ہر شاخ پر اُلو بیٹھا ہے، انجام گلستان کیا ہوگا؟؟؟۔
دسمبر 1, 2018
ایک طرف حکومت نے انتہائی غفلت اور نااہلی کا مظاہرہ کیاکہ طاہر داوڑ کو اغواء ہوئے 16روز گزرے لیکن کوئی قدم نہ اُٹھایا تو دوسری طرف سوشل میڈیا پر ریاست دشمن عناصر نے شوشہ چھوڑ ا کہ سرحد کے قریب فوجی چوکی نے طاہر داوڑ کی لاش افغانستان کی حدود میں پھینکی۔ پھر میڈیا نے پاکستان و افغانستان کی فضا میں اپنافرض بھی ادا کردیا اور جلتی پر تیل ڈالنے کی بھی کوشش کی۔ جیو نیوز کے شاہ زیب خانزادہ اور7ٹی وی نیوز کا ایک ایک پروگرام ہی اس سلسلے میں کافی ہے۔
آل فرعون بنی اسرائیل کے دشمن تھے۔ مردوں کو قتل اور عورتوں کو زندہ رکھنے کا سلسلہ جاری تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کی کوشش، ان کی بہن کو زندہ رہنے دیا ۔ یہ بنی اسرائیل کیلئے اللہ کی طرف سے سخت آزمائش تھی، نجات دہندہ آنے سے پہلے انکے بچوں کا قتل چھوٹی بات نہ تھی ۔ آج عالمی قوتوں نے پاکستان و افغانستان کا جو حال کیا ہے وہ یہاں سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ اورنجات دہندہ کی آمد کے خوف سے ایسا کررہے ہیں۔ افغانستان میں حکمران وطالبان دونوں امریکہ کے ہاتھوں میں پالتو بٹیر کی طرح لڑرہے ہیں۔ دونوں کو پتہ ہے کہ امریکہ نے ان کو یرغمال بنایا ہے، جس دن انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے نہیں لڑنا تو امریکہ کیلئے خطے میں رکنے کا جواز نہ رہیگا۔ امن میں ہی امریکی فوج نہتے افغانوں سے خوف کھاتی ہے جبکہ مسلح طالبان اور افغانوں کی بدحالی کا فائدہ اُٹھایا جارہاہے۔ بدامنی امریکہ کی خواہش اور اس کی پالیسوں کا نتیجہ ہے۔
اگرPTM والے یہ سمجھتے ہیں کہ لسانی منافرت پاکستان یا پختون قوم کی خدمت ہے تو اس بات کو یاد رکھے کہ جب مہاجرصحابہؓ کیخلاف السابقون الاولون انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ نے منافرت کی اجتماعی نہیں انفرادی کوشش کی تب بھی جنات یا خفیہ والوں نے قتل کیا۔ یہ صحابہؓ کے دور کا واقعہ تھا جب سی آئی اے، آئی ایس آئی اور دنیا کے کسی بھی خفیہ ادارے کا نام ونشان بھی نہ تھا۔ قرآن نے دو گروہوں میں ایک کے دشمن اور دوسرے کے اپنے کا ذکرہے۔ اگر PTM کا کردار یہ ہو کہ پختون کو ریاستِ پاکستان کے دشمنوں میں کھڑا کردے تو یہ ملک کے علاوہ اپنی قوم کیساتھ بھی بڑی زیادتی ہے۔ دشمنی دوستی کے لبادے یا کھدڑے سے مشابہ کی جائے تو زیادہ نقصان کا خدشہ ہے۔ امریکہ کا منافقانہ کردار اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتا جتنا اپنوں کی منافقت سے خطرات لاحق ہیں۔
زیدحامد بیچارہ ایک تو پیر کذاب کا چیلہ، دوسرا اسکے مزاج میں عسکریت اور تیسرا اسکا تعلق ہمارے پنجابی بھائیوں سے ہے بقول اقبال تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا، ہوکھیل مریدی کا توہرتا ہے بہت جلد۔ آج پاکستان کا نقشہ نیٹ پر ادھورا ہے،اگر مقبوضہ کشمیر کو شامل نہ کیا جائے تو لگتا ہے کہ بھارت نے پاکستان کے چوتڑ پر قبضہ کیاہے۔ بھارت مسلسل بندے مار مار کر ہماری ریاست کو انگل دیتا رہتا ہے لیکن زید حامد نہیں کہتا کہ مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کیلئے ہماری فوج ایک جست لگائے، کیونکہ بھارت طاقتور ہے اور زید حامد سمجھتا ہے کہ ہم بھلے پدو ہی مار کر ڈرانے دھمکانے اور شرافت کو کمزوری نہ سمجھنے کی رٹ لگائیں مگر افغانستان پر چڑھ دوڑیں اسلئے کہ بھارت ہندو جبکہ افغانستان ایک مسلم ملک ہے جس نے روس اور امریکہ کی سینہ زوری کاایک عرصہ سے تجربہ کررکھا ہے۔ PTMکی غلط سوچ کا خاتمہ زید حامد کی ترکیبوں سے نہیں سنجیدہ کوششوں سے ہوسکتا ہے۔
