پوسٹ تلاش کریں

جنوبی وزیرستان محسود قوم کے صدر مقام مکین میں کے قائد مولانا فضل الرحمن اور کے کامیاب جلسے شعور کی بیداری کیلئے مبارکباد کے مستحق ہیں

جنوبی وزیرستان محسود قوم کے صدر مقام مکین میں کے قائد مولانا فضل الرحمن اور کے کامیاب جلسے شعور کی بیداری کیلئے مبارکباد کے مستحق ہیں اخبار: نوشتہ دیوار

جنوبی وزیرستان محسود قوم کے صدر مقام مکین میں کے قائد مولانا فضل الرحمن اور کے کامیاب جلسے شعور کی بیداری کیلئے مبارکباد کے مستحق ہیں،انسان میں شر کا مادہ کم اور خیر کا زیادہ ہے مگر شر کے ماحول سے نکلنے کیلئے خیر کی فضاء پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی اسلام ہے!کشمیر اور ڈیورنڈ لائن سے زیادہ اندرونی معاملات و مسائل سے خطرہ ہے

جنوبی وزیرستان کی محسود قوم بہادر، آزاد منش، انسانیت کے اعلیٰ اقدارکے علاوہ انتہائی درجے کی مالی لالچ بھی رکھتی ہے۔ نقیب شہید کو محسود، پختون ، آرمی چیف اور پاکستان کی جملہ سیاسی قائدین ، حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے جس طرح کا پروٹوکول مل گیا وہ قوموں کی تاریخ بدلنے کا انقلابی حصہ ہوتا ہے لیکن پھر بھی نقیب شہید کے والد نے مراعات کی لالچ سے سب کچھ پر پانی پھیر دیا تھا۔
امریکہ کی مخالفت میں تحریک طالبان پاکستان کو بیت اللہ محسود کی قیادت میں جس طرح کی مقبولیت مل گئی تو اس سے وزیرستان کے محسودپوری دنیا کے بڑے امام بھی بن سکتے تھے مگر لالچ اور بدکرداری نے نہ صرف ریاست کی نظر میں (TTP) کو گرادیا بلکہ اتفاقِ رائے سے قومی قیادت نے قومی ایکشن پلان کے ذریعے سے قبائل اور ملک بھر سے اس کو دہشت گرد قرار دیکر اس کے خاتمے کا لائحۂ عمل بھی تشکیل دیا تھا۔ پھر پختون نوجوانوں نے منظور پشتین کی قیادت میں (PTM) کی تحریک سے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کو بھی ہلا ڈالا تھا مگر اب رفتہ رفتہ( PTM) بھی اپنے منطقی انجام کی طرف پہنچ رہی ہے۔ کامیاب اجتماع اور جلسہ تحریکوں اور جماعتوں کی کامیابی کا معیار ہوتا تو تبلیغی جماعت ،دعوت اسلامی، جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ، عورت آزادی مارچ اورتماشوں میں ناچنے والی لڑکیوںکے گرد جمع ہونیوالے اجتماعات بھی کامیابی کا معیار قرار پاتے۔ سیاسی جلسوں میں پیسہ پھینک تماشہ دیکھ والی کہانی بھی ہوتی ہے۔ مریم نواز نے اپنی اداؤں سے کشمیریوں کو ورغلانے کی ناکام کوشش کی تھی مگر کشمیریوں نے پاکستان مردہ باد اور آزاد وخود مختار کشمیرکے نعرے بھی لگادئیے۔
ایک بڑے ذمہ دار فوجی افسر کو آزادکشمیر کا وزیراعظم بننے کیلئے ایک ارب دیا گیااور اس کو برطرف بھی کردیا گیا جس پر نوازشریف کے حامی سوشل میڈیاکے صحافی سید عمران شفقت نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی نہ صرف تعریف کی بلکہ یہ بھی کہا کہ ”مجھ پر خوامخواہ کا الزام ہے کہ میں جنرل باجوہ اور فوج کی مخالفت کرتا ہوں، یہ لوگ ہمارے محسن ہیں اور جوانسانوں کا شکریہ ادا نہیں کرتاہے وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتاہے”۔قرآن میں منافق اعرابیوں کی یہ مثال دی گئی ہے کہ جب ان کو خیر پہنچتی ہے تو خوش ہوتے ہیں اور جب تکلیف پہنچتی ہے تو پھر دوسری زبان میں بات کرتے ہیں۔ یہی انسانی فطرت کا اصل مزاج بھی قرآن نے ہر جگہ بیان کیا ہے لیکن تعلیم وتربیت اور ایمان واسلام کی بدولت اس پر کنٹرول کرنا بھی اچھے انسانوں اور اچھے مسلمانوں کا زبردست فرض بنتا ہے۔
