پوسٹ تلاش کریں

Maulana Syed Muhammad Banuri was martyred and charged with suicide. After finding evidence of murder, it was decided to accuse Dr. Abdul Razzaq.

Maulana Syed Muhammad Banuri was martyred and charged with suicide. After finding evidence of murder, it was decided to accuse Dr. Abdul Razzaq. اخبار: نوشتہ دیوار

مولانا سید محمد بنوری کو شہید کرکے خود کشی کا الزام لگایا گیا پھر قتل کا ثبوت ملنے پر ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر کو موردِ الزام ٹھہرانے کی کوشش کی گئی۔

ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر سے متعلق
رئیس و شیخ الحدیث جامع العلوم الاسلامیہ بنوری ٹان کراچی، صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان ،مرکزی امیرعالمی مجلس تحفظ ختم نبوت!
………………پیدائش اور بچپن:(1935 )میں ایبٹ آباد کے گاں کوکل کے دینی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔آپ بچپن سے سلیم الفطرت تھے ۔ معاصرین گواہی دیتے ہیں کہ آپ میں جو نیکی و صلاح پیرانہ سالی میں نظر آتی ہے ، جوانی میں اسی طرح دکھائی دیتی تھی۔ گویا آپ کا بچپن، جوانی، اور بڑھاپا نیکی و تقوی کے لحاظ سے ایک جیسے تھے ۔
…………..آپ کے والد گرامی:سکندر خان بن زمان خان(sikandar khan bin zaman) اپنے حلقہ میں بڑے باوجاہت تھے۔ خاندان اور گاں کے تنازعات میں ان سے رجوع کیا جاتا تھا ، جنہیں وہ خوش اسلوبی سے نمٹادیا کرتے تھے۔ بچپن ہی سے علما و صلحا سے گہرا تعلق تھا ، جس کا اثر ان کی زندگی پر ایسا نمایاں تھا کہ دینی معلومات آپ کو خوب مستحضر تھیں ، جس کی بنا پر بہت سے علما بھی آپ سے محتاط انداز میں گفتگو کرتے تھے، کیوں کہ غلط بات پر آپ ٹوک دیا کرتے تھے۔ نماز باجماعت کی پابندی ، تلاوتِ قرآن کریم، ذکرِ الہی، صلہ رحمی ، اصلاح ذات البین، رفت و شفقت، اور ضعفا کی خبرگیری؛ان کے خصوصی اوصاف تھے۔ مسجد کی خدمت و تعمیر سے بہت شغف تھا۔
………….تعلیم:قرآن کریم کی تعلیم اور میٹرک تک دنیاوی فنون گاں میں حاصل کیے۔ اس کے بعد ہری پور کے مدرسہ دارالعلوم چوہڑ شریف میں دو سال، اور احمد المدارس سکندر پور میں دو سال پڑھا۔ 1952) (میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ تعالی کے مدرسہ دارالعلوم نانک واڑہ کراچی میں درجہ رابعہ سے درجہ سادسہ تک تعلیم حاصل کی ۔ درجہ سابعہ و دورہ حدیث کیلئے محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری رحم اللہ علیہ کے مدرسہ جامع العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹان(binoritown) میں داخلہ لیا، اور (1956) میں فاتحِہ فراغ پڑھا ۔ (واضح رہے کہ اس مدرسہ میں درسِ نظامی کے پہلے طالبِ علم آپ ہی تھے۔) اسکے بعد آپنے (1962) میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ(جسکے قیام کو ابھی دوسرا سال تھا) میں داخلہ لیکر چار سال علومِ نبویہ حاصل کیے۔ بعد ازاں جامعہ ازہر مصر (jamia azhar misar)میں( 1972) میں داخلہ لیا اور چار سال میں دکتورہ مکمل کیا؛ جس میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ امام الفقہ العراقی کے عنوان سے مقالہ سپردِ قلم فرمایا۔
