات سے کرنی ہوتی ہے۔ عمران خان اس کا اعلان کردے تو پتہ چلے گاکہ ریاست مدینہ بنانا چاہتا ہے یا نہیں؟۔ معراج محمد خان نے مجھے کہا تھا کہ تحریک انصاف کو بھی میں نے منشور بناکر دیا تھا آپ کو بھی بناکر دیتا ہوں ۔ میں نے کہا کہ قرآن وسنت بذات خود بڑا منشور ہے اور ہمارا آئین بھی اس کا تقاضہ کررہا ہے۔ صرف عمل کرنے کی بات ہے۔ جاگیردار مزارعین کے ووٹ سے جیت کر آتے ہیں جب مزارعین آزاد ہونگے تو حقیقی آزادی کا سفر اس وقت شروع ہوگا اور ہم عمران خان کی سیاسی سرگرمیوں کیخلاف نہیں ۔ دس ماہ تک احتجاج جاری رکھنا ہے تو عوام کیلئے ٹینٹ لگادیں۔بیرون ملک سے چندے آئیں گے اور کافی لوگ اتنے عرصہ تک روٹی روزی کھائیں گے اور دیہاڑیاں لیںگے تو معیشت کا بوجھ کم ہوجائے گا۔ سیلاب زدگان کو بھی اپنے پاس بلالیں تاکہ سیاسی شعور کا دائرہ اندورن سندھ تک بھی پہنچ جائے۔ حکومت اور ریاست ستو پی کے سوئے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