یہ دنیا دار الامتحان ہے جس میں انسان کی عزت بڑھ جاتی ہے یا اس کی بے عزتی ہوجاتی ہے۔ نوازشریف اور مریم نواز کو اپنے بیانیہ میں شہبازشریف اور حمزہ شہباز سے اختلاف ہو یا منصوبہ بندی کیساتھ سب کچھ ہورہاہو لیکن دونوں ہی اصل الاصل میںایک ہی ماں باپ کے روحانی اور جسمانی اولادیں ہیں۔ 3 بار وزیراعظم اور پنجاب کے وزیراعلیٰ کا منصب بار بار ملنے کے بعد کونسا انقلاب برپا کیا ہے جو اب ان سے بڑے انقلاب کی زبردست توقع رکھی جائے؟۔
وزیراعظم عمران خان کہا کرتا تھا کہ ”مجھے اللہ نے سب کچھ دیا ہے ۔ عوام کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے وزیراعظم بننے کی خواہش رکھتا ہوں”۔ پاکستان کا وزیراعظم بننا کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ معین قریشی،ظفر اللہ جمالی اور شوکت عزیز سے پہلے بھی بہت وزیراعظم بن گئے اور بعد میں بھی بنتے رہے ہیں اور شاید پھر بھی بنتے رہیںگے لیکن عمران خان سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ اب وزیراعظم کی دولاکھ روپے اور مراعات پر مشکل سے گزارا ہورہاہے تو پہلے کونسی دکان چل رہی تھی جو اب وزیراعظم بننے کے بعد بند ہوگئی ہے۔ جب بنی گالہ کا گھر تک بھی یہودن جمائما خان نے گفٹ کردیا تھا اور وہ متاع عزیز عورت بھی جب ہاتھوں سے نکل گئی ہے تو پھر جہانگیر ترین کے ٹکڑوں پر گزارا کیا اور اب اس متاع عزیز کو بھی کھو دیا ہے تو یہ کیوں نہیں کہتے کہ ” وہ جو کہتا تھا کہ اللہ نے سب کچھ دیا ہے وہ امپائر کی انگلی کی طرح اینویں سیاسی بکواس ہی کا معاملہ تھا؟”۔
پاکستان کی ایک سرحد پر کشمیر اور دوسری سرحد پر ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ ہے اور اس کو بیرونی خطرات سے زیادہ اپنے اندر کے ناکام سیاسی، ریاستی ، معاشی اور معاشرتی نظام سے خطرات لاحق ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اور (PTM)کے منظور پشتین کے جنوبی وزیرستان میں ایکدوسرے سے تضادات اور خلفشار عوام کے سامنے کھل کر سامنے آئے لیکن دونوں نے بڑے مہذب انداز میں سیاسی شعور کا ثبوت دیکر عوام کے جذبات کو مشتعل نہیں کیابلکہ دلائل سے اپنا اپنا مؤقف پیش کردیا۔ محسود قوم بہت سیاسی اور فطری شعور سے مالامال ہے، اگر کوئی اشتعال انگیزی کی کوشش کرتا تو عوام کی نظروں میں اسی نے گرجانا تھا۔
محسود قوم کی تاریخ میں یہ پہلے قومی سیاست کے تاریخی جلسے تھے۔ عوام کے شعور میں خاطر خوا اضافہ بھی ہوا ہوگا۔جب پہلی مرتبہ ہمارے گاؤں جٹہ قلعہ گومل میں میرے بھائی پیرنثار نے جمعیت علماء کا جلسہ کروایا تھا تو مولانا فضل الرحمن نے پرتکلف دعوت کو دیکھ کر مجھ سے کہا تھا کہ” اس کو آپ ناشتہ کہتے ہیں؟”۔ ایک محسود حاجی نے میرے بھائی سے کہا تھا کہ ”پیر صاحب ! اس دعوت کے یہ لوگ مستحق نہیں ہیں، ان کیلئے ایسا شوربہ ایسے برتن میں رکھا جائے کہ کہنیوں تک اپنے ہاتھوں کو اس میں ڈبودیں”۔ میرے بھائی کو غصہ تو بہت آیا مگر گھر بلائے ہوئے مہمان کی عزت کا مسئلہ سمجھ کر بات رفع دفع کردی۔ میرے ایک مجذوب قسم کے بھتیجے نے اس وقت کہا تھا کہ جب بینظیر بھٹو کے دوسری مرتبہ دورِ حکومت میں پہلی مرتبہ مولانا فضل الرحمن نے شرکت اختیار کی تھی کہ ” اپنے چچا سے ڈر لگتا ہے ،ورنہ دل چاہتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے چوتڑ کے نیچے بم رکھ دوں جو اس کے چھیتڑے اُڑائے اور پھر اس کے جوتے، رومال اور واسکٹ بھی بینظیر بھٹو کو بھیج دوں کہ یہ سنبھالو اور اپنے پاس تبرک کیلئے اب رکھ لو”۔
اب مولانا فضل الرحمن نے اونچی اُڑان بھر لی اور وہ وقت گیا جب کوئی محسود حاجی اس طرح کی بات کرتا تھا لیکن گئے وقت کی یادوں سے شعور اور کسی بھی طبقے اور قوم میں شدت پسندی کے رحجانات کا پتہ چلتا ہے۔ جب روس کے دور میں افغانستان کے اندر لڑائی تھی تب بھی پختونخواہ میںعوام دھماکوں کا شکار بنتی تھی اور جب امریکہ آیا تب بھی عوام دھماکوں کا شکار بنتی تھی۔ پہلے قوم پرست اور بعد میں مذہب پرست دھماکوں کی نظریاتی حمایت کرتے تھے اور مجذوبوں کو ہی پیسے دیکر دھماکوں میں استعمال کیا جارہاتھا اوراصل غلطی ہماری اپنی ہی تھی۔
مولانا فضل الرحمن، منظور پشتین، محسن داوڑ اور دیگر اپنی بات کو بڑی شائستہ انداز میں پیش کرتے ہیں لیکن پھر مجذوب ، نیم پاگل اور جنونی قسم کے لوگ پیسہ لیکر دھماکوں کیلئے استعمال بھی ہوتے ہیں۔ دوسری قوموں کی عورتیں اور لڑکیاں ناچ گانوں کیلئے استعمال ہوتی ہیں اور پشتونوں میں لڑکوں کو ناچ گانے میں اسی طرح استعمال کرنے کا رواج تھا جس کو ناٹوائی کہاجاتا تھا۔ جس قوم میں ناٹوائی ملتے ہوں تو اس میں دوسرے کاموں کیلئے کیا کیا کس کس کام کیلئے لوگ نہیں ملتے ہونگے؟۔ دوسروں کو براکہنے سے پہلے اپنے گریبانوں بھی میں جھانکنے کی سخت ضرورت ہے۔جو قوم اپنا احتساب نہیں کرسکتی ہے وہ انقلاب نہیں لاسکتی ہے۔
جب شیعہ نے ایرانی انقلاب برپا کردیا تو سب سے پہلے احتساب کے عمل سے گزرنا پڑا۔ شیعہ مسجد کے امام کو پیش نماز کہتے تھے لیکن پھر پہلی مرتبہ آیت اللہ خمینی کو اپنا ” امام ” بنانے کا اعلان کردیا تھا۔ ورنہ شیعہ کسی کو بھی حضرت علی سے مہدی ٔ غائب تک بارہ اماموں کے علاوہ 13واںامام کہنا شرعاً غلط سمجھتے تھے۔
امارت اسلامیہ افغانستان کے طالبان اگر اپنی پوری پود ختم کرکے تاریخ کا ایک ورق بننے کی بجائے اپنے آپ کو تاریخ میں زندہ وتابندہ رکھنا چاہتے ہیں تو وہ حکومت کے حصول کیلئے لڑنے مرنے کے بجائے اپنی زبردست اصلاحات کا اعلان کردیں۔ مولانا فضل الرحمن نے خراسان کے دجال کی حدیث نکال کر ان پر فٹ کردی تھی لیکن وہ اب خراسان کے مہدی کا کردار بھی ادا کرسکتے ہیں۔ حدیث ہے کہ ” اسلام اور اقتدار دوجڑواں بھائی ہیں، جو ایکدوسرے کے بغیر صحیح نہیں ہوسکتے ہیں۔ اسلام بنیاد ہے اور اقتدار اس کا محافظ ہے”۔ اسلام وہ دین ہے جس میں زبردستی کا کوئی تصور نہیں ۔ زبردستی کا اقتدار اسلامی نہیں۔ اسلام دین ہے اور دین کا تعلق اللہ کی وحی اور رسول اللہۖ کی سنت سے ہے۔ اقتدار باہمی مشاورت اور انسانوں کی مرضی سے نظام ِ حکومت تشکیل دینے کا نام بھی ہے اور فرعونیت اور ظالمانہ نظام کو بھی اقتدار کہتے ہیں۔ مکی دور میں اقتدار نہیں تھا اور مدنی دور میں مسلمانوں کو عوام کی مرضی سے اقتدار ملا۔ اگر انصار ومہاجرین اور قریش و اہلبیت طاقت کے زور پراقتدار حاصل کرتے تو یہ خلافتِ راشدہ کا نظام نہیں ہوتا۔ بعد کے ادوار نے خاندانی بنیادوں پر زبردستی سے ایکدوسرے کو قتل کرکے اقتدار پر قبضے کئے تو وہ طرزِ نبوت کی خلافت کا منہاج نہیں کہلایا۔
