پی ٹی ایم نے کبھی ریاست اور اسکے اداروں کیخلاف بات نہیں کی اور نہ کرے گی. منظور پشتین
جولائی 16, 2018
کوئٹہ( عبدالعزیز)کالم نگار نوشتۂ دیوار امین اللہ یوسفزئی نےPTMکے منظور پشتین کوخراج تحسین پیش کیا کہ پختون قوم میں شعوروبیداری کا اعزاز تیری قسمت میں لکھا تھا، جان پر کھیل کر دنیا کی آنکھیں کھول دیں۔ فوج نے خیر مقدم کیا اور کافی مطالبات بھی مان لئے۔ جب کسی میں کھل کر یہ پوزیشن لینے کی جرأت نہیں تھی کہ ناروا سلوک پر ہلکا سااحتجاج بھی کرسکے تو منظور پشتین نے قیادت کا حق ادا کردیا ہے۔
لال ٹوپی سے انقلاب آتا تو زید حامد لاچکا ہوتا، جس کو اللہ تعالیٰ ایک لمبی دُم سے نواز دیتا تو عوام اس کی حماقت سے بے خبر نہ ہوتے مگر اللہ تعالیٰ ستارالعیوب ہے۔ PTM کا یہ فیصلہ اچھا تھا کہ پارلیمانی سیاست میں حصہ نہ لے گی اور وجہ یہ نہ تھی کہ جمہوری نہیں بلکہ انقلابی جدوجہد کرنی ہے بلکہ وجہ یہ تھی کہ پارٹیوں کو PTM نے خفا نہیں کرنا ۔PTM کا ورکراپنی اپنی پارٹی کو سپورٹ کررہاہے۔ عمران خان نے علی وزیر کو اسلئے ٹکٹ کی پیشکش کی اور PTMکا منشور درست اور حقائق کے مطابق قرار دیا کہ اس تحریک کے ورکروں کی حمایت لینی تھی۔
جب جنگ اخبار میں لسانی فساد کو تقویت دی جارہی تھی تو یہ سرخیاں چھپ گئیں کہ ’’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘‘۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’’ سرکار ﷺ کا لحاظ تھا ورنہ قرآن بھی اردو میں اتارا جاتا‘‘۔ یہ لسانی ،قومی اور ملکی جذبہ انسانی فطرت ہے۔ اس میں محبت کی چاشنی ایمان اور تعصبات کی بیماری کفر کے مترادف ہے۔ پشتو شاعر نے کہا: ’’ لوگ کہیں کہ دوزخ کی زباں ہے ، میں جنت میں پشتو کیساتھ جاؤنگا‘‘۔ پختون کے علاوہ پاکستان کی تمام قوموں بلوچ، پنجابی، سندھی، سرائیکی، مہاجر اور کشمیری سب میں لامحدود خوبیاں ہیں۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ بھی انشاء اللہ پاکستان سے ہوگی۔ کسی بزرگ نے مچھر کی تعریف کی کہ میں اس کو دل سے پسند کرتا ہوں، پہلے ایک کان میں سائرن بجاتا ہے، پھر دوسرے کان میں بجاتا ہے پھر پاؤں پر بیٹھ کر ہلکا کاٹ لیتا ہے، پھر بازو پر کاٹ لیتا ہے، پھر چہرے کو بھی کاٹنا شروع کردیتا ہے۔ جب تک تہجد کیلئے اُٹھ نہ جاؤں وہ میرا پیچھا نہیں چھوڑتا ۔ ادیب نے جس وقت مچھر پر یہ مضمون لکھا اسوقت ڈینگی نہ تھا ورنہ تعریف میں احتیاط کرتا۔ بہر حال مضمون نگار نے لکھا کہ مچھر نے بزرگ کا قصہ سناتے ہوئے اپنی شرمندگی کا اظہار کیا کہ جب وہ نماز پڑھتا ہے تب بھی اس کی ٹانگوں پر کاٹنے کا سلسلہ بھی جاری رکھتا ہوں۔
