پوسٹ تلاش کریں

Maulana Fazlur Rehman and Mahmood Khan Achakzai should have played a leading role in reconciling the Taliban and nationalists in Afghanistan.

Maulana Fazlur Rehman and Mahmood Khan Achakzai should have played a leading role in reconciling the Taliban and nationalists in Afghanistan. اخبار: نوشتہ دیوار

دنیا کے چیلنج اور اپنے اندورنی مسائل پر قابو پانے کیلئے مذہبی اور سیکولر طبقات اپنے علم و عمل کو ٹھیک اور حق و صبر کی تلقین کریں

آج پاکستان کے مذہبی اور قوم پرست مسلمانوں کو جن مسائل کا سامنا ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔ پڑوسی ملک افغانستان میں امریکہ کے نکلنے پر جس طرح کے قتل وغارت کا بازار گرم ہے اور جو آوازیں اُٹھ رہی ہیں تو یہ بہت شرم ، غیرت اورانسانیت کا مسئلہ ہے کہ امریکہ کی موجودگی میں برسوں سے قطر میں طالبان اور امریکہ کے مذاکرات تھے اور مذاکرات کی کامیابی کا کریڈٹ ہم لے رہے ہیں لیکن افغانوں کے درمیان جنگ میں پھر کسی فریق کی حمایت کا کھلم کھلا اظہار ہورہاہے۔ باوثوق ذرائع نے بتایا کہ ان افغانی باشندوں نے افغان حکومت کی حمایت کرنے پر قوم پرستوں کی طرف سے پاکستان میں حمایت کرنے پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اس سے افغان حکومت کی مشکلات میں مزیداضافہ ہورہاہے۔
امریکہ کے خلاف جنگ میں طالبان کی اتنی لاشیں نہیں گری ہیں جتنی کی خبر اب سوشل میڈیا کے ذریعے عام ہورہی ہے۔ امریکہ اور نیٹو کی موجودگی میں جن کو جہاد اور جنت میں جانے کا شوق نہیں تھا اور اب پیدا ہوا ہے تو یہ قدرت نے زمین کو ان سے پاک کرنے کا اچھا انتظام کیا ہے تاکہ فسادی جلدختم ہوجائیں۔ جو لوگ ان کو ابھار رہے ہیں اور اُکسارہے ہیں یہ ان کی اچھی حکمت عملی ہوسکتی ہے لیکن یتیم بچوں اور بیواؤں کیلئے بھی کوئی اچھے انتظامات نہیں ۔ شدت پسندتو عراق وشام لڑنے کیلئے بھی پہنچے تھے اور بہت ساروں کا بخار بھی وہاں اتراتھامگر اب شاید اسلام کے نام پر شدت پسندوں سے زمین کو پاک کرنیکی یہ آخری کوشش ثابت ہو، ایران بھی بڑے طالبان کمانڈورں کو مالی مراعات سے امداد کر رہاہے اور افغانستان میں بھی ایسی قومیں ہیں جو دونوں طرف کی پالیسی چلتے ہیں اور پاکستان وافغانستان کے مشترکہ قبائل میں اچکزئی قبیلہ دونوں طرف سے لڑ رہاہے اور اس کی وجہ سے بہت نقصان اُٹھانے کا اندیشہ ہے۔ جبکہ نورزئی قبیلہ طالبان کی سائڈ پر کھڑا ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کو چاہیے تھا کہ وہ طالبان اور قوم پرستوں کی صلح میں اپنا قائدانہ کردار ادا کرتے۔ ن لیگ کی اسٹیبلشمنٹ سے صلح میں منافقانہ کردار ہوسکتا ہے مگر افغانوں کے مؤمنانہ کردار پر دونوں رہنماؤں کو بھروسہ ہے۔ پھر یہ اپنامثبت کردار (PDM)کی لاش پر ناچنے کے بجائے یہاں کیوں نہیں ادا کررہے ہیں؟۔ سیاسی اور نظریاتی اختلافات اپنی جگہ پر لیکن دونوں بڑے بھائیوں کی طرح محترم ہیں اور ان کا احترام اسی وقت سب میں بحال ہوسکتا ہے کہ جب وہ بروقت مثبت کردار ادا کریں۔