اگر داڑھی، پردے ، نماز اور دوسری چیزوں میں زبردستی کے اسلام سے اب افغان طالبان ہٹ گئے ہیں تو زبردستی سے اقتدار پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیں۔ یہ ہماری طرف سے خیرخواہی کا مشورہ ہے۔ افغان حکومت سے جنگوں میں بہت سارا اپنا جانی نقصان کرنے کے بعد پھر وہ جمہوری بنیادوں پر جنگ جیتنے کے قابل نہیں رہیںگے۔ امریکہ کے نکل جانے کے بعد دنیا میں دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے بجائے کابل میں ڈاکٹراشرف غنی جیسے دلیر افغان، پٹھان اورمسلمان کیساتھ مل بیٹھ کر مہذب اپوزیشن کا کردار بھی ادا کریں جو توپ اور میزائل کے گھن گرج میں جلسہ چھوڑ کر نہیں بھاگتا ہے اور نہ ہی نماز میں اس پر کوئی اثر پڑتا ہے۔ ڈاکٹر اشرف غنی کے صدارتی محل میں حملوں پر خوشی کا اظہار بھی غلط ہے اور فیصل مسجد میں صدر عارف علوی کا عید کی نماز میں غلطی سے امام سے پہلے اپنے ساتھیوں سمیت رکوع میں جانے پر مذاق اُڑانا بھی غلط ہے۔
مولانا فضل الرحمن اور منظور پشتین کا پشتو ن قوم، افغانستان وپاکستان اور دنیا کو مشکلات سے نکالنے کیلئے ذاتی نوک جھونک کی بجائے وہ نظریہ اور عقیدہ ضروری ہے جو نہ صرف اپنے علاقے، ملک اور خطے کو بلکہ پوری انسانیت کو نجات کے راستے پر ڈال دے اور یہ اصلی اسلام ہے۔ ہر گھر میں کوئی مذہبی ،کوئی سیکولر، کوئی سیاسی ، کوئی غیرسیاسی اور کوئی تحریکی ، کوئی سرد مہری والاہوتا ہے۔ پھولوں کے اختلاف رنگ وبو سے ہی گلشن کی زینت ہے۔ اگر طالبان معروف افغان کامیڈین کو قتل کرنے کے بجائے اپنے اسٹیج سے کامیڈی کرواتے تو عوام کو افغان طالبان کی فکر میں انقلابی اور خوشگوار تبدیلی دکھائی دیتی۔ ایک صحابی جو لوگوں کو ہنساتے تھے ، نبیۖ نے اس کا نام حمار رکھا تھا لیکن اس کو برا بھلا کہنے سے بھی نبیۖ نے روک دیا تھا کہ مسلمانوں سے اور نبیۖ سے محبت رکھتا تھا۔ منظور پشین کی ٹیم میں شامل طالبان کامیڈین کی فیک ویڈیوز شیئر کرتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن اور منظور پشتین ومحسن داوڑ کا اختلاف سنجیدہ بات نہیں۔ جب امریکہ آیا تو علماء وطلباء سے زیادہ عوام نے بھڑکیاں مار یں۔ علماء وطلباء نے چندے زیادہ کھائے اور جہاد کم کیا لیکن عوام نے بڑے پیمانے پر طالبان کا ایسا ساتھ دیا کہ ریاست سمیت پوری قوم اور سیاسی قیادت بھی ان کی حمایت پر مجبور تھی ،یہ حمایت بھی دل وجان ہی سے تھی اور پھر رفتہ رفتہ فضاء بدل گئی اور طالبان کو ISI کی سازش کا نتیجہ قرار دیا جانے لگا۔ اپنی پوٹی پر دوسرے کے بڑوں کو بچوں کی طرح پدو مارنے کیلئے نہیں بٹھایا جاسکتا۔ پختون طالبان ایکدوسرے سے انتقام لے رہے تھے۔ پھر سارا الزام فوج پر لگادیا کہ ”یہ جو دہشتگردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے”۔ آج مولانا فضل الرحمن اور منظور پشتین سرینڈر طالبان کے سامنے سرنڈر ہیں اور امریکہ کے نکل جانے کے بعد افغانی لڑرہے ہیں۔