………….آپ کے اساتذہ کرام:
(1)۔۔۔: علامہ سید محمد یوسف بنوری (تلمیذ:محدث علامہ کشمیری )
(2)۔۔۔: مولانا عبدالحق نافع کاکاخیل (تلمیذ:حضرت شیخ الہند )
(3)۔۔۔: مولانا عبدالرشید نعمانی
(4)۔۔۔:مولانا لطف اللہ پشاوری۔
(5)۔۔۔: مولانا سحبان محمود۔( سبحان محمود شیخ الحدیث دارالعلوم کراچی)
(6)۔۔: مفتی ولی حسن ٹونکی۔(رئیس دارالافتا وشیخ الحدیث بنوری ٹان)
(7)۔۔۔: شیخ التفسیرحضرت مولانا بدیع الزمان۔ (رحمہم اللہ تعالی اجمعین )
………….درس و تدریس:دارالعلوم نانک واڑہ میں دورانِ تعلیم ہی عمدہ استعداد و صلاحیت کی بنا پر، کراچی میں لیبیا و مصر حکومتوں کے تعاون سے،عربی زبان سکھانے کیلئے مختلف مقامات پر ہونے والی تربیتی نشستوں میں پڑھانے کا موقع ملا، اس سے آپ کو تدریس کا کافی تجربہ حاصل ہوا۔ علاوہ ازیں بنوری ٹان میں درسِ نظامی کی تکمیل سے پہلے ہی حضرت بنوری نے آپ کی صلاحیتوں کو جانچتے ہوئے اپنے مدرسہ کا استاذ مقرر فرمایا۔آپ کا زمانِ تدریس( 1955) سے تاحال جاری تھا۔
………بیعت و خلافت:ظاہری علوم کی تکمیل کے علاوہ آپ کی باطنی تربیت میں شیخ بنوری کا سب سے زیادہ حصہ تھا۔ علاوہ ازیں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندہلوی اور حضرت ڈاکٹر عبدالحی عارفی نور اللہ مرقدہما کی صحبت سے مستفید ہوئے اور حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید اور حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمہما اللہ تعالی سے اجازتِ بیعت و خلافت حاصل ہوئی۔
جامع العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹان سے تعلق(1955 )میں اس مدرسہ کے درسِ نظامی کے پہلے طالبِ علم کی حیثیت سے یہ تعلق استوار ہوا، دورانِ طالبِ علمی میں حضرت بنوری نے آپ کی عمدہ استعداد دیکھتے ہوئے آپ کو استاذ مقرر فرما کر یہ تعلق مضبوط کردیا۔ (1977 )میں انتظامی صلاحیتوں کے اعتراف میں ناظمِ تعلیمات مقرر ہوئے۔ (1997) میں مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید کی شہادت کے بعد رئیس الجامعہ کیلئے آپ کا انتخاب ہوا اور (2004 )میں مفتی نظام الدین شامزئی شہید کی شہادت کے بعد شیخ الحدیث کے مسند نشین بنے؛ یہ دونوں ذمہ داریاں آپ تاحال بحسن و خوبی نبھارہے تھے۔
………عالمی مجلس تحفط ختم نبوت سے تعلق