ہمارا افغان حکومت اور طالبان سے کوئی لینا دینا نہیں اور نہ کوئی فکری یا نظریاتی لگاؤ ہے لیکن پھر بھی کھلم کھلا ان دونوں کی ہمدردی میں اپنی طرف سے جو ممکن ہوتا ہے ،قلم کے ذریعے کردار ادا کرتے ہیں۔کوئٹہ میں ایک بااثر افغان آغا نے مجھ سے کہا کہ ”اگر آپ طالبان کو سمجھائیںگے تو امید ہے کہ امن وامان پر آمادہ ہوجائیںگے”۔ وہ شخص یتیموں اور بیواؤں کا اپنی وسعت کے مطابق خیال رکھ رہاہے اور طالبان سے اچھے مراسم ہیں۔ اگر میری کوئی مقبول حیثیت ہوتی تو پھر میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان صلح کرنے میں لمحہ بھر کی تأخیر بھی نہیں کرسکتا تھا کیونکہ یہ میری فطرت اور طبیعت کے منافی ہے لیکن میں اپنی اوقات کو سمجھتا ہوں اور اپنی چادر سے زیادہ پیر پھیلانے کے خطرات مول نہیں لے سکتا۔
میں نے آغا صاحب سے عرض کیا کہ ہمارے علاقہ گومل میں ایک بدقسمت قسم کااسکول ٹیچرہے جس کی اپنے باپ سے بھی نہیں بنتی ہے اور وہ سکول کی اپنی ڈیوٹی بھی کرتا ہے لیکن شاگردوں سے کہتا ہے کہ ” تم اپنی زمینداری کرو، زمینوں میں ہل چلاؤ، بکریاں چراؤ، ہاتھ پیر کی مزدوری کرو اور کھیل تماشے دیکھو۔ سکول پڑھنا چھوڑ دو۔ جدید تعلیم میں سائنسدان، ڈاکٹر، انجینئراور تعلیم یافتہ بننا انگریز اور گوروں کا کام ہے۔ یہ تمہارا کام نہیں ہے”۔ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ قوم کیساتھ جو کام کررہاہے تو سکول ٹیچر کی بات کوئی زیادہ غلط نہیں ہے۔ حال میں سلیم صافی نے شہباز شریف سے انٹرویو لیا ہے اور جیو ٹی وی کے مشن کی یہ مجبوری ہوگی لیکن سلیم صافی نے شہبازشریف کو خوامخواہ کی زحمت دے کر تھکایا۔ صاف الفاظ میں یہ کہنا چاہیے کہ لوہے کی سوداگری اور اتفاق فاؤنڈری کے کام کو چھڑا کر اسٹیبلشمنٹ نے غلط کیا تھا کہ نوازشریف اور تمہارے جیسے لوگوں کے ذریعے سیاست کو بہت گندا کیا گیا ہے۔ تمہیں اپنے کام اور کاروبار کی طرف واپس جانا چاہیے۔ملک اور قوم کی سیاست کرنا تمہارے جیسے کاروباریوں اور نہ عمران خان جیسے کھلاڑیوں کا کام ہے۔ نوابزداہ نصراللہ خان نے امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری سے سیاست سیکھ لی تھی لیکن دونوں کے ٹبروں نے پھر سیاست میں کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔ آج سیاست پر ٹبروں کو مسلط کرنے والے سب نااہل لوگ ہیں۔
جب حضرت ابوبکرصدیق اکبرنے خلافت کا منصب سنبھال لیا تو ابوسفیان نے حضرت علی سے کہا کہ قریش کے ایک کمزور خاندان کافرد خلیفہ بن گیا ہے اور اگر آپ اجازت دیں تو جوانوں سے مدینہ شہر کو بھردوں اور اس کو خلافت سے ہٹا دیں لیکن حضرت علی نے فرمایا کہ کفر کے وقت اسلام سے کم دشمنی کی تھی کہ اب اسلام میں داخل ہونے کے بعد اسلام سے تمہارا بغض وعناد نہیں جاتا ہے؟۔
