پی ٹی ایم حقائق کو سامنے رکھ کر قوم کی خدمت کیا کرے!
فروری 7, 2019
پختون تحفظ موومنٹ ان نوجوانوں کی تحریک ہے جنکے اندر انسانیت کا درد ہے۔ ریاست اور فوج کیخلاف اس ماحول میں اٹھنا خالہ جی کا گھر نہ تھا۔ حبیب جالب جیسے لوگ کھونے سے پہلے ریاست حکمران طبقہ اور ادارے بیدار ہوجاتے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ PTMکی صدا کو سکرات الموت لاحق ہوچکی تھی لیکن حیات کی توتلی زبان نے اس میں حیات پیدا کردی۔ رہی سہی ساکھ عالم زیب محسود کی گرفتاری نے پوری کرلی۔ عالم زیب کو پی ٹی ایم کا روح رواں کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ دنیا کی کوئی طاقت اب اس مشن کو روک نہیں سکتی ہے۔ جان ومال کے نقصانات ہوئے تھے تو قوم اپنی غلطیوں کو سمجھ کر اسکا خمیازہ بھگتنے کیلئے ذہنی طور پر تیار تھی مگر عزت وغیرت کے مسئلہ پر اب کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا ہے۔ بے غیرتی کی بنیادیں طالبان نے ڈال دی تھیں۔ وزیرستان کی سرزمین پر مقامی اورغیرملکی دہشت گردوں نے روایات واخلاقیات کو پہلے سے تباہ کردیا تھا اور بہتی گنگا میں پاک فوج نے بھی اس بدترین نجاست میں بھرپور حصہ لیا ہے ۔
اللہ کے دربار میں عوام، فوج اور طالبان مجرم ہیں۔ہرکوئی اپنی غلطی کو تسلیم نہ کرے تو معاملہ الجھتا رہے گا۔ پہلا بڑا مجرم میں ہوں اسلئے کہ میرا موقف درست یا غلط تھا مگر عوام سمجھنے سے قاصر تھے اور میں نے عوام کے سامنے کماحقہ حقائق پیش نہ کئے۔ جسکے نتیجے میں میرے خلاف اشتعال تھا۔ طالبان نے خلوص کیساتھ جو کرنا تھا وہ کیا۔ پہلی بار مجھ پر فائرنگ ہوئی تو میرے بہادر بھائی ، عزیز اور پڑوسی نے موقع پر پہنچ کر مجھ پر احسان عظیم کیا ،انکی جان بھی جاسکتی تھی پھر فائرنگ کے بعد طالبان کی نقل وحرکت میرے گھر اور عزیزوں میں موجود رہی اور یہ انکے دینی جذبے کا نتیجہ تھا۔ قبائلی روایات کے مطابق مجھ پر فائرنگ کے بعد ان کو آنے کا موقع دینے کا کوئی شرعی، قانونی، اخلاقی اور قبائلی جواز نہ تھا مگر خلعت افغانیت سے عاری میرے گھر، عزیز و اقارب نے دین سمجھ کروہ کیا جو انتہائی ناروا تھا۔ غلطی تھی بھائی کی وفات پر گیا۔ طالبان نے رات کی تاریکی میں حملہ کرکے 13 افراد شہید کئے۔ گھر کے افراد ، عزیز اور مہمان خواتین وحضرات شامل تھے۔ عوام میں طالبان سے نفرت کی فضاء پھیلی مگر اس کے باوجود قریبی عزیزوں کے گھروں میں طالبان کا آنا جانا رہا۔ یہ دینی جذبہ تھایا خلعتِ افغانیت سے عاری تھے؟۔ جب فوج نے چھاپہ مارا اور طالبان کی پک اپ کو بارود سے اڑادیا تو طالبان کی آمدورفت ختم ہوئی۔ اگر اسکے باوجود وہ طالبان کی مدد کرتے تواس غیرت پر مجھے بھی فخر ہوتالیکن بھینسوں کے باڑے کو شیروں کے پنجرے کا نام نہیں دیاجاسکتا ۔