عقیدہ ختمِ نبوت کے تحفظ ، فتنہِ قادیانیت کے تعاقب کیلئے یہ جماعت قیامِ پاکستان کے بعد امیر شریعت سید عطااللہ شاہ بخاری کی زیرِ امارت قائم ہوئی۔( 1974) میں شیخ بنوری کی زیرِ امارت چلائی جانے والی تحریک کے نتیجہ میں آئینِ پاکستان میں عقیدہِ ختمِ نبوت کا تحفظ ممکن ہوا،( 1984) میں اسی جماعت کے تحت چلائی جانے والی تحریک کے نتیجہ میں امتناعِ قادیانیت آرڈیننس آیا۔ پاسپورٹ میں مذہب کے خانہ کی بحالی اور (2010) میں ناموسِ رسالت کے قانون کے تحفظ کیلئے چلائی جانے والی تحریک میں اس جماعت کا بنیادی و کلیدی کردار رہا۔ حضرت ڈاکٹر صاحب( 1981) میں جماعت کی شوری کے رکن منتخب ہوئے۔ حضرت سید نفیس الحسینی شاہ کے وصال(2008 )کے بعد آپ نائب امیر مرکزیہ بنائے گئے۔ حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی کے انتقال (2015) کے بعد آپ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیرمرکزیہ منتخب ہوئے۔ آپ نے مجلس کی کئی اردو مطبوعات کا عربی میں ترجمہ کرکے عرب ممالک میں اِنہیں عام فرمایا۔
……اقرا روض الاطفال ٹرسٹ پاکستان سے تعلق:
اکابر و اسلاف کی دعاں میں قائم کردہ پاکستان کے پہلے دینی علوم و دنیاوی فنون کا امتزاج رکھنے والے ادارہ کے سرپرست اور صدرمفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی،حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی، حضرت سید نفیس الحسینی، حضرت مولانا خواجہ خان محمد، مولانا عبدالمجید لدھیانوی رحمہم اللہ تعالی ایسے اکابر رہے ہیں۔ ان بزرگوں کے بعد حضرت ڈاکٹر صاحب اس ادارہ کے پہلے سرپرست رہے ہیں اور اب صدر بن گئے تھے۔بقیہ صفحہ 3نمبر1
……………..وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے تعلق:
قیامِ پاکستان کے بعد مسلمانانِ پاکستان کے اسلامی تشخص، مملکتِ خدا داد پاکستان میں دینی مدارس کے تحفظ و استحکام، باہمی ربط کو مضبوط اور مدارس کو منظم کرنے کیلئے اکابر علمائے اہلِ سنت دیوبند کی زیرِ قیادت( 1379ھ /1959) میں اس ادارہ کا قیام عمل میں آیا۔ اس وقت یہ ملک کا سب سے بڑا دینی مدارس کا بورڈ ہے،جس سے تقریبا بیس ہزار مدارس ملحق ہیں۔ ان مدارس میں تقریبا چودہ لاکھ طلبہ و آٹھ لاکھ طالبات زیرِ تعلیم ہیں۔ جبکہ تقریبا ڈیڑھ لاکھ علما و پونے دو لاکھ عالمات فارغ التحصیل ہوچکے ہیں۔آٹھ لاکھ سے زائد حفاظ و دو لاکھ سے زائد حافظات بھی اسی وفاق سے ملحق مدارس کے فیض یافتہ ہیں۔
حضرت ڈاکٹر صاحب کے شیخ محدث بنوری کا اس ادارہ کے قیام میں دیگر اکابر کے ساتھ بنیادی کردار رہا ہے۔ (1997) میں حضرت ڈاکٹر صاحب وفاق کی مجلسِ عاملہ کے رکن بنائے گئے۔ (2001) میں نائب صدر مقرر ہوئے، اس دوران آپ صدرِ وفاق شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان (molana saleemullah khan)کی بیماری و ضعف کے باعث کئی بار ان کی نیابت کرتے رہے، اور ان کی وفات کے بعد تقریبا 9 ماہ قائم مقام صدر رہے۔ (14 محرم الحرام 1439ھ05 اکتوبر 2017 )کو آپ متفقہ طور پر مستقل صدر منتخب ہوئے۔ اس کے علاوہ آپ وفاق کی نصاب کمیٹی اور امتحان کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں۔
