پوسٹ تلاش کریں

کیا قرآن و سنت کے مطابق آئین سازی اسلئے نہیں ہوسکی کہ مدارس نے معاملہ بگاڑا ہے؟

کیا قرآن و سنت کے مطابق آئین سازی اسلئے نہیں ہوسکی کہ مدارس نے معاملہ بگاڑا ہے؟ اخبار: نوشتہ دیوار

کیا قرآن و سنت کے مطابق آئین سازی اسلئے نہیں ہوسکی کہ مدارس نے معاملہ بگاڑا ہے؟

اللہ نے فرمایا: ”اپنے یمین کو ڈھال مت بناؤ کہ تم نیکی کرو، تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ”۔آیت224البقرہ۔قرآن نے صراط مستقیم عطاء کی مولوی نے برج اُلٹ دیا؟
نیکی کرنا توبڑی قربانی ہے۔تقویٰ اختیار کرنا بھی بڑی تربیت مانگتا ہے لیکن لوگوں کے درمیان صلح کرانے میں کوئی مشکل نہیں اور قرآن کو بالکل الٹا پیش کرکے صلح پر پابندی کا ذریعہ بنایا گیا!

آئین کہتا ہے کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ رب العالمین کی ہوگی ، اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا، تمام قوانین قرآن اور سنت کے تابع ہوںگے، قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنے گا، پھر1973سے لیکر آج تک کوئی قانون سازی ہوئی کیوں نہیں؟۔ اسلئے کہ ایوانوں کو ایسے لوگوں سے بھردیا جاتا ہے کہ جن کو قرآن و سنت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ لہٰذا ہمیں اس رُخ پر بھی سوچنا ہوگا۔ اس پہلو کو ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ ہمارے ملک کا ایک قومی المیہ ہے آج تک جس کا ہم سامنا کررہے ہیں۔ جس کو ہم اہمیت نہیں دینا چاہتے۔ تو یہ چیزیں مد نظر رہیںآپکے۔ قائد جمعیت علماء اسلام حضرت مولانا فضل الرحمن

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن نے ٹھیک کہا ہے کہ1973کے آئین کے بعد ایسے لوگ پارلیمنٹ میں نہیں لائے گئے جو قرآن وسنت کے مطابق آئین سازی کو یقینی بناتے۔قومی اتحادجمع تحریک نظام مصطفی ۖ، ضیاء الحق کا اسلامی ریفرینڈم، اسلامی جمہوری اتحاد،اسلامی جمہوری محاذ اور اسلامک فرنٹ سے لے کر متحدہ مجلس عمل اور عمران خان کے ریاستِ مدینہ و جنرل سید حافظ منیر کی طرف سے قرآنی آیات کے حوالے دینے تک عوام سب پر اپنا اعتماد کھوچکے ہیں۔
قرار داد مقاصد سے پاکستان کا مطلب کیا ؟لاالہ الا اللہ ! اور پاکستان دولخت ہونے تک دھوکہ بازی کے سیاہ دھوئیں ہی نظر آتے ہیں۔ کیا انگریز کی آمد سے پہلے اورنگزیب مغل بادشاہ کے دور میں جن500علماء نے فتاوی عالمگیریہ مرتب کیا تھا تو وہ قرآن وسنت کے مطابق تھا؟۔جس پر شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبدالرحیم نے مہر تصدیق ثبت کی تھی؟۔ جس میں بادشاہ پر قتل ،زنا،چوری اور ڈکیتی کی کوئی سزا نہیں ہے؟۔ جیو ٹی وی پر سلیم صافی نے اپنے جرگہ پروگرام میں مفتی عبدالرحیم کو بڑاہی مستند ومعتبر بناکر پیش کیاتھا جس نے یہ شریعت بھی واضح کردی کہ حجاج بن یوسف نے لاکھوں بے گناہ لوگوں کوقتل کیا مگر اسکے خلاف بھی بغاوت جائز نہیں تھی؟۔ حالانکہ امام ابوحنیفہ نے یہ واضح کیا تھا کہ بنوامیہ کے ظالم حکمرانوں سے جہاد ایسا ہے جیسے نبی ۖ نے بدر میں مشرکینِ مکہ کے خلاف جہاد کیا تھا۔جب امام زید نے خروج کیا تھا تو امام ابوحنیفہ نے اس کو شریعت کے منافی نہیں قرار دیا تھا بلکہ کامیابی کی امید نہیں تھی۔یزید کے خلاف امام حسین کا قیام خلاف شریعت نہیں تھا لیکن کوفیوں سے وفا کی امید نہیں تھی۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے فاضل نے کتاب ” شہید اہل بیت امام ابوحنیفہ” لکھ کر شائع کی ہے۔