پھر طالبان وہاں دھماکہ کرتے اور فوجی ہمارے پڑوسیوں کو چھوڑ کر ہمارے رشتہ داروں کو پکڑ تے تو لگتا یہ تھا کہ فوج زیادتی کررہی ہے لیکن یہ کوئی نہ کہتا کہ ہم بھی بے غیرتی کی انتہاء کو پہنچے ہیں۔ محسود اور وزیر ہم سے زیادہ طالبان کی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ دوسروں کی بے غیرتی کو سمجھنے کیلئے اپنوں کو دیکھنا پڑتا ہے۔ دہشتگردوں کی حمایت کرنیوالوں سے جو سلوک پاک فوج نے روا رکھا، صحیح بات یہ ہے کہ کوئی اور ہوتا تو بہت برا سلوک کرتا۔ بی بی سی کے مطابق امریکی فوج نے ایک افغانی مرد سے جنسی تشدد تک کیا جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ پاک فوج نے ایک بدمعاش عطاء اللہ کو سپورٹ کیا جس نے طالبان کو علاقہ گومل سے ختم کرنے میں بڑا کردار ادا کیا لیکن جب پاک فوج نے پکڑ لیا کہ چوری ڈکیتی میں ملوث ہے تو اس کوپکڑ کر مار دیا تھا۔ اس پر طالبان نے بھی حملے کئے تھے لیکن وہ بہادری سے طالبان کے خلاف لڑتا رہا تھا۔یہ مثال ہے کہ عطاء اللہ کو طالبان نہ مارسکے مگر بہتوں کو قتل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
PTMکے منظور پشتین کا یہ نعرہ بہت اچھا ہے کہ جو ظلم کرے ہم انکے خلاف ہیں۔ طالبان نے کوٹکئی سپین کئی رغزئی کے مقام پر خاندان ملک کو شہید کیا اور پھر انکے بیٹے اور گھر کے افراد پر حملہ کرکے 7افراد کو شہید کیا جن میں حافظ قرآن بچی بھی شامل تھی۔ مرزاعالم خان کے بیٹے کو شہید کیا، پھر انکو اور ان کی فیملی کے کافی افراد شہید کردئیے۔ خلعت افغانیت سے عاری وزیر و محسود تماشہ دیکھتے رہے۔ جو حال ہمارے بے غیرتوں کا تھا وہی انکا تھا۔ گلشاہ عالم برکی کو طالبان نے اغواء کیا تو کانیگرم کے برکی بیت اللہ محسود کے پاس شیروں کی طرح پہنچے، اس نے کہا کہ ہمارے پاس نہیں ۔ اگر کانیگرم شہر سے طالبان کے عمل دخل کو ختم کیا جاتا تو غیرت کا تقاضہ پورا ہوتا مگر برکی قوم بھی خلعت افغانیت سے بالکل عاری تھی۔
محسود کے مشران طالبان کیساتھ معافی اور فیصلہ کرنے آئے لیکن جس تاریخ کو کانیگرم میں طالبان نے مجرموں کو سزا سنانے کا وعدہ کیاتھا، اس دن محسود قوم کو طالبان نے کانیگرم آنے سے روکا، اسلئے کہ خلعتِ افغانیت سے عاری تھے۔ بے غیرتوں کیساتھ پاک فوج نے جو سلوک روا رکھا وہ درست تھا، جب شریف شرفاء کہلانے والے بھی پاک فوج کے تشدد کا نشانہ بن گئے اور غریب غرباء طالبان سے بالکل مناسب سلوک کیا تو اس پر پاک فوج انعام واکرام کی مستحق ہے۔ جب قبائل کے پاس اسلحہ تھا اور دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت انہوں نے نہیں کی بلکہ ظالمان طالبان کومختلف طرح سے ظلم کرتے ہوئے دیکھ کر بھی ساتھ دیتے رہے ،جن کی کاروائیوں سے پاکستان کا چپہ چپہ لرزتا رہاہے۔ راؤ انوار نے ایم کیوایم کے کارکنوں اور طالبان کو قابو نہ کیا ہوتا تو کراچی کا امن بحال نہیں ہوسکتا تھا ، پاک فوج نے وزیرستان کی گھاٹیوں اور سنگلاخ پہاڑوں میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش نہ کئے ہوتے تو دہشتگردوں نے قبائل کی ماں بہنوں کو لونڈیاں بنانا تھا۔ پاک فوج نے قبائل کیلئے مسیحا کا کام کیا۔