……….تصانیف و تالیفات:(1)…: الطریق العصری۔(2)….: کیف تعلم اللغ العربی لغیر الناطقین بھا۔(3)…: القاموس الصغیر۔(4)…: مقف الام الاسلامی من القادیانی۔(5)…: تدوین الحدیث۔(6)….: اختلاف الام والصراط المستقیم۔(7)…: جماع التبلیغ و منھجہا فی الدعو۔(….: ھل الذکری مسلمون؟۔(9)….: الفرق بین القادیانیین و بین سائر الکفار۔(10)…: الاسلام و اعداد الشباب۔ (11)….: تبلیغی جماعت اور اس کا طریقِ کار۔(12)….: چند اہم اسلامی آداب۔(13)….: محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔(14)….: حضرت علی اور حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین۔
آپ کی زیادہ تر تصانیف اردو سے عربی، اور کچھ عربی سے اردو میں مترجم ہیں۔ جبکہ مشہور کتاب الطریق العصری عرصہ دراز سے وفاق المدارس کے نصاب میں شامل ہے۔علاوہ ازیں آپ نے عربی و اردو میں بیشمار مقالات و مضامین سپردِ قلم فرمائے ہیں، جو عربی و اردو مجلات، رسائل و جرائد، اور اخبارات کی زینت بنے اور مختلف کانفرنسوں میں پڑھے گئے ہیں۔ اِن میں سے اردو مضامین تین مجموعوں کی شکل میں مرتب ہوچکے ہیں:
(1)۔۔: مشاہدات و تاثرات۔(2)۔۔۔: اصلاحی گزارشات۔(3)۔۔۔: تحفظِ مدارس اور علما و طلبہ سے چند باتیں۔اس کے علاوہ آپ روزنامہ جنگ کے مقبولِ عام سلسلہ آپ کے مسائل اور ان کا حل کے مستقل کالم نگار ہیں، جبکہ ماہ نامہ بینات کے مدیر مسل اور مجلہ البینات کے المشرف العام بھی ہیں۔
شیخ بنوری کی نسبتوں کے امین اور مرجع الخلائق شخصیت:شیخ بنوری سے آپکا تعلق اس وقت قائم ہوا جب آپ جامع مسجد نیو ٹان میں عربی کلاس پڑھانے کیلئے تشریف لایا کرتے تھے، کلاس پڑھانے کے بعد کچھ دیر حضرت بنوری کی خدمت میں حاضر رہتے، اگلے سال اسی مدرسہ میں داخلہ لیکر آپ نے یہ رسمی تعلق دائمی کرلیا، سفروحضر میں خادم کی حیثیت سے ہمیشہ ساتھ رہتے۔ حضرت کو بھی آپ سے ایسی محبت تھی کہ اپنے مدرسہ میں استاذ مقرر فرمایا، مدینہ یونیورسٹی میں پڑھنے کیلئے چار سال کی رخصت دی، جامعہ ازہر(jamia azhar) میں داخلہ کیلئے خود ساتھ لے گئے، (1961 )میں حج پر ساتھ لے گئے تو حج کے تمام مناسک اپنی نگرانی میں کروائے، کیونکہ یہ ڈاکٹر صاحب کا پہلا حج تھا۔
انہی محبتوں و شفقتوں نے آپ کو اپنے شیخ کا ایسا گرویدہ بنایا کہ زندگی بھر کیلئے انکے ہوکر رہ گئے۔ شیخ کے وصال کے بعد کچھ عرصہ تک یہ کیفیت رہی کہ جہاں شیخ کا تذکرہ چھڑتا تو آپ کی آنکھیں ضبط نہ کرپاتیں۔ پھر بڑے والہانہ انداز میں شیخ کے واقعات سناتے۔ آپ اپنے شیخ کی تمام نسبتوں کے امین اور انکے مسند نشین و جانشین تھے۔ شیخ بنوری بیک وقت صدرِ وفاق، امیرِ مجلس تحفظ ختم نبوت، رئیس و شیخ الحدیث جامعہ بنوری ٹان تھے۔ حضرت ڈاکٹر صاحب (doctorabdulrazaqsikandar)بھی ان تمام مناصب پر اپنے شیخ کی یادگار تھے۔ آپ فنا فی الشیخ کی تصویر اور شیخ کی نسبتِ اتحادی کا مظہر اتم ہیں۔ اپنے شیخ ہی کی نسبت سے آپ اس وقت پورے ملک کے مشائخ و اہل اللہ کے معتمد، مرجع الخلائق اور ایسی غیرمتنازع شخصیت تھے کہ سب کی عقیدت و احترام آپ کو حاصل تھی اور آپ کی مجلس و صحبت سے استفادہ کرنا ہر کوئی اپنی سعادت سمجھتا تھا۔ ایں سعادت بزورِ بازو نیست
