حضرت عمرؓ اور عمارؓ کے عمل پر بنیﷺ کی سیرت مبارکہ. اداریہ
ستمبر 3, 2018
حضرت عمرؓ نے سفر میں جنابت کی وجہ سے نماز چھوڑ ی اور نبیﷺ کو بتادیا۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’آپ نے ٹھیک کیا ‘‘۔ حضرت عمارؓ نے مٹی میں لوٹ پوٹ ہوکرتیمم کیا اور نبیﷺ کو بتادیا تو نبیﷺ نے فرمایا کہ’’ تمہارے لئے یہ کافی تھا کہ منہ اور ہاتھوں پر مسح کرلیتے‘‘۔ حضرت عمرؓ کا عمل قرآن کے مطابق تھااسلئے نبیﷺ نے تصدیق کی اور حضرت عمارؓ نے قرآنی حکم سے تجاوز کیا اسلئے آپؓ کی درستگی بھی فرمادی۔ قرآن میں وضو و جنابت کیلئے تیمم کا ایک حکم ہے۔ حضرت عمارؓ نے سمجھا کہ وضو کے مقابلے میں غسل کیلئے مٹی میں لوٹ پوٹ ہونا دین کا تقاضہ یا مبالغہ ہے۔ حالانکہ یہ غلو تھا اور اہل کتاب کو بھی اللہ نے دین میں غلو سے منع کیا تھا لیکن آج مسلم اُمہ ہر معاملے میں گدھے کی طرح لوٹ پوٹ ہوکر مٹی میں رگڑ کھا رہی ہے اور اتنی لت پت ہے کہ اس کی اپنی اصل پہچان بھی ختم ہوکر رہ گئی ہے۔
قرآن وسنت سے تجاوز کا راستہ روکنا ہوگا۔ ابوموسیٰ اشعریؓ اور عبداللہ بن مسعودؓ کے درمیان بخاری میں حضرت عمرؓ اور عمارؓ کے واقعے پر مناظرہ نقل کیا گیا، قرآن وسنت میں دونوں کی اجازت ہے تو اختلاف کو ہوادینا غلط ہے جبکہ بعض لوگوں کا مزاج ایسا ہوتا ہے جیسے حضرت عمرؓ نے جنابت میں تیمم سے نماز نہ پڑھی، پاک و ستھرے انداز میں اللہ کی عبادت سے کس کو انکار ہوسکتا ہے لیکن بعض کی طبیعت ہوتی ہے کہ ہر حالت میں نماز قضاء کرنے کا تصورنہیں رکھتے اور ان کیلئے جنابت میں قرآن نے سفر میں تیمم سے نماز پڑھنے کی اجازت واضح کردی ۔
نبی کریم ﷺ سے ایک نے عرض کیا کہ رات کو غسل واجب ہوا، پانی ٹھنڈا تھا اور صبح کی نماز تیمم سے پڑھ لی ۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ اچھا کیا۔ دوسرے نے کہا کہ رات کو غسل واجب ہوا، پانی ٹھنڈا تھا، تیمم سے نماز دل نہیں مان رہا تھا تو نماز قضاء کرلی اور دن چڑھنے کے بعد پانی گرم کیا ،غسل کیا اور پھر نماز پڑھ لی ۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ اچھا کیا ۔ صحابیؓپر سفر میں غسل واجب ہوا، پانی ٹھنڈا تھا، وہ نہانا نہ چاہتا تھا۔ صحابہؓ نے کہا کہ ’’ اللہ نے فرمایا کہ جب پانی نہ ملے تو تیمم کرو‘‘۔ پانی ٹھنڈا ہے تو کیا ہوا،غسل کے بغیر نماز نہ ہوگی۔ اس نے نہایا تو بیمار ہوا اور فوت ہوگیا، نبیﷺ کو پتہ چلا تو فرمایا کہ اللہ تمہیں ہلاک کردے، تم نے اس کو مار ڈالا ۔ دعوت اسلامی کے مولانا الیاس قادری کا کتابچہ ’’ غسل کا طریقہ‘‘ ہے، اس میں امام غزالی ؒ کے حوالہ سے جاہل کا قصہ ہے کہ ’’ اگر نفس غسل میں سستی کا سوچے تو سزا کے طور پر ٹھنڈی رات میں ٹھنڈے پانی سے کپڑوں سمیت نہالو اور پھرپوری رات اس میں سوجاؤ‘‘۔ دعوت اسلامی کی اس ترغیب نے کتنے جاہلوں کو ٹھنڈا کیا ہوگا؟۔ حالانکہ نبیﷺ بسا اوقات حالتِ جنابت میں صرف وضو کرکے رات کو سوجایا کرتے تھے۔ جاہلوں کی دسترس میں جاہل جہالتوں سے کھیل رہے ہیں۔
وضو میں حکم ہے کہ وامسحوا برؤسکم ’’ اور سروں کا مسح کرو‘‘۔ اس میں ’’ب‘‘ کے حرف سے اختلافات پیدا ہوگئے۔ اسکے کئی معانی ہیں۔ الصاق کے معنی ہاتھ لگانے کے ہیں۔ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک ب یہاں الصاق کے معنی میں ہے یعنی ہاتھ لگانا۔ ہاتھ سر کے چوتھائی کے برابر ہے اسلئے چوتھائی سر کامسح فرض ہے۔ امام شافعیؒ کے ہاں بعض کے معنی میں ہے اسلئے ایک بال کا مسح بھی کافی ہے۔ امام مالکؒ کے نزدیک ب زائدہ ہے ،پورے سر کا مسح فرض ہے ،اگر ایک بال رہ گیا توفرض پورا نہ ہوگا۔ فرائض اوراس اختلاف کی اہمیت کتنی ہے؟۔