رسول اللہ ﷺ کا تعلق قریش سے تھا۔ اسماعیل ؑ اصلی عرب عرب عاربہ نہیں مستعاربہ تھے۔ عرب وعجم میں نسلی امتیاز ہے مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام عجم تھے ، بنی اسرائیل و بنی اسماعیل نسلاً ایک البتہ قریش عرب کا حصہ بن گئے ۔ اللہ تعالیٰ نبیﷺ کے آباواجداد کو پاکستان میں بھی آباد کرسکتا تھا لیکن عربی زبان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے عربوں میں آباد کیا ۔ مشرقی ومغربی پاکستان میں کوئی مقامی زبان ایسی نہ تھی جسے قومی زبان قرار دیا جاتاتو اللہ نے چند سوسال پہلے لشکری زباں اردو کو وجود بخشا۔ عربی گرائمر دیکھنے کے بعدیہ اندازہ مشکل نہیں کہ اتنی فصیح و بلیغ زبان انسانی دسترس میں نہیں بن سکتی۔ اگر نبیﷺ وزیرستان کے محسود ایریا میں مبعوث ہوتے تو پختونوں کیلئے بھی وہ پشتو بہت مشکل ہے۔ ایک عالمی دین کیلئے ضروری تھا کہ عربی میں نازل ہوتا۔ اردو تو اس وقت دنیا میں موجود بھی نہیں تھی لیکن اردو کیلئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ پاکستان میں مقامی زبانوں کو چھوڑکر اسی کو قومی زبان قرار دیا ۔ یہ سرکار کی نالائقی ہے کہ اب تک اس کو سرکاری زباں میں تبدیل کرنے کی کوشش نہ ہوئی۔
محسوداور پاکستانی قوم میں موجودہ عربوں کے مقابلے میں زیادہ خوبیاں ہیں۔ اللہ نے سورۂ محمد میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا : ثم لایکون امثالکم ’’ وہ پھر تمہارے جیسے نہ ہونگے‘‘۔جب طالبان نے وہاں کے شریف لوگوں کوقتل کرنا شروع کیا اور فوج کے جوانوں کو نشانہ بنایا تو اس وقت یہ قوم خلعتِ افغانیت سے بقول اقبال کے عاری تھی۔ منظور پشتین کو یاد نہ ہوگا لیکن اسکے علاقے میں فوج کی پوری کانوائی کو قتل کیا گیا جس میں ایک فوجی شعبان بچ سکا تھا۔ جب حملے کی وجہ سے اس علاقے کو خالی کرالیا گیا تو ایوب نامی ایک شخص جٹہ قلعہ علاقہ گومل میں عتیق گیلانی کے کزن کی بیٹھک میں بچوں کیساتھ آیا تھا۔ کہا جاتا تھا کہ اسکا بھائی حملے میں شریک تھا۔ ایوب محسود نے بتایا کہ میری ہمدردیاں طالبان کیساتھ تھیں لیکن فوجیوں کیساتھ ظلم وستم دیکھ کر ان سے نفرت ہوگئی۔ شعبان نے پنجابی میں اپنے ماموں سے کہا تھا کہ میری ماں کو نہیں بتانا کہ میں گرفتار ہوا ہوں تو کلیجہ پھٹ رہا تھا۔ چینیوں کو اغواء کیا گیا تو اس آپریشن میں شعبان رہا ہواتھا۔
اس وقت قوم چند طالبان کو پکڑ لیتی تو یہ بیماری بڑھتی اور نہ قوم کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا۔ عتیق گیلانی کے گھر پر حملہ ہوا تو ایک طرف فوج کی بھرمار میں طالبان اسلحہ بردار گھومتے تھے۔ دوسری طرف کچھ عرصہ بعد فوج نے عتیق گیلانی کے عزیزکے گھر پر چھاپہ مارا اور طالبان کی پک اپ برآمد کرکے بارود سے اڑادی۔ آئی ایس آئی کے اہلکار نے خبر دی کہ اس کو خود کش کیلئے تیارکیا گیا تھا۔ عتیق گیلانی پر جب فائرنگ ہوئی تب بھی اس کو جلاوطن ہونا پڑا مگر بھائیوں اور رشتہ داروں نے طالبان کیساتھ مراسم بحال رکھے۔