3 مہرے ذ والفقار علی بھٹو، نوازشریف اور عمران خان؟
اکتوبر 26, 2018
پاکستان بن گیا تو قائداعظم محمد علی جناح، قائدملت لیاقت علی، بیگم راعنا لیاقت علی اور فاطمہ جناح کل مبلغ سیاسی قیادت تھی۔ قائداعظم طبعی موت مرے اور نوابزادہ لیاقت علی خان کو گولی ماردی گئی۔ بیگم راعنا لیاقت علی اور فاطمہ جناح کی آپس میں بھی نہیں بنتی تھی بلکہ شدید اختلافات تھے۔ جب سیاسی قیادت میں گھریلو خواتین کا بھی حصہ بن جائے۔ بیگم نسیم ولی اور بیگم نصرت بھٹو نے بھی اپنے اپنے شوہر کی جگہ سیاست کی۔ قاضی حسین احمد کی صاحبزادی سمیعہ راحیل قاضی اور مولانا فضل الرحمن کے صاحبزادے مولانا اسد محمود بھی سیاسی عمل کا حصہ بنے۔
مادرملت فاطمہ جناح کی شادی نہ تھی اسلئے اولاد کا سوال نہیں، اس کی اکلوتی بھتیجی دینا جناح بھی کسی کیساتھ بھاگ گئی تھی لیکن اسکے باوجود بھی وہ دوبہترین مرسیڈیز کاروں کی مالکن تھیں۔ سیاست میں اچھی بود وباش، شان اور موروثیت کا تصور شروع سے موجود ہو تو بعد کی پیداوار کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ مہاتماگاندھی سفر وحضر ، بود وباش اور سادگی میں معروف تھے تو ہمارے کالم نگار ، صحافی اور دانشور انکے مقابلے میں قائداعظم محمد علی جناح کے لباس واطوار، شان وشوکت اور اعلیٰ معیار کی زندگی کو وجہ ترجیح قرار دیتے تھے۔ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اگر چہ اصلی ، نقلی، عطائی اور کسی قسم کے ڈاکٹر نہیں لیکن نام کیساتھ یہ لاحقہ لگ گیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ قائداعظم کے کپڑے استری کیلئے لندن جاتے تھے۔ قیمتی سگریٹ، سفر کیلئے جہاز اورچھٹیوں کیلئے زیارت کی رہائش قومی قیادتوں کیلئے مثالیں تھیں۔ پہلے پاکستان سول بیوروکریسی کے ہاتھوں میں تھا اور پھر جنرل ایوب خان نے قبضہ کرکے فوجی بیوروکریسی کی بادلادستی قائم کردی۔ جنرل ایوب نے عوام کو کنٹرول کرنے کیلئے ذوالفقار علی بھٹو کو سیاسی قائد بناڈالا تھا۔ جو انتہائی چالاک و عیار شخص تھا۔ اس سے جان چھڑانی مشکل ہوگئی تھی تو اس کو پھانسی پر چڑھایا گیا اور جنرل ضیاء الحق نے نوازشریف کو میدان میں اتار دیا۔ نواز شریف نے پنجے گاڑھ دئیے تو ایک اور کم عقل اور بیوقوف عمران خان اب میدان میں اتارا گیا ۔ پاکستان کی آخری منزل اچھی ہوگی لیکن عوام کے شعور کو بیدار کرنا ہوگا۔ ہمیں حقائق کی طرف رہنمائی کا حقیقی فریضہ ادا کرنا ہوگا۔
جنرل ایوب سے فاطمہ جناح کا مقابلہ تھا تو جماعت اسلامی کے امیر و بانی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے کہا کہ ’’ایوب خان میں ایک خوبی ہے کہ وہ مرد ہے باقی سب خامیاں ہیں۔ فاطمہ جناح میں ایک خامی ہے کہ وہ عورت ہے باقی خوبیاں ہیں اسلئے ملک کی صدارت کیلئے ایوب خان کے مقابلے میں فاطمہ جناح کو ترجیح کا فتویٰ دیاتھا‘‘۔ایوب خان نے کوئی ذاتی کرپشن نہیں کی تھی، ایوب خان موروثی بنیاد پر اپنے مقام تک ٹوچین ہوکر نہ پہنچے تھے، ایوب خان نے ملک میں پہلی مرتبہ بنیادی جمہوریت بحال کی تھی ۔ جنرل ایوب خان نے بنگالیوں سے زیادتی کا تصور ختم کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر مغربی پاکستان میں نوکریاں دیں، پہلی مرتبہ سیاستدانوں کو نہ صرف مکمل آزادی دی بلکہ سیاسی شعور بیدار کرنے کے بھرپور مواقع پیدا کردئیے لیکن یہ اقدامات ہی انکے زوال کا سبب بن گئے۔