درباری مولوی بے چارہ توہمیشہ طاقتور کیساتھ ہی رہاہے اور اگر یزید کے مقابلے میں امام حسین کی فتح ہوتی تو یہ خوف تھا کہ مولوی شیعہ بن کر حضرت ابوبکر، عمر، عثمان اور امیر معاویہ کی خلافت وامارت کو بھی باطل قرار دیتا۔ شیعہ سنی فرقے اللہ نے نہیں بنائے ہیں بلکہ شیعہ سنی علماء نے پیٹ کیلئے بنائے ہیں۔
جب بنوامیہ کا تخت الٹ دیا گیا تو علماء ومفتیان نے فتویٰ دیا کہ خلافت بنو عباس کا حق ہے اسلئے کہ حضرت عباس نے ہی اسلام قبول کیا تھا،نبی ۖ کے چچا ابوطالب نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔چچا کی موجودگی میں چچازاد بھائی حضرت علی اپنے نبی ۖ کی وراثت کا حقدار نہیں تھا۔ لہٰذا علی کی اولاد سے زیادہ چچا عباس کی اولاد خلافت کی حقدار ہے۔ ایک طویل عرصہ تک فقہ کی دنیا پر بادشاہت کرنے والے عباسی خلفاء کو سادات سے نفرت دلانے کیلئے فتوے دیتے رہے۔ حالانکہ پھر تو فتوے کی زد میںوہ خلفاء راشدین اور بنوامیہ کے حکمران بھی آرہے تھے جو نہ چچا تھے ، نہ چچازاد اور نہ ان کی اولاد؟۔ بنگلہ دیش میں جتنے بنگالی مفتی تقی عثمانی ومفتی رشیداحمد لدھیانوی کے قبیلے یا مسلک سے ہیں ان سے فتویٰ پوچھ لیا جائے کہ بنگال کا پاکستان سے آزادی حاصل کرنا درست تھا تو جواب دیں گے کہ بڑا جہاد تھا! اور پاکستانی علماء ومفتیان اس کو بغاوت اور ناجائز کہیں گے۔
ان سے فتویٰ پوچھا جائے کہ خاور مانیکا سے ریاست نے بیوی چھین کر عمران خان کیساتھ عدت میں بیاہ دی تو فتوی دیں گے کہ اگر بشریٰ بی بی کی رضانہ ہو تو بھی ریاست نے یہ ٹھیک کیا ہے اور اب شریعت کے مطابق عمران خان کاہی اختیار ہے۔ جبری نکاح کے جواز سے ان کے فتاویٰ بھرے پڑے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے خلاف جب فتویٰ لگتا تھا تو فتوے کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھنے کی بات کرتے تھے۔جب مولانا فضل الرحمن کی حیثیت کمزور تھی توفتوے لگتے تھے اور مولانا بھی سودی زکوٰة کو شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل قرار دیتا تھا۔ اب تو اسلام کے نام پر سودی بینکاری کو جواز بخش دیاہے اسلئے کہ غیبی مدد سے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی صفوں میں تگنی کا ناچ اپنی جماعت کوبھی نچارہاہے۔اسلامی سود، اسلامی ناچ اور اسلامی جاگیرداری سب کچھ دنیا میں رائج ہورہاہے۔ پہلے سے ہی آوے کا آوا بہت بگڑا ہواہے جس سے نکلنے کی ضرورت ہے ۔
سورہ بقرہ کی آیات224سے232میں تک ہدایت کا وہ نور ہے جس کی طرف امت نے اگر توجہ کرلی تو ایک ہی دن میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں عظیم انقلاب آسکتا ہے۔ آیت نمبر224البقرہ میں تین بنیادی باتیں ہیں:
نمبر1:اللہ کو ڈھال مت بناؤ کہ تم نیکی نہ کرسکو۔ نیکی کرنا تو بہت بڑے درجے کی فضیلت ہے لیکن اس میں بہت قربانی کا بھی معاملہ ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق اکبر کے رشتے دار مسطح نے حضرت عائشہ پر بہتان لگایا تو حضرت ابوبکر نے یہ عہدکرلیا کہ آئندہ اس پر احسان نہیں کروں گا۔ اللہ نے قرآن کی سورہ نور میں آیت نازل فرمائی کہ ”تم میں سے جو مالدار ہیں وہ یہ عہد نہ کریں کہ وہ مستحق لوگوں کیساتھ احسان نہیں کریں گے”۔