جب حضرت عمر نے تلوار اٹھاکر نبیۖ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا توحضرت امیر حمزہ نے فرمایا کہ ” اس کو آنے دو، اگر اچھی نیت سے آیا ہے تو ٹھیک ورنہ اس کا سر اس کی اپنی تلوار سے اتاردوں گا”۔ جب ابوجہل نے نبیۖ کیساتھ بڑا گستاخانہ اور بہیمانہ سلوک کیا تو اس وقت حضرت امیر حمزہ نے اسلام قبول نہیں کیا تھا لیکن ابوجہل کو حرم میں چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ ” او چوتڑ کو خوشبو لگانے والا ابوجہل! اگر تمہارے اندر ہمت ہے تو میرا مقابلہ کرو”۔ ابوجہل نے ہمت نہیں کی اور ابوسفیان اس وقت مکہ کا سردار بن گیا تھا جب دوسرے سردار قتل ہوئے تھے۔ جب حضرت عثمان کو مدینہ میں شہید کیا جارہاتھا تو امیرمعاویہ نے حضرت عثمان کی کوئی حمایت بھی نہیں کی تھی۔ جب حضرت علی اور حضرت عائشہ کی لڑائی ہوئی تو حضرت عمار نے حضرت علی کی طرف سے شہادت پائی۔ رسول اللہۖ نے بشارت دی کہ” باغی گروہ عمار کو قتل کر ے گا”۔ امیر معاویہ نے الزام لگایا کہ ”حضرت عمار حضرت علی کے لشکر کے ہاتھوں قتل ہوئے اور پھر اس کا الزام ہم پر لگادیا”۔ حضرت علی نے جواب دیا کہ ” یہ توا یسا الزام ہے کہ جیسے کہا جائے کہ امیرحمزہ کو اپنوں کے ہاتھوں شہید کرکے الزام دشمنوں پر لگادیا تھا” ۔
جس طرح صحابہ کی عزت واحترام کا اہتمام لڑائیوں اور الزامات کے باوجود ہم سب پر فرض ہے،اسی طرح افغانوں کی عزت واحترام کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا تھا کہ کاش میں حضرت علی اور امیر معاویہ کے درمیان غیرجانبدار رہنے کی بجائے حضرت علی کا ساتھ دیتا۔ حضرت عمر کے ایک صاحبزادے حضرت عبیداللہ حضرت معاویہ کے ساتھ تھے۔ اللہ کا حکم ہے کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہ میں لڑائی ہو تو اپنے بھائیوں میں صلح کراؤ ۔ اور اگر ایک دوسرے کیخلاف بغاوت کرے تو بغاوت کرنے والوں کے خلاف جنگ کرو،یہاں تک کہ وہ صلح پرآمادہ ہوجائے۔ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان اگر اسلامی ممالک صلح نہیں کراسکتے ہیں اور نہ کسی ایک کا ساتھ دے سکتے ہیں تو جنگ میں تباہی کا سلسلہ جاری رہیگا اور آخر پھر کسی تیسرے گروہ کو سازش کے تحت افغانستان پر مسلط کیا جائیگا جس سے شیطانی قوتوں کو اپنا اسلحہ بیچنے کے مواقع میسر رہیں گے ،ہم اپنے قلم کی طاقت سے صلح ہی کے خواہشمند رہ سکتے ہیں۔
کوئٹہ میں آغا سے میں نے کہا تھا کہ ایک محسود خاتون اپنا جوان بچہ میرے پاس دم کیلئے لیکر آئی۔ میں نے کہا کہ میں یہ کام نہیں کرتاہوں مگر ایک ساتھی کو کہا کہ مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب ” اعمال قرآنی” سے کوئی چیز دیکھ کر دم کرنا اور پھر جب اس نے دم کیا تو پاگل جوان نے کہا کہ ”یہ کونسی کتاب ہے؟”۔ میں نے کہا کہ یہ آپ اپنے ساتھ لے جائیں۔ اس کی ماں کہہ رہی تھی کہ مجھے ڈر ہے کہ خود کشی نہ کرلے تو جوان نے کہا کہ خود کشی تو مجھے ہر حال میں کرنی ہے۔ میں نے آغا سے کہا کہ جو طالبان ابھی گرم جوشی میں افغانستان شہید ہونے کیلئے جانا چاہتے ہیں تو ان کو روکنا اس جوان کی طرح بہت مشکل ہے ۔ جب تک بڑوں کی طرف سے ماحول کو بدلنے کی مؤثر کوشش نہ ہوجائے تو یہ سلسلہ جاری رہے گا اور جب جوش ٹھنڈا ہوگا اور بات سننے پر آمادہ ہوجائیں تو سب اچھا ہوگا۔
جو لوگ حضرت امیرمعاویہ کی تائید اسلئے کررہے ہیں کہ وہ ایک جلیل القدر صحابی تھے تو ان کی بات دوسوفیصد درست ہے لیکن جو لوگ اپنی خاندانی حکومت، جاگیرادارنہ نظام کی طرح خاندانی سیاست کی حمایت کیلئے حضرت امیرمعاویہ کی حمایت کرنا چاہتے ہیں تو وہ ان خوارج سے بھی بدتر ہیں جو کہتے تھے کہ للہ الامر ۔ حضرت علی نے فرمایا تھا کہ ان کی بات درست مگر وہ اس سے غلط مراد لیتے ہیں۔