یہ معلومات جامعہ بنوری ٹان کراچی کے فیس بک اکاونٹ پر درج ہیں۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نوراللہ مرقدہ
ازقلم : شاگرد سید عتیق الرحمن گیلانی
شاگرد کیلئے استاذ کی نسبت زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتا ہے۔ تبلیغی جماعت، تصوف کے پیرومرشد اور مدارس کے فیض میں کیا فرق ہے؟۔ طالب علمی کے زمانے میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں تبلیغی جماعت کو چراغ سے اور تصوف وسلوک کو ہاتھ کی بجلی(ٹارچ) سے اور مدارس کو الیکٹرک سے تشبیہ دی تھی اور یہ واضح کیا تھا کہ تبلیغی جماعت کے لوگ اپنے اندر مٹی کا تیل جلاکر چراغ سے چراغ روشن کرتے ہیں۔ ایک جاہل کے پلے مٹی کے تیل کی طرح ایک خطرناک اور بدبودار جہالت کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ہے لیکن اس کا یہ کمال ہوتا ہے کہ دنیا کی اندھیر نگری میں اپنی جان، اپنا مال اور اپنا وقت لگاکر تسلسل کیساتھ قربانیاں دیتا ہے۔ چھ باتوں کی تبلیغ ، چند گھنٹے کی تعلیم، شبِ جمعہ کا بیان ، سہ روزہ، چلہ اور چارماہ سے نہ صرف خود ایک تبلیغی کارکن چراغِ راہ بنتا ہے بلکہ دنیا میں چراغوں کا ایک زبردست سلسلہ شروع کردیتا ہے۔ اس کے پاس علم وعمل کا کوئی بڑاخزانہ نہیں ہوتا ہے۔ زندگی بھر جاہل ہی رہتا ہے لیکن ایمان کے نور سے چراغ جلادیتا ہے اور ایمان کے نور کے چراغوں کا سلسلہ اپنی بساط کے مطابق جاری رکھتا ہے اور یہ عمل بہت آسان ہے۔گویا موم بتی سے موم بتی جلانے میں مشکل نہیں۔
دوسری چیز سلوک وتصوف ہے۔ جس کی مثال سیلوں سے چلنے والی ہاتھ کی بیٹری ہے۔ اس میں مٹی کا تیل نہیں ہوتا بلکہ انتہائی خوبصورت سیل ہوتے ہیں۔ اس کی اتنی تیز روشنی ہوتی ہے کہ اگر الیکٹرک کے بلب پر اسے مرکوز کردیا جائے تو روشن بلب کا سایہ بھی دکھائی دینے لگتا ہے۔ تصوف کاایک پیرطریقت جب اپنے مرید عالم پر اپنی باطنی توجہ مرکوز کردیتا ہے تو اس کو تڑپنے پر مجبور کردیتا ہے۔ مولانا روم کو شمس تبریز اور شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی کو خواجہ باقی باللہ اور مولانا نانوتوی، مولانا گنگوہی، مولانا تھانوی جیسے علما کو حاجی امداد اللہ (hajiimdadullah)کی مریدی پر مجبور کردیتا ہے۔ نبیۖ سے ایمان، اسلام ، احسان کا پوچھا گیا تو تینوں کے الگ الگ جواب عطا فرمائے تھے۔ تبلیغی جماعت عوام پر ایمان کی محنت کرتی ہے ، اہل تصوف احسان کی محنت اور مدارس اسلام کی محنت کرتے ہیں۔ تینوں شعبوں کی اپنی اپنی جگہ بہت اہمیت ہے لیکن مدارس کا درجہ سب سے اعلی ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ بعث معلما ” مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے”۔