حضرت ابوبکر کی طرف سے نیکی کرنا پہلے بھی بڑی بات تھی اور پھر بہتان عظیم کے باوجود بھی نیکی کرنا بہت بڑی قربانی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے حکم واضح کیا کہ تمہارے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ نیکی کرنے سے ہاتھ روک لو۔ نیکی ہر میدان میں اللہ نے دشمنوں کو معاف کرنے سے لیکر ہرسطح پر جاری رکھی ہے اور اس کی ایک بڑی مثال یہ بھی ہے کہ جب رسول اللہ ۖ کی طرف سے واضح حکم آیا کہ چار افراد کا قتل مباح ہے۔اگرچہ وہ خانہ کعبہ کے غلاف میں چھپ کر پناہ لیں تب بھی قتل کریں۔ ان میں ایک وحی کا کاتب مرتد بن گیا تھا۔حضرت عثمان نے اس کو چھپایا اور نبی ۖ کی خدمت میں معافی کی درخواست کی تو نبی ۖ نے چہرہ انور پھیر لیا۔حضرت عثمان نے پھر آکر دوسری مرتبہ درخواست کی تو نبی ۖ نے پھر دوسری طرف منہ مبارک پھیر لیا۔ پھر حضرت عثمان نے اس طرف درخواست کی تو نبی ۖ نے تیسری مرتبہ معاف فرمادیا اور لوگوں سے فرمادیا کہ تم لوگوں نے میری بات کو سمجھ کر معاف کرنے سے پہلے قتل کیوں نہیں کیا؟۔ مرزا محمد علی جہلمی ایک مخصوص ماحول کی پیداوار ہے اسلئے اس واقعہ کو اس انداز میں بیان کیاکہ جیسے حضرت عثمان نے کوئی بڑی گستاخی کا ارتکاب کیا ہو؟۔ حالانکہ حضرت عثمان کیلئے یہ بہت بڑے اعزاز کی تھی۔ یہ نبی ۖ رحمت للعالمین تھے اور اس واقعہ سے دشمنان رسول ۖ بھی نبی کی اس عظیم صفت پر ایمان لاسکتے تھے۔ ابوجہل کا بیٹا حضرت عکرمہحالت کفر میں بھی نبی ۖ کی اس صفت پر ایمان لایا تھا۔ہند نے بھی یہ صفت دیکھ لی۔ نیکی کرنا مشکل کام ہے لیکن اللہ نے اس کا راستہ نہیں روکا ہے اور یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔
نمبر2:سورہ بقرہ کی آیت224میں دوسری بات تقویٰ اختیار کرنے سے نہ رکنے کا حکم ہے۔ تقویٰ اختیار کرنا بھی بڑا مشکل کام ہے۔ جب حضرت یوسف کے پیچھے عزیز مصر کی بیوی زلیخا پڑگئی تو حضرت یوسف نے فرمایا کہ اگر میرے رب کی طرف سے برھان نہ ہوتی تو میں اپنے آپ کو نہیں بچاسکتا تھا۔ رشوت، حرام ، جنسی خواہشات سے بچنے کیلئے انسان کو حد درجہ تعلیم وتربیت اور اچھے ماحول کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم و حواء کو جنت میں تمام چیزیں اپنی خواہشات کے مطابق کھانے پینے کی اجازت دی لیکن شجرہ ممنوعہ سے روک دیا تھا۔ فرمایا:لاتقربا ہذہ الشجرہ فتکونا من الظالمین ” اس درخت کے قریب نہ جاؤپھر تم ظالموں میں سے ہوجاؤ گے”۔ پھر شیطان نے ان دونوں کو ورغلایا ۔ تقویٰ اختیارکرنا بھی بہت مشکل کام ہے۔جہاں برائی کے مواقع ہوں اور آدمی تقویٰ اختیار کرے تو یہ بھی عظیم لوگوں کی بڑی عظمت ہے۔ اس کیلئے زبردست اچھے ماحول کی بہت ضرورت ہے۔ اچھی تعلیم وتربیت کے بغیر تقویٰ اختیار کرنا بہت مشکل کام ہے۔مدارس و خانقاہوں کے ماحول میں بھی تقویٰ اختیار کرنا بڑی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بہت ساری آیات میں تقویٰ کی تعلیم دی ہے۔ جب تک دنیا و آخرت میں سخت مواخذے کا خوف نہ ہو تو تقویٰ اختیار کرنا بہت بڑی بات مگر مشکل کام ہے۔
نمبر3:سورہ بقرہ کی آیت224میں تیسری بات یہ ہے کہ اللہ کو ڈھال کے طور پر استعمال کرکے لوگوں کے درمیان صلح میں رکاوٹ مت ڈالو۔ ان آیات کا اصل موضوع یہی ہے۔
