پوسٹ تلاش کریں

میں بولتی ہوں کہ اگر اس قوم کیلئے لاکھوں بچیاں بھی یتیم ہوجائیں تو کم ہے۔ماہ رنگ بلوچ

میں بولتی ہوں کہ اگر اس قوم کیلئے لاکھوں بچیاں بھی یتیم ہوجائیں تو کم ہے۔ماہ رنگ بلوچ اخبار: نوشتہ دیوار

میں بولتی ہوں کہ اگر اس قوم کیلئے لاکھوں بچیاں بھی یتیم ہوجائیں تو کم ہے۔ماہ رنگ بلوچ

ایک ماں کا وہ پہلا خیال جس نے سوچا ہوگا کہ وہ اپنے وطن کیلئے قربان ہوگی ناں۔ وہ خیال ہی اس قوم کو ہزار سال حوصلہ دینے کیلئے کافی ہے۔ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ
بلوچ قوم کی اس عظیم قومی تحریک کے قریب بھی کسی دوسری قوم کی تحریک نہیں پہنچی ہے، ہمارے علماء اور مدارس کے طلبہ بھی کھاد کی مشین نہیں انقلابی بنیں۔عتیق گیلانی
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اس تقریب سے یہ تحریر پڑھ کر خطاب کیا تھاجس کی کچھ جھلکیوں سے ان کے فکر وعمل کو سمجھنے میں قارئین کو آسانی ہوگی کہ اتنے حوصلے اور جرأت کے پیچھے کیا اصل عوامل کارفرماہیں۔ یہ حوصلے کی ایک چٹان کیوں ہیں؟۔
ڈاکٹر ماہ رنگ نے8مہینے پہلے اپنے خطاب میں کہا تھا: صباح اسلئے صباح تھا کہ اپنے آپ کو اجتماع سے جوڑ دیا۔ صباح نے وہ جو روایتی دانشور کی تعریف سے خود کو نکال کر وہ اپنی عوام کے ساتھ رہا۔ اس نے کہا کہ اگر میری کلاس کا ایک اسٹوڈنٹ اغوا ہورہا ہے تو میں اپنی کلاس میں بیٹھوں گا ہی نہیں جب تک کہ وہ رہا نہیں ہوجائے۔ جب بات ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ صباح نعرے نہ لگاتا تو صباح صباح نہ ہوتا۔ تو آپ بتائیں کہ اگر آپ نے ایکٹیو ازم کو محدود کردیا ہے ۔ آپ کہتے ہیں کہ قوم کیلئے کام تو ناکارہ شخص ہی کرے گا تو پھر قومی تحریک چلائے گا کون؟۔ ایک ڈاکٹر ڈاکٹری کرے، ایک وکیل وکالت کرے، ایک استاد اپنی استادی کرے تو پھر قومی تحریک چلائے گا کون؟۔ کیا یہ کوئی آسان کام ہے؟۔ یہ سب سے مشکل کام ہے۔ سب سے ذہین اور سب سے جرأتمند لوگ قومی تحریکیں چلاتے ہیں۔ یہ کسی عام کسی ڈرپوک شخص کا کام ہے ہی نہیں کہ اتنے بڑے کلیم کو لے کر آگے چلے اور اپنی زندگی اور سب کچھ قربان کردے۔ میں کہتی ہوں کہ ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ قربانیاں تو اتنی ہیں کہ اس تحریک کا کوئی ادارہ اس قابل بھی نہیں ہے کہ وہ شہداء کی لسٹ بناسکے۔ تعلیم ہی اپنی کوکھ سے علم کو جنم دیکر کردار میں عملی نکات پیدا کرے تو وہ شعور اور تبدیلی کہلائی جاسکتی ہے۔ صرف تعلیم حاصل کرنے اور اپنے پاس رکھنے سے کوئی بھی طالب علم نوکری اور کاروبار تو کرسکتا ہے مگر اپنے سماج میں تحریک پیدا نہیں کرسکتا اور نا ہی انقلاب برپا کرسکتا ہے۔ کوئی بھی تحریک جسکے مقاصد متعین نا ہوں تو جدوجہد علمی ہو، نظریاتی ہو، تعلیمی ہو، فکری ہو وہ وقتی جدوجہد تو بن سکتی ہے مگر اسے مستقل جدوجہد نہیں کہا جاسکتا۔ جیسا کہ البرٹ کامیوس نے کہا کہ حقیقی مایوسی طاقتور دشمن کا سامنا کرنے سے پیدا نہیں ہوتی اور نا ہی جدوجہد میں ناکامی تھکاوٹ سے ظہور پذیر ہوتی ہے۔ مایوسی اس وقت ہوتی ہے جب ہمیں اپنی جدوجہد کا ادراک نہیں ہوتا ہے۔ ہم یہ بھول چکے ہوتے ہیں کہ یہ جدوجہد کس لئے شروع کی گئی تھی۔ یہ جدوجہد قومی شناخت کی جدوجہد ہے۔ قومی بقاء کی جدوجہد ہے۔ یہ کچھ آسامیوں، نوکریوں، وسائل اور صوبائی حق خود داریت کی جدوجہد ہے ہی نہیں۔ قومی تحریکیں اشرافیہ اور طاقتور لوگوں کے بجائے عام لوگوں کی جدوجہد سے بنتی ہیں۔ وہ لوگ جن کی ہر سوچ اجتماعی ہے اور وہ اجتماعی سوچ کی بنیاد پر بولتے ہیں اور اپنے قول کو عمل میں تبدیل کرنے کی جرأت رکھتے ہیں جیسا کہ گرامسچی نے کہا: ”قبضہ گیر ریاستیں تشدد اور معاشی استحصال کیساتھ اپنے اداروں کے ذریعے ریاستی نظرئیے کو محکوم اقوام پر مسلط کرتی ہیں اور ایسے سماج میں انقلاب لانا مشکل ہوجاتا ہے جہاں محکوم حاکم کو حکمرانی کرنے کا حقدار سمجھتا ہو”۔ مگر سوال یہ ہے، آج کل ایسی سازش میں بلوچ طلبہ کو ڈالا جارہا ہے ،کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل تعلیم ہے۔ کونسی تعلیم اور تعلیم کس کیلئے ؟۔ کیا پروفیشنل ازم قومی خدمات کے برابر ہوسکتی ہے؟۔ ہماری جد و جہد کے اہم مقاصد کیا ہیں؟۔ قومی جدوجہد پر کمپرومائز کرنے والی قوتیں کون سی ہیں؟۔ جو نام نہاد قوم پرست پارٹیاں بناچکے ہیں وہ نام نہاد قوم پرست تو کہلائے جاسکتے ہیں، لیکن انہوں نے اصل مقصد اور قومی شناخت کے بجائے کچھ وسائل کو ہی جدوجہد کا نام دے رکھا ہے۔ بلوچ قوم کو ہر اس دھوکے کو پہچاننا ہوگا، سوال کرنا ہوگا کہ وہ کونسے مقاصد ہیں کہ جس کی وجہ سے ہم یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ ہماری قومی شناخت کی جنگ ہے اور ہمارے آباء و اجداد اور ہزاروں شہیدوں نے اپنی جان کی قربانی صوبائی خود مختاری ، چند اسامیوں اور تعلیم کیلئے نہیں دی ہے ۔ ہمارے نوجوان اسلئے پڑھتے ہیں کہ کل وہ اچھے ڈاکٹر بن جائیں ایک اچھے وکیل بن جائیں ؟ ،کسی پروفیشن میں ان کا نام ہو؟، ایک اچھے استاد اور لیکچرار بن جائیں؟ اور کل کواگر انہیں ایک پروٹوکول چاہیے تو وہ جاکر سول سروس میں،PCSاورCSSکرکے اپنے آپ کو علاقے کا سب سے معتبر اور سب سے تعلیمی، شعوری انسان ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ بلوچو! قومی جدوجہد کی راہ انتہائی کٹھن ہے اس میں بے پناہ قربانیاں دینی پڑیں گی۔ اور یہ کسی بھی انسان کی قوت کا کام نہیں کہ وہ اکیلے انقلاب لا سکے۔ انقلاب کیلئے ہمیشہ عوام کی ضرورت ہوتی ہے، قوم کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب پوری قوم ایک تبدیلی کیلئے اپنی صبح شام لگاتی ہے ،اپنی جانوں کی قربانیاں دیتی ہے تبھی وہ کام آسان ہوسکتا ہے ایک فرد انقلاب نہیں لاسکتا۔ بھگت سنگھ کی ایک تحریر میں نے پڑھی تھی وہ انہوں نے اپنی پھانسی سے چند دن پہلے لکھی تھی انقلابیوں کے نام۔ کچھ ایسے الفاظ تھے جو مجھے سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں ہم سب کو کیونکہ ہم سب جو سطحی سیاست کا حصہ ہیں یا جہاں ہم سیاست کر رہے ہیں اس میں میں بذات خود بھی شامل ہوں اس میں میں اپنے آپ کو بورژوا نیشنلسٹ سمجھتی ہوں۔ کیونکہ میں قوم پرستی کے اس قول کو تو مانتی ہوں لیکن عملی طور پر میں ابھی تک اس میں شامل ہی نہیں ہوئی یا ہم سب اس میں شامل ہی نہیں ہوئے تو بھگت سنگھ نے کہا کہ اگر آپ ایک بزنس مین اور ایک اچھے ڈاکٹر ہیں اور اپنی زندگی کے کچھ گھنٹے جدوجہد پر بے بنیاد تنقید اور تقریروں میں صرف کرتے ہیں اور صبح ریاستی مشینری کو مستحکم کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ برائے مہربانی آگ سے مت کھیلیں۔ ایک انقلابی ورکر کے طور پر آپ کسی بھی تحریک کیلئے کار آمد نہیں ہوسکتے۔ انقلاب کیلئے ہمیں پیشہ ورانہ انقلابیوں کی ضرورت ہے۔ تحریک کے وہ کارکن جن کی زندگی کا مقصد تحریک کو آگے بڑھانے کے علاوہ کچھ بھی نہ ہو ، تحریک کیلئے جذبات قابل قدر ہوسکتے ہیں مگر تحریکیں مستقل مزاج کارکنوں کی مسلسل جدوجہد، مصیبتوں کا سامنا کرنے اور بے پناہ قربانیوں سے کامیاب ہوتی ہیں۔ راستے کی کوئی تکلیف آپ کی جدوجہد کو کم نہیں کرسکتی۔ اور اگر دشمن آپ پر وار کرتا ہے تو اس پر آپ اپنا سر پکڑ کر نہیں بیٹھیں گے کہ اُف یہ کیا ہوگیا؟ یہ تو ہم برباد ہوگئے، اب تو یہ ہماری عورتوں تک آپہنچا ہے۔ سب سے پہلے تم اپنے کلیم کو تو دیکھو کہ تم کیا مانگ رہے ہو؟۔….. میں کہتی ہوں کہ ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔………..
ایک ماں کا وہ پہلا خیال جس نے سوچا ہوگا کہ وہ اپنے وطن کیلئے قربان ہوگی ناں۔ وہ خیال ہی اس قوم کو ہزار سال حوصلہ دینے کیلئے کافی ہے۔ اس کی قربانی تو بہت دور کی بات ہے۔ اس قوم کی شناخت کی بقاء ہی اس میں ہے اس قوم کی جو جدوجہد ہے جس مقصد کیلئے شروع ہوئی تھی اس کو وہاں تک پہنچایا جائے۔ کوئی بھی ڈائیورژن ان قربانیوں کے ساتھ سب سے بڑی غداری ہوگی۔….تبصرہ: مولانا عبید اللہ سندھی نے کہا کہ عرب کے بعد عجم قرآن کو سمجھ کر انقلاب لائیں گے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