مدارس کی مثال الیکٹرک کی ہے۔ اگر کہیں پر بجلی لگانی ہو تو اس کیلئے دور دراز سے بجلی کے پاور اسٹیشن سے بڑی لائنوں سے بڑے بڑے کھمبوں پر بجلی کی سپلائی لانی ہوگی۔ شہروں میں گرڈ سٹیشن اور فیڈر بنانے ہونگے۔ وہاں سے پھر کھمبوں اور (PMT)اور میٹروں کے ذریعے بجلی کی سپلائی لائن لینی ہوگی۔ اس محنت میں سالوں کا عرصہ لگتا ہے لیکن اس کی وجہ سے گھروں میں ہیٹر، فریج، پنکھے،بلب، واشنگ مشین، پانی کی موٹرسے لیکر بڑے بڑے کارخانے، فیکٹریاں اور مل سب کچھ چلتے ہیں۔ ناظرہ قرآن ، ترجمہ قرآن، حفظ قرآن، استنباط مسائل ، فقہا کے درجات، احادیث وتفسیر، فتوے کا شعبہ، قاضی کا نظام، سیاست شریعہ، ملک کا نظام ، فتنوں کی روک تھام اور تمام شعبے ان مدارس کے مرہون منت ہیں۔
جامعہ بنوری ٹان کراچی میںزمانہ طالب علمی سے ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کی شخصیت کو مختلف معاملات میں بہت اچھے انداز میں دیکھا ہے۔شاعر حبیب جالب کا تعلق ولی خان کی پارٹی سے تھا۔ ولی خان کے ہم عصر اور مخالفین بھی تھے اور ولی خان(wali khan) کیلئے حبیب جالب (habibjalib)نے کچھ اشعار لکھے تھے۔
ولی خان
مرے کارواں میں شامل کوئی کم نظر نہیں ہے
جو نہ مٹ سکے وطن پر میرا ہم سفر نہیں ہے
درِ غیر پر ہمیشہ تمہیں سر جھکائے دیکھا
کوئی ایسا داغِ سجدہ مرے نام پر نہیں ہے
کسی سنگ دل کے در پر مرا سر نہ جھک سکے گا
مرا سر نہیں رہے گا مجھے اس کا ڈر نہیں ہے
مجھے لگتا ہے کہ اپنے استاذ محترم ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر(abdulrazaq sikandar) سے متعلق جوبڑے قریبی معلومات رکھتے ہیں وہ ضرور یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ حبیب جالب کی طرف سے اپنے سیاسی لیڈر کیلئے یہ اشعار لکھنا کارکن اور لیڈر کے جس ذوق کی عکاسی کرتا ہے ،اس کی ڈاکٹر صاحب جیسے شریف النفس انسان سے کسی طرح کی کوئی بھی مناسبت نہیں لگتی ہے لیکن ایک شاگرد کا کام یہ ہوتا ہے کہ اپنے استاذ کی ان خفیہ صفات کو عوام وخواص کے سامنے لائے جن کی کسی دوسرے کو ہوا بھی نہیں لگی ہو۔ جی ہاں! میں انہی گوشوں کو بہت اچھے انداز میں سامنے لارہا ہوں۔
(1): پہلا مرحلہ یہ تھا کہ سواداعظم اہلسنت کے نام پر جن لوگوں نے اہل تشیع (shia)کی مخالفت اور ان پر کفر کا فتوی لگایا تھا، اس کی ڈاکٹر صاحب نے شروع سے بہت سخت مخالفت کی تھی۔ پھر وہ دن دنیا نے دیکھ لیا کہ ہندوستان کے مولانا محمد منظور نعمانی(manzoor nomani) کے استفتا کے جواب میں مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی نے فتوی لکھ دیا ۔جس پر پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے بڑے مدارس کے علما اور مفتی صاحبان نے دستخط کئے تھے۔ پھر وہ وقت آیا کہ شیعوں کے خلاف جنہوں نے قادیانیت سے زیادہ بڑے کفر کا فتوی لگایا وہ اپنے فتوں سے الٹے پاں مڑ کے بھاگے ہیں۔ مولانامحمد منظورنعمانی کے صاحبزادے مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی اپنے باپ کے فتوں سے (180)ڈگری کے زوایہ پر پلٹ گئے ہیں۔ جامعہ بنوری ٹان کراچی کے اکابر علما میں کچھ بدھو تھے اور کچھ مفادپرستی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ڈاکٹر صاحب پر کوئی ایسا داغ نہیں ہے۔