پل صراط کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بال سے باریک ہے ، تلوار سے تیز ہے اور پانی سے نرم ہے۔5سو میل چڑھائی ہے،5سو میل سیدھا ئی ہے اور5سو میل اترائی ہے۔ مفتی منیر شاکر نے اس پر ایک وزیرستانی کالطیفہ بھی سنادیا ہے۔آخرت کو چھوڑ دو۔قرآن کی ان آیات میں بھی پل صراط کا منظر ہے۔
آیات224سے232البقرہ اور سورہ طلاق میں بھی دو باتوں کی وضاحت ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ اگر میاں بیوی صلح کیلئے راضی ہوں تو اللہ تعالیٰ نے انکے درمیان صلح میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی ہے۔ بجلی کے کرنٹ کی طرح دنیا اس پل صراط پر گزر جائے گی مگر جس نے مفتی کا کورس کیا ہوگا وہ اس سے قطعی طور پر بھی نہیں گزر سکے گا اسلئے کہ اسکے دل اور دماغ پر فتاویٰ شامیہ وغیرہ کی وہ چھاپ لگی ہوگی جس نے اس کی انسانی صلاحیتوں کو زنگ لگادیا ہوگا۔ پنج پیری مزاج کاانسان قرآن کی رٹ لگائے گا مگر قرآن میں حضرت خضر، حضرت عیسیٰ ، حضرت ابراہیم اور نبی ۖ کا واقعہ معراج اس کے دماغ میں کبھی نہیں اتر سکے گا۔ اگر قرآن و سنت کا حوالہ دئیے بغیر اس کا تذکرہ ہوگا تو اس کو عقل، دل اور شریعت کے منافی لگے گا۔ بھیا ڈھول کی تھاپ پر جتنا چاہو ، دوسرے پر شرک وکفر کا فتویٰ لگاؤ لیکن طلاق کا مسئلہ تو سمجھ لو۔ فتاویٰ شامیہ میں تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ سورہ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنا جائز ہے تو پھر تمہارے لئے تو پنجاب کی شلوار بابا والی سرکار بھی معتبر ہونا چاہیے۔ فتاویٰ قاضی خان اور فتاویٰ شامیہ سے بڑھ کر اور کیا گمراہی ہوسکتی ہے کہ سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے تک جائز قرار دے دیا۔ مفتی تقی عثمانی کو تو ہم نے تائب کرادیا لیکن مفتی سعید خان نے ریاست مدینہ سرکار کا نکاح پڑھایا تھا وہ تو اتنا بڑا جرم تھا یا نہیں؟۔ لیکن اپنی کتاب ”ریزہ الماس” میں جو فتاویٰ قاضی خان کی بات کو درست قرار دیا ہے کہ سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے؟۔ اسکا کالیا سرکار کے پاس جواب ہوگا؟۔ فقہی مسائل صراط مستقیم ہیں یا پل صراط کی گمراہانہ پگڈنڈیاں؟ جبکہ ” اللہ میاں بیوی کے درمیان صلح کی راہ میں رکاوٹ ہی رکاوٹ ہے”۔ حالانکہ اللہ نے موٹر وے سے زیادہ واضح کردیا ہے کہ یہ مذہبی فتویٰ نہیں ہوسکتا ہے کہ میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہوں اور مفتی مذہب کے نام پر ان میں کوئی رکاوٹ کھڑی کردے۔ یہی نیکی اور تقوے کا تقاضہ بھی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان کوئی بھی رکاوٹ نہ کھڑی کی جائے ۔ اسلامی مدارس میں قرآن کی اس صراط مستقیم اور موٹر وے کے خلاف سب سے زیادہ گمراہی کے فتوے اسی سلسلے میں ہی دئیے جاتے ہیں جن پرآخر میںو اللہ اعلم بالصواب بھی لکھاجاتا ہے۔یعنی اس پل صراط پر ظن وتخمین سے یہ سبھی چلتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے دوسری بات یہ واضح کردی ہے کہ اگر عورت صلح کیلئے راضی نہ ہو تو پھر شوہر کو صلح کرنے کا کوئی اختیار نہیں ۔ آخری حد تک زبردست وضاحتوں کے باوجود بھی پل صراط کی یہ چڑھائی مفتی صاحبان کی سمجھ میں نہیں آئی ہے۔اسلئے جج کی طرف سے فیصلہ آ گیا ہے کہ5سال پہلے عدت میں خاور مانیکا کا استحاق مجروح ہوا تھا اور بشریٰ بی بی نے عمران خان سے جو نکاح کیا تھا تو اس میں اس نے تین طلاقیں نہیں دی تھیں اسلئے اس کو رجوع کا حق تھااور اس حق کی وجہ سے معزز عدالت نے بھی عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف فیصلہ دے دیا ہے۔ جس میں دونوں کو7،7سال قید اور5،5لاکھ جرمانے کی سزا ہوئی ہے۔ فقہ حنفی میں حدیث صحیحہ کے خلاف عورت کی عدت خلع میں بھی3مہینے ہے۔ خاور مانیکا نے جو تحریری طلاق دی تھی تو اس میں ایک ماہ سے زیادہ مگر3بلکہ2ماہ سے بھی کم مدت گزری ہے۔ تحریری طلاق میں3طلاق کے الفاظ نہیں جس کی وجہ سے عدت میں خاور مانیکا کو رجوع کا حق تھا۔ جج نے اسلئے نہ صرف خاور مانیکا کے استحقاق کو مجروح قرار دیا ہے بلکہ عدت میں نکاح پر سزا اور جرمانہ بھی عائد کردیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے درست کہا ہے کہ1973کے آئین کے مطابق قرآن و سنت کی قانون سازی ضروری تھی۔ جو اسلئے نہیں ہوسکی کہ پارلیمنٹ میں ایسے لوگوں کو لایا جاتا ہے جو قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کو ترجیحات میں نہیں رکھتے۔ اگر فقہ حنفی کے مطابق قانون سازی ہو تو پارلیمنٹ میں علاج کیلئے سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا بل بھی پاس ہوسکتا ہے۔ مولوی کا نصاب بذات خود قرآن و احادیث سے بالکل متصادم ہے تواس کے مطابق قانون سازی نہیں ہوسکتی ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ اگر جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کی سرپرستی میں قرآن و سنت کی درست تشریح کیلئے ایک لائحہ عمل تشکیل دیا جائے تو نہ صرف مدارس کے نصاب میں خوشگوار تبدیلی آئے گی بلکہ پوری دنیا پر اس کے زبردست مثبت اثرات پڑیں گے۔ میاں بیوی کیلئے یہ فتویٰ بالکل عام ہوجائے گا کہ ناراضگی کے بعد طلاق رجعی کا کوئی تصور نہیں ہے اور اگر میاں بیوی راضی ہوں تو طلاق مغلظہ اور طلاق بدعت کا کوئی تصور نہیں ۔ جب میاں بیوی کیلئے صلح کے دروازے قرآن نے کھول رکھے ہیں اور مولویوں نے بند کردئیے ہیں تو دوسرے انسانوں اور مخلوقات پر بھی صلح کے دروازے بند کئے گئے ہیں۔ قوم پرستوں اور طالبان کے ساتھ بھی صلح کی ر اہیں ہموار ہوں گی اور پڑوسی ممالک ہندوستان، ایران، افغانستان، چین، سعودی عرب، عمان اور دوبئی وغیرہ کے ساتھ بھی مثالی تعلقات قائم ہوں گے۔ پاکستان میں سونے کے بیش بہا خزانے ہیں۔ حال ہی میں بلوچستان کے اندر سیندک ، ریکوڈک سے بھی بہت بڑا ذخیرہ ایران کی سرحد پر دریافت ہوا ہے۔ اس طرح وزیرستان میں سونے اور تیل و گیس کے بڑے ذخائر ہیں۔ مذہبی اور لسانی تعصبات انسانیت کو نگلنے کا شیطانی منصوبہ ہے۔ سلال بلوچ کا تعلق پنجگور بلوچستان سے تھا۔ جس نے بیرون ملک اپنی نوکری چھوڑ کرBLAمجید بریگیڈ کے فدائین میں حصہ لیا۔ ماں باپ کا اکلوتا بیٹا اور بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ وصیت کی تھی کہ مجھ پر شہادت کے بعد کوئی غم نہ منایا جائے۔ اسکی والدہ اور بہنوں نے کتنے بڑے دل کیساتھ اس کی وصیت پر عمل کیا ہوگا؟۔ ہمارے خانقاہ کے امیر شفیع محمد بلوچ نے اپنے بیٹے سے معاہدہ کیا تھا کہ ایک دوسرے کی میت کو غسل دیں گے۔ بیٹا ایکسیڈنٹ میں شدید زخمی ہوا اور باپ نے جب میت کو غسل دیا تو شاید ان کا دل پھٹ گیا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا تھا کہ اگر ہماری مذمت سے کام چلتا ہے تو کردیتے ہیں اور بہت لاشیں اٹھاچکے ہیں اب مزید لاشیں اٹھانے کو ختم کرنا ہوگا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