ایک وزیر نوجوان نے جس طرح سے جذباتی انداز میں کہا کہ ’’ میری مائیں بہنیں بیٹھی ہوئی ہیں،اگر تم کہو تو میں ان کو تمہارے سامنے لاتا ہوں، جنکا پردہ ہفتے میں چار بار ٹوٹتا ہے اور عزتیں نیلام ہوتی ہیں،پرائے زبان والے یہ سب کرتے ہیں ،تم سے بھی یہ پردہ اور شرم نہیں کریں گی…..‘‘یہ بھی خلعتِ افغانیت کے اتر جانے کی دلیل ہے۔ ورنہ غیرتمند پہلے گولی کی زبان میں جواب دینے سے کم کوبے غیرتی سمجھتے تھے۔نہتے بچوں و خواتین کیساتھ یہ بڑی زیادتی ہے۔
قبائلی عوام کی طرح طالبان میں بھی اچھے برے موجود تھے اور اب بھی ہیں، پاک فوج بھی دودھ کی دھلی ہوئی نہیں ، اچھے فوجی افسران اورسپاہیوں کے ساتھ ساتھ برے لوگوں کی بھی ان میں کمی نہیں۔ کراچی کے آپریشن میں جن پولیس والوں نے کاروائیاں کی تھیں ان کو چن چن کر قتل کیا گیا لیکن ایک فوجی نے بے اعتدالی کی تھی تو پاک فوج نے اس کو خود ہی سزا دیکر پھانسی پر لٹکادیا تھا۔ آج اگر وزیرستان سے کسی کو نامزد کرکے سزا کا مطالبہ کیا جارہاہے تو پاک فوج اسے بھی قرارِ واقعی سزا دے۔ آپریشن میں بہت بے گناہ لوگوں کیساتھ بھی زیادتیاں ہوئی ہیں اور اس کا ازالہ کرنے کیلئے کسی ایک دو کو سزا دی جائے تو اس سے پشتون قوم اور پاک فوج کے درمیان اعتماد اور عزت کا رشتہ بڑھے گا۔ پنجاب میں ایک واقعہ پر لوگ آپے سے باہر آسکتے ہیں۔ اگر پختونوں میں لاوا پکتا رہا تواسکا نتیجہ بہت برا نکل سکتا ہے۔ ریاستیں قوم کے اعتماد کے بغیربالکل نہیں چل سکتی ہیں۔
یہ خیال رہے کہ میجر دریا خان پختون ہو اور جب اس کو سزا دی جائے تو پھر پختون ہی تحریک چلائیں کہ پنجابیوں کو سزا نہیں دی جاتی ہے ، پختون کیساتھ یہ زیادتی ہے۔ جب کانیگرم میں طالبان نے مجرموں کو سزاکی بات کی تھی تو انہوں نے غلط جاسوسی کے الزام میں ہمارے بعض عزیزوں کو نامزد کیا اور وہ کہہ رہے تھے کہ 13افراد کے بدلے 2تم مارچکے ہو،11کا شمار ہم پورا کرینگے لیکن ہم نے سوچا کہ غریب اور کمزور لوگوں کو سزا کا فائدہ نہ ہوگا اور غلط جاسوسی کے نام پر ہمارے عزیزوں کومارینگے تو کل باتیں ہونگی کہ انہی کو بدلے میں بھی ماردیا۔ پہلے طالبان کے امیر بیت اللہ محسود کا عزم تھا کہ قاری حسین ، حکیم اللہ محسود اور تمام ذمہ دار افراد کو قصاص میں قتل کیا جائیگا اور پھر قاری حسین نے کہا کہ تمہارے کہنے پر میں نے اپنے بے گناہ پڑوسی خاندان ملک اور اسکے گھر والوں کو مارا تھا تو تم بھی قصاص میں قتل کئے جاؤگے۔ جس پر طالبان نے اپنا مؤقف ہی بدل ڈالا۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ماڈل ٹاؤن کے قاتل نوازشریف اور شہبازشریف ہیں مگر اقتدار ملا تو خاموش ہوا ۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی خاموشی اختیار کرلی ۔
لوگوں کی راۓ