وزیرستان کابادشاہ ملاپاوندہ انگریز کیخلاف لڑامگر100روپیہ ماہانہ وظیفہ لیا، کیابعید کہ منظور پشتین جسکے خلاف لڑرہاہو ، انہی کا اپنا ہو،داعش کیخلاف پختونوں کو اب مذہب نہیں قوم کی بنیاد پر لڑایا جاسکتا ہے۔بڑی مشکلوں سے محسود قوم نے طالبان سے جان چھڑائی ، تصویرکا رُخ واضح نہ ہو تو وہ کھیل کا حصہ نہ بنیں گے۔ زید حامد کا کردار PTMکیلئے مضبوطی کا ذریعہ ہے مگر فوج کو اپنی حکمت عملی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ایم کیوایم اور تحریک طالبان کی وجہ سے اس قوم نے جو نقصان اٹھایا ہے،اب مزید عسکری ذہنیت سے پاکستان کے لوگ پستیوں کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔ اگر یرغمال شدہ اسلام کو بازیاب کیا تو مسائل حل ہونگے ۔
آئی ایس آئی کے بریگیڈئر کا بھائی گلشاہ عالم برکی طالبان نے غائب کردیا، جسکا سراغ آج تک نہ ملا، برکی قوم نے بیت اللہ محسود سے اجتماعی پوچھا ،اس نے انکار کیا کہ کچھ پتہ نہیں۔ہم پر حملے کے بعد طالبان معافی کیلئے آئے تومحسود عمائدین ساتھ تھے مگر کانیگرم کے جرگہ میں غائب تھے، طالبان کے خوف سے وہ اپنے بے گناہوں کیلئے کھڑے نہ ہوئے تو ہمارے لئے کھڑے کیوں ہوتے؟۔ امریکی ایماء پر یاپھر نااہلی سے ریاست نے قوم پر طالبان کو مسلط کیا۔ کھڑا ہونے کی جرأت ریاست میں نہ تھی کیونکہ پوری قوم ساتھ تھی۔ پھر جب قوم نے پہچانا تو بعض ریاست کی ضرورت اسلئے تھے کہ انکے بغیر اچھے برے کی تمیز ناممکن تھی۔
اقتدار صحیح قیادت کے ہاتھ میں ہو توسول وعسکری سمیت پاکستان کے تمام سرکاری اداروں کا کردار درست کیا جاسکتا ہے۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ جس طرح عوام انکے غلام ہوں اور حکومت وریاست کے لوگ تاج برطانیہ کے وائسرائے ہند کے اہلکار ونمائندے نہیں بلکہ گماشتے ہوں۔ نمائندہ قانون کی حکمرانی قائم کرتا ہے اور گماشتہ بدمعاشی سے اپنی دہشت بٹھاتا ہے۔ لوٹ مار کرتا ہے اور ذاتیات کی جنگ لڑتا ہے۔ غلط فہمیاں بد اعتمادی کو جنم دیتی ہیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو سر اور داڑھی سے پکڑ لیتے ہیں اور صحابہ کرامؓ میں بھی جنگوں کیلئے صف بندی ہوتی ہے۔ پاکستان نازک موڑ پر کھڑاہے، جس طرح کرپٹ سول وملٹری اور سیاسی قیادت ملک وقوم کو سنبھالنے کی صلاحیت سے محروم ہے اس سے بڑھ کر کھلاڑی کے ہاتھوں میں ملکی باگ ڈور سے حالات بہتر کی بجائے بد سے بدترین کی طرف جائیں گے۔ بے روزگاری کو ختم کرنے کیلئے ایک کروڑ لوگوں کو نوکریاں دینے اور پچاس لاکھ کو گھر دینے کا وعدہ کرنیوالا وزیراعظم یوٹرن کو قابلِ فخر قرار دیتا ہے۔ قدوس بلوچ نے کیا خوب کہا کہ لوگ یوٹرن روڈ کے مخالف سمت پر لیتے ہیں جبکہ عمران خان رانگ سمت پر دوڑنا شروع کردیتا ہے۔ بے روزگار و بے گھر کرنے کیلئے حکومت عوام پر چڑھ دوڑی ہے۔ سندھ حکومت نے لیاری ایکسپریس وے کے متاثرین کو معاوضہ دیا نہ متبادل جگہ دی تو سعید غنی وزیر بلدیات موجودہ متاثرین کو خاک متبادل جگہ دے سکے گا؟۔
عوام کو مہنگائی، بے روزگاری اور متاثرین بناکر ایسے احتجاج کیلئے تیار کیا جارہاہے کہ مذہبی وسیاسی جماعتوں کی طرف سے احتجاجی مظاہروں کو سب بھول جائیں گے۔ کھلاڑی کہے گا کہ میدان میں ہار جیت تو ہوتی ہے اور پھر اپنا بوجھ ریاست کے سر ہی تھوپ دیگا کہ میں آیا نہیں تھا بلکہ لایا گیا تھا تو میں کیا کرتا؟ ۔ جب آرمی پبلک سکول پشاور کا واقعہ ہوا تھا، تب بھی پختونخواہ کے حکمران نے اپنی ناہلی کو فوجیوں کے سرتھوپ دیا تھا۔ جس کی وجہ سے آج تک بعض لوگوں کے دل و دماغ سے شکوک وشبہات ختم نہیں ہوسکے ہیں بدقسمتی سے بنگال میں جرنل نیازیؒ نے ہتھیار ڈالے اور ختم نبوت کی تحریک میں مولانا نیازیؒ نے داڑھی مونڈڈالی۔
لوگوں کی راۓ