پاک فوج نے بہت غلطیاں کی ہونگی لیکن سب کو اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا پڑیگا۔ پاک فوج کے جوان اپنی غربت کی وجہ سے معمولی تنخواہوں پر کام کرکے جان کا خطرہ مول لیتے ہیں۔ وزیرستان ، پختون خواہ اور پاکستان میں امن کی بحالی پاک فوج کی نڈر قیادت جنرل راحیل شریف وجنرل باجوہ کی وجہ سے ممکن ہوسکی ۔ جنرل مشرف اور کیانی کے دورکی بات بھی چھڑجائے تو طالبان کیلئے پختون قوم کوہی قتل کرنا پڑتا، اور پختون ہی نہیں سب ہی طالبان کے بھر پور حامی تھے۔
وانا میں عوام مولانا نور محمد شہیدؒ کے خاندان کو پہلے سے فی کریٹ سبزی اور پھلوں پر ٹیکس دیتے تھے۔ اس گھرانہ کی زکوٰۃ نکال لی جائے تو وزیروں میں غریب نہیں رہے گا۔ امن کمیٹی کے افراد نہ ہوں تو فوج مقامی لوگوں میں امن کا قیام ممکن نہیں بناسکتی ہے اسلئے کہ دور دراز سے آئے ہوئے مسافر اہلکاروں کو کیا پتہ چلتا ہے کہ کون دہشت گرد ہے ؟ اور کون امن پسند؟۔ منظور پشتین نے اپنے بیان میں محسود ایریا میں موبائل نہ ہونے اور مشکلات کا ذکر کیا مگر جب لونڈا طبقہ غریب سپاہیوں کے چیک پوسٹوں پر نعرہ لگائیں کہ ’’یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے‘‘ تو اپنے لئے وہ مزید مسائل پیدا کرینگے۔ محسود ایریا میں پھر سے شرپسندی نے سر اٹھالیا اور فوج کے سپاہیوں کو سختی کرنے کا آرڈر مل گیا۔ منظور پشتین ساتھیوں کیساتھ ایسا ماحول بنائیں کہ مہمان اور غریب سپاہیوں کے دل جیت لیں۔ فوج کو عوام کا خیال نہ ہو تو پاگل کتوں نے نہیں کاٹا ہے کہ غریب سپاہیوں کو ایک جنگلی، خطرناک اور پہاڑی علاقہ میں سڑکوں پر بٹھادیں۔ نوجوان بے دریغ پاک فوج زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ پھر امن کمیٹی کے نام پر سرنڈر طالبان کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ جو عوام کے خوف و ہراس اور فوج سے بداعتمادی کی فضاء کا فائدہ اٹھاکر لوٹ مار کرتے ہیں۔ اگر اپنی قوم کی مشکلات میں اضافہ کیا تو منظور پشتین اور PTMسے نفرت کی فضاء بنے گی۔ جو عوام کو سہولت دینے نکلے تھے اور مشکلات سے دوچار کیا تو فائدہ کیا ہوگا؟۔
ایوب محسود جٹہ قلعہ سے گیا تو ایک دن حلالے کا کیس مولانا شبیر برمی کے پاس لایا۔ عتیق گیلانی نے کہا کہ حلالہ سے عورت پہلے شوہر کیلئے جائز نہیں ہوسکتی یہ حرامکاری ہے ورنہ مولوی نے حلالہ کا فتویٰ دیا تھا۔ پھر شاید حلالہ کروایا بھی ہوگا لیکن حلالہ کی وجہ سے جو تکلیف اس خاندان کو پہنچی ہوگی ، یقیناًیہ تکلیف گیلانی خاندان کو قتل وغارت سے نہیں پہنچی۔ کاش! اسوقت گیلانی نے حلالہ کا مسئلہ حل کیا ہوتا۔ اب بھی اسلام سے معاشرتی نظام کے انتہائی ظالمانہ اور بھیانک معاملات کا رخ بدلا جاسکتا ہے اور اس کیلئے بفضل تعالیٰ ہم غرباء کو کافی حد تک کامیابی مل گئی ہے۔
لوگوں کی راۓ