اللہ نے پانی نہ ملنے کی صورت میں چہروں پر مسح کا حکم دیا ہے، وامسحوا بوجوھکم ’’ اور مسح کرو اپنے چہروں کا ‘‘ ۔ ب کا ذکر ہے مگر تیمم میں چہروں پر مسح کے فرائض اور اختلافات کی گنجائش نہیں۔ ایک چوتھائی، بال برابر وغیرہ ۔ ایک عام آدمی بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ جب ہاتھوں کو کہنیوں تک دھویا جائے ،چہرے کو اور پاؤں کو ٹخنوں تک دھویا جائے تو اللہ کا حکم نہ ہوتا توبھی آدمیوں کے گیلے ہاتھ اپنے سروں پرپھیرنے کیلئے خود بخودہی اُٹھ جاتے۔ علماء وطلبہ اور مذہبی طبقات کو ان مشقتوں سے نکالنے کی کوشش کارگر ہوگی تو ایک اچھا معاشرہ وجود میں آئیگا۔
اجتہادبیوقوفی کا بدترین نمونہ ہے توپھر تقلید کیاہوگی ؟۔ اللہ معاف کرے۔ اچھے اچھے کہتے ہیں کہ تقلیدکا اگر قلادہ گلے سے نکل گیا تو بہت دور کی گمراہی میں پڑینگے۔ ارے، تم نے گمراہی سر مول لینے کی کوئی کسر چھوڑی ؟۔ رسول اللہﷺ آخرت میں اللہ کی بارگاہ میں شکایت فرمائیں گے : وقال الرسول یا ربّ ان قومی اتخذوا ہذا القرآن مھجورا ’’ اور رسول(ﷺ) کہیں گے کہ اے میرے ربّ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔ دعوتِ اسلامی اور تبلیغی جماعت کے جاہل روروکر بے حال ہوجاتے ہیں مگرقرآن کے احکام کیلئے ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ انہوں نے عیش وعشرت کیلئے نئے طرزِ عمل کی سنت ایجاد کررکھی ہے۔ شیطان ان کو دنیا میں رُلاتا رہتا ہے اور آخرت میں بھی انسے یہ کہا جائیگا کہ فلیضحکوا قلیلا والیبکوا کثیرا ’’ کم ہنسو اور زیادہ رؤو‘‘۔ کیونکہ یہاں جس طرح کا ناٹک کیا جاتا ہے ، آخرت میں بھی اسکے مستحق ہیں۔
علماء ومفتیان طلاق سے رجوع کا مسئلہ سمجھ چکے ہیں مگرتبلیغی جماعت و دعوتِ اسلامی کے کارکنوں کی عزتوں سے حلالہ کے نام پر کھیلتے ہیں۔ علماء ومفتیان ان سے کہتے ہیں کہ ’’قرآن کی طرف نہ دیکھو۔ اجتہادی فیصلہ ہوچکا کہ اکٹھی تین طلاق واقع ہوتی ہیں، رجوع کی گنجائش نہیں، حلالہ کے بغیر چارہ نہیں‘‘ ۔حالانکہ قرآن میں عدت کے اندر اصلاح کیساتھ رجوع کی گنجائش ہے اور قرآن میں تضاد ممکن نہیں کہ عدت میں صلح کی شرط پر گنجائش بھی دے اور پھر صلح کی شرط کے باوجود عدت میں رجوع پر بھی پابندی لگادے۔ قرآن وسنت اور فطرت وعقل کی دھجیاں بکھیرنے والے غلط فقہی معاشرتی مسائل کا اسلامی دنیا سے جنازہ نہ نکالا جائے تو مسلمان کبھی بھی ترقی ، عروج اور خلافت کی منزل نہیں پاسکتے ہیں۔حلالہ کے خلاف ہم نے کوئی ایسا اجتہاد نہیں کیا جیسے سود کے جواز کیلئے علماء نے کیا ہے۔
حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ ایک ایسی شخصیت تھی جن کو دیوبندی بریلوی اکابر مانتے تھے۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ نے درسِ نظامی سے بڑے شاگرد پیدا کئے۔ مولانا عبیداللہ سندھیؒ ، مولانا حسین احمد مدنیؒ ، مولانا انورشاہ کشمیریؒ ، مولانا اشرف علی تھانویؒ ، مولانا الیاسؒ ، مفتی کفایت اللہؒ ، مولانا شبیراحمد عثمانیؒ ، وغیرہ مگر مالٹا سے رہائی کے بعد قرآن کی طرف رجوع کی فکر دامن گیر ہوئی۔ مولانا سندھیؒ نے مشن پر کام کیا، مولانا کشمیریؒ نے آخر میں کہاکہ زندگی مسلک کی وکالت میں ضائع کی۔ مولانا الیاسؒ نے مدارس سے ہٹ کر جماعت بنائی، مولانا تھانویؒ نے شیخ الہندؒ کے کشف پر اعتماد کرکے کہا خراسان کے مہدی نے معاملہ کرنا ہے۔
لوگوں کی راۓ