(2): الائنس موٹرز سے کراچی کے اکابر علما ومفتیان نے گاڑیاں اور مراعات حاصل کیں۔ الائنس موٹرز مالکان کے مرشد حاجی عثمان کی وجہ سے تبلیغی جماعت کے اکابرین تک پر بھی فتوے لگائے جن میں دارالعلوم کراچی ، جامع الرشید کے مفتی رشیداحمد لدھیانوی شامل تھے۔ لیکن پھر جب الائنس موٹرز کے مالکان نے حاجی عثمانکے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا تو بڑے اکابر کہلانے والوں کا بڑا شرمناک کردار سامنے آگیا۔ فتوں کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں ہے لیکن مولانا بدیع الزمان ، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر ، قاری عبدالحق، مفتی عبدالسلام چاٹگامی وغیرہ نے اس میں پہلے اور بعد میں کوئی حصہ نہیں لیا تھا اور مولانا یوسف لدھیانوی نے حاجی عثمان سے عقیدت کا اظہار کرنے کے باوجود بھی اپنی طرف منسوب فتوے کی تردید سے معذوری کا اظہار کردیا۔ مفتی نظام الدین شامزئی نے جامعہ فاروقیہ کے دور میں حاجی عثمان کی تائید میں فتوی دیا تھا حالانکہ مولانا سلیم اللہ خان نے مخالفت میں فتوں پر دستخط کئے تھے۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کے نام پر ایسا کوئی داغ نہیں ہے جس سے آپ کی اولاد کو قیامت تک خفت کا سامنا ہو۔ میری تحریروں میں بہت چیزیں واضح ہیں۔ طوالت کے خوف سے تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا ہوں۔
(3): ڈاکٹر صاحب خود ختم نبوت کے امرا اور اقرا روض الاطفال کے بڑے سرپرستوں سے زیادہ علمی شخصیت کے مالک تھے مگرظلم یہ ہوا کہ مفتی نظام الدین شامزئی کے بعد آپ کو شیخ الحدیث کے درجے پر رکھاگیا۔ اگر مدارس اور اقرا کے ارباب حل وعقد اخلاص رکھتے تو ڈاکٹر صاحب میں دیسی اور برائے نام اس نصابِ تعلیم کے مقابلے میں جدید اور جاندار نصاب بنانے کی صلاحیت تھی لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ شخصیات کی زندگی سے فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ قبر پرستی کا مزہ لیتے ہیں یا جب پیرانہ سالی میں دل ودماغ کا ضعف انسان کو آخری نکمی عمرتک پہنچادیتا ہے تو تبرک کیلئے عہدے ومناصب ان کی گردنوں کا طوق بنادیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا سید انورشاہ کشمیری کو آخری میں اپنی زندگی درسِ نظامی میں تباہ کرنے کا خیال آجاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب بلند قامت شخصیت اپنی شرافت کے علاوہ اپنے علمی استعداد کی وجہ سے تھے لیکن ان کی ذات سے استفادہ نہیں لیا گیا۔
(4): میری تحریک کے بارے میں مفتی نظام الدین شامزئی کے فتوے کو بہت جلی حروف کیساتھ ہم نے شائع کیا تھا جس میں ان کی غلطی اور نالائقی کو بھی بہت نمایاں کردیا تھا اور ڈاکٹر صاحب نے جو تحریری رہنمائی فرمائی تھی وہ ہماری تحریک کی جان تھی۔ میں نے اپنی کتاب” عورت کے حقوق” کے بالکل آخری جملے میں اس تحریر کو تمام مکاتبِ فکر کی تائیدات سے بھاری قرار دیا۔ اپنے استاذ کی خدمت میں اپنے بیٹے ابوبکر کیساتھ حاضری دی تو ملاقاتیوں کا تانتا بندھا تھا۔
(5): جب مولانا سید محمد بنوری کو مدرسہ میں شہید کرکے پہلے خود کشی کا الزام لگایا گیا اور پھر قتل کا ثبوت ملا تو ڈاکٹر صاحب کو موردِ الزام ٹھہرانے کی کوشش کی گئی۔ ہم نے کرائے کے قاتل کالعدم سپاہ صحابہ اور مفتی جمیل خان کی روزنامہ جنگ میں خود کشی کے بہتان کی سخت مذمت کی اور لکھا کہ ڈاکٹر صاحب نے کبھی مکھی بھی نہیں ماری ہوگی۔ مولانا یوسف بنوری کے صاحبزادے سید محمد بنوری کے قتل کا الزام انتہائی گھنانا فعل ہے۔ مفتی محمد نعیم صاحب ہمارے استاذ تھے اور ان کی وفات سے قبل متعدد بار خدمت میں حاضر ہوا لیکن جب پتہ چل گیا کہ وہ بنوری ٹان کراچی پر قبضہ کرنے کے موڈ میں تھے تو دکھ ہوا۔ ان کی وفات کے بعد ان پر لکھی جانے والی کتاب میں مجھے تاثرات لکھنے کا کہا گیا لیکن میں نے نہیں لکھے اور نہ لکھنے پرخوش ہوا۔ انکا داماد مولوی امین مارا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے جامعہ ، اردگرد ،اندرونِ ملک اور بین الاقومی سازشوں کا مقابلہ کرنے کی ڈینگیں نہیں ماریں لیکن اللہ نے ہرسازش سے آپ کو محفوظ رکھا۔کہاجاتا ہے کہ اللہ کے ولی ایسے ہی محفوظ ہوتے ہیں کہ سمندر میں بھی پاں کو نہ لگے پانی۔ اگر مجھے تھوڑا سا ملاقات کا موقع دیا جاتا تو میرے استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے نہ صرف طلاق کے حوالے سے بلکہ اسلام کی نشا ثانیہ اور قرآن واحادیث کی تشریحات کے حوالے سے بھی مجھے اپنی زبردست تائید سے مفتی محمد حسام اللہ شریفی اور دیگر حضرات کی طرح بالکل نوازنا تھا۔ بس ملاقات کے دوران میں نے اپنی بات کا آغاز کیاہی تھا کہ ملاقات کے مالک کے صبر کا پیمانہ بہت ہی لبریز ہوگیاتھا اور مجھے وہاں سے جانے پر مجبور کردیاتھا لیکن ڈاکٹر صاحب نے مجھے دوسرے ملاقاتیوں کے برعکس اپنی طرف سے عطر کی شیشی کا بھی تحفہ عنایت فرمایاتھا۔
(6):قرآن کادرست ترجمہ آئیگا توڈاکٹر صاحب کی شخصیت، اہمیت، افادیت نورانیت،علمیت،انقلابیت، مجددیت، سیادت، قیادت امامت کا لگ پتہ جائیگا ایک ساتھی سے فرمایا کہ” میرا شاگردہے میری بہت عزت کرتا ہے ”۔ جسے سن کر دل تڑپ اٹھا۔استاذمحترم شریف النفس تھے،اگر آپ کی سیرت و اخلاق کو اپنانے کی توفیق ملتی تو دنیا بدل دیتے مگر نصیب اپنا اپنا۔سید عتیق الرحمن گیلانی
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