تبلیغی جماعت کا مرکز بستی نظام الدین بھارت میں بانی مولانا الیاس کے پڑپوتے مولانا سعد کی وجہ سے تبلیغی جماعت سے کٹ کر رہ گیا۔ جس کی وجہ سے تبلیغی جماعت امیر کے بغیر سرکٹی لاش بن کر دنیا میں گھوم رہی ہے۔ دارالعلوم دیوبند کو صاحبزادگان نے دولخت کردیا اور جمعیت علماء اسلام کے ٹکڑے بھی ان صاحبزادگان کے اختلاف کا نتیجہ تھا۔ بنو امیہ اور بنوعباس نے خلافت اور اسلام کا بیڑہ غرق کیا تھا اور مدارس اور خانقاہوں کا بیڑہ بھی صاحبزادوں کی وجہ سے غرق ہوا ہے۔ ائمہ اہلبیت نے حضرت ابوبکرو حضرت عمر و حضرت عثمان سے لیکر تمام بنوامیہ و عباس تک اختلاف کاسلسلہ بھی جاری رکھا لیکن امت کے اتحاد کو بھی کبھی پارہ پارہ نہیں ہونے دیا۔ آج بھی ہم کسی سے اقتدار اور اسکے منصب اور عہدے چھین لینے کے بھوکے نہیں ہیں۔ صرف مسلمانوں کے نہیں غیر مسلم کے نااہلوں کو بھی اسلام اور انسانیت کیلئے زہرِ قاتل سمجھتے ہیں اور اتنی استدعا کرتے ہیں کہ جو عہدہ اور منصب تمہیں ملا ہے اس کا فرض صحیح طریقے سے ادا کرو۔ حضرت حسن نے بھی امیر معاویہ کے حق میں اسی لئے دستبرداری کا اعلان کیا تھا اور یہ اسلام کے اس بنیادی فطرت کا نتیجہ ہے جو وہ مسلمانوں اور انسانوں میں ابھارتا ہے۔
اہل تشیع اسلام کی اس بنیادی فطرت سے واقف ہوتے تو ان کی نظروں میں حضرت علی اور حضرت حسین کے درمیان حضرت حسن کی اہمیت کم نہ ہوتی۔ اثنا عشریہ والے توپھر بھی امام حسن کی امامت مانتے ہیں لیکن آغا خانی اور بوہری شیعہ تو حضرت حسن کی امامت کے بھی قائل نہیں ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ دیکھا جائے تو وہ عزیز مصر کا عہدہ سنبھالنے اور اس پر قبضہ کرنے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتے تھے لیکن آپ نے مصر کی گورنری کی جگہ وزیرخزانہ بننے کوہی اہمیت دی اور وہ خزانہ لوٹنے کیلئے نہیں بلکہ غریبوں اور مستحقین تک حق پہنچانے کیلئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے حضرت زلیخا سے انتقام نہیں لیا بلکہ انکے اسلئے شکر گزار رہے کہ اس نے ایک غلام کی حیثیت سے عزت دیکر پالا تھا۔
صحافیوں اور سوشل میڈیا کے بھونکروں سے گزارش ہے کہ اللہ نے فرمایا کہ ” اے ایمان والو! اللہ کیلئے انصاف کی گواہی دینے کیلئے کھڑے ہوجایا کرو۔ اور لوگوں کی دشمنی اس بات پر تمہیں نہ آمادہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو اور یہی پرہیزگاری کی بات ہے۔اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ شک نہیں کہ اللہ تمہارے ساتھ ہے۔ (سورہ ٔ المائدہ آیت5)
میں نے اپنے کتابچہ ” پاکستان کی سرزمین سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز” میں سورۂ مائدہ کے تین معاملات کا حوالہ دیا تھا جس کی تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء نے بھی تائید کی تھی۔ اللہ نے جہاں یہ فرمایا ہے کہ ” جو اللہ کے نازل کردہ حکم پر فیصلہ نہیں کرتا وہی لوگ کافر ہیں” تو اس کے پس منظر میں یہودکے علماء مشائخ کا ذکر ہے اور انہی پر فتویٰ لگایا گیا ہے اور جو مسلمان علماء ومشائخ بھی اپنا فتویٰ بدلیں گے تو ان پر بھی یہی حکم لگے گا اسلئے کہ ان کے فتوؤں سے دین بدلتا ہے۔ جبکہ دوسری مرتبہ اللہ نے فرمایا کہ ” جو اللہ کے نازل کردہ حکم پر فیصلہ نہیں کرتا تو بیشک وہی لوگ ظالم ہیں”۔ اس کا تعلق قصاص اور برسراقتدار طبقے سے ہے اسلئے ان پر کافر کا نہیں ظالم کا فتویٰ لگتا ہے۔ تیسری مرتبہ اللہ نے فرمایا ” جو اللہ کے نازل کردہ حکم پر فیصلہ نہیں کرتا تو بیشک وہ لوگ فاسق ہیں” اور اس کے پسِ منظر میں اہل انجیل یعنی عوام مراد ہیں جن کے پاس فتوے اور اقتدار کی قوت نہیں تھی اور مسلمانوں میں بھی اگر عوام الناس اسلام کے احکام پر نہیں چلتے تو ان پر کافر اور ظالم کا نہیں فاسق کا فتویٰ لگتا ہے۔ مسلمان عوام مشکل میں اسلئے ہیں کہ علمائاور حکمرانوںکے درمیان چکی کے دوپاٹوں میں پس رہے ہیں ۔
حضرت علی اورحضرت عائشہ نے آپس کی جنگ میں قیادت کا فریضہ خود ہی ادا کیا تھا۔ طالبان قائدین اور اشرف غنی جنگوں کی قیادت نہیں کرتے بلکہ عوام ہی دونوں طرف سے لڑ اور مر رہے ہیں۔سیاسی میدان اور الیکشن میں بھی عوام کو لڑائیوں میں جھونک دیا جاتا ہے۔( PTM)کا جلسہ اگر جنوبی وزیرستان کے محسود ایریا میں نہ ہوتا تو قیادت اور کارکنوں کے درمیان لڑائی سے پشتون قوم بھی بہت بدنام ہوجاتی۔( PTM)نے محسود کارکنوں اور رہنماؤں کو مکین کے جلسے میں سب سے زیادہ بے اختیار رکھا تھا اسلئے بنوں کے حاجی عبدالصمد خان اور عبداللہ نگیال کی وجہ سے بدمزگی شروع ہوئی اور دونوں طرف کے کارکنوں تک معاملہ پہنچ گیا لیکن یہ تو ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا ، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
مولانا فضل الرحمن نے پشتون قوم پرستوں کے باپ دادا اور ان کی اجتماعی غیرت کو اپنے ناخن سے بھی کم تر قرار دیا۔ محسن داوڑ نے کہا کہ امریکہ کے جانے کے بعد اب جہاد کا اعلان کیا ہے اور پھر (TTP)کا بھی عوام کو بتادیں کہ وہ مجاہد یا دہشت گرد ہیں؟۔ منظور پشتین نے کہا کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کو سلام پیش کیا گیا تو افغانستان میں کمیونزم کے نام پر پشتونوں کو 40سالوں سے کیوں مروایا جارہاہے؟۔ کیا اسلام پاکستان کیلئے جمہوری اور افغانستان کیلئے جہادی نازل ہوا ہے؟۔ جب طالبان کی حکومت تھی تو بھی پاکستان نے ڈالر لیکر امریکہ کا ساتھ دیا اور طالبان کی حکومت کو گرادیا۔ یہ ڈالروں کے حامی ہیں تمہارے نہیں ہیں۔
پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ علماء ومشائخ نے یہودونصاریٰ کے احبار ورھبان کے نقشِ قدم پر اسلام کا حلیہ تو نہیں بگاڑا ہے؟ پھر یہ دیکھنا ہوگا کہ حکمرانوںنے اسلام کے مطابق عدل وانصاف کا نظام نافذ کیا ہے یانہیں؟ پھر عوام بھی فسق سے نکل کر اللہ کے احکام کے مطابق چلیں گے۔ تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی عوام پر محنت کررہی ہیں لیکن علماء اور حکمرانوں کا قبلہ درست کرنا بہت ضروری ہے۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