جب خڑ کمر میں( PTM)کے کارکن یا عوام مارے گئے تو محسن داوڑ نے جہاد کا بھی اعلان کردیا مگر پھر رضا کارانہ طور پر اپنی گرفتاری دیدی۔ عبداللہ نگیال بیٹنی اور بنوں کے حاجی عبدالصمد خان کے بیانات سوشل میڈیا پر آگئے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ (PTM)کی مرکزی قیادت میں کتنا تناؤ ہے جو پوری پشتون قوم کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھاکرنے کا عزم لئے ہوئے ہیں؟۔ اگر محسن داوڑ نے واقعی دتہ خیل کے جلسے میں منظور پشتین کی تقریر سے پہلے کہا تھا کہ جلسہ ختم ہواہے اور نہ صرف خود چلے گئے بلکہ دوسروں کو بھی جانے کا کہا تھا اور پھر مکین کے جلسے میں بھی زبردستی سے بن بلائے مہمان بن کر نہ صرف شرکت کی بلکہ تقریر بھی کرلی ہے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ آئندہ یہ پشتون قوم کو کس طرح متحد کریںگے؟۔
عبداللہ نگیال نے(PTM)پر آپس کی قوم پرستی کے شدید الزامات لگائے اور عبدالصمد خان نے کھلی بدمعاشی اور گالی گلوچ کے الزامات لگائے۔ منظور پشتین ایک شریف انسان ہیں لیکن انقلابی تحریکیں تبلیغی جماعت کی طرز پر نہیں چلائی جاسکتی ہیں۔ انقلاب کیلئے اپنی خامیوں کو اصول کی بنیاد پر رعایت نہیں دی جاتی ہے بلکہ اپنی خامیوں پر قابو پاکر ہی قوم کو ایک مثبت انقلاب کی راہ پر ڈالا جا سکتا ہے۔ پوری دنیا میں یہ ٹرینڈ چل گیا کہ اپنی وکالت اور مخالف کی اچھائیوں کو بھی برائیوں میں بدل دیں۔ اسلام نے سب سے پہلے عرب قوم کو جاہلیت سے نکالا تھا۔ آج اگر اصلاح کی جگہ پر مفادات کی بنیاد پر لڑائیاں شروع ہوں گی تو جس طرح طالبان اپنے وقت کی پیداوار تھے اور پھر وہ اپنے لئے بڑی مصیبت بن گئے ، اپنی قوم کیلئے مصیبت بن گئے اور جس امریکہ سے لڑائی تھی اس سے صلح ہوگئی۔ محسن داوڑ نے عوامی نیشنل پارٹی کے بعد (PTM)اور پھر اپنی نئی پارٹی میں پشتون اور پنجابی سب کو شامل کیا ہے۔ جو خوش آئند بھی ہے لیکن پھر وہ کم ازکم زبردستی (PTM)کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنے سے تو دریغ کرتے مگر وہ پھر بھی ایک پختون ہے اور پشتونوں کی جنگ اس انداز سے لڑرہاہے؟۔
فرقہ واریت، جہاد،قبیلہ پرستی ، کمیونزم ، اسٹیبلیشمنٹ مخالف نظریاتی رہنما وکارکن اور پدر شاہی نظام کے خلاف آواز اُٹھانے والوں سے پنجاب اور سندھ بھرا پڑا ہے لیکن پختون اور بلوچ نہ صرف ہتھیار اُٹھالیتے ہیں بلکہ آپس کی دھڑے بندیوں میں تقسیم ہوکر ایکدوسرے کو مارنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ مولانا فضل الرحمن کچے پودوں کی طرح چبانے اور(PTM)آپس کی چپقلش میں مبتلاء ہو تو الزام کس کے سر آئے گا؟۔ کامریڈلعل خان اورعاصمہ جہانگیرکی طرح نظریاتی لوگوںاور اسلامی جمعیت طلبہ،لشکر طیبہ، جیش محمد، سپاہ صحابہ، سپاہ محمد جیسی تنظیموں سے پنجاب بھرا پڑا ہے لیکن کرائے کے قاتل اور جنونی ہم ہی کیوں؟۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