ذوالفقارعلی بھٹو نے کوٹہ سسٹم کے ذریعے میرٹ کا خاتمہ کردیا۔ پرائیویٹ ملوں اور فیکٹریوں کو نیشنلائز کرکے ترقی پذیر ملک کو زوال کی طرف دھکیل دیا۔یہ دونوں کام پاکستان کیلئے تباہ کن ثابت ہوئے۔ جماعت اسلامی کے بانی نے جو ایوب کے مقابلے میں فاطمہ جناح کو سپورٹ کیا تو ساری زندگی ڈکٹیر کی حمایت کرتے ہوئے اپنے باقیات کیساتھ سجدہ سہو میں گزاردی۔مفتی محمودؒ شروع سے ہی بین بین تھے۔ یہی خواری انکے جانشین مولانا فضل الرحمن کی قسمت میں آئی۔ بینظیر بھٹو نے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ کے مقابلے میں صدارت کیلئے غلام اسحاق خان کو سپورٹ کرکے نظریہ کی سیاست کو شکست دی تھی۔ پھر جب پرویزمشرف نے پیپلزپارٹی کے دس ارکان توڑ کر پیٹریاٹ بنائی تو بھی بینظیر بھٹو کے پاس یہ طاقت تھی کہ ق لیگ کے امیدوار کے مقابلے میں اپوزیشن کے مولانا فضل الرحمن کو جتواتے ، جس کو نوازشریف اور عمران خان نے بھی سپورٹ کیا تھا۔
پیپلزپارٹی کے خمیر میں اسٹیبلشمنٹ کی مخالف نہیں۔ جس کا مشاہدہ تاریخ کی تلخ ترین حقیقت ہے۔زرداری نہیں بینظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اپنے اپنے ادوار میں پاکستان کا بیڑہ غرق کردیا۔ جس فوج کیلئے بلوچستان کی جمہوری حکومت کاتختہ اُلٹ دیا تھا ،اسی فوج نے اس کا تختہ اُلٹ دیا۔ بہت لوگوں کو یتیم و بیوہ اور بے سہارا بنایا اور قدرت نے مکافات عمل کے نتیجے میں اسکے خاندان کو تباہ اور دربدر کردیا ۔ آج مرتضی جونئیر ڈانس کرتا پھر رہا ہے اور بھٹو کے ڈیرے پر بلاول زردای اور فریال تالپور کی بادشاہت چل رہی ہے۔ حاکم علی زرداری کی بھٹو سے مخالفت اور آصف علی زرداری کی یاری جنرل ضیاء الحق سے تھی۔
نوازشریف نے تو قید سے چند ہی دن پہلے کہا کہ ’’ اب محمود اچکزئی کی طرح میں بھی 100% نظریاتی بن گیا ہوں‘‘۔ پہلے نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز کہتی تھیں کہ ’’ نوازشریف شیر ہے ، شیر کسی سے نہیں ڈرتا ‘‘۔ مگراب تو شیر نے دُم ایسی گھسیڑی ہوئی ہے کہ صاحبزادی نکالنا چاہے تب بھی نہیں نکال سکتی ہے۔ جب نوازشریف جلاوطنی کے بعد واپس آنے میں کامیاب ہوگئے تو کارکنوں نے نعرے لگائے کہ ’’ نوازشریف زندہ باد‘‘۔ نوازشریف نے غصہ سے کہہ دیا تھاکہ ’’چپ کرو، پہلے کہتے تھے کہ نوازشریف قدم بڑھاؤ، ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن جب مجھے ہتھکڑی پہناکر لے جایا جارہا تھا تو میں نے مڑ کر دیکھا ، کوئی بھی نہ تھا۔ اب یہ نعرے مت لگاؤ‘‘۔ کارکن اس وقت بہت شرمندہ تھے۔ پھر نوازشریف کی طرف سے مہم جوئی شروع ہوئی۔ چھوٹے چھوٹے پنجابی میں نِکے نِکے ہاتھ ہلاہلا کر تیار ہو ؟ تیار ہو؟ کے نعرے بڑے بڑے جلسوں اور جلوسوں میں لگوائے لیکن جب جیل سے رہائی مل گئی اور کارکن تیار تھے لیکن قائد نوازشریف اور اسکی بیٹی کی ہمت نہ ہوسکی کہ احتجاج کی قیادت کرنے کیلئے کوئی شنوائی کرتے۔
عمران خان نے ریحام سے شادی رچائی ہوئی تھی، کنٹینر میں رنگ رلیوں کا سماں ہوتا تھا اور لوگوں سے کہا جاتا تھا کہ مغرب میں جانوروں کو جو حقوق ہیں وہ یہاں کے انسانوں کو حاصل نہیں ۔عمران خان اپنے کتے کو جس جرنیٹرکے پاس نہیں سلا سکتا تھا ، اس میں کارکن سلادئیے تھے جو مرتے مرتے رہ گئے تھے۔ عوام نہیں جانتی تھی کہ عمران خان کس قسم کے حقوق کی بات کرتا ہے؟۔ جانوروں کو جنسی بے راہ روی کی آزادی ہوتی ہے اور دھرنے کے شرکاء بھی اسی آزادی ہی کے متمنی نظر آتے تھے۔ خواتین کو بھمبھوڑنے کیلئے متعدد حملے بھی ہوئے تھے۔ اب غربت، مشکلات، مصائب کا جو طوفان آرہاہے ، عمران خان نے اس کی تمام تر ذمہ داری بھی قبول کرنی ہے۔ خاتون اول کی شادی اور عمران خان کے کتے کے آنسو کی کہانیاں ہماری تہذیب وتمدن کو کس طرف لے جائیں گی؟۔ آنیوالا وقت بتائیگا۔خاتون اول چف، عوام تف ، ریاست اُف کریگی۔ لگتاہے کہ قدرت نے جمہوریت کی بساط لپیٹنے کیلئے مودی، ٹرمپ اور عمران نیازی کا انتخاب کیا ہے۔
لوگوں کی